بشار الاسد
بشار حافظ الاسد (عربی: بشار حافظ الأسد) (پیدائش: 11 ستمبر 1965ء) شامی سیاست دان، فوجی افسر، اور آمر[22] ہیں جنھوں نے 2000ء سے دسمبر 2024ء تک شام کے 19ویں صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ اپنے والد، حافظ الاسد کے جانشین کے طور پر اقتدار میں آئے اور 24 سال تک حکمرانی کی۔ ان کے دورِ اقتدار میں شام نے داخلی اور خارجی سطح پر متعدد چیلنجوں کا سامنا کیا، جن میں شام کی خانہ جنگی بھی شامل ہے، جس نے ملک کو انسانی اور اقتصادی بحرانوں سے دوچار کیا۔[23]
بشار الاسد | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(عربی میں: بشار الأسد) | |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 11 ستمبر 1965ء (60 سال)[1][2][3][4] دمشق [5] |
||||||
رہائش | ماسکو (8 دسمبر 2024–)[6] | ||||||
شہریت | سوریہ [7] | ||||||
آنکھوں کا رنگ | نیلا | ||||||
مذہب | اسلام (نصیری)[8] | ||||||
جماعت | عرب سوشلسٹ بعث پارٹی - سوریہ علاقہ | ||||||
عارضہ | کووڈ-19 (12 مارچ 2021–30 مارچ 2021)[9][10] | ||||||
زوجہ | شیر کے نام (دسمبر 2000–)[11] | ||||||
تعداد اولاد | 3 | ||||||
والد | حافظ الاسد | ||||||
والدہ | انیسہ مخلوف | ||||||
بہن/بھائی | |||||||
خاندان | اسد خاندان | ||||||
مناصب | |||||||
صدر سوریہ [12] (19 ) | |||||||
برسر عہدہ 17 جولائی 2000 – 8 دسمبر 2024 |
|||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | جامعہ دمشق (1982–1988) | ||||||
تخصص تعلیم | طب | ||||||
تعلیمی اسناد | بیچلر | ||||||
پیشہ | ریاست کار ، ماہر عینیات ، عسکری قائد ، سیاست دان ، فوجی معالج [13] | ||||||
مادری زبان | عربی | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | عربی [14]، انگریزی ، فرانسیسی | ||||||
شعبۂ عمل | سیاست [15][16] | ||||||
عسکری خدمات | |||||||
وفاداری | بعثی سوریہ ، سوریہ | ||||||
شاخ | سوری مسلح افواج ، سوری عرب فوج | ||||||
عہدہ | سالار | ||||||
کمانڈر | سوری مسلح افواج (2000–2024) | ||||||
لڑائیاں اور جنگیں | شامی خانہ جنگی | ||||||
اعزازات | |||||||
آرڈر آف دی لبرٹور (2010)[17] نشان عبد العزیز السعود (2009)[18] آرڈر آف زاید (2008)[19] گرینڈ کراس آف دی لیگون آف ہانر (2001)[20][21] آرڈر آف میرٹ جمہوریہ اطالیہ آرڈر آف فرینڈشپ |
|||||||
دستخط | |||||||
IMDB پر صفحات | |||||||
درستی - ترمیم |
ابتدائی طور پر ایک طبیب کے طور پر اپنی زندگی کا آغاز کرنے والے بشار الاسد نے سیاست میں قدم رکھنے کے بعد ایک مضبوط اور متنازع حکمران کے طور پر اپنا مقام بنایا۔ ان کی حکومت کو اصلاحات، سخت حکومتی اقدامات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کے حوالے سے تنقید کا سامنا رہا۔[24]
8 دسمبر 2024ء کو شامی مزاحمت کی فوجوں نے دار الحکومت دمشق کا کنٹرول حاصل کیا، جس کے نتیجے میں بشار الاسد کا 24 سالہ اقتدار اختتام پزیر ہوا۔ اس دوران مین بشار الاسد نے ملک چھوڑ کر ماسکو میں پناہ لی۔[25]
ان کی حکمرانی کے دوران میں شام میں سیاسی جمود، معاشی مشکلات اور بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا رہا، جس نے ملک کی ترقی کو متاثر کیا۔ اس کے باوجود ان کے حامی انھیں استحکام اور سیکولرزم کے علمبردار کے طور پر دیکھتے تھے۔[26]
ذاتی زندگی
ترمیموہ 11 ستمبر 1965ء کو دمشق، شام میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد حافظ الاسد شام کے صدر تھے، جبکہ ان کی والدہ انیسہ مخلوف ایک معزز شامی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ بشار کا تعلق علوی فرقے سے ہے، جو اسلام کا ایک اقلیتی مکتب فکر ہے۔[27]
تعلیم اور پیشہ ورانہ زندگی
ترمیمبشار الاسد نے ابتدائی تعلیم دمشق میں حاصل کی اور پھر دمشق یونیورسٹی میں طب کی تعلیم حاصل کی۔ وہ ایک ماہرِ چشم (آنکھوں کے امراض کے ڈاکٹر) بننا چاہتے تھے اور اس مقصد کے لیے مزید تربیت حاصل کرنے کے لیے لندن منتقل ہو گئے۔[28] لیکن سنہ 1994ء میں اپنے بڑے بھائی باسل الاسد کی کار حادثے میں موت کے بعد انھیں سیاست میں آنا پڑا، کیونکہ انھیں اپنے والد کے سیاسی وارث کے طور پر انھیں چنا گیا تھا۔[29]
شادی اور خاندان
ترمیمسنہ 1999ء میں بشار الاسد کی شادی اسماء الاسد سے ہوئی، جو ایک برطانوی نژاد شامی خاتون ہیں۔ اسماء لندن میں پیدا ہوئیں اور انھوں نے معاشیات کی تعلیم حاصل کی۔ وہ شادی سے پہلے ایک بینکر کے طور پر کام کرتی تھیں۔[30] بشار اور اسماء کے تین بچے ہیں: حافظ، زین، اور کریم۔ ان کے بچوں کے نام شامی ثقافت اور خاندان کی روایات کو ظاہر کرتے ہیں۔[31]
ذاتی دلچسپیاں
ترمیمبشار الاسد ایک شوقین قاری ہیں اور سیاست کے علاوہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔[32] ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنا وقت مطالعہ کرنے اور اپنے خاندان کے ساتھ گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ کھیلوں کے بھی شوقین ہیں، خاص طور پر تیراکی اور گھڑسواری کے۔[33]
خاندان کے اثرات
ترمیمبشار الاسد کے خاندان کا شام کی سیاست پر گہرا اثر رہا ہے۔ ان کے والد حافظ الاسد نے سنہ 1971ء سے سنہ 2000ء تک شام پر حکومت کی۔ ان کی والدہ انیسہ مخلوف اور بھائی ماہر الاسد ان کے اہم مشیر رہے ہیں۔ ان کا خاندان شام میں ایک مضبوط سیاسی اور عسکری قوت کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔[34]
دورِ صدارت
ترمیمبشار الاسد نے 17 جولائی 2000ء کو شام کی صدارت کا عہدہ سنبھالا۔ وہ اپنے والد حافظ الاسد کے جانشین کے طور پر صدر بنے، جو شام پر تقریباً تین دہائیوں تک حکمرانی کر چکے تھے۔ بشار الاسد کا دورِ صدارت ابتدا میں اصلاحات کی امید کے ساتھ شروع ہوا، لیکن بعد میں ان کی حکومت کو سخت حکومتی پالیسیوں، سیاسی جمود، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔[35]
ابتدائی اصلاحات
ترمیماپنے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں بشار الاسد نے ملک میں اقتصادی اور سماجی اصلاحات کا وعدہ کیا۔ انھوں نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ اور نجی شعبے کو مضبوط کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے۔[36] لیکن سیاسی سطح پر ان کی حکومت نے سخت کنٹرول برقرار رکھا اور آزادی اظہار اور جمہوری حقوق پر قدغنیں لگائیں۔[37]
شام کی خانہ جنگی
ترمیم2011ء میں عرب بہار کے دوران میں شام میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے، جنھیں بشار الاسد کی حکومت نے سختی سے کچل دیا۔ یہ مظاہرے بعد میں ایک مکمل خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئے، جس میں لاکھوں لوگ مارے گئے اور لاکھوں بے گھر ہوئے۔[38] جنگ کے دوران بشار الاسد کی حکومت پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال، اور عام شہریوں کے خلاف طاقت کے بے دریغ استعمال کے الزامات عائد کیے گئے۔[39]
بین الاقوامی تعلقات
ترمیمبشار الاسد کی حکومت نے خانہ جنگی کے دوران روس اور ایران جیسے ممالک سے قریبی تعلقات قائم کیے۔ روس نے شام میں اپنی فوجی مداخلت کے ذریعے بشار الاسد کی حکومت کو مضبوط کیا، جبکہ ایران نے مالی اور عسکری امداد فراہم کی۔[40] لیکن مغربی ممالک، خاص طور پر امریکا اور یورپی یونین، نے بشار الاسد کی حکومت پر پابندیاں عائد کیں اور انھیں اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیا۔[41]
اقتصادی بحران
ترمیمشام میں جاری جنگ اور بین الاقوامی پابندیوں نے ملک کی معیشت کو تباہ کر دیا۔ بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور بے روزگاری بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔[42] بشار الاسد کی حکومت پر کرپشن اور ریاستی وسائل کے غلط استعمال کے الزامات بھی لگائے گئے، جس نے عوام میں غم و غصے کو بڑھاوا دیا۔[43]
سیاسی استحکام اور تنازعات
ترمیمبشار الاسد کے دورِ صدارت کو سیاسی استحکام اور داخلی تنازعات کا مرکب سمجھا جاتا ہے۔ ان کی حکومت نے ایک مضبوط مرکزیت کو برقرار رکھا، لیکن یہ استحکام عوامی آزادیوں کی قیمت پر آیا۔ ان کے ناقدین انھیں ایک آمرانہ حکمران سمجھتے ہیں، جبکہ ان کے حامی انھیں شام کی خودمختاری کے محافظ کے طور پر دیکھتے ہیں۔[44]
حالیہ صورت حال
ترمیم8 دسمبر 2024ء کو بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہوا جب شامی مزاحمت کی فوجوں نے دار الحکومت دمشق کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس کے بعد بشار الاسد نے روس میں سیاسی پناہ حاصل کی اور ماسکو منتقل ہو گئے۔[45]
بشار الاسد نے روس میں اپنے رہائش کے دوران محدود عوامی بیانات دیے ہیں اور کہا ہے کہ وہ شامی عوام کے لیے دعاگو ہیں۔ ان کے مستقبل کے سیاسی عزائم واضح نہیں ہیں، لیکن ان کے حمایتی اب بھی انھیں شام کی خودمختاری کے محافظ کے طور پر دیکھتے ہیں۔[46]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس آئی ڈی: https://www.imdb.com/name/nm1519747/ — اخذ شدہ بتاریخ: 12 اگست 2015
- ↑ Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/assad-baschar-al- — بنام: Baschar al- Assad — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ Roglo person ID: https://wikidata-externalid-url.toolforge.org/?p=7929&url_prefix=https://roglo.eu/roglo?&id=p=bachar;n=el+assad — بنام: Bachar el-Assad
- ↑ Munzinger person ID: https://www.munzinger.de/search/go/document.jsp?id=00000023364 — بنام: Baschar al- Assad — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ صفحہ: 2 — https://eur-lex.europa.eu/LexUriServ/LexUriServ.do?uri=OJ:L:2011:136:0045:0047:EN:PDF — اخذ شدہ بتاریخ: 8 دسمبر 2024 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ https://www.in.gr/2024/12/08/world/syria-o-asant-vrisketai-sti-rosia-kai-tou-exei-xorigithei-asylo-lene-piges-tou-kremlinou/
- ↑ تاریخ اشاعت: 19 ستمبر 2013 — Libris-URI: https://libris.kb.se/katalogisering/gdsw3k50509sv86 — اخذ شدہ بتاریخ: 24 اگست 2018
- ↑ اورینٹ۔ ""بشار الأسد" ما هو أصله ومذهبه ؟" (عربی میں)۔ اخذ شدہ بتاریخ 8/4/2017
{{حوالہ ویب}}
: تحقق من التاريخ في:|تاريخ الوصول=
(معاونت) - ↑ ناشر: سی این این — تاریخ اشاعت: 12 مارچ 2021 — Syrian President Bashar al-Assad and his wife Asma test positive for Covid-19
- ↑ ناشر: روٹیرز — تاریخ اشاعت: 30 مارچ 2021 — Syrian president and wife recover from COVID-19
- ↑ https://www.theguardian.com/world/2001/jan/03/1
- ↑ https://www.theguardian.com/world/live/2024/dec/07/syria-rebels-reach-damascus-bashar-al-assad — اخذ شدہ بتاریخ: 8 دسمبر 2024
- ↑ http://ladno.ru/person/asad/bio/
- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb155413327 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ https://www.rbc.ru/politics/08/12/2024/6755db779a7947c2bba5fbc9
- ↑ https://www.rbc.ru/politics/08/12/2024/6755db779a7947c2bba5fbc9
- ↑ تاریخ اشاعت: 28 جون 2010 — http://historico.tsj.gob.ve/gaceta/junio/2862010/2862010-2886.pdf#page=2
- ↑ http://www.alriyadh.com/464904
- ↑ https://www.alwatanvoice.com/arabic/news/2008/06/01/129056.html
- ↑ https://www.lemonde.fr/enquetes/article/2017/06/06/legion-d-honneur-le-revers-de-la-medaille_5139157_1653553.html
- ↑ https://www.nytimes.com/2018/04/20/world/europe/assad-france-legion-of-honor.html
- ↑ حوالے جہاں بشار کو ایک آمر بیان کیا گیا ہے۔ :
- "Ousted Syrian leader Bashar al-Assad issues his first statement since leaving the country". NBC News (انگریزی میں). 16 دسمبر 2024. Retrieved 2024-12-27.
- Peter Beaumont (8 دسمبر 2024). "From doctor to brutal dictator: the rise and fall of Syria's Bashar al-Assad". The Guardian (برطانوی انگریزی میں). ISSN:0261-3077. Retrieved 2024-12-27.
- "From eye doctor to dictator - the rise and fall of Assad's presidency". Sky News (انگریزی میں). Retrieved 2024-12-27.
- Isabel Coles and Jared Malsin (8 دسمبر 2024). "Bashar al-Assad, an Ophthalmologist Who Became a Dictator, Is the Last of a Despotic Dynasty". WSJ (امریکی انگریزی میں). Retrieved 2024-12-27.
- "Syria has exchanged a vile dictator for an uncertain future"۔ The Economist۔ ISSN:0013-0613۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-27
- ↑ https://www.britannica.com/biography/Bashar-al-Assad
- ↑ https://www.cfr.org/backgrounder/bashar-al-assad-profile[مردہ ربط]
- ↑ https://www.bbc.com/urdu/articles/c98l7d9kyx6o
- ↑ https://www.urduvoa.com/a/timeline-of-assad-s-rule-in-syria-09dec2024/7892215.html
- ↑ https://www.britannica.com/biography/Bashar-al-Assad
- ↑ https://www.bbc.com/news/world-middle-east-19331551
- ↑ https://www.theguardian.com/world/2011/mar/30/bashar-al-assad-syria-profile
- ↑ https://www.theguardian.com/world/2012/feb/19/asma-al-assad-syria-profile
- ↑ https://www.reuters.com/article/us-syria-assad-family-idUSKCN1MQ29C
- ↑ https://www.cfr.org/backgrounder/bashar-al-assad-profile[مردہ ربط]
- ↑ https://www.britannica.com/biography/Bashar-al-Assad
- ↑ https://www.aljazeera.com/news/2020/7/17/bashar-al-assad-20-years-of-ruling-syria[مردہ ربط]
- ↑ https://www.britannica.com/biography/Bashar-al-Assad
- ↑ https://www.bbc.com/news/world-middle-east-19331551
- ↑ https://www.theguardian.com/world/2011/mar/30/bashar-al-assad-syria-profile
- ↑ https://www.un.org/en/global-issues/syria
- ↑ https://www.hrw.org/world-report/2022/country-chapters/syria
- ↑ https://www.reuters.com/article/us-syria-assad-family-idUSKCN1MQ29C
- ↑ https://www.aljazeera.com/news/2020/7/17/bashar-al-assad-20-years-of-ruling-syria[مردہ ربط]
- ↑ https://www.theguardian.com/world/2021/dec/15/syria-economic-crisis-assad
- ↑ https://www.amnesty.org/en/location/middle-east-and-north-africa/syria/
- ↑ https://www.cfr.org/backgrounder/bashar-al-assad-profile[مردہ ربط]
- ↑ https://www.bbc.com/urdu/articles/c98l7d9kyx6o
- ↑ https://www.theguardian.com/world/2024/dec/09/bashar-al-assad-flees-to-russia