سوری مزاحمت (عربی: المعارضة السورية) ایک سیاسی ڈھانچے کا نام ہے جس کی نمائندگی سوری وطنی اتحاد (الائتلاف الوطني السوري) اور اس سے وابستہ سوری بشار مخالف گروہ کرتے ہیں جس کا متبادل عبوری سوری (شامی) حکومت کے طور پر بعض علاقہ جات پر کنٹرول ہے۔

سوری مزاحمت
المعارضة السورية
پرچم شامی مزاحمت
دسمبر 2024 کے مطابق مختلف مزاحمت کار گروپوں کے زیرِ کنٹرول علاقے شامی خانہ جنگی میں فعال شامی مزاحمت کار گروہ:   عبوری حکومت (شامی انقلابی اور مزاحمت کار قوتوں کا ملی اتحاد، شامی ملی فوج، سوری وطنی مجلس (صرف 2012-2014) اور ترک مسلح افواج)   نجات حکومت (تحریر الشام)   التنف (انقلابی کمانڈو فوج)   غرفہ عملیات جنوبیہ (جبہہ جنوبیہ اور الجبل بریگیڈ)   گولان کی پہاڑیاں (اسرائیل کے زیر قبضہ 1967ء سے)
دسمبر 2024 کے مطابق مختلف مزاحمت کار گروپوں کے زیرِ کنٹرول علاقے
شامی خانہ جنگی میں فعال شامی مزاحمت کار گروہ:
(جبہہ جنوبیہ اور الجبل بریگیڈ)
  گولان کی پہاڑیاں (اسرائیل کے زیر قبضہ 1967ء سے)
دار الحکومتدمشق
اعزاز (حقیقتاً عبوری حکومت کے تحت)[1][2]
ادلب (حقیقتاً نجات حکومت کے تحت)
التنف اڈا (شامی حریت فوج کے زیر استعمال)
سرکاری زبانیںعربی
قیام
• شامی انقلاب کا آغاز
15 مارچ 2011
2011–2024
8 دسمبر 2024
کرنسیترکی لیرہ[3][4] شامی لیرا
امریکی ڈالر
منطقۂ وقتیو ٹی سی+3 (EET)
ڈرائیونگ سائیڈدائیں
کالنگ کوڈ+963
آیزو 3166 کوڈSY
انٹرنیٹ ایل ٹی ڈی.sy
سوريا.
ماقبل
مابعد
بعثی شام
شامی عبوری حکومت

معارضہ سوریہ کا وجود ان گروہوں سے عمل میں آیا، جن گروہوں نے شام (سوریہ) کے منازعات کے آغاز میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کیا اور اس کی بعثی حکومت کی مخالفت کی۔ شام کی خانہ جنگی سے پہلے، اصطلاح "معارضہ" (مخالفت / مزاحمت) کا استعمال روایتی سیاست دانوں کے لیے کیا گیا تھا، مثال کے طور پر وطنی ہم آہنگی کمیٹی برائے جمہوری تبدیلی (هيئة التنسيق الوطنية لقوى التغيير الديمقراطي)؛ یعنی وہ گروہ اور افراد جن کی بشار الاسد ریاست کے خلاف اختلاف کی تاریخ رہی ہے۔[8]

شامی مزاحمت شام کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے جو عوامی جدوجہد، سیاسی عزم، اور مسلح مزاحمت کا عکاس ہے۔ یہ تحریک 2011ء میں عرب بہار کے تحت اس وقت شروع ہوئی جب عوام نے بشار الاسد کی آمرانہ حکومت کے خلاف آواز بلند کی۔ ابتدائی مظاہرے حکومتی ظلم و جبر کے خلاف ایک پرامن تحریک تھے، لیکن حکومت کی طرف سے شدید جبر نے اس تحریک کو ایک مسلح جدوجہد میں بدل دیا۔ مختلف گروہوں اور جماعتوں پر مشتمل شامی مزاحمت نے کئی سال تک شدید خانہ جنگی کے بعد 2024ء میں بشار الاسد کی حکومت کو معزول کر دیا اور دمشق پر قبضہ کر کے ایک عبوری حکومت قائم کی۔

اس تحریک میں جمہوریت پسند، قوم پرست، اور اسلامی تنظیمیں شامل تھیں، جنہوں نے اپنے اختلافات کے باوجود ایک مشترکہ مقصد کے لیے جدوجہد کی۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. Charles Lister (31 اکتوبر 2017)۔ "Turkey's Idlib Incursion and the HTS Question: Understanding the Long Game in Syria"۔ War on the Rocks۔ 2019-06-04 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-05-08
  2. al-Khateb، Khaled (19 ستمبر 2018)۔ "Idlib still wary of attack despite Turkish-Russian agreement"۔ Al-Monitor۔ 2019-05-08 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-05-08
  3. Ashawi، Khalil (28 اگست 2018)۔ "Falling lira hits Syrian enclave supported by Turkey"۔ Reuters
  4. Ghuraibi، Yousef (1 جولائی 2020)۔ "Residents of northwestern Syria replace Syrian pound with Turkish lira"۔ Enab Baladi۔ Idlib۔ 2020-07-05 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2022-01-28
  5. S، T. (13 نومبر 2018)۔ "A New Flag for the Opposition - The Syrian Observer"
  6. Shekani، Helbast (12 نومبر 2018)۔ "Syrian opposition changes flag, adds Islamic inscription"۔ Kurdistan 24۔ Kurdistan 24۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-11-14
  7. "Abu Mohammed al-Golani: the leader of Syrian HTS rebels steering shock offensive"۔ Reuters۔ 6 دسمبر 2024۔ On Wednesday he visited Aleppo's citadel, accompanied by a fighter waving a Syrian revolution flag - once shunned by Nusra as a symbol of apostasy but recently embraced by Golani, a nod to Syria's more mainstream opposition, another video showed.
    "He's really important. The main rebel leader in Syria, the most powerful Islamist," said Lund.
    "They have adopted the symbols of the wider Syrian uprising..., which they now use and try to claim the revolutionary legacy - that 'we are part of the movement of 2011, the people who rose up against Assad, and we are also Islamists'."
  8. Sayigh, Yezid. "The Syrian Opposition's Leadership Problem". Carnegie Middle East Center (انگریزی میں). Retrieved 2020-01-29.