سیما ثمر
سیما ثمر (فارسی: سیما ثمر؛ پیدائش 3 فروری 1957ء) ایک افغان خاتون ہیں جو ناصرف انسانی حقوق کی علمبردار ہیں بلکہ قومی اور بین الاقوامی فورمز میں سماجی کارکن بھی ہیں، انھوں نے دسمبر 2001ء سے 2003ء تک افغانستان کی خواتین کے امور کی وزیر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اس وقت افغان انڈیپنڈنٹ ہیومن رائٹس کمیشن (AIHRC) کی سربراہ اور 2005ء سے 2009ء تک سوڈان میں انسانی حقوق کی صورت حال پر اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ خاتون رہی ہیں۔[3]
سیما ثمر | |
---|---|
مناصب | |
نائب صدر | |
برسر عہدہ دسمبر 2001 – 2003 |
|
در | افغانستان |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (فارسی میں: سیما سمر) |
پیدائش | 3 فروری 1957ء (67 سال)[1] جغوری ضلع ، غزنی [2] |
شہریت | افغانستان |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ کابل |
پیشہ | سیاست دان ، طبیبہ ، کارکن انسانی حقوق |
اعزازات | |
رامن میگ سیسے انعام (1994) |
|
درستی - ترمیم |
2011 میں وہ نئی قائم ہونے والی سچائی اور انصاف پارٹی کا حصہ تھیں۔ 2012ء میں، انھیں "دنیا کے سب سے پیچیدہ اور خطرناک خطوں میں سے ایک میں انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین کے حقوق کے لیے دیرینہ اور بہادرانہ کوششوں" کے لیے رائٹ لائی ہُڈ ایوارڈ سے نوازا گیا۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
ترمیمسیما ثمر 3 فروری 1957ء کو افغانستان کے صوبہ غزنی کے شہر جاغوری میں پیدا ہوئیں- ان کا تعلق ہزارہ خاندان سے ہے۔ انھوں نے فروری 1982ء میں کابل یونیورسٹی میں طب میں ڈگری حاصل کی۔ انھوں نے کابل کے ایک سرکاری ہسپتال میں کام کیا، لیکن چند مہینوں کے بعد حفاظتی نقطعہ کی وجہ سے اپنے آبائی علاقے جاغوری سے بھاگنے پر مجبور ہوگئیپھر انھوں نے وسطی افغانستان کے دور دراز علاقوں میں مریضوں کو طبی علاج فراہم کیا۔ وہ اس وقت افغانستان میں انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ ہیں۔
عملی زندگی
ترمیم1984 میں، ڈیموکریٹک ریپبلک آف افغانستان کی حکومت نے ان کے شوہر کو گرفتار کر لیا اور سیما ثمر اور اس کا جوان بیٹا پڑوسی ملک پاکستان فرار ہو گئے۔ اس کے بعد انھوں نے مشن ہسپتال کی ریفیوجی برانچ میں ڈاکٹر کے طور پر کام کیا۔ افغان پناہ گزین خواتین کے لیے صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات کی مکمل کمی سے پریشان، اس نے 1989 میں کوئٹہ، پاکستان میں شہدا آرگنائزیشن اور شہدا کلینک قائم کیا۔ شہدا آرگنائزیشن افغان خواتین اور لڑکیوں کو صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی، طبی عملے کی تربیت اور تعلیم کے لیے وقف تھی۔ اگلے سالوں میں کلینک/اسپتال کی مزید شاخیں پورے افغانستان میں کھولی گئیں۔
وہ ایک دہائی سے زائد عرصے تک پناہ گزین رہیں پھر اس کے بعد وہ 2002ء میں حامد کرزئی کی قیادت میں افغان عبوری انتظامیہ میں کابینہ کمیں عہدہ سنبھالنے کے لیے واپس افغانستان آئیں۔ عبوری حکومت میں، وہ نائب صدر اور پھر خواتین کے امور کی وزیر کے طور پر کام کرتی رہیں۔ کینیڈا میں فارسی زبان کے ایک اخبار کے ساتھ انٹرویو کے دوران میں قدامت پسند اسلامی قوانین بالخصوص شرعی قوانین پر سوال اٹھانے پر جان سے مارنے کی دہمکیاں اور ہراساں کیے جانے کے بعد انھیں اپنے عہدے سے استعفا دینا پڑا۔ 2003 کے لویا جرگہ کے دوران میں کئیی مذہبی قدامت پسندوں نے مقامی اخبار میں ایک اشتہار دیا جس میں ثمر کو افغانستان کا سلمان رشدی کہا گیا۔ثمر اس وقت افغانستان کے آزاد انسانی حقوق کمیشن (AIHRC) کی سربراہ ہیں۔ انھوں نے 2010 میں گوہرشاد انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن قائم کیا۔ 2019 میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے سمر کو فیڈریکا موگیرینی اور ڈونلڈ کبروکا کی قیادت میں داخلی نقل مکانی پر اعلیٰ سطحی کے گروہ میں پہلے آٹھ ارکان میں شامل کیا۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Munzinger person ID: https://www.munzinger.de/search/go/document.jsp?id=00000029335 — بنام: Sima Samar — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ عنوان : The International Who's Who of Women 2006 — ناشر: روٹلیج — ISBN 978-1-85743-325-8
- ↑ "Independent Expert on the situation of human rights in the Sudan"۔ Office of the High Commissioner۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-08-26