شیر گڑھ، اوکاڑہ

شیرگڑھ نا صرف پاکستان بلکہ برصغیر کے بہت اہم ترین اور قدیم قصبوں میں سے ایک قصبہ ہے

شیرگڑھ (انگریزی: Shergarh) پاکستان کا ایک رہائشی علاقہ جو ضلع اوکاڑہ میں واقع ہے۔ دیپالپور تحصیل کا یونین کونسل ہے۔ تحصیل رینالہ خورد سے تقریباً 18 کلومیٹر کے فاصلے پر حجرہ شاہ مقیم روڑ پر یہ قدیم قصبہ شیر گڑھ آباد ہے۔ شیرگڑھ میں مشہور صوفی بزرگ داؤد بندگی کرمانی کا مزار موجود ہے۔[1] شیر گڑھ کے لغوی معنی شیر کی کچھار ہے۔ یہ قصبہ کافی تاریخی اہمیت کا حامل ہے 16صدی عیسویں میں ملتان کے گورنر فتح جنگ خان نے اس شہر کا نام ہندوستان میں افغان بادشاہ شیر شاہ سوری کے اعزاز میں رکھا گیا۔[2]

شیر گڑھ، اوکاڑہ
ملکPakistan
پاکستان کی انتظامی تقسیمپنجاب، پاکستان
ضلعضلع اوکاڑہ
تحصیلدیپالپور
منطقۂ وقتپاکستان کا معیاری وقت (UTC+5)
ٹیلی فون کوڈ0442


شیرگڑھ تحصیل رینالہ خورد سے تقریباً 18 کلومیٹر کے فاصلے پر حجرہ شاہ مقیم روڑ پر واقع ہے، شیر گڑھ کے لغوی معنی شیر کی کچھار ہے۔ یہ قصبہ کافی تاریخی اہمیت کا حامل ہے، کہا جاتا ہے کہ سولویں صدی عیسوی میں ملتان کے گورنر فتح جنگ خان نے اس شہر کا نام ہندوستان میں افغان بادشاہ شیر شاہ سوری کے اعزاز میں رکھا۔ جس نے یہاں ایک قلعہ بھی تعمیر کیا اور یہاں کچھ عرصہ رہائش بھی کی.

شیرگڑھ مشہور صوفی بزرگ داؤد بندگی کرمانی کے مزار اور سالانہ میلے کے باعث مشہور ہے۔ آپ مظفر گڑھ کے ایک گاؤں سیتاپورمیں پیدا ہوئے اور شیرگڑھ ہجرت کے بعد یہیں رہے اور وفات پائی، آپ کے آباواجداد نے ایران کے ایک صوبے کرمان سے پاکستان ہجرت کی تھی.

ان کے مریدین کا دعوی ہے کہ ان کا نسب آل رسول سے جا ملتا ہے، انھوں نے اوچ کے ایک روحانی پیشوا سے ابتدئی مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے بعد شیر گڑھ میں صوفی ازم کے لیے کام کیا، انھوں نے ساہیوال، فیصل آباد، شیخوپورہ، حافظ آباد اور گوجرانوالہ کے بہت سے قبائل کو مسلمان کیا.

اگرچہ داؤد بندگی کرمانی شیر گڑھ میں رہے لیکن انھوں نے مقامی سطح پر زیادہ کام نہیں کیا کیونکہ زیادہ تر مقامی قبائل مثلا وٹو اور جوئیے پاکپتن کے بابافرید رح کے پیروکار تھے۔ داؤد بندگی کرمانی کے پیروکاروں میں زیادہ تر، راجپوت، جٹ، ورک، باجوہ ، چٹھہ اور ساہی قبائل کے لوگ شامل ہیں۔

ان کے مریدین کے مطابق انھوں نے تقریبا 35 ہزار افراد کو دائرہ اسلام میں داخل کیا اور تقریبا 365 افراد کو صوفیت کا فیض حاصل ہوا. ان کے نمایاں مریدین میں بالا پیر، عبدالقدیر بڑوانی، وہاب چشتی اور کمال چشتی شامل ہیں۔

ان کی 1575 میں وفات کے بعد ان کے بھتیجے اور داماد شاہ عبدالمولی نے ان کی قبر پر ایک مزار تعمیر کیا، جس میں بہت سے مریدین مارچ میں حاضری دینے آتے ہیں جب عرس کی تقریبات کا آغاز ہوتا ہے۔ ان کا مزار مریدین کے علاوہ بہت سے متجسس مسافروں، خطاط اور فنکاروں کو بھی اپنی طرف کھینچتا ہے۔ مزار کی دیکھ بھال ان کے گدی نشین کرتے رہے لیکن جنرل ایوب خان نے جب زمینوں کے ریکارڈ میں اصلاحات کیں تب اس مزار کا انتظام محکمہ اوقاف نے اپنے ذمے لے لیا.

یہاں سے ملنے والے قدیم سکے اور نوادرات سے عیاں ہوتا ہے کہ یہ قصبہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے اور اس کے آثار قدیم کشن سلطنت سے جا ملتے ہیں۔

پاکستان کے مشہور فلم پروڈیوسر سید نور نے اپنی ایک فلم “چوڑیاں” میں شیرگڑھ کے کلچر کی نمائندگی کرنے کی کوشش کی ہے، اس فلم میں شیر گڑھ میں لگنے والے سالانہ میلے کے مناظر فلمائے گئے ہیں.

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. شیر گڑھ
  2. تاریخ شیر شاہ سوری عباس خان سردنی