عالیہ امیرعلی (پیدائش: 5 نومبر 1984ء) ایک استاد اور بائیں بازو کی سیاسی کارکن ہیں۔ وہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ جینڈر سٹدیز میں لیکچرر ہیں۔ انھوں نے 2016ء سے 2019ء تک عوامی ورکرز پارٹی پنجاب کی ڈپٹی جنرل سیکرٹری کی خدمات سر انجام دیں۔[1] لندن اسکول آف اکنامکس کے جینڈر سٹڈیز شعبہ سے پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔[2][3]

عالیہ امیر علی
عالیہ امیرعلی
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 5 نومبر 1984ء
قومیت پاکستان
والد پرویز ہودبھائی
عملی زندگی
مادر علمی قائد اعظم یونیورسٹی، لندن اسکول آف اکنامکس، ہیمپشائر کالج، امریکہ
پیشہ لیکچرر، پی ایچ ڈی طالبہ، سیاسی کارکن، فیمینسٹ
کارہائے نمایاں وومین ڈیموکریٹک فرنٹ کی بنیاد رکھی۔ سابقہ ڈپٹی جنرل سیکریٹری عوامی ورکرز پارٹی پنجاب

ابتدائی زندگی اور تعلیم

ترمیم

عالیہ امیرعلی، مشہور پاکستانی طبعیت دان پرویز ہودبھائی کی بیٹی اور مشہور پاکستانی نژاد امریکی فلسفی اقبال احمد کی بھانجی ہیں۔[4] عالیہ امیرعلی اسلام آباد میں پیدا ہوئیں اور ابتدائی تعلیم خلدونیہ ہائی اسکول، اسلام آباد سے حاصل کی۔ بیچلر کی تعلیم 2006ء میں ہیمپشائر کالج، امریکا سے حاصل کی۔ ایم فل کی تعلیم اینتھروپالوجی میں 2010ء میں قائد اعظم یونیورسٹی سے حاصل کی۔ 2019ء سے وہ لندن اسکول آف اکنامکس اور پویلیٹیکل سائنس سے پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

سیاسی سفر کا آغاز

ترمیم

عالیہ امیرعلی اوائل عمری سے ہی سیاسی جلسے جلوسوں میں شرکت کرتی رہی ہیں۔ ایک انٹرویو کے مطابق، پہلی مرتبہ انھوں نے 2001ء سے خانہ جنگی کے خلاف کوششوں میں حصہ لینا شورع کیا تھا جب امریکا نے افغانستان پہ حملہ کیا تھا۔ 2002ء سے 2006ء کے درمیان وہ تعلیم کے لیے ملک سے باہر چلی گئیں۔ ان کی واپسی اس دور میں ہوئی جب اوکاڑہ کے مزارعین کی مزاحمتی تحریک اپنے عروج پہ تھی۔ تبھی سے وہ مختلف تحریکوں جیسے کہ کچی آبادی اتحاد تحریک کا حصہ رہی ہیں جس کا مقصد کچی آبادیوں کی غیر قانونی جبری بے دخلیوں کو روکنا تھا۔[3][5]

خواتین کی سیاسی آرگنائزر

ترمیم

عالیہ امیرعلی نے خواتین، طلبہ، کسان اور کچی آبادی کی مکینوں کے ساتھ مل کر کام کیا تا کہ ان کو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے لیے منظم کر سکیں۔ انھوں نے خواتین کے سیات میں شمولیت لینے پر خاصی تگ و دو کی ہے۔[6][3]

وومین ڈیموکریٹک فرنٹ

ترمیم

عالیہ امیرعلی ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے وومین ڈیموکریٹک فرنٹ کی بنیاد رکھی جس کا مقصد پدرشاہی کی ناانصافیوں سے عورت کو نجات دلانا اور اسے اپنی آواز اٹھانا سکھانا ہے۔[7][8] [9]

طلبہ حقوق

ترمیم

عالیہ امیرعلی نے ایک لمبی مدت کے بعد طلبہ کے شعور کو بیدار کیا۔[10][11][12][13][14] 2008ء سے 2012ء تک وہ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن پنجاب کی جنرل سیکریٹری رہی ہیں۔ [15][16][17][18]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Working Class Power & Feminism: An Interview with Alia Amirali – New Politics"۔ Newpol۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اکتوبر 2019 
  2. London School of Economics and Political Science۔ "People"۔ London School of Economics and Political Science 
  3. ^ ا ب پ LSESU International Development Society۔ "LSESU International Development Society" 
  4. "Alia Amirali: Change Agent in a Stuck Society"۔ Open Source with Christopher Lydon۔ Radio open sourcE۔ 17 August 2011۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اکتوبر 2019 
  5. "Working Class Power & Feminism: An Interview with Alia Amirali – New Politics"۔ New politics۔ new pol۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اکتوبر 2019 
  6. London School of Economics and Political Science۔ "People"۔ London School of Economics and Political Science 
  7. "Leadership"۔ Women Democratic Front۔ 11 اکتوبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اکتوبر 2019 
  8. "Women's Democratic Front launched to build a vibrant, socialist and a feminist movement"۔ Daily Times۔ Daily times۔ 9 March 2018۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اکتوبر 2019 
  9. "Working Class Power & Feminism: An Interview with Alia Amirali | VOICES | Tanqeed"۔ www.tanqeed.org۔ tanqeed org۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اکتوبر 2019 [مردہ ربط]
  10. ""Students Movement leaders remembered: Revival of student activism termed must for reshaping society" – PPI report"۔ Dr M. Sarwar (1930-2009) (بزبان انگریزی)۔ 16 January 2010 
  11. "Activists march for students rights, secularisation of curriculum | The High Asia Herald"۔ April 14, 2019۔ 04 مارچ 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 نومبر 2020 
  12. "Alia Amirali: Change agent in a stuck society «"۔ August 16, 2011 
  13. "Alia Amirali: Change Agent in a Stuck Society"۔ Open Source with Christopher Lydon۔ 17 August 2011 
  14. "Rethinking Pakistan's Political Economy"۔ www.aku.edu 
  15. Meena Menon (4 February 2014)۔ "A debating group in search of politics"۔ The Hindu (بزبان انگریزی) 
  16. "Attabad Lake: Protesters demand release of political activists"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 4 January 2012 
  17. "Labour Day rally: Workers vow to revive labour movement"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 1 May 2014 
  18. Dawn Report (18 March 2015)۔ "Protesters condemn attack on churches, lynching of two men"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)