عالمگیر (پاپ گلوکار)

پاکستان کے مشہور گلوکار

عالمگیر کا شمار پاکستان میں پاپ موسیقی کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ان کا انداز مشہور پاکستانی فلمی گلوکار احمد رشدی سے مشابہ قرار دیا جاتا تھا لیکن انھوں نے موسیقی کے میدان میں اپنی مخصوص پہچان بنائی۔ عالمگیر نے 1970ء کی دہائی کے آغاز میں پاکستان ٹیلی ویژن کے پروگرام ہم ہی ہم سے بطور گٹاریسٹ آغاز کیا۔

عالمگیر (پاپ گلوکار)
معلومات شخصیت
پیدائش 11 اگست 1955ء (69 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مشرقی پاکستان ،  عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ موسیقار   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
ویب سائٹ
ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح حیات

ترمیم

عالمگیر 1955ء میں مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام فرموزالحق تھا جو آل انڈیا مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے سیاست دان تھے۔ عالمگیر نے ابتدائی تعلیم میرپور (بنگلہ دیش) سے حاصل کی اور کالج کی تعلیم بی اے ایف شاہین کالج ڈھاکہ سے حاصل کی۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد وہ پاکستان کے شہر کراچی آ گئے جہاں انھوں نے جامعہ کراچی سے تعلیم حاصل کی۔ انھوں اپنے فنی کیرئر کا آغازبھی کراچی سے ہی کیا۔

کراچی میں عالمگیر پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی میں رہتے تھے۔ شام کے وقت وہ طارق روڈ پر واقع گلوب ہوٹل میں گلوکاری اور گٹار بجاتے تھے۔ اس کے عوض انھیں 350 روپے ماہوار اور رات کا کھانا ملتا تھا۔ یہ ہوٹل شہرکے پڑھے لکھے دانشور طبقے میں خاصا مقبول تھا۔ وہیں کسی نے عالمگیر کو بتایا کہ پاکستان ٹیلی ویژن کراچی میں خوش بخت عالیہ نوجوانوں کے لیے ایک پروگرام "فروزاں" کے عنوان سے کر رہی ہیں جس میں انھیں موقع مل سکتا ہے۔ عالمگیر وہاں ایڈیشن کے دینے کے لیے پہنچے اور خوش بخت عالیہ نے ان کی گلوکاری اور گٹار کو پسند کیا لیکن یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ وہ پہلے ہی کسی کو منتخب کر چکی ہیں۔ اسی کمرے میں موسیقار سہیل رعنا بھی موجود تھے۔ جب عالمگیر واپس اپنی گاڑی تک پہنچے تو سہیل رعنا نے انھیں واپس بلوالیا اور اپنے پروگرام "ہم ہی ہم" میں بطور گٹاریسٹ کام کرنے کی پیش کش کی۔ یہ پروگرام بچوں کے لیے تھا۔ 1973ء میں عالمگیر نے شاعر صدیقی کے گیتوں پر مشتمل ٹی وی پروگرام "سنڈے کے سنڈے" میں "البیلا راہی" گایا۔ اس زمانے میں پاکستان میں مغربی موسیقی کو جدید موسیقی کہاجاتا تھا۔ اس وقت ٹی وی اور ریڈیو پر پکا گانا گانے والوں کا راج تھا۔ عالمگیر کا یہ گیت نوجوانوں میں انتہائی مقبول ہوا اور جلد ہی عالمگیر عوامی شخصیت بن گئے۔ عالمگیر جب اپنی سرخ سیڈان پر جھیل پارک سیر کے لیے آتے تو موسیقی کے شائقین نوجوان انھیں دیکھنے کے لیے اکٹھے ہوجاتے۔ عالمگیر نے اردوکے علاوہ کئی دیگرزبانوں میں گیت گائے خاص طور پر اپنی مادری زبان بنگلہ میں ان کے کئی گیت مشہور ہوئے جن میں "امائے بھاشالی رے" سب سے زیادہ مشہورہوا۔ عالمگیر نے2012ء میں "ہم ٹیلی ویژن" کے براہ راست پروگرام "شام سے پہلے آنا" میں شریک ہوئے جو ان کے ہی اعزاز میں منعقد کیا گیا تھا۔ 2013ء میں وہ اے آر وائی ڈیجیٹل پر "پاکستان آئیکون" میں بطور جج شریک ہوئے۔ پاکستان میں موسیقی کے مشہور پروگرام "کوک سٹوڈیو" کے چھٹے سیزن میں شرکت کی۔6 جنوری، 2014ء کو پاکستان ٹیلی ویژن کے پروگرام "صبح نو" میں ان کا انٹریونشر کیا گیا۔2012ء میں عالمگیر نے بنگلہ دیش کا بھی دورہ کیا اور وہاں کئی پروگراموں میں شرکت کی۔ انھیں صدر پاکستان کی جانب سے حسن کارکردگی کا اعزاز بھی دیا گیا۔ 1998ء میں عالمگیر اپنی والدہ کی بیماری میں دیکھ بھال کے لیے امریکی ریاست اٹلانٹا منتقل ہو گئے۔ عالمگیر کو گردوں کا مرض اپنے والدین سے منتقل ہوا جس کی وجہ سے انھیں مسلسل زیر علاج بھی رہنا پڑا۔ عالمگیر نے امریکا میں بھی موسیقی کو جاری رکھا اور کئی لائیو کنسرٹ کیے۔ وہ آج بھی امریکا میں رہائش پزیر ہیں تاہم اب بھی باقاعدگی سے پاکستانی پروگراموں میں شریک ہو رہے ہیں۔