شہیداں مثل
شہیداں مثل یا شہیداں والی مثل (گرمکھی: ਸ਼ਹੀਦਾਂ ਦੀ ਮਿਸਲ) خطۂ پنجاب میں اٹھارہویں صدی کے نصفِ اول میں قائم ہونے والی سکھوں کی بارہ مثلوں میں سے سب سے چھوٹی مثل تھی۔ اِس مثل کے لوگ تلونڈى سابو اور شمالی انبالہ میں آباد تھے۔ اِس مثل کا مرکز انبالہ کا ایک مقام شاہزاد پور تھا۔ اِس مثل کو نہنگ مثل بھی کہا جاتا تھا۔
تاریخ
ترمیمیہ مثل سکھوں کے باقی تمام مثلوں میں سے چھوٹی مثل تھی۔ اِس مثل کے سردار اُن سکھ بہادروں کی اولاد تھے ھو گرو گوبند سنگھ کے پرچم تلے 1705ء میں دمدمہ کے علاقے میں قتل ہوئے تھے۔ سکھوں نے اُن تمام افراد کو جو اِس جنگ میں مارے گئے، شہید کہنا شروع کیا اور اِسی لیے یہ مثل شہیداں مثل کہلائی۔ اِس مثل میں گرو گوبند سنگھ کے اَکالی خالصہ یا نہنگ خالصہ بھی شامل تھے (جو اکثر بدن پر نیلے رنگ کا لباس اور سر پر آہنی چکر پہنتے ہیں)۔ یہ مثل بھی دریائے ستلج کے مغربی علاقہ پر قابض تھی۔ اِن کی جنگی طاقت بقول سیتا رام کوہلی دو ہزار سوار اور بقول دیگر مؤرخین کے پانچ ہزار سوار تھی۔[1]
1748ء میں بابا دیپ سنگھ اِس مثل کا سردار مقرر ہوا جو تخت شری دمدمہ صاحب کا مہنت تھا۔ 1757ء میں جب احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان پر حملہ کیا تو اُس نے ہرمندر صاحب میں سکھوں کا داخلہ بند کر دیا۔ سکھوں نے بابا دیپ سنگھ سمیت سکھ فوج کو ہرمندر صاحب کے لیے بھیجا تاکہ وہاں سے احمد شاہ ابدالی کے فوجیوں کو نکالا جاسکے۔ بابا دیپ سنگھ نومبر 1757ء میں امرتسر پہنچا اور وہاں درانی فوجیوں سے معرکہ جنگ برپا ہوا۔ 11 نومبر 1757ء کوجنگ امرتسر (1757ء) میں بابا دیپ سنگھ درانی فوجیوں کے ہاتھوں قتل ہوا۔ بابا دیپ سنگھ کے قتل کے بعد سودھا سنگھ اِس مثل کا سردار بنا۔ سودھا سنگھ نے درانی فوجیوں کے ہاتھوں سے جالندھر بھی آزاد کروا لیا۔ اِس مثل کے پہلے دو سرداروں کے نام سے اِس مثل کا نام شہیداں مثل یا نہنگ مثل پڑا۔ یہ مثل مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ہاتھوں سکھ سلطنت میں ضم کرلی گئی۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ سیتا رام کوہلی: مہاراجہ رنجیت سنگھ، صفحہ 38۔