آغا شورش کاشمیری
آغا شورش کاشمیری پاکستان کے مشہور و معروف شاعر،صحافی، سیاست دان اوربلند پایہ خطیب تھے، تحریک آزادی میں ان کا کردار بڑا اہم ہے۔ آغا شورش کاشمیری ایک مجموعہ صفات شخصیت تھے۔ صحافت، شعر و ادب، خطابت و سیاست ان چاروں شعبوں کے وہ شہسوار تھے۔ آغا شورش نے ایک متوسط گھرانہ میں جنم لیا اور بمشکل میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔
آغا شورش کاشمیری | |
---|---|
پیدائش | عبد الکریم 14 اگست 1917ء لاہور،برطانوی راج (موجودہ پاکستان) |
وفات | 25 اکتوبر 1975ء لاہور،پاکستان |
قلمی نام | شورش |
پیشہ | صحافی، سیاست دان، شاعر، خطیب |
قومیت | پاکستانی |
شہریت | پاکستان |
اصناف | نظم ، نثر |
ولادت
ترمیمآغا شورش کاشمیری 14 اگست 1917ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عبد الکریم تھا، لیکن آغا شورش کاشمیری کے نام سے مشہور ہوئے۔
حالات زندگی
ترمیمشورش کی سیاسی علمی ادبی تربیت کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ گھر میں ’’زمیندار‘‘ اخبار آتاتھا اور مسجد شہید گنج کی تحریک نصف نہار پر تھی، عبد الکریم اسکول سے فارغ ہوئے تو تحریک شہید گنج کا رخ کیا اور مولانا ظفر علی خان سے قربت میسر آگئی۔ عبد الکریم پہلے ہی جوش و جذبہ کا سیل رواں تھے، بغاوت و آزادی کے ہدی خواں تھے، شمشیر بے نیام تھے، آپ تخلص الفت کرتے اور زمانہ و عوام میں شورش برپا کردی، لہٰذا حسب مزاج الفت کو شورش کا نام دینا مناسب جانا بس مولانا ظفر علی خان تھے۔ تحریک شہید گنج تھی اور شورش کا جذبہ تھا کچھ کر گزرنے کا جنوں تھا۔ مولانا ظفر علی خان کی سیاست، صحافت، خطابت اور عشق خاتم النبیؐ آغا شورش کے مزاج میں سرایت کرتا چلا گیا، خون میں حلاوت کرتا چلا گیا۔ اب شورش بھی برصغیر کا منفرد خطیب مانا جانے لگے۔ سارا ہندوستان ان کے نام سے شناسا ہوا۔ آغا صاحب کا ایک سیاسی قد کاٹھ بن گیا جس دوران مسلم لیگ علاحدہ وطن کے لیے کوشاں تھی اس وقت آغا شورش کاشمیری مجلس احرار کے چنیدہ رہنماؤں میں شامل ہو چکے تھے۔ مجلس کے ایک روزنامہ (آزاد) کے ایڈیٹر بن گئے مگر قیام پاکستان کے بعد آغا شورش کاشمیری وطن عزیز کی بقا اور استحکام کے لیے آخری سانسوں تک میدان عمل میں رہے۔ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں پر کڑی تنقید اور اپنے نقطہ نظر کو دلائل کے ساتھ پُرزور انداز میں پیش کرتے ہوئے بڑے استقلال سے کھڑے ہو جانا آغا شورش کا مزاج بن چکا تھا۔ تحریک ختم نبوت آغا صاحب کی زندگی کا اثاثہ عظیم تھا وہ تب تک چین سے نہیں بیٹھے جب تک 1973ء کے آئین میں ختم نبوت کے عقیدے کو شامل کرا کے قادیانیوں کو خارج الاسلام نہ کر لیا۔ آپ نے اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران عمر عزیز کے قیمتی ساڑھے بارہ سال قید و بند کی صعوبتوں کو کشادہ دلی اور وقار کے ساتھ برداشت کرکے گزارے۔ آپ تحریک پاکستان میں تو نہ تھے مگر تعمیر پاکستان میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ پاکستان میں آئین سازی کا مرحلہ ہو یا جمہوری اقدار کے احیاء کی بات ہو۔ پاک بھارت جنگ ہو یا ملک میں مارشل لا کے ضابطے آڑے آئیں۔ شورش ایک محب وطن رہبر بن کر میدان میں ڈٹے نظر آئینگے۔ آپ قادر الکلام شاعر میدان صحافت کے جریں سالار سیاسی سٹیج کے بے تاج بادشاہ تھے ۔[1] 1946ء میں انھیں مجلس احرار اسلام کا سیکرٹری جنرل بنایا گیا اور1974ء میں انھوں نے ختم نبوت کے لیے اہم کردار ادا کیا جسے رہتی دُنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ اور ان کا علمی، ادبی اور سیاسی جریدہ چٹان بلاشبہ اردو ادب میں ایک بہترین اضافہ ہے۔
آغا شورش کاشمیری کے حلقئہ احباب میں ڈاکٹر سید عبد اللہ، احسان دانش، سردار اللہ نواز خان نواز درانی، حمید نظامی ، مجید نظامی، شہید حسین سہروردی، مولانا ابو الاعلیٰ مودودی ، مفتی شفیع عثمانی ، ذو الفقار علی بھٹو ، نوبزادہ نصراللہ خان اور دیگر افراد شامل تھے۔[2]
تصانیف
ترمیم- فیضان اقبال
- چہرے
- قلمی چہرے
- گفتنی و نا گفتنی
- فن خطابت
- اس بازار میں
- بوئے گل نالہ دل دودِ چراغ محفل
- موت سے واپسی
- سید عطا ء اللہ شاہ بخاری
- ابوالکلام آزاد
- حمید نظامی
- تحریک ختم نبوت
- نو رتن
- مولانا ظفر علی خان
- شب جائے کہ من بودم
- چار ہفتے یورپ میں
- قید فرنگ
- دہلی چلو
- عجمی عزرائیل
- چہ قلندرانہ گفتم
- اقبال اور قادیانیت
- اقبالی مجرم
- اسلام کے غدار
- خطبات آزاد
- تمغا خدمت
- پس دیوار زنداں
- میاں افتخار الدین
- خطبات احرار
وفات
ترمیمآغا شورش کاشمیری 25 اکتوبر1975ء کو لاہور،پاکستان میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ مولانا مفتی محمود کی امامت میں آپ کی نمازِ جنازہ ادا گئی ۔ میانی صاحب قبرستان لاہور میں مدفون ہیں ۔ غازی علم الدین شہید کی طرف چوبرجی روڈ سے داخل ہو کر سیدھا جانا ہے ناکہ غازی علم الدین شہید کے مزار والی گلی میں بالکل سیدھا جا کر تھوڑے ہی فاصلے پر مدفون ہیں
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- شاعری کی جھلک
فنا ہو جائیں گے ہم اور تم آنسو بہاؤ گے
ہمارے بعد ہم جیسے کہاں سے لوگ لاؤ گے
ہم ایسا پھر کوئی خاکِ چمن سے شاذ اٹھے گا
پھرو گے ڈھوندھتے لیکن ہمیں ہرگز نہ پاؤ گے
بگولے تھک کے سو جائیں گے صحراؤں کے سینہ پر
خود اپنے حال پر وحشت کدوں میں تلملاؤ گے
تمھاری سربلندی ایک دن مجبور کر دے گی
ہمارے نقشِ پا ہوں گے جہاں تم سر جھکاؤ گے
ہوا کی خشمگیں زد میں چراغِ آخرِ شب ہو
کہاں تک آندھیوں کے غیظ سے آنکھیں لڑاؤ گے
بہار آئے گی سو سو بار آئے گی گلستان میں
مگر تم یاد رکھو غم کے ویرانے سجاؤ گے
کسی خلوت سرا میں جب ہمارا تذکرہ ہو گا
جو کچھ تم نے کیا ہے اس کیے پہ سر جھکاؤ گے
زمیں پر جب کوئی افتادِ تازہ سر اٹھائے گی
ہماری جرأتوں کی داستانیں گنگناؤ گے
غزالان چمن کے آنچلوں کی نرم چھاؤں میں
ہمارے ولولوں کے ریشمی پرچم اڑاؤ گے
ہم ایسے لوگ یارو آئے دن پیدا نہیں ہوتے
وفا کی آرزو لے کر ہمارے گیت گاؤ گے
جواب اس بات کا یارانِ محفل سوچنا ہو گا
کہ خاکوں پہ ہمارے کیسے تصویریں بناؤ گے