ابو الحسن علی بن حسین بن علی مسعودی معروف بہ مسعودی (پیدائش: 896ء– وفات: ستمبر 956ء[5] مشہور مسلم مؤرخ، جغرافیہ دان اور سیاح تھے۔ وہ بغداد کے رہنے والے تھے۔

مسعودی
(عربی میں: المسعودي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 896ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 956ء (59–60 سال)[1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قاہرہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ نفطویہ  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ جغرافیہ دان،  مورخ،  مصنف[3]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی[4]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل تاریخ،  جغرافیہ  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں مروج الذہب و معادن الجواہر[2]  ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سیر و سیاحت ترمیم

اس عظیم سیاح نے اپنے شہر سے پہلا سفر ایران کا کیا اور پھر وہاں سے ہندوستان (موجودہ پاکستان) کے علاقوں کا سفر کیا۔ انھوں نے یہاں سندھ اور ملتان کی سیر کی اور پھر ہندوستان کے مغربی ساحلوں کے ساتھ ساتھ کوکن اور مالابار کے علاقوں سے ہوتے ہوئے لنکا پہنچے۔ یہاں وہ ایک تجارتی قافلے کے ساتھ چین گئے۔ چین سے واپسی پر انھوں نے زنجبار کا رخ کیا اور مشرقی افریقہ کے ساحلوں کی سیر کرتے ہوئے مڈغاسکر تک پہنچے۔ یہاں سے جنوب عرب اور عمان ہوتے ہوئے اپنے شہر بغداد واپس پہنچے۔ اس کے علاوہ خراسان، سجستان (جنوبی افغانستان)، کرمان، فارس، جرجان، طبرستان، جبال (میڈیا)، خوزستان، عراق (بین النہرین کا نصف جنوب) اور جزیرہ (میسوپوٹیمیا کا نصف شمال) کی سیاحت کی۔ 941ء اور956ء کے درمیانی عرصہ میں انھوں نے شام، یمن، حضرموت، شحر اور مصر کا سفر کیا۔ انھوں نے سندھ، ہند اور مشرقی افریقہ کا سفر بھی کیا اور بحیرۂ خزر، بحیرۂ احمر، بحیرۂ روم اور بحیرۂ عرب کے پانیوں کی سیر بھی کی، ایسے زمانے میں جب سفر بے انتہا کٹھن اور مشکل ہوتا تھا اس بہادر سیاح کا تمام خطرات کو مول لے کر اور جان ہتھیلی پر رکھ کر دنیا کے ایک بڑے حصے کی سیر کرنا ایک عجوبہ لگتا ہے۔ انھوں نے نہ صرف ان علاقوں کی سیر کی بلکہ ان ممالک کے حالات لکھ کر ان کے تہذیب و تمدن سے آگاہی بخشی۔

بغداد واپس پہنچنے کے بعد مسعودی کو پھر شوقِ سفر نے بے چین کیا۔ اب انھوں نے ایشیائے کوچک کا رخ کیا اور وہاں سے شام اور فلسطین کی سیر کرتے ہوئے مصر پہنچے۔ شاید وہ اندلس اور شمالی افریقہ کی جانب مزید سفر کرتے لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور فسطاط، مصر(قاہرہ قدیم) میں ان کا انتقال ہو گیا۔

کارنامے ترمیم

انھوں نے تاریخی واقعات کا تنقیدی مطالعہ کرکے تاریخ نویسی میں ایک انقلاب پیدا کیا جسے ابن خلدون نے بعد میں بہت ترقی دے کر ایک فن کی صورت دے دی۔ قوموں کے عروج و زوال سے متعلق ان کا مطالعہ بہت وسیع اور گہرا تھا۔ بہ حیثیت مورخ اپنی عظمت سے واقف تھے۔ مسعودی نے علومِ موسیقی میں بھی بیش بہا اضافے کیے ہیں، انھوں نے موسیقی کی بہت کارآمد مفید معلومات فراہم کی ہیں۔ کتاب ’’مروج الذہب‘‘ میں ابتدائی عرب موسیقی اور دوسرے ممالک کی موسیقی پر دلچسپ معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ مسعودی نے اپنی کتابوں میں 955ء کے زلزلے کے اسباب بیان کیے ہیں۔ بحر مردار کے پانی اور دیگر طبقات الارض کے مسائل پر مفید بحث کی ہے۔ انھوں نے پن چکی کا سب سے پہلے تذکرہ کیاہے جو سجستان میں لگائی گئی تھیں اور مسلمانوں کی ایجاد تھیں۔ مسعودی کی تصانیف سے بعد کے مصنفوں نے بڑا استفادہ کیا۔ خصوصاً تاریخ نویسی پر وہ بہت اثر انداز ہوئے ہیں۔ سی فیلڈ نے 1909ء میں ’’خلفاء کے حقائق‘‘ تحریر کیے تو اس کا مواد مسعودی کی تصانیف سے حاصل کیا۔

امریکا کے بارے میں بیان ترمیم

المسعوی نے اپنی کتاب ’’مروج الذہب‘‘ اور ’’اخبار الزّمان‘‘ میں ایسے کئی لوگوں کے تذکرے بیان کیے ہیں جنھوں نے بحرِ اوقیا نوس کو عبور کیا اور ایک انجان زمین (ارضمجھولہ) میں جاپہنچے جسے ہم آج امریکا کے نام سے جانتے ہیں۔المسعودی کے بنائے ہوئے دنیا کے اس نقشے میں السودان (افریقہ) سے آگے ارضمجھولہ کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ المسعودی کولمبس سے سوا پانچ سو سال قبل ہی امریکا کی سرزمین سے واقف تھے ۔

 
المسعودی کا تیار کردہ دنیا کا نقشہ- زمانہ غالباً دسویں صدی عیسوی کا تیسرا عشرہ 921ء سے 956ء کا وسطی زمانہ
 
مروج الذہب و معادن الجوہر کا سرورق جسے دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان نے شائع کیا۔

تصنیفات ترمیم

اس عظیم سیاح و جغرافیہ دان نے کم و بیش 37 کتابیں تحریر کیں جن میں سے کچھ کے نام یہ ہیں

مسعودی کی کتابوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے مطالعے سے چوتھی صدی ہجری کی زندگی آئینے کی طرح سامنے آ جاتی ہے اور اس زمانے کی تہذیب و تمدن کا نقشہ کھینچ جاتا ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12015979m — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. ^ ا ب مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.google.fr/books/edition/Histoire_de_la_philosophie_en_Islam/I0ANAAAAIAAJ?hl=fr&gbpv=0&kptab=overview — عنوان : Histoire de la philosophie en Islam — جلد: 60 — صفحہ: 472
  3. مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.bartleby.com/lit-hub/library — عنوان : Library of the World's Best Literature
  4. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12015979m — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  5. الاعلام الزركلی
  • اس صفحہ ”مسعودی“ کے تبادلہ خیال پر بھی اہم معلومات موجود ہیں۔ پڑھنے کےلیے تبادلۂ خیال:مسعودی پر کلک کریں۔