مسعودی
ابو الحسن علی بن حسین بن علی مسعودی معروف بہ مسعودی (پیدائش: 896ء– وفات: ستمبر 956ء)، [11] مشہور مسلم مؤرخ، جغرافیہ دان اور سیاح تھے۔ وہ بغداد کے رہنے والے تھے۔
مسعودی | |
---|---|
(عربی میں: المسعودي) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 896ء بغداد |
وفات | سنہ 956ء (59–60 سال)[1][2] قاہرہ |
شہریت | دولت عباسیہ |
مذہب | اہل تشیع [3][4][5][6][7][8] |
عملی زندگی | |
استاذ | نفطویہ |
پیشہ | جغرافیہ دان ، مورخ ، مصنف [9] |
مادری زبان | عربی |
پیشہ ورانہ زبان | عربی [10] |
شعبۂ عمل | تاریخ ، جغرافیہ |
کارہائے نمایاں | مروج الذہب و معادن الجواہر [2] |
درستی - ترمیم |
سیر و سیاحت
ترمیماس عظیم سیاح نے اپنے شہر سے پہلا سفر ایران کا کیا اور پھر وہاں سے ہندوستان (موجودہ پاکستان) کے علاقوں کا سفر کیا۔ انھوں نے یہاں سندھ اور ملتان کی سیر کی اور پھر ہندوستان کے مغربی ساحلوں کے ساتھ ساتھ کوکن اور مالابار کے علاقوں سے ہوتے ہوئے لنکا پہنچے۔ یہاں وہ ایک تجارتی قافلے کے ساتھ چین گئے۔ چین سے واپسی پر انھوں نے زنجبار کا رخ کیا اور مشرقی افریقہ کے ساحلوں کی سیر کرتے ہوئے مڈغاسکر تک پہنچے۔ یہاں سے جنوب عرب اور عمان ہوتے ہوئے اپنے شہر بغداد واپس پہنچے۔ اس کے علاوہ خراسان، سجستان (جنوبی افغانستان)، کرمان، فارس، جرجان، طبرستان، جبال (میڈیا)، خوزستان، عراق (بین النہرین کا نصف جنوب) اور جزیرہ (میسوپوٹیمیا کا نصف شمال) کی سیاحت کی۔ 941ء اور956ء کے درمیانی عرصہ میں انھوں نے شام، یمن، حضرموت، شحر اور مصر کا سفر کیا۔ انھوں نے سندھ، ہند اور مشرقی افریقہ کا سفر بھی کیا اور بحیرۂ خزر، بحیرۂ احمر، بحیرۂ روم اور بحیرۂ عرب کے پانیوں کی سیر بھی کی، ایسے زمانے میں جب سفر بے انتہا کٹھن اور مشکل ہوتا تھا اس بہادر سیاح کا تمام خطرات کو مول لے کر اور جان ہتھیلی پر رکھ کر دنیا کے ایک بڑے حصے کی سیر کرنا ایک عجوبہ لگتا ہے۔ انھوں نے نہ صرف ان علاقوں کی سیر کی بلکہ ان ممالک کے حالات لکھ کر ان کے تہذیب و تمدن سے آگاہی بخشی۔
بغداد واپس پہنچنے کے بعد مسعودی کو پھر شوقِ سفر نے بے چین کیا۔ اب انھوں نے ایشیائے کوچک کا رخ کیا اور وہاں سے شام اور فلسطین کی سیر کرتے ہوئے مصر پہنچے۔ شاید وہ اندلس اور شمالی افریقہ کی جانب مزید سفر کرتے لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور فسطاط، مصر(قاہرہ قدیم) میں ان کا انتقال ہو گیا۔
کارنامے
ترمیمانھوں نے تاریخی واقعات کا تنقیدی مطالعہ کرکے تاریخ نویسی میں ایک انقلاب پیدا کیا جسے ابن خلدون نے بعد میں بہت ترقی دے کر ایک فن کی صورت دے دی۔ قوموں کے عروج و زوال سے متعلق ان کا مطالعہ بہت وسیع اور گہرا تھا۔ بہ حیثیت مورخ اپنی عظمت سے واقف تھے۔ مسعودی نے علومِ موسیقی میں بھی بیش بہا اضافے کیے ہیں، انھوں نے موسیقی کی بہت کارآمد مفید معلومات فراہم کی ہیں۔ کتاب ’’مروج الذہب‘‘ میں ابتدائی عرب موسیقی اور دوسرے ممالک کی موسیقی پر دلچسپ معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ مسعودی نے اپنی کتابوں میں 955ء کے زلزلے کے اسباب بیان کیے ہیں۔ بحر مردار کے پانی اور دیگر طبقات الارض کے مسائل پر مفید بحث کی ہے۔ انھوں نے پن چکی کا سب سے پہلے تذکرہ کیاہے جو سجستان میں لگائی گئی تھیں اور مسلمانوں کی ایجاد تھیں۔ مسعودی کی تصانیف سے بعد کے مصنفوں نے بڑا استفادہ کیا۔ خصوصاً تاریخ نویسی پر وہ بہت اثر انداز ہوئے ہیں۔ سی فیلڈ نے 1909ء میں ’’خلفاء کے حقائق‘‘ تحریر کیے تو اس کا مواد مسعودی کی تصانیف سے حاصل کیا۔
امریکا کے بارے میں بیان
ترمیمالمسعوی نے اپنی کتاب ’’مروج الذہب‘‘ اور ’’اخبار الزّمان‘‘ میں ایسے کئی لوگوں کے تذکرے بیان کیے ہیں جنھوں نے بحرِ اوقیا نوس کو عبور کیا اور ایک انجان زمین (ارضمجھولہ) میں جاپہنچے جسے ہم آج امریکا کے نام سے جانتے ہیں۔المسعودی کے بنائے ہوئے دنیا کے اس نقشے میں السودان (افریقہ) سے آگے ارضمجھولہ کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ المسعودی کولمبس سے سوا پانچ سو سال قبل ہی امریکا کی سرزمین سے واقف تھے ۔
تصنیفات
ترمیماس عظیم سیاح و جغرافیہ دان نے کم و بیش 37 کتابیں تحریر کیں جن میں سے کچھ کے نام یہ ہیں
- مروج الذہب
- التنبیہ والاشراف
- اخبار الزمان ومن اباده الحدثانیہ تقریبا 30 جلدوں پر مشتمل تھی جن میں سے صرف پہلی جلد بچ سکی ہے۔ ویانا میں محفوظ ہے (اس کے علاوہ برلن میں بھی ایک قلمی نسخے کا پتہ چلاہے)۔
- اخبار الخوارج
- ذخائر العلوم وما كان فی سالف الدهور
- الرسائل
- الاستذكار بما مر فی سالف الاعصار
- اخبار الامم من العرب والعجم
- خزائن الملوك وسر العالمين
- المقالات فی اصول الدينات
- البيان» ائمہ کے ناموں کے بارے میں
- المسائل والعلل فی المذاهب والملل
- الابانہ عن اصول الديانہ
- سر الحياة
- الاستبصار» امامت کے متعلق
- السياحۃ المدينہ» فی السياسۃ والاجتماع۔
مسعودی کی کتابوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے مطالعے سے چوتھی صدی ہجری کی زندگی آئینے کی طرح سامنے آ جاتی ہے اور اس زمانے کی تہذیب و تمدن کا نقشہ کھینچ جاتا ہے۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12015979m — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ^ ا ب عنوان : Histoire de la philosophie en Islam — جلد: 60 — صفحہ: 472 — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.google.fr/books/edition/Histoire_de_la_philosophie_en_Islam/I0ANAAAAIAAJ?hl=fr&gbpv=0&kptab=overview
- ↑ https://www.islamweb.net/ar/fatwa/112119/%D9%83%D8%AA%D8%A7%D8%A8%D8%A7-%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%B3%D8%B9%D9%88%D8%AF%D9%8A-%D9%88%D8%A7%D8%A8%D9%86-%D8%A7%D9%84%D8%A3%D8%AB%D9%8A%D8%B1-%D9%81%D9%8A-%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%8A%D8%B2%D8%A7%D9%86
- ↑ https://referenceworks.brill.com/display/entries/EIEO/COM-0704.xml
- ↑ http://shiaonlinelibrary.com/%D8%A7%D9%84%D9%83%D8%AA%D8%A8/2988_%D9%85%D8%B3%D8%AA%D8%AF%D8%B1%D9%83%D8%A7%D8%AA-%D8%B9%D9%84%D9%85-%D8%B1%D8%AC%D8%A7%D9%84-%D8%A7%D9%84%D8%AD%D8%AF%D9%8A%D8%AB-%D8%A7%D9%84%D8%B4%D9%8A%D8%AE-%D8%B9%D9%84%D9%8A-%D8%A7%D9%84%D9%86%D9%85%D8%A7%D8%B2%D9%8A-%D8%A7%D9%84%D8%B4%D8%A7%D9%87%D8%B1%D9%88%D8%AF%D9%8A-%D8%AC-%D9%A5/%D8%A7%D9%84%D8%B5%D9%81%D8%AD%D8%A9_0?pageno=352#top
- ↑ http://shiaonlinelibrary.com/%D8%A7%D9%84%D9%83%D8%AA%D8%A8/1475_%D8%A8%D8%AD%D8%A7%D8%B1-%D8%A7%D9%84%D8%A3%D9%86%D9%88%D8%A7%D8%B1-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D9%84%D8%A7%D9%85%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%AC%D9%84%D8%B3%D9%8A-%D8%AC-%D9%A4%D9%A4/%D8%A7%D9%84%D8%B5%D9%81%D8%AD%D8%A9_0?pageno=310#top
- ↑ http://shiaonlinelibrary.com/%D8%A7%D9%84%D9%83%D8%AA%D8%A8/1375_%D9%81%D8%B1%D8%AC-%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%87%D9%85%D9%88%D9%85/%D8%A7%D9%84%D8%B5%D9%81%D8%AD%D8%A9_0?pageno=126
- ↑ http://shiaonlinelibrary.com/%D8%A7%D9%84%D9%83%D8%AA%D8%A8/3362_%D9%87%D8%AF%D9%8A%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%A7%D8%B1%D9%81%D9%8A%D9%86-%D8%A5%D8%B3%D9%85%D8%A7%D8%B9%D9%8A%D9%84-%D8%A8%D8%A7%D8%B4%D8%A7-%D8%A7%D9%84%D8%A8%D8%BA%D8%AF%D8%A7%D8%AF%D9%8A-%D8%AC-%D9%A1/%D8%A7%D9%84%D8%B5%D9%81%D8%AD%D8%A9_0?pageno=679#top
- ↑ عنوان : Library of the World's Best Literature — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.bartleby.com/lit-hub/library
- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12015979m — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ الاعلام الزركلی
- اس صفحہ ”مسعودی“ کے تبادلہ خیال پر بھی اہم معلومات موجود ہیں۔ پڑھنے کےلیے تبادلۂ خیال:مسعودی پر کلک کریں۔