سیمین دانشور کی ولادت بروز جمعرات 19 شعبان 1339ھ مطابق 28 اپریل 1921ء مطابق 8 اُردی بہشت 1300 شمسی ہجری کو شہر شیراز میں ہوئی۔[2]

سیمین دانشور
 

معلومات شخصیت
پیدائش 28 اپریل 1921(1921-04-28)
شیراز، ایران
وفات 8 مارچ 2012(2012-30-80) (عمر  90 سال)[1]
تہران، ایران
وجہ وفات نزلہ   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن بہشت زہرا   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قومیت ایرانی
عارضہ نزلہ   ویکی ڈیٹا پر (P1050) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شریک حیات جلال آل احمد (1950ء تا 9 ستمبر 1969ء)
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ تہران
جامعہ سٹنفورڈ   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ادیبہ، ناول نگار، مترجم، افسانہ نگار
پیشہ ورانہ زبان فارسی ،  انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نوکریاں جامعہ تہران   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

والدین، ابتدائی حالات و تحصیل علم

ترمیم

سیمین کے والد محمد علی دانشور ماہر طبیعیات تھے۔ سیمین کی والدہ مصورہ تھیں۔ ابتدا میں انھیں ایک ایسے اسکول میں داخل کروایا گیا جہاں فارسی اور انگریزی کی ترویج جاری تھی۔ 1938ء کے موسم خزاں میں سیمین نے تہران یونیورسٹی میں فارسی ادب کے شعبہ میں داخلہ لیا۔ 1941ء میں جب وہ یونیورسٹی کے تیسرے سال میں تھیں تو اُن کے والد محمد علی دانشور کا اِنتقال ہو گیا۔ والد کے اِنتقال کے بعد انھوں نے بطور کفیل خاندان ریڈیو تہران کے لیے کچھ مکالمے " گمنام شیرازی " کے نام سے لکھنا شروع کیے۔ علاوہ ازیں وہ کھانوں کی ترکیبوں کے متعلق بھی لکھتی رہیں۔

سیمین دانشور بطور ادیبہ

ترمیم

1948ء میں جب وہ 27 سال کی تھیں، تو سیمین کا پہلا کہانیوں کا مجموعہ " آتش خاموش " شائع ہوا۔ یہ اِیران میں شائع ہونے والا پہلا مجموعہ تھا جو کسی خاتون نے شائع کیا۔ یہ سیمین کی وجہ شہرت بن گیا۔ لیکن بعد کی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ آئندہ چند سالوں میں وہ طباعت و اشاعت کے کام سے بیزار ہوتی گئیں۔ دوبارہ وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے واسطے تہران یونیورسٹی میں داخلہ لینے چلی گئیں۔ 1949ء میں سیمین کا ایک مقالہ پی ایچ ڈی کے لیے بنام "Beauty as Treated in Persian Literature" سے پروفیسر بدیع الزماں فروزانفر (پیدائش 12 جولائی 1904ء- وفات 6 مئی 1970ء ) نے مصدقہ مہر کے ساتھ پاس کیا۔

مزید اعلیٰ تعلیم کا حصول

ترمیم

1950ء میں سیمین دانشور کی شہرت یافتہ ادیب جلال آل احمد (پیدائش 2 دسمبر 1923ء- وفات 9 ستمبر 1969ء) سے شادی ہوئی۔ 1952ء میں سیمین اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے امریکا روانہ ہوئیں جہاں انھوں نے اسٹینفورڈ یونیورسٹی سے ادب کی مزید تعلیم حاصل کی۔ قیام امریکا کے دوران سیمین نے دو ناول شائع کیے۔ 1954ء میں اِیران واپس آئیں اور تہران یونیورسٹی نے انھیں اعزازی رکن منتخب کیا اور اعزازی ڈگری سے نوازا۔

سیمین بطور مترجمہ

ترمیم

1960ء کی دہائی میں سیمین نے چند انگریزی کتب کا فارسی میں ترجمہ کیا جس سے اُن کی شہرت عامہ میں مزید اِضافہ ہوا۔ یہاں تک کہ وہ اپنے شوہر جلال آل احمد سے زیادہ کمانے لگی تھیں۔ 1961ء میں ایک انگریزی ناول A city like paradise کا فارسی ترجمہ " شہری چوں بہشت " کے نام سے طبع ہوا۔ یہ ترجمہ پہلی کتاب کے 12 سال بعد منظر عام پر آیا تھا۔ 1963ء میں سیمین نے ہارورڈ یونیورسٹی کے تحت منعقدہ ایک اِجلاس "International Summer Session" میں شرکت کی جس میں پوری دنیا سے 40 افراد نے شرکت کی تھی۔

سیمین دانشوربحیثیت ادیبہ

ترمیم

سیمین دانشور بحییثیتِ قومیت ایرانی تھیں، انھیں فارسی ادب میں پہلی خاتون فارسی ناول نگار ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ وہ جاسوسی ناول نگار، مترجم بھی تھیں۔ 1948ء میں سیمین کی مختصر کہانیوں کا ایک مجموعہ شائع ہوا اور اِس مجموعہ سے انھیں فارسی ادب میں پہلی خاتون ادیبہ ہونے کا اعزار حاصل ہوا۔

1969ء میں سیمین کا پہلا ناول " سووشون " شائع ہوا جس کا اِسی سال انگریزی ترجمہ بنام A Persian Requiem ہوا۔ مزید کہ 16 زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ یہ دوسری جنگ عظیم میں شیراز میں ایک متاثر ہونے والے خاندان کی کہانی تھی۔ سال اشاعت میں ہی اِس کی پانچ لاکھ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئیں اور سیمین فارسی ادب کی سر اول کی ادیبہ بن گئیں تھیں۔ سیمین بہت اچھی مترجمہ بھی تھیں۔ انگریزی میں انھوں نے اپنے شوہر کی سوانح "the Dawn of jalal" کے نام سے لکھی تھی۔ 1968ء میں سیمین Iranian Writers Union کی چیئرمین بن گئیں۔[3] 1969ء میں سیمین کا شہرہ آفاق فارسی ناول " سووشون " شائع ہو کر منظر عام پر آیا تو سیمین کی شہرت میں پہلے سے زیادہ اِضافہ ہوا۔ وہ سرکاری طور پر ایک مستند ادیبہ کی حیثیت سے پہچانی جانے لگیں۔

سیمین کی بیوگی

ترمیم

9 ستمبر1969ء کو سیمین کے شوہر جلال آل احمد کا ناگہانی اِنتقال ہوا جب وہ بحیرہ خزر کے قریب اپنے گرمائی گھر میں مقیم تھے۔ شوہر کی وفات سے وہ اکیلی رہنے لگیں اور تقریبًا 43 سال حالتِ بیوگی میں گزارے۔1981ء سے انھوں نے تہران یونیورسٹی میں بطور معلم یعنی لیکچرر ملازمت اِختیار کرلی اور ریٹائر ہونے تک شعبہ تدریس سے وابستہ رہیں۔ ریٹائر ہونے کے بعد انھوں نے زندگی لکھنے کے لیے وقف کر رکھی تھِی۔[3]

وفات

ترمیم

2005ء میں سیمین کافی علالت میں مبتلا ہوئیں تھیں مگر ایک ماہ تک زیر علاج رہتے ہوئے شفا یابی ہوئی اور وہ اگست 2005ء میں گھر آگئیں۔ بروز جمعرات 14 ربیع الثانی 1433ھ مطابق 8 مارچ 2012ء کو 90 سال کی عمر میں مرض انفلوئنزا کے باعث فارسی کی پہلی ناول نگار خاتون نے اپنے گھر میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ بروز ہفتہ 17 ربیع الثانی 1433ھ مطابق 11 مارچ 2012ء کو سیمین کی میت قبرستان بہشتِ زہرا لائی گئی جہاں اُن کی تدفین کی گئی حالانکہ اِس سے قبل حکومتِ اِیران نے اعلان کیا تھا کہ سیمین دانشور کو اُن کے شوہر جلال آل احمد کے قریب فیروزآبادی مسجد بمقام رَے میں دفن کیا جائے گا مگر یہ فیصلہ بعد ازاں واپس لے لیا گیا۔

ناول

ترمیم

1969ء میں سیمین کا شہرہ آفاق فارسی ناول " سووشون " شائع ہوا۔

1981ء میں اپنے شوہر کی سوانح حیات بنام "غروب الجلال" کے نام سے لکھی۔

1992ء میں جزیرہ سرگردانی شائع ہوا۔

2001ء میں سریبان سرگردانی شائع ہوا۔ اِن دو کتابوں کا تیسرا حصہ کوہِ سرگردانی نامعلوم وجوہات کی بنا پر شائع نہ ہو سکا۔

2007ء میں " اِنتخابات" شائع ہوئی جو سیمین کی کئی کہانیوں کے اِقتباسات تھے۔

مختصر کہانیاں

ترمیم

آتش خاموش: 1948ء۔

شہری چوں بہشت : 1961ء۔

بی کہ سلام کنم : 1980ء۔

انگریزی کتب کے فارسی تراجم

ترمیم

1949ء/ 1328 شمسی ہجری میں جارج برنارڈشا کے Arms and the Man کا فارسی ترجمہ بنام " سرباز شکلاتی"۔

1953ء میں آرتھر سکنشزلر کے Beatrice کا ترجمہ۔

1954ء میں نیتھنیال ہاوتھورن کے The Scarlet Letter کا فارسی ترجمہ بنام " داغ ننگ"۔

1954ء میں ولیم سارویان کے The Human Comedy کا ترجمہ۔

1972ء/ 1351 شمسی ہجری میں ایلان پیٹن کے Cry, the Beloved Country کا فارسی ترجمہ بنام " بنال وطن "۔

2003ء/ 1381 شمسی ہجری میں اینٹون چیکوف کے The Cherry Orchard کا فارسی ترجمہ بنام " باغ آلبالو"۔

ماه عسل آفتابی (مجموعه داستان) Alberto Moravia and Ryūnosuke Akutagawa

حوالہ جات

ترمیم
  1. from ebi amirhosseini (1921-04-28)۔ "Simin Daneshvar: Influential author has died"۔ Iranian.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 مارچ 2012 
  2. "The iconic Persian writer Simin Daneshvar Passes Away in Tehran"۔ 25 فروری 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2015 
  3. ^ ا ب Lerch, Wolfgang Günter (March 10, 2012). "Die Erste: Zum Tod der Dichterin Simin Daneschwar". Frankfurter Allgemeine Zeitung (in German) (60): 33