طنز و مزاح

اردو ادب کا اسلوب یا تکنیک

طنز و مزاح (تلفظ:طَنْزِ وَ مَزَاحٌ، انگریزی: Satire and Humour، رومن:Tánżomäźakh) کو اردو ادب میں عموماً ہم معنوں میں لیا اور ایک ساتھ استعمال کیا جاتا ہے، حالانکہ طنز اور مَزاح میں فرق ہے۔ دونوں کی اپنی اپنی حدود ہیں، لیکن اس کے باوجود اکثر ایک دوسرے کے متوازی بھی چل رہے ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو ان کی سرحدیں ایک دوسرے سے ایسے ملی ہوتی ہیں کہ ان کو الگ کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ طنز سے مراد طعنہ، ٹھٹھہ، تمسخر یا رمز کے ساتھ بات کرنا ہے، جب کہ مَزاح سے خوش طبعی، مذاق یا ظرافت مراد لیا جاتا ہے۔

عام طور پر طنز اور مَزاح کے الفاظ کو ملا کر بطور ایک مرکب کے استعمال کیا جاتا ہے، مگر یہ دو مختلف المعانی الفاظ ہیں۔ مَزاح کے لفظی معنی ہنسی مذاق، جب کہ طنز کے معنی طعنہ یا چھیڑ کے ہیں۔[1]

ایسی تحاریر جو آپ کو ہنسنے پر مجبور کر دیں اور اس تحریر میں تنقید کو مَزاح کا جامہ پہنا دیا جائے لیکن اس کے باوجود قاری ہنسنے پر مجبور ہوجائے طنز و مزاح کہلاتی ہیں۔طنز و مَزاح کی ایک مقبول صنف لطیفہ ہے۔ محمد انور بٹ ہندیو شوپیان۔

طنز و مزاح کے بارے میں

ترمیم

طنز و مزاح کو اکثر ساتھ ساتھ استعمال کیا جاتا ہے اور عام طور پر دونوں میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے طنز اور مزاح بالکل الگ الگ چیزیں ہیں۔[2]

اسٹیفن لیکاک (Stephen Lecock) اپنی کتاب  "Humor and Humanity" کے صفحہ 11 پر لکھتے ہیں کہ

مزاح کیا ہے؟ یہ زندگی کی ناہمواریوں کے اس ہمدردانہ شعور کا نام ہے جس کا فنکارانہ اظہار ہو جائے

لیکن جب زندگی کی نا ہمواریوں کے اس "ہمدردانہ شعور" کی جگہ "تیز اور تلخ شعور" لے لیتا یے اور فنکارانہ اظہار میں دھیمے پن اور نرمی کی بجائے کرختگی اور تیکھا پن آ جاتا ہے تو مزاح نہیں رہتا بلکہ طنز بن جاتا ہے۔

رونالڈ ناکس (Ronald Knox) اپنی کتاب "Essays on Satire" کے صفحہ 31 پر لکھتے ہیں کہ

مزح نگار خرگوش کے ساتھ بھاگتا ہے جبکہ طنز نگار کتّوں کے ساتھ شکار کھیلتا ہے

رسالہ ادب لطیف میں " طنز و مزاح " کو یوں واضح کیا گیا ہے۔

قبل از طعام طنز ، بعد از طعام مزاح

طنز ایک شدید ، تیز اور بے دردانہ قسم کی تنقید ہے جس میں کسی چیز کے برے پہلو کو اس قدر نمایاں کر دیا جاتا ہے کہ یا تو اس چیز کے اچھے پہلو خود بخود نظر سے اوجھل ہو جاتے ہیں یا پھر برے پہلو اس قدر چمکا کر پیش کیے جاتے ہیں کہ اچھے پہلو ماند پڑ جاتے ہیں۔ لیکن یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ طنز کی شدت ، تیزی اور تلخی کسی اچھے اور بڑے مقصد کے لیے ہوتی ہے، اسی لیے گوارا کر لی جاتی ہے۔ طنز براہ راست نہیں کیا جاتا بلکہ اسے مزاح کے پردے میں چھپا کر پیش کیا جاتا ہے۔

علی گڑھ میگزین کے طنز و مزاح نمبر کے صفحہ نمبر 34 پر درج ہے کہ[3]

مزاح، طنز کے عمل جراحی کے لئے غش آور دوا کی سی حیثیت رکھتا ہے

گویا اس لحاظ سے ہم یہ تو کہ سکتے ہیں کہ طنز و مزاح کا آپس میں گہرا رشتہ ہے لیکن یہ نہیں کہ سکتے کہ طنز و مزاح ایک ہی چیز ہے کیونکہ وہ ہنسی جس کے پیش نظر محض انفرادی یا اجتماہی اصلاح ہوتی ہے اسے ہم مزاح کا نام دیتے ہیں ۔

جیسا کہ احمد رضا نے بھی کہا کہ؛

طنز و مزاح اردو ادب میں کئی مقامات پر ساتھ ہوتے ہیں حالانکہ ان کی ابتداء و انتہا الگ الگ ہیں

جیسے اُردو ادب کا مزاحیہ کردار "چچا چھکن" جو اپنی مزاحیہ حرکات سے ہنسی کی تحریک کرتا ہے۔ اس کے بر عکس جب معاشرہ مجموعی طور پر بگڑنے لگتا ہے اور مزاح نگار کا یہ احساس شدت اختیار کر جاتا ہے کہ معاشرے کی اصلاح ممکن نہیں تو اس وقت وہ انسانیت سے متنفر ہو جاتا ہے اور طنز پر اُتر آتا ہے اور یہی طنز جب شدت اختیار کر لیتی ہے تو اپنی قوت کھو دیتی ہے اور مذمت بن جاتی ہے۔ مزاح نگار کے دل میں فرد اور معاشرے کے لیے رحم اور محبت کا جذبہ ہوتا ہے جبکہ طنز نگار کے دل میں نفرت اور دشمنی کا۔

مزاح نگار کا مقصد لوگوں کو ہنسانا اور خوش کرنا ہوتا ہے۔ جبکہ طنز نگار جس پر ہنستا ہے اس سے نفرت بھی کرتا ہے اور اسے تبدیل کرنے کا خواہاں بھی ہوتا ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی تحریر - جنگ ڈاٹ کام سے
  2. طنز و مزاح کی تھریڈ سے ماخوذ کیا
  3. علی گڑھ میگزین - طنز و مزاح نمبر - صفحہ 34

مزید دیکھیے

ترمیم
  1. عزیز نیسن
  2. مشتاق احمد يوسفی
  3. ابن صفی
  4. ابن ریاض
  5. ابن انشا
  6. پطرس بخاری
  7. رتن ناتھ سرشار
  8. شفیق الرحمٰن
  9. ویب گاہآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ tanzomazakh.business.site (Error: unknown archive URL)