طالب ابن ابی طالب
(طالب بن ابی طالب سے رجوع مکرر)
طالب ابن ابی طالب ابوطالب کے بڑے بیٹے تھے۔ حضرت ابو طالب کوانہی کی وجہ سے ابو طالب کہا جاتا ہے۔
- ان کے بارے میں زیادہ روایات نہیں ملتیں۔ کچھ روایات کے مطابق ان کی وفات شرک کی حالت میں جنگِ بدر میں ہوئی۔[حوالہ درکار]۔
- قریش حجفہ سے روانہ ہوئے طالب بن ابو طالب کا بعض قریشیوں کا تکرار ہوا انھوں نے کہا واللہ اے بنو ہاشم ہم خوب جانتے ہیں اگرچہ تم ہمارے ساتھ ہو مگر تمھاری تمنائیں محمد کے ساتھ ہیں یہ سن کر طالب اپنے رفقا کے ساتھ واپس ہو گیا اور کہا
- لا هُمَّ إِمَّا يغزوَنَّ طَالِبْ
- فِي عُصْبَةٍ محالفٍ مُحَارِبْ
- فِي مِقْنَبٍ مِنْ هَذِهِ الْمَقَانِبْ
- فَلْيَكُنِ الْمَسْلُوبُ غَيْرَ السَّالِبْ
- وَلِيَكُنِ الْمَغْلُوبُ غَيْرَ الْغَالِبْ
طالب ابن ابی طالب | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 571ء حجاز |
تاریخ وفات | سنہ 624ء (52–53 سال) |
مذہب | اسلام |
والد | ابو طالب |
والدہ | فاطمہ بنت اسد |
بہن/بھائی | |
درستی - ترمیم |
یااللہ اگر طالب کسی حلیف یا حریف میں جنگ کرے ان فوجی دستوں میں سے کسی دستے میں تو وہ زرہ اتارنے والا قاتل نہ ہو بلکہ مقتول ہو وہ غالب نہ ہو بلکہ مغلوب ہو[1]
- علامہ دیار بکری نے لکھا ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر مشرکین مکہ نے زبردستی طالب کو جنگ کے لیے گھسیٹا جبکہ وہ جانا نہیں چاہتے تھے۔۔[2] علامہ مسعودی نے لکھا ہے کہ کفارِ قریش نے طالب کو زبردستی جنگ کے میدان کی طرف لے جانے کی کوشش کی لیکن وہ دوران میں سفر غائب ہو گئے پھر ان کی کوئی خبر نہ ملی مگر ان کے اس موقع پر اشعار مسعودی نے نقل کیے ہیں جن کا ترجمہ ہے: اے پروردگار یہ لوگ زبردستی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ تو ان کو شکست دے اور اس درجہ کمزور کر دے کہ یہ خود لوٹے جائیں اور کسی کو لوٹ نہ سکیں۔[3]