شیخ خضر سیوستانی

سندھ میں سلسلہ قادریہ کے عظیم المرتبت بزرگ اور صوفی

شیخ خضر سیوستانی (وفات: 994ھ مطابق 1586ء) سندھ میں سلسلہ قادریہ کے عظیم المرتبت صوفی اور بزرگ تھے۔آپ کو ہندوستان میں سلسلہ قادریہ کی ترویج و اِشاعت میں اہم ترین صوفیا میں شمار کیا جاتا ہے۔ سندھ میں سلسلہ قادریہ کے فیوض و برکات کو عام کرنے میں شیخ خضر کا بڑا حصہ ہے۔ حضرت میاں میر محمد قادری بالاپیر شاہ پیر لاہوری (متوفی 1635ء اِنہی کے جلیل القدر مرید اور خلیفہ تھے جنھوں نے نہ صرف سندھ بلکہ پنجاب میں بھی سلسلہ قادریہ کی تعلیمات کو عام کیا۔

شیخ خضر سیوستانی
معلومات شخصیت
مقام پیدائش سہون شریف   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1586ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سہون شریف   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ صوفی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

شیخ خضر سیوستان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائے زِندگی سے ہی اتقا و تقدس، توکل و استغنا کے جواہر نمایاں تھے۔ توکل کی انتہا یہ تھی کہ انھوں نے اپنے پاس کچھ بھی نہ رکھا اور سب لوگوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک بڑا حصہ دِن کا قبرستان میں گزارتے تھے، بعد ازاں سیوستان کے متصل ایک پہاڑ میں مقیم ہو گئے تھے جہاں اُن کا سارا وقت عبادت، ریاضت اور یادِ الٰہی میں صرف ہوتا تھا۔ اُس پہاڑ میں شیخ نے ایک تنور بھی بنوایا تھا جس میں روٹی پکنے کی نوبت کبھی نہیں آئی۔ گرمی و سردی کے موسم میں ہمیشہ اُن لباس ایک تہبند رہا۔ سردی میں ہمیشہ اُس تنور میں بیٹھ کر یادِ الٰہی میں مصروف رہتے۔ مشہور ہے جس پتھر وہ بیٹھتے تھے، وہ کبھی گرم نہیں ہوا۔ پہاڑ میں سکونت اختیار کرنے کے بعد وہ شہر سیوستان میں بہت کم آیا کرتے تھے۔ تعلقاتِ دُنیوی سے یہاں تک اِجتناب کرتے تھے کہ سوائے اللہ کے اُن کا دوست نہ تھا۔ اکثر درختوں کے پتے کھا کر زندگی بسر کی۔

حاکم سیوستان سے مکالمہ

ترمیم

دارا شکوہ نے سفینۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ: ’’ ایک بار حاکم سیوستان اُس پہاڑ پر آپ کی زیارت کے لیے آیا۔ شدید گرمی کا موسم تھا اور آپ پتھر پر بیٹھے ہوئے عبادت و مراقبہ میں مصروف تھے۔ وہ اِس خیال سے کہ آپ کو راحت پہنچے، اِس طرح کھرا ہو گیا کہ اُس کا سایہ آپ پر پڑنے لگا۔ جب آپ مراقبہ سے فارغ ہوئے تو آپ نے اُس سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ کیوں اِس ویرانے میں آئے ہو اور تمھارا کیا مقصد ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ اِس وقت حاضری سے میرا یہ مقصد تھا کہ آپ کی زیارت کی خوش نصیبی حاصل کروں اور آپ سے عرض کروں کہ اگر آپ کوئی خدمت مجھ سے متعلق فرمائیں تو اُس کی بجا آوری میری انتہائی سعادت ہوگی۔ آپ نے کہا کہ: میرا کوئی کام بھی ایسا نہیں جو تم پورا کرسکو۔ حاکم نے نہایت ہی لجاجت سے پھر دوبارہ عرض کیا کہ اگر کوئی خدمت مجھ سے متعلق فرمائی جائے تو میرے لیے باعث فخر ہوگی۔ آپ نے کہا: اچھا جو میں کہتا ہوں تم اُسے منظور کرو گے۔ اُس نے عرض کیا: ضرور۔ آپ نے کہا: تو یہ اپنا سایہ جو تم نے مجھ پر ڈال رکھا ہے، اُسے ہٹا لو، اِس لیے کہ جو لوگ اللہ کے سائے میں زِندگی گزارتے ہیں، انھیں اِس سائے کی ضرورت نہیں، دوسری بات جو میں تم سے کہنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ تم جہاں سے آئے ہو، واپس چلے جاؤ۔ حاکم یہ سن کر فوراً وہاں سے ہٹ کر اِتنی دور کھڑا ہو گیا کہ اُس کا سایہ آپ پر نہ پڑے۔ پھر اُس نے عرض کیا کہ میں حضور کے اِرشاد کی تعمیل کرتا ہوں اور واپس جاتا ہوں لیکن میری تمنا یہ ہے کہ آپ اپنے خاص وقت میں جب آپ عبادتِ الٰہی میں مصروف ہوں، میرے لیے دعائے خیر فرمائیں۔ آپ نے کہا: ’’اللہ تعالیٰ مجھے اُس وقت کے لیے زِندہ نہ رکھے کہ جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سواء میرے دِل میں کوئی دوسرا خیال آئے اور میں اُس وقت میں تمھیں یاد کروں‘‘۔[1][2]

وفات

ترمیم

شیخ خضر کا انتقال 994ھ مطابق 1586ء میں سیوستان میں ہوا اور اِن کی تدفین بھی وہیں کی گئی۔[3][4]

حوالہ جات

ترمیم
  1. اعجاز الحق قدوسی: تذکرہ صوفیائے سندھ، صفحہ 97/98۔ مطبوعہ کراچی، 1959ء
  2. مفتی غلام سرور قادری: خزینۃ الاصفیاء، جلد اول، صفحہ 210/211۔
  3. اعجاز الحق قدوسی: تذکرہ صوفیائے سندھ، صفحہ 98۔ مطبوعہ کراچی، 1959ء
  4. مفتی غلام سرور قادری: خزینۃ الاصفیاء، جلد اول، صفحہ 211۔

مزید دیکھیے

ترمیم