ریاست ہائے متحدہ
ریاستہائے متحدہ امریکا (انگریزی:United States of America؛تلفظ: یُونَائٹِڈ سَٹَےْٹَز اَوو اَمَیرِکَا) شمالی امریکا میں واقع ایک ملک ہے۔ اسے عرف عام میں صرف ریاست ہائے متحدہ(انگریزی: United States؛ یونائیٹڈ سٹیٹس) بھی کہتے ہیں، جبکہ امریکا (انگریزی: America؛ امیریکا) کا لفظ بھی زیادہ تر اسی ملک سے موسوم کیا جاتا ہے، جو بعض ماہرین کے مطابق تکنیکی لحاظ سے غلط ہے۔
ریاستہائے متحدہامریکا | |
---|---|
'شعار: | |
ترانہ: | |
' | |
دار الحکومت | واشنگٹن ڈی سی 38°53′N 77°01′W / 38.883°N 77.017°W |
سرکاری زبانیں | وفاقی حکومت میں کوئی نہیں [ب] |
انگریزی زبان[پ] | |
نسلی گروہ (2017)[6] | نسلی لحاظ سے: 76.6% امریکی گورے 13.4% افریقی-امریکی 5.8% ایشیائی 2.7% دیگر/بین النسلی 1.3% مقامی امریکی 0.2% باشندگانِ جزائرِ بحر الکاہل نسلی گروہ: 18.1% ہسپانوی اور لاطینی 81.9% غیر ہسپانوی اور لاطینی |
مذہب (2016)[7] | 73.7% مسیحیت 18.2% لامذہبیت 2.1% یہودیت 0.8% اسلام 2.5% دیگر 2.6% نامعلوم |
آبادی کا نام | امریکی |
حکومت | وفاقی صدارتی جمہوریہ |
جو بائیڈن | |
کامالا ہارس | |
نینسی پلوسی | |
• چیف جسٹس | جان رابرٹ |
مقننہ | امریکی کانگرس |
ریاستہائے متحدہ سینٹ | |
ریاستہائے متحدہ ایوان نمائندگان | |
آزادی | |
رقبہ | |
• کل رقبہ | 3,796,742 مربع میل (9,833,520 کلومیٹر2)[8] (3rd/4th) |
• پانی (%) | 6.97 |
• کل زمینی رقبہ | 3,531,905 مربع میل (9,147,590 کلومیٹر2) |
آبادی | |
• 2018 تخمینہ | 327,167,434[9] (3rd) |
• 2010 مردم شماری | 308,745,538[10] (3rd) |
• کثافت | 85/مربع میل (32.8/کلو میٹر2) (179واں) |
جی ڈی پی (پی پی پی) | 2018 تخمینہ |
• کل | $20.513 trillion[11] (2سرا) |
• فی کس | $62,518[11] (11واں) |
جی ڈی پی (برائے نام) | 2018 تخمینہ |
• کل | $20.513 trillion[11] (1ول) |
• فی کس | $62,518[11] (7واں) |
جینی (2016) | 39.1[12] میڈیم |
ایچ ڈی آئی (2017) | 0.924[13] ویری ہائی · 13واں |
کرنسی | امریکی ڈالر ($) (USD) |
منطقۂ وقت | یو ٹی سی−4 to −12, +10, +11 |
• گرمائی (ڈی ایس ٹی) | یو ٹی سی−4 to −10[ت] |
تاریخ فارمیٹ | mm/dd/yyyy |
ڈرائیونگ سائیڈ | right[ٹ] |
کالنگ کوڈ | +1 |
آیزو 3166 کوڈ | US |
انٹرنیٹ ایل ٹی ڈی | ریاست ہائے متحدہ امریکا |
ریاستہائے متحدہ شمالی امریکا کا دوسرا اور دنیا کا تیسرا (یا چوتھا) بڑا ملک ہے۔ اس کے شمال میں کینیڈا، جنوب میں میکسیکو، مشرق میں بحر اوقیانوس اور مغرب میں بحر الکاہل واقع ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ ایک وفاقی آئینی ریاست ہے اور اس کا دار الحکومت واشنگٹن ڈی سی ہے۔ 37 لاکھ مربع میل یعنی 96 لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا یہ ملک دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے، جس میں کل تینتیس کروڑ سے زائد لوگ آباد ہیں۔
امریکا، ایک ایسا ملک ہے جو بنیادی طور پر شمالی امریکا میں واقع ہے اور 50 ریاستوں، ایک وفاقی ضلع، پانچ بڑے غیر مربوط علاقے اور نو معمولی بیرونی جزائر پر مشتمل ہے۔[i] اس میں 326 انڈینز کے لیے مخصوص علاقے بھی شامل ہیں۔ یہ زمینی اور کل رقبے دونوں کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ j] 333] ملین سے زیادہ آبادی کے ساتھ، [k] یہ امریکا کا سب سے زیادہ آبادی والا اور دنیا کا تیسرا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ ریاستہائے متحدہ کا قومی دار الحکومت واشنگٹن، ڈی سی ہے اور اس کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر اور مرکزی مالیاتی مرکز نیویارک شہر ہے۔
مقامی لوگ ہزاروں سالوں سے امریکا میں آباد ہیں۔ سنہ 1607ء میں شروع ہونے والی، برطانوی نوآبادیات سے تیرہ کالونیوں کا قیام عمل میں آیا جو اب مشرقی ریاستہائے متحدہ کا حصہ ہیں۔ ٹیکس لگانے اور سیاسی نمائندگی پر ان کا تاج برطانیہ کے ساتھ جھگڑا شروع ہوا، جس کی وجہ سے امریکی انقلاب اور اس کے نتیجے میں ہونے والی آزادی کی جنگ لڑی گئی۔ ریاستہائے متحدہ نے 4 جولائی 1776 کو آزادی کا اعلان کر دیا اس طرح وہ پہلی قومی ریاست بن گئی جس کی بنیاد روشن خیالی کے اصولوں پر غیر منقطع فطری حقوق، حکومت کی رضامندی اور لبرل جمہوریت پر رکھی گئی۔ ملک نے سنہ 1848ء تک پورے براعظم شمالی امریکا میں پھیلنا شروع کیا۔ غلامی پر طبقاتی تقسیم کی وجہ سے کنفیڈریٹ ریاستوں کی علیحدگی ہوئی، جس نے امریکی خانہ جنگی (1861-1865) کے دوران یونین کی باقی ریاستوں سے جنگ کی۔ یونین کی فتح اور تحفظ کے ساتھ، قومی سطح پر غلامی کا خاتمہ کر دیا گیا۔ سن 1900 تک، ریاستہائے متحدہ خود کو ایک عظیم طاقت کے طور پر قائم کر چکا تھا اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن گیا تھا۔ سنہ 1941ء میں پرل ہاربر پر جاپان کے حملے کے بعد، امریکا اتحادیوں کی جانب سے دوسری جنگ عظیم میں داخل ہوا۔ جنگ کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکا اور سوویت یونین دنیا کی دو سپر پاورز بن کر ابھریں اور سرد جنگ کی شروعات ہو گئی، جس کے دوران دونوں ممالک نظریاتی غلبہ اور بین الاقوامی اثر و رسوخ کے لیے جدوجہد میں مصروف رہے لیکن براہ راست فوجی تصادم سے گریز کیا۔ انھوں نے خلائی دوڑ میں بھی حصہ لیا، جس کا اختتام سنہ 1969ء میں اپالو 11 کی چاند پر لینڈنگ پر ہوا، جس نے ریاستہائے متحدہ امریکا کو انسانوں کو چاند پر اتارنے والی واحد ملک بنا دیا۔ سنہ 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام اور اس کے نتیجے میں سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ، امریکا دنیا کی واحد سپر پاور کے طور پر ابھرا۔
ریاستہائے متحدہ کی حکومت ایک وفاقی صدارتی آئینی جمہوریہ اور لبرل جمہوریت ہے جس میں حکومت کی تین الگ الگ شاخیں ہیں: انتظامیہ، قانون ساز اور عدالتی۔ اس میں دو ایوانوں والی قومی مقننہ ہے جو ایوان نمائندگان پر مشتمل ہے، آبادی کی بنیاد پر ایوان زیریں ہے۔ اور سینیٹ، ایک ایوان بالا ہی جو ہر ریاست کی مساوی نمائندگی پر مبنی ہے۔ بہت سے پالیسی مسائل کو دائرہ اختیار کے لحاظ سے وسیع پیمانے پر ریاستی یا مقامی سطح پر شکل دی جاتی ہے جو مختلف وفاقی قوانین اور آئین سے متصادم نہیں ہوتے ہیں۔ اس میں زیادہ تر دیگر لبرل جمہوریتوں کے مقابلے میں قیود اور عدم مساوات کی اعلیٰ سطح ہے اور یہ واحد لبرل جمہوریت ہے جس میں عالمی سطح کی صحت کی دیکھ بھال نہیں ہے۔ ثقافتوں اور نسلوں کے پگھلنے والے برتن کے طور پر، امریکا کو دنیا کی سب سے بڑی تارکین وطن آبادی نے بڑی حد تک شکل دی ہے۔
انتہائی ترقی یافتہ، امریکا کے پاس فی کس سب سے زیادہ قابل استعمال آمدنی ہے اور اب تک کسی بھی ملک کی دولت کی سب سے بڑی رقم ہے۔ امریکی معیشت عالمی GDP کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ رکھتی ہے اور عمومی GDP کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ امریکا دنیا کا سب سے بڑا درآمد کنندہ اور دوسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ، نیز سب سے بڑی صارف منڈی ہے۔ یہ اقوام متحدہ، عالمی بینک، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، امریکی ریاستوں کی تنظیم، نیٹو اور ڈبلیو ایچ او کا بانی رکن ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے۔ یہ دنیا کی سب سے اہم سیاسی، ثقافتی، اقتصادی، فوجی اور سائنسی طاقت کے طور پر کافی عالمی اثر و رسوخ رکھتا ہے۔
دنیا میں امریکا کا فوجی، معاشی، ثقافتی اور سیاسی اثر و رسوخ انیسویں اور بیسویں صدی میں بڑھا ہے۔ روس کے زوال کے بعد جب سرد جنگ ختم ہوئی تو امریکا دنیا کی واحد عالمی طاقت کے طور پر ظاہر ہوا۔
نام
ترمیمریاست ہائے متحدہ امریکا کے عام ناموں میں یونائیٹڈ سٹیٹس، یو ایس، یو ایس اے، دی یو ایس اے، دی یو ایس آف اے، دی سٹیٹس اور امریکا شامل ہیں۔ امریکا نام کا پہلا استعمال 1507ء میں ہوا جب ایک جرمن نقشہ ساز نے گلوب بنا کر جنوبی اور شمالی امریکی براعظموں کو ظاہر کرنے کے لیے لفظ امریکا چنا۔
امریکاؤں کو کولمبس کے حوالے سے کولمبیا کے نام سے بھی جانا جاتا تھا اور بیسویں صدی کے شروع تک امریکا کے دار الحکومت کو کولمبیا بھی کہتے تھے۔ بعد ازاں اس کے استعمال کو ختم کیا گیا، لیکن ابھی بھی سیاسی طور پر کولمبیا کا نام استعمال ہوتا ہے۔ کولمبس ڈے امریکا اور دیگر ممالک میں عام تعطیل ہوتی ہے جو کولمبس کے 1492ء میں امریکی سرزمین پر اترنے کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔
ریاست ہائے متحدہ امریکا کو سب سے پہلے 4 جولائی 1776ء میں سرکاری طور پر اعلان آزادی میں استعمال کیا گیا۔ 15 نومبر 1777 کو دوسری براعظمی کانفرنس نے کنفیڈریشن کے آرٹیکل کو قبول کیا جس میں لکھا "The Stile of this Confederacy shall be 'The United States of America'" تھا۔ اس نام کو درحقیقت تھامس پائن نے تجویز کیا تھا۔
امریکی باشندوں کے لیے امریکی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے چاہے وہ شمالی امریکا سے ہوں یاجنوبی امریکا سے۔
جغرافیہ
ترمیمعام درخت اور گھاس کے میدان مشرق کی طرف پائے جاتے ہیں جو بتدریج میدانوں میں بدل جاتے ہیں، کونیفریس جنگلات اور راکی پہاڑ مغرب کی طرف ہیں اور جنوب مغرب میں صحرا ہیں۔ شمال مشرق میں عظیم جھیلیں اور بحرِ الکاہل کے ساحلوں پر ملک کی زیادہ تر آبادی رہتی ہے۔
کل رقبے کے لحاظ سے امریکا کو دنیا کا تیسرا بڑا ملک مانا جاتا ہے اور انفرادی رقبے کے لحاظ سے بھی روس اور کینیڈا کے بعد اس کا تیسرا نمبر ہے۔ اس کا زیادہ تر حصہ مشرق میں بحر اوقیانوس سے جڑا ہے اور مغرب میں شمالی بحرالکاہل موجود ہے، میکسیکو اور خلیج میکسیکو جنوب میں ہیں اور کینیڈا شمال میں ہے۔ الاسکا کی سرحدیں بھی کینیڈا سے ملتی ہیں اور بحرالکاہل اس کے جنوب میں ہے اور بحر شمالی اس کے شمال میں ہے۔ الاسکا کے مغرب میں بیرنگ سٹریٹ یعنی بیرنگ نامی تنگ سی سمندری پٹی کے پار روس موجود ہے۔ ہوائی کی ریاست بحر الکاہل میں جزائر کی پٹی کی صورت میں موجود ہے جو براعظم شمالی امریکا سے جنوب مغرب کی طرف ہے۔
سرزمین
ترمیمامریکی سرزمین خصوصاً مغرب میں بہت زیادہ فرق پائی جاتی ہے۔ شمالی ساحل پر ساحلی میدان پائے جاتے ہیں جو جنوب میں وسیع اور شمال میں تنگ ہوتے جاتے ہیں۔ ساحلی پٹی نیو جرسی کے شمال میں ختم ہو جاتی ہے۔ بالکل جنوب مشرق میں فلوریڈا ہے جو دلدلی میدانوں کی سرزمین ہے۔
ساحلی میدانوں سے ہٹ کر پیڈا ماؤنٹ کا علاقہ آتا ہے جو اپالانچیان پہاڑوں میں ختم ہوتا ہے جو شمالی کیرولائنا، ٹینیسی اور نیو ہمپشائر میں 6000 فٹ تک بلند ہیں۔ اپا لانچیز کی مغربی ڈھلوانوں پر میدان نسبتا ہموار ہیں اور گریٹ لیک اور مسی سیپی دریا جو دنیا کا چوتھا بڑا دریا ہے، موجود ہیں۔ دریائے مسی سیپی کے مغرب میں بنجر پہاڑ ہیں۔
گریٹ پلینز کے مغربی کنارے سے پتھریلے پہاڑوں کا سلسلہ اچانک بلند ہوتا ہے اور شمال سے جنوب کی طرف پورے امریکا میں پھیل جاتا ہے اور اس کی بلندی کولوراڈو میں 14000 فٹ یعنی 4270 میٹر ہے۔ ماضی میں راکی پہاڑ اپنی آتش فشانی سرگرمیوں کی وجہ سے مشہور تھے لیکن آج صرف ایک علاقہ ایسا ہے جو آتش فشانی کے حوالے سے سرگرم ہے۔ یہ علاقہ ییلو سٹون پارک، وادی وایومنگ میں ہے اور اسے سپر والکانو کہتے ہیں۔
الاسکا میں بھی بہت سارے پہاڑی سلسلے موجود ہیں جن میں میک کینلی پہاڑ شمالی امریکا کا سب سے بلند پہاڑ ہے۔ الاسکا کے پورے علاقے میں آتش فشاں پائے جاتے ہیں۔
ہوائی کے جزائر منطقہ حارہ کے آتش فشانی جزائر ہیں جو 1500 میل یعنی 2400 کلومیٹر سے زیادہ جگہ پر پھیلے ہوئے ہیں اور اس میں چھ بڑے اور درجن بھر چھوٹے جزائر بھی شامل ہیں
موسم
ترمیماپنے بڑے اور وسیع رقبے کی وجہ سے ریاست ہائے متحدہ میں دنیا کے ہر خطے کا موسم پایا جاتا ہے۔ زیادہ تر علاقے معتدل ہیں، ہوائی اور جنوبی فلوریڈا میں موسم منطقہ حارہ جیسا ہے، الاسکا میں قطبی، گریٹ پلینز میں نیم بارانی ہے، کیلیفورنیا کے ساحل پر بحیرہ روم کے ممالک جیسا اور گریٹ بیسن میں خشک ہے۔ اس ملک کے نسبتا فیاضانہ موسم نے اسے ورلڈ پاور بننے میں اہم کردار ادا کیا ہے کیونکہ اس کے زیادہ تر زرعی علاقے میں خشک سالی کم کم ہوتی ہے، سیلاب محدود علاقے تک رہتا ہے اور زیادہ تر معتدل موسم ہے جہاں مناسب حد تک بارش بھی ہوتی ہے۔
تاريخ
ترمیمپانچ صدیاں قبل تک ساری مشرقی دنیا یعنی براعظم یورپ، افریقا اور ایشیا مغربی نصف کرہ کے ممالک امریکا، کینیڈا اور دیگر ممالک کے وجود سے بالکل بے خبر تھی۔ پندرہویں صدی کے اواخر میں یورپی مہم جوئی کا آغاز ہوا تو یکے بعد دیگرے مختلف ممالک اور خطے دریافت ہوتے چلے گئے۔
12 اکتوبر 1492ء کو کولمبس امریکا کے مشرقی ساحل کے قریب بہاماز پہنچا۔ یہ مقام امریکا کے جنوب مشرقی ساحل پر فلوریڈا کے قریب واقع ہے۔ امریکا کی سرزمین پر کسی یورپی کا یہ پہلا قدم تھا۔ پھر یکے بعد دیگرے مختلف مقامات کی دریافت کا سلسلہ چل پڑا۔ 1524ء میں فرانسیسی مہم جو ”جیووانی ویرازانو“ (Giovanni Verra Zano) ایک مہم لے کر کیرولینا سے شمال کی طرف بڑھتا ہوا نیویارک میں داخل ہوا۔ 1579ء میں فرانسسزڈریک (Francies Drake) مغربی ساحل پر سان فرانسیسکو کی خلیج میں داخل ہوا اور ایک برطانوی نوآبادی کی بنیاد رکھی۔ 1607ءء میں کیپٹن جان سمتھ تین جہازوں میں 105 سپاہی لے کر ورجینیا کے ساحل پر اترا اور جیمز ٹائون کے نام سے پہلی برطانوی نوآبادی قائم کی۔ 1624ء میں البانی اور نیویارک کے علاقوں میں ولندیزی نوآبادیاں ”نیو نیدرلینڈز“ کے نام سے قائم ہوئیں۔
اس طرح مختلف یورپی ممالک کی نوآبادیاں بنتی چلی گئیں۔ ان نو آبادیوں میں آپس میں چپقلش اور بعض اوقات جنگ و جدل تک نوبت پہنچتی رہی۔ اس کے ساتھ ہی برطانوی حکومت نے اپنی نوآبادیوں سے واقعتا نوآبادیاتی سلوک شروع کر دیا۔ ان کا استحصال کرنے کے لیے آئے دن نت نئے ٹیکس عائد ہونے لگے۔ جس کی وجہ سے ان میں بے چینی اور بغاوت کے آثار پیدا ہونے لگے، جو آخرکار تحریک آزادی کی شکل اختیار کر گئے۔ ہم یہاں مختصر طور پر چند مثالیں پیش کر کے اپنی بات کو واضح کریں گے۔
- یکم دسمبر 1660ء کو برطانوی پارلیمان نے جہازرانی کا قانون (Navigation Act) پاس کیا، جس میں نوآبادیات کے ساتھ تجارت کو اپنے مفادات کے مطابق ضابطوں کا پابند بنایا گیا۔ 8 ستمبر 1664ء کو برطانوی فوجی دستوں نے نیو نیدرلینڈز پر قبضہ کر لیا۔ 1676ء میں نیتھانیل بیکن (Nathaneil Bacon) نے برطانوی آمریت کے خلاف کسانوں کی بغاوت کی قیادت کی۔ بیکن کا انتقال ہو گیا اور بغاوت ناکام ہو گئی۔ بیکن کے 23 ساتھیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
- 6 اپریل 1712ء کو نیویارک میں غلاموں نے بغاوت کر دی۔ باغیوں میں سے 21 قتل کر دیے گئے، 6 نے خودکشی کر لی، 71 کو ملک بدر کر دیا گیا۔
- 1764ء میں برطانوی حکومت نے شوگر ایکٹ (Sugar Act) نافذ کرکے نوآبادیات میں مختلف خوردنی اشیاء پر ٹیکس لگا دیا۔
- 1765ء میں برطانوی پارلیمینٹ نے اپنی افواج کے اخراجات پورے کرنے کے لیے سٹمپ ایکٹ (Stamp Act) پاس کیا۔ اسی سال 7 اکتوبر کو نوآبادیوں نے نیویارک میں ایک کانگریس بلا کر عوامی حقوق کا اعلامیہ (Declaration of rights) جاری کیا۔
- 1767ء میں چائے اور دیگر کئی اشیاء پر ٹیکس لگا دیا گیا۔
- 1770ء میں برطانوی دستوں نے بوسٹن میں مظاہرہ کرنے والے ایک ہجوم پر گولی چلا دی، پانچ آدمی ہلاک ہوئے۔ جن میں مظاہرین کا لیڈر بھی شامل تھا۔ یہ واقعہ بوسٹن کا قتل عام (Boston massacre) کہلایا۔ مئی 1773ء میں بوسٹن، نیویارک اور فلاڈلفیا میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے چائے کے جہاز واپس کر دیے گئے۔ چائے پر لگائے جانے والے ٹیکس کے خلاف 4 اکتوبر کو چائے کے ایک جہاز کو آگ لگا دی گئی اور 16 دسمبر کو بوسٹن میں چائے کا سٹاک جہازوں سے سمندر میں پھینک دیا گیا۔ یہ واقعہ بوسٹن ٹی پارٹی (Boston tea party) کہلایا۔
- 5 ستمبر 1774ء کو فلاڈلفیا میں پہلی براعظمی کانگریس (First continental congress) منعقد ہوئی جس میں برطانوی حکومت کے خلاف (Civil disobedience) شہری عدم تعاون کی قرارداد منظور ہوئی۔
- 23 مارچ 1775ء کو ورجینیا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے پیٹرک ہنری (Patrick Henry) نے یہ تاریخی الفاظ کہے۔
Give me Liberty or give me Death
”مجھے آزادی دو یا موت دے دو“
- 1776ء میں 7 جون کو براعظمی کانگریس میں رچرڈ ہنری لی نے قرارداد پیش کی کہ ” ان متحدہ نوآبادیات کو آزاد اور خود مختار رہنے کا حق حاصل ہے۔“
- 2 جولائی کو یہ قرارداد منظور ہوئی اور 4 جولائی کو اعلان خود مختاری (Declaration of Independence) پر دستخط ہو گئے۔
مارچ 1782ء میں برطانوی کابینہ نے امریکا کی خود مختاری کو تسلیم کر لیا۔ 1789ء میں جارج واشنگٹن امریکا کے صدر منتخب ہو گئے اور 1796ء میں وہ اس عہدے سے ریٹائر ہو گئے۔ جارج واشنگٹن امریکا کے عظیم رہنما تھے ان کے بارے میں First in war, first in peace, first in the hearts of his countrymen یعنی ”جنگ میں بھی ادّل امن میں بھی اوّل اور اپنے ہم وطنوں کے دلوں میں بھی اول کا مقولہ بہت مشہور ہے۔ واشنگٹن نے عہدہ صدارت سے سبکدوش ہوتے وقت اپنی قوم کو خبردار کیا تھا کہ ”کسی غیر ملکی حکومت سے کبھی کوئی مستقل الائنس (اتحاد) نہ بنانا۔
اب ہم 4 جولائی کے اعلان آزادی پر واپس آتے ہیں اور تاریخ کے اوراق میں سے اس اعلان آزادی پر دستخط کرنے والے وطن پرستوں پر برطانوی افواج کے ہاتھوں روا رکھے جانے والے انسانیت سوز وحشیانہ مظالم کا کھوج لگاتے ہیں۔ یہ نہایت دلدوز کہانی ہے اور دنیا بھر کے حریت پسندوں کے لیے سبق آموز ہے۔
ان عظیم لوگوں کی کل تعداد 56 تھی جنھوں نے اعلان پر دستخط کیے۔ یہ نہایت آسودہ حال اور خوش حال لوگ تھے۔ ان میں سے 14 قانون دان تھے، 13 کا تعلق عدلیہ سے تھا یعنی جج تھے، 11 تاجر تھے، 12 زمیندار اور جنگلات کے مالک تھے ایک پادری اور تین ڈاکٹر تھے۔ دو کا تعلق دیگر معزز پیشوں سے تھا۔ ان سب انقلابیوں نے اعلان آزادی پر یہ جانتے ہوئے بھی دستخط کیے کہ اس کی سزا انھیں گرفتاری اور موت کی شکل میں ملے گی۔
- ان میں 5 دستخط کنندگان کو برطانوی قابض افواج نے گرفتار کر کے غداری کے الزام میں اتنے ظالمانہ تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
- بارہ انقلابیوں کے گھر تباہ و برباد کر کے نذر آتش کر دیے گئے۔
- دو انقلابیوں کے بیٹے جو انقلابی عسکری دستوں میں کام کر رہے تھے جان سے مار دیے گئے۔
- ایک اور انقلابی کے دو بیٹے گرفتار کر کے غائب کر دیے گئے۔
- 56 انقلابیوں میں سے 9 عسکری جدوجہد میں شریک رہے اور انقلاب کی اذیت ناک تکالیف اور زخموں سے ہلاک ہو گئے۔
- ورجینیا کے ایک خوش حال اور مالدار تاجر نے دیکھا کہ اس کے تجارتی جہاز سمندروں میں سے برطانوی بحریہ قبضہ کر کے لے گئی ہے۔ اس نے اپنا گھر اور اپنی بقیہ جائداد بیچ کر اپنے قرضے ادا کیے اور انتہائی مفلسی کی موت قبول کی۔
- ایک اور انقلابی تھامس میک کین (Mckean) کا برطانوی فوج نے اس قدر پیچھا کیا کہ اسے بار بار اپنی سکونت تبدیل کرنی پڑی اور اپنے خاندان کو ادھر ادھر منتقل کرنا پڑا۔ وہ کانگریس میں بغیر تنخواہ کام کرتا رہا۔ اس کی فیملی مسلسل روپوشی کے عالم میں رہی۔ اس کا سارا اسباب خانہ لوٹ لیا گیا۔ اور اس کو بقیہ عمر ناداری کے عالم میں گزارنی پڑی
- برطانوی فوج کے سپاہیوں اور لٹیرے رضاکاروں نے ولیم ایلری (Welliam Ellery) لائمن ہال (Lyman Hall) جارج کلائمر (George Clymer) جارج والٹن (George Walton) بٹن گوئینٹ (Button Gwinnet)تھامس ہیورڈ جونیئر (Thomas Heyward Jr.) ایڈورڈ رٹلیج (Edward Rutledge) اور آرتھر مڈلٹن (Arthur Middleton) کی تمام جائیدادیں لوٹ کر تباہ و برباد کر دیں۔
- یارک ٹائون کے معرکہ میں تھامس نیلسن (Thomas Nelson) نے نوٹ کیا کہ برطانوی جنرل کارنوالس نے نیلسن کے گھر پر قبضہ کر کے اسے اپنا ہیڈکوارٹر بنا لیا ہے۔ اس نے خاموشی سے انقلاب کے جنرل واشنگٹن کو مشورہ دیا کہ اس کا گھر گولہ باری سے اڑا دیا جائے۔ گھر تباہ ہو گیا اور نیلسن قلاش ہو کر مرا۔
- فرانسیس لیوس (Fracis Lewis) کا گھر تباہ کر دیا گیا اور اس کی بیوی کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ جہاں وہ چند ماہ بعد خالق حقیقی سے جا ملی۔
- جان ہارٹ (John Hart) کو اس کی بیوی کے بستر مرگ سے جدا کر دیا گیا۔ اس کے 13 بچے اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگ گئے۔ جان ہارٹ کے کھیت اور اس کی آٹا پیسنے کی مل تباہ و برباد کر دی گئی۔ ایک سال تک وہ جنگلوں اور غاروں میں چھپا پھرتا رہا اور جب وہ گھر واپس آیا تو اس کی بیوی مرچکی تھی اور بچے نہ معلوم کہاں چلے گئے تھے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد وہ خود بھی نہایت دل شکستگی کے عالم میں فوت ہو گیا۔
- رابرٹ مورس (Robert Moriss) اور فلپ لیونگ سٹون (Philip Levingstone) کو بھی اسی نوع کے حالات سے گذرنا پڑا۔
- 22 ستمبر 1776ء کو برطانوی افواج نے تحریک آزادی کے ایک رہنما ناتھن ھیل (Nathan Hale)کو جاسوسی کے الزام میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مرنے سے پہلے اس کی زبان سے یہ تاریخی الفاظ ادا ہوئے:”مجھے افسوس ہے کہ وطن کو دینے کے لیے میرے پاس صرف ایک زندگی ہے۔“
اسی طرح کی قربانیوں سے امریکی انقلاب کے سبھی رہنماؤں کو گذرنا پڑا۔ یہ سب لوگ خوش حال اور تعلیم یافتہ لوگ تھے۔ جرائم پیشہ، فسادی یا تخریب کار قسم کے لوگ نہیں تھے۔ یہ سب حکومت برطانیہ کے رعایا تھے اور اسی نسل سے تعلق رکھتے تھے جس سے حکمرانوں کا تعلق تھا۔ امریکا کے سبھی نوآبادکار لوگ انگلینڈ، سکاٹ لینڈ، آئرلینڈ، ویلز اور یورپ کے مختلف ممالک سے آئے تھے۔ ان کا مذہب بھی وہی تھا جو حکمرانوں کا تھا۔ یہ سب حضرت مسیح کے ماننے والے رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ تھے۔ اگر یہ خاموش بیٹھے رہتے تو انھیں حکومت میں بڑے بڑے عہدے مل سکتے تھے اور یہ نہایت پرآسائش زندگی گزار سکتے تھے۔ لیکن ان عظیم انقلابی لوگوں نے امریکی عوام کو برطانوی سامراج کی لعنت سے نجات دلانے کے لیے 4 جولائی 1776ء کو ملک کے کونے کونے سے فلاڈلفیا کے مقام پر جمع ہو کر کانگریس کے آئینی کنونشن میں شامل ہوکر اعلان خود مختاری پر دستخط کیے۔ انھوں نے اپنے آرام و آسائش پر آزادی کو ترجیح دی اور یہ عہد کیا کہ
”اس اعلان آزادی و خود مختاری کی تائید کے لیے پروردگار عالم کی قوت حاکمہ کی حفاظت اور مدد پر پورا بھروسا کرتے ہوئے ہم آپس میں یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنے حصول مقصد کے لیے اپنی جانوں، اپنی جائیدادوں اور اپنی عزت و ناموس کے ساتھ اس کا تحفظ اور اس کی تائید کریں گے۔“
اس عزم و استقلال کے نتیجے میں انقلابی قیادت کو جن مشکلات اور مصائب کا مقابلہ کرنا پڑا ان کا مختصر بیان اوپر کی سطور میں آ چکا ہے۔ لیکن ان انقلابی قائدین کے سامنے واضح منزل تھی۔ اپنے ملک کی آزادی و خود مختاری۔ وہ اس منزل کی طرف ثابت قدمی سے بڑھتے رہے اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اعلان خود مختاری کے 225 سال بعد ترقی و تعمیر کی تمام منزلیں طے کر کے امریکا دنیا کی سپر طاقت بن چکا ہے اور تاج برطانیہ کے کیے گئے مظالم کا بدلہ بے گناہ مسلمانوں سے لے رہا ہے۔
اصلی امریکی
ترمیمیورپی نوآبادیوں کی ابتدا سے قبل امریکا میں مختلف مقامی قبائل آباد تھے جن میں الاسکا کے انوئیت اور میٹس قبائل بھی تھے جو 35000 سال سے لے کر 11000 سال قبل تک یہاں آباد ہوتے رہے۔
یورپی نوآبادیاں
ترمیمآج تک سب سے پہلا بندہ جس نے امریکا کی سرزمین پر باہر سے آکر قدم رکھا، وہ کرسٹوفر کولمبس ہے جس نے 19 نومبر 1493 کو ریو ڈی جنیریو میں اپنے دوسرے بحری سفر کے دوران میں سفر کیا تھا۔ سان جوان جو امریکا کی سرزمین پر پہلی یورپی نوآبادی تھی، 8 اگست 1508 میں جوان پونسی ڈی لائن نے قائم کی۔ جوان پونسی ڈی لائن تاریخ کا پہلا یورپی بندہ بنا جس نے براعظم امریکا میں فلوریڈا کے ساحل پر 2 اپریل 1513 کو پہلا قدم رکھا۔ فلوریڈا ابتدائی یورپی نوآبادیوں کا مرکز بنی جن میں پنساکولا، فورٹ کیرولائن اور سینٹ آگسٹائن شامل ہیں۔ سینٹ آگسٹائن وہ واحد نو آبادی ہے جو اپنے قیام سے لے کر اب تک مسلسل آباد رہی ہے۔
فرانسیسیوں نے ملک کا شمال مشرقی حصہ، ہسپانیوں نے جنوبی اور مغربی حصہ آباد کاری کے لیے چنا۔ پہلی کامیاب انگریزی آبادکاری جیمز ٹاؤن، ورجینیا میں 1607ء میں قائم ہوئی۔ اس کے فورا بعد 1620ء میں پلے ماؤتھ، میسا چوسٹس میں بھی آباد کاری ہوئی۔ 1609ء اور 1617ء میں ولندیزی آبادکار موجودہ نیو یارک اور نیو جرسی کے علاقوں میں آباد ہوئے۔ 17ویں اور 18ویں صدی کے اوائل میں انگلینڈ (جو بعد ازاں عظیم برطانیہ بنا) نے ولندیزی کالونیوں پر قبضہ کرکے یا تو انھیں ختم کرکے یا تقسیم کرکے نئی نوآبادیاں بنائیں۔ 1729ء میں کیرولینا کی تقسیم کے بعد اور 1732ء میں جارجیا کی آبادکاری کے بعد برطانوی کالونیاں شمالی امریکا (موجودہ کینیڈا کے علاوہ) تک پھیل گئیں اور مشرقی اور مغربی فلوریڈا کی شاہی کالونیوں کو تیرھواں نمبر دیا گیا۔ بیشتر اصلی امریکی مار دیے گئے یا پھر دوسرے علاقوں کو چلے گئے۔
امریکی انقلاب اور ابتدائی جمہوریہ
ترمیم1760ء سے 1770ء کے دوران میں امریکی نو آبادیوں اور برطاونی راج کے درمیان میں جاری کشیدگی نے 1775ء کی کھلی لڑائی کا روپ دھار لیا۔ جارج واشنگٹن نے جنگ انقلاب کے دوران میں کانٹی نینٹل فوج کی سربراہی کی کیونکہ دوسری کانٹینینٹل کانگریس نے 4 جولائی 1776 کو آزادی کے اعلان کو قبول کر لیا تھا۔ کانگریس کا قیام اس لیے عمل میں آیا تھا تاکہ برطانوی اقدام کی مخالفت کی جاسکے لیکن اس کانگریس کو ٹیکسوں کے نفاذ کا اختیار حاصل نہیں تھا۔ 1777ء میں کانگریس نے آرٹیکل آف کنفیڈریشن کو تسلیم کیا جس کے تحت تمام ریاستیں ایک لچکدار وفاقی حکومت کے تحت اکٹھی ہو گئیں۔ یہ آرٹیکل 1781ء سے لے کر 1788ء تک نافذ العمل رہا۔ قومی حکومت کی کمزوری کی وجہ سے 1787ء کا آئین بنانا پڑا۔ جون 1788ء میں اکثر ریاستوں نے نئی حکومت کے قیام کے لیے ریاست ہائے متحدہ کو قبول کر لیا۔ آئین کے باعث اس اتحاد کو مضبوطی ملی اور وفاقی حکومت کو یہاں کی سب سے بڑی حکومت اور مقننہ تسلیم کر لیا گیا۔
مغربی توسیع
ترمیم1803ء سے 1848ء تک اس نئی قوم کے حجم میں تین گنا اضافہ ہوا کیونکہ آباد کاروں کو مغربی سرحدوں سے باہر دھکیل دیا گیا۔ 1812ء کی جنگ[14] کی وجہ سے توسیع کچھ متاثر ہوئی لیکن امریکا-میکسیکو جنگ کے بعد 1848ء میں یہ اور زیادہ تیز ہوئی۔
1830ء سے 1880ء تک چار کروڑ امریکی بھینسوں کو کھال اور گوشت کے لیے اور ریلوے کی توسیع کے لیے قتل کیا گیا۔ ریلوے کے توسیع سے لوگوں اور اشیا کی نقل و حمل آسان اور جلدی ہونے لگ گئی اور اس سے مغرب کی طرف توسیع آسان ہوئی لیکن انڈین لوگوں سے جھڑپیں تیز ہوتی گئیں جس کی وجہ سے مقامی ثقافت اور مقامی افراد کی بقا خطرے میں پڑتی گئی۔
خانہ جنگی
ترمیمجوں جوں نئی سرزمینیں شامل ہوتی گئیں، ریاستی اختیارات، وفاقی حکومت کا کردار، غلاموں کی تجارت جو تیرہ ریاستوں میں قانونی تھی اور شمال کی طرف اس کا کوئی رحجان نہ دکھائی دیتا تھا اور جو 1804ء میں ختم ہوئی، جیسے مسائل پر قوم مختلف آراء میں تقسیم ہوتی چلی گئی۔ شمالی ریاستیں غلاموں کی تجارت کے خلاف جبکہ جنوبی ریاستیں اس کے حق میں تھیں اور انھوں نے اس کو اپنے معامالات میں مداخلت سمجھا کیونکہ ان کی معیشت کا بڑا حصہ اس تجارت سے وابستہ تھا۔ ان مسائل کے حل میں ناکامی کی وجہ سے خانہ جنگی کی ابتدا ہوئی۔ 1860ء میں ابراہم لنکن کے انتخاب کے بعد جنوبی ریاستوں نے مل کر ایک الگ امریکی حکومت بنا ڈالی۔ 1865ء کی خانہ جنگی میں وفاق کی فتح سے غلاموں کی تجارت ختم ہوئی اور اس سوال کا جواب مل گیا کہ کیا ریاستیں اپنی مرضی سے اپنے موقف سے پیچھے ہٹ سکتی ہیں۔ امریکی تاریخ میں یہ ایک اہم موڑ تھا اور اس کی وجہ سے وفاق کی طاقت میں اضافہ ہوا۔
تعمیر نو اور صنعتی انقلاب
ترمیمخانہ جنگی کے بعد اتنی بڑی تعداد، جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی تھی، میں لوگوں نے امریکا آنا شروع کر دیا، کی وجہ سے امریکی صنعتوں کو سستے مزدور ملنے لگے اور غیر ترقی یافتہ حصوں میں مختلف اقوام کے لوگوں نے اپنا ماحول بنا ڈالا۔ اس وجہ سے معاوضوں کا تحفظ، قومی انفرا سٹرکچر کی تعمیر اور بینکوں کے نظام کی باقاعدگی ہوئی۔ ریاست ہائے متحدہ کی بڑھتی ہوئی طاقت کی وجہ سے انھوں نے نئی ریاستوں کو خریدنا شروع کر دیا جن میں پورٹو ریکو اور فلپائن بھی شامل ہیں، جو سپین اور امریکا کی جنگ میں فتح کے بعد خریدی گئیں۔ ان کی وجہ سے امریکا کا شمار دنیا کی سپر پاورز میں ہونے لگا۔
جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم
ترمیم1914ء میں پہلی جنگ عظیم کے آغاز پر ریاست ہائے متحدہ غیر جانبدار رہی۔ تاہم 1917ء میں ریاست ہائے متحدہ نے اتحادیوں کا ساتھ دیا اور ان کے مخالفین کی شکست کا باعث بنا۔ تاریخی اعتبار سے بھی امریکا ہمدریاں برطانوی اور فرانسیسی طرف تھیں اگرچہ بہت بڑی تعداد میں جرمن اور آئرش عوام نے اس کی مخالفت بھی کی تھی۔ تاہم جنگ کے بعد، سینیٹ نے ورسیلز کے امن معاہدے میں شمولیت سے انکار کر دیا کیونکہ اس سے ریاست ہائے متحدہ کا عمل دخل یورپ میں بڑھ جانے کا خطرہ تھا۔ اس کی بجائے انھوں نے ایک طرف ہونے کو ترجیح دی۔
1920ء کے عشرے کے دوران میں زیادہ تر امریکا نے بہت زیادہ ترقی کے مزے لوٹے کیونکہ فارموں کی قیمتیں گریں اور صنعتی منافع جات بڑھے۔ اس کی وجہ سے 1929ء میں سٹاک مارکیٹ کریش ہوئی اور اس وجہ سے عظیم مندی دیکھنی پڑی۔ فرینکلن ڈیلانو روز ویلٹ نے 1932ء میں صدارتی انتخابات جیتنے کے بعد اس ضمن میں ایک نیا منصوبہ بنایا اور اس سے معیشت میں حکومتی مداخلت بڑھی۔
1941ء تک امریکی قوم اس عظیم مندی کے اثرات سے پوری طرح باہر نہ آسکا تھا کہ پرل ہاربر پر ہونے والے حملے کی وجہ سے امریکا کو پھر اتحادی افواج کا ساتھ دینا پڑا۔ دوسری جنگ عظیم امریکی تاریخ کی سب سے مہنگی جنگ ہے لیکن اس کی وجہ سے امریکی معیشت کو بہت سہارا ملا کیونکہ جنگی مال کی طلب کی وجہ سے نئی ملازمتیں پیدا ہوئیں اور خواتین کو بھی پہلی بار ملازمتوں میں حصہ ملا۔ جنگ کے دوران میں سائنسدانوں نے امریکا کی وفاقی حکومت کو دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بنانے کے لیے شب و روز کام کیا۔ یورپ میں اس جنگ کے خاتمے کے بعد، امریکا نے جاپان کے دو شہروں ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے تاکہ بقول امریکی انتظامیہ اور ذرائع ابلاغ کے، "جنگ کو مکمل طور پر ختم کیا جاسکے"۔ ہیرو شیما اور ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بم، دنیا کے دوسرے اور تیسرے ایٹم بم تھے اور تاحال یہ کسی حکومت کی طرف سے جنگ میں استعمال کیے جانے کی واحد مثالیں ہیں۔[15]
اس کے فورا بعد، 2 ستمبر 1945ء میں جاپان نے ہتھیار ڈال دیے اور دوسری جنگ عظیم کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔
سرد جنگ اور شہری حقوق
ترمیمجنگ عظیم کے خاتمے پر ریاست ہائے متحدہ اور سوویت یونین سپر پاور بن کر ابھرے اور ان کے درمیان میں جاری کشمکش نے سرد جنگ کا روپ اختیار کر لیا۔ امریکا نے عوام کی آزادی اور سرمایہ داری کو فروغ دیا جبکہ سوویت یونین نے کمیونزم اور مرکزی منصوبہ شدہ معیشت کو پروان چڑھایا۔ اس کا نتیجہ کئی بالواسطہ جنگوں کی صورت میں نکلا جن میں کوریا کی جنگ اور ویت نام، کیوبین میزائل بحران اور سوویت یونین کی افغانستان کے ساتھ جنگ شامل ہیں۔
اس اندازے کی بنیاد پر کہ ریاست ہائے متحدہ خلائی ریس میں بہت پیچھے رہ گیا ہے، کی وجہ سے اسکولوں کی سطح پر سائنس اور ریاضی کی مہارت میں اضافے کے سلسلے میں حکومت نے بہت سے اقدامات اٹھائے۔ صدر جان ایف کینیڈی نے 1960ء میں اعلان کیا کہ وہ چاند پر پہلا آدمی بھیجیں گے اور 1969ء تک یہ بھی مکمل ہو گیا۔
اسی دوران میں امریکی معاشرہ معاشی پھیلاؤ کے متناسب دور سے گذرا۔ ساتھ ہی ساتھ عوام میں شعور بیدار ہوا اور مختلف تفریقوں کے لیے افریقی امریکی مثلا مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نمایاں ہیں۔ اس کے نتیجے میں جم کرو قوانین کو جنوبی ریاستوں میں ختم کر دیا گیا۔
1991ء میں سوویت یونین کے زوال کے بعد امریکا نے دوسرے ممالک کی جنگوں جیسا کہ خلیجی جنگ، میں مداخلت جاری رکھی۔ امریکا اب دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔
11 ستمبر 2001ء اور دہشت گردی کے خلاف جنگ
ترمیم11 ستمبر 2001ء کو چار ہوائی جہازوں کو اغوا کر لیا گیا۔ (بقول امریکا کے ) دو جہازوں کو نیو یارک شہر میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جڑواں ٹاوروں سے ٹکرا دیا گیا اور تیسرا جہاز پینٹاگون، واشنگٹن ڈی سی سے ٹکرا کر تباہ کیا گیا۔ چوتھا جہاز ہائی جیکرز اور مسافروں کے درمیان میں جنگ کی وجہ سے شانکسول، پینسلوانیا میں تباہ ہوا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چوتھا جہاز اغوا ہوجانے کے بعد امریکی جنگی طیاروں نے خود ہی کسی مزید ممکنہ حملے کے خوف سے مار گرایا۔ نائن الیون کے حملوں کے بعد، امریکا خارجہ پالیسی دہشت گردی کی عالمی صورت حال پر مرکوز ہو گئی۔ جواب کے طور پر جارج ڈبلیو بش کی زیر صدارت، امریکی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت سارے فوجی اور غیر قانونی آپریشن شروع کیے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ 8 اکتوبر 2001ء میں شروع ہوئی جب امریکا کی سربراہی میں افغانستان میں اسلامی حکومت کے خلاف فوجی کارروائی شروع ہوئی تاکہ اسلامی نظام کو دہشت گردی کا بہانہ بنا کر ختم کیا جائے۔ 11 ستمبر کے واقعات نے امریکی تحفظ کے خلاف ہونے والے کسی بھی واقعے کے خلاف پیشگی حملوں کی پالیسی کو جنم دیا جسے بش ڈاکٹرائن کے نام سے جانا جاتا ہے۔
2002ء کو قوم سے خطاب کے دوران، صدر جارج ڈبلیو بش نے شمالی کوریا، عراق اور ایران کو برائی کا محور قرار دیا اور بتایا کہ یہ ممالک امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف بڑا خطرہ ہیں۔ اسی سال امریکا نے عراق میں حکومت کی تبدیلی کے اشارے دینا شروع کردیے۔ اقوام متحدہ کی کئی قراردوں کی ناکامی اور صدام حسین کی طرف سے ہتھیار ڈالنے سے انکار کے بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں نے مارچ 2003ء میں عراق پر حملہ کر دیا۔ اس حملے کے جواز کے طور پر امریکی حکومت نے کہا کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے اور یہ ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کے لیے تگ و دو کر رہا ہے۔ جنگ کے بعد بہت کم مقدار میں غیر ایٹمی ہتھیاروں کے چند ذخیرے ملے اور اس کے بعد امریکی حکومت نے اقرار کیا کہ انھوں نے غلط جاسوسی اطلاعات پر حملہ کیا تھا۔ معروف دفاعی ماہرین اور پاکستانی خفیہ ایجنسی کے سابقہ ڈائریکٹر جنرل حمید گل کے مطابق 9/11 ایک امریکی بہانہ تھا۔ ان کے الفاظ "9/11 بہانہ ہے افغانستان ٹھکانہ ہے اور پاکستان نشانہ ہے" جنرل حمید گل نے مزید کہا کہ امریکا کھلم کھلا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ ان کے اس بیان پر امریکا نے جنرل حمید گل مرحوم کو دہشت گرد قرار دیدیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے امریکا کتنا جعلساز چالباز اور کم ظرف ملک ہے۔ جنرل حمید گل نے مزید بتایا کہ 9/11 امریکی خود ساختہ ڈراما ہے۔ اس کا الزام القاعدہ اور اسامہ بن لادن پر لگانا دھوکے بازی ہے۔ دراصل افغانستان میں ایک اسلامی نظام لاگو تھا۔ امریکا اسلامی نظام کو سامراجی نظام کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ دراصل اسلامی نظام انصاف کا نظام ہے۔ اس نظام کے ذریعے مسلمانوں نے پوری دنیا پر حکومت کی۔ امریکا نہیں چاہتا کہ مسلمان اس نظام کے ذریعے طاقتور ہو کر ظلم اور طاغوتی نظام کو ختم کر دیں۔
انسانی حقوق
ترمیمامریکی ذرائع ابلاغ آئین کے تحت شہریوں کو ترمیم 1 تا 5 کے تحت حاصل انسانی حقوق کا ذکر فخریہ کرتے ہیں۔ البتہ امریکی عدالتوں کے کئی فیصلے ان ترامیم کا لحاظ نہیں کرتے۔[16] امریکا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتا رہتا ہے اور اپنے مفادات کے لیے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کی حمایت بھی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر امریکا نے بغیر کسی ثبوت اسامہ بن لادن کو شہید کیا۔ پاکستان افغانستان سرحد پر ڈرون حملے کرکے عام شہریوں کو نشانہ بنانا امریکا کا معمول ہے ایرانی جرنیل قاسم سلیمانی کو قتل کر کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے کا مرتکب ہوا۔ امریکا خود کو دنیا کا ٹھیکیدار سمجھ کر انسانیت کی توہین کرتا ہے۔ امریکا ایک طاغوتی قوت ہے۔
[17]
طريق حكومت
ترمیمسیاسی نظام
ترمیمریاست ہائے متحدہ دنیا کی سب سے زیادہ عرصہ تک قائم رہنے والی آئینی جمہوریہ ہے جس کا آئین دنیا کا سب سے پرانا اور مکمل طور پر تحریری ہے۔ اس کی حکومت کا انحصار کانگریسی نظام کے تحت نمائندہ جمہوریت پر ہے جو آئین کے تحت اختیارات کی حامل ہوتی ہے۔ تاہم یہ کوئی عام نمائندہ جمہوریت نہیں ہے بلکہ اس میں اکثریت کو اقلیت کے حقوق کے لیے آئینی طور پر پابند کیا گیا ہے۔ حکومت تین سطحی ہے، وفاقی، ریاستی اور مقامی۔ ان تینوں سطحوں کے اراکین کا انتخاب یا تو رائے دہندگان کے خفیہ ووٹ سے یا پھر دوسرے منتخب اراکین کی طرف سے نامزدگی کی مدد سے ہوتا ہے۔ ایگزیکٹو اور قانون ساز دفاتر کا فیصلہ شہریوں کی طرف سے ان کے متعلقہ حلقوں میں اجتماعی ووٹ سے کیا جاتا ہے، عدلیہ اور کابینہ کی سطح کے دفاتر کو ایگزیکٹو برانچ نامزد کرتی ہے اور مقننہ انھیں منظور کرتی ہے۔ کچھ ریاستوں میں عدلیہ کی نشستیں عام انتخابات سے پر کی جاتی ہیں۔
وفاقی حکومت تین شاخوں سے مل کر بنتی ہے جن کی تشکیل ایک دوسرے کے اختیارات پر چیک اینڈ بیلنس کی خاطر کی گئی ہے:
- مقننہ: کانگریس جو سینیٹ اور ہاؤس آف ریپریزنٹیٹوز ( ایوان نمائیندگان ) سے مل کر بنتی ہے اور یہ وفاقی قوانین بناتی ہے، اعلان جنگ کرتی ہے، معاہدوں کی منظوری دیتی ہے اور اسے مواخذے کا اختیار بھی حاصل ہے۔
- ایگزیکٹوز: صدر، جو سینیٹ کی رضامندی کے ساتھ کابینہ اور دیگر افسران کی نامزدگی کرتا ہے، وفاقی قوانین کی دیکھ بھال اور ان کی بالادستی قائم کرتا ہے، بلوں کو مسترد کر سکتا ہے اور فوج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے
- عدلیہ: سپریم کورٹ اور زیریں وفاقی عدالتیں جن کے ججوں کا تعین صدر سینیٹ کی منظوری سے کرتا ہے، جو قوانین کی تشریح کرتے ہیں اور آئین کے تحت ان کی میعاد مقرر کرتے ہیں اور وہ قوانین جو غیر آئینی ہو گئے ہوں، انھیں ختم بھی کرسکتے ہیں۔
امریکی کانگریس دو ایوانوں پر مشتمل مقننہ ہے۔ ایوانِ نمائندگان( ہاؤس آف رپریزنٹیٹوز) کے ارکان کی تعداد 435 ہے، ہر ایک الگ ضلعے کی نمائندگی دو سال کے لیے کرتا ہے۔ ہر ریاست کو اس کی آبادی کی شرح سے سیٹوں کی تعداد ملتی ہے۔ آبادی کا تعین ہر دس سال بعد از سر نوء کیا جاتا ہے۔ ہر ریاست کو کم از کم ایک نمائندے کی اجازت ہوتی ہے: سات ریاستوں کے ایک ایک نمائندے ہیں، کیلیفورنیا کے نمائندگان کی تعداد سب سے زیادہ 53 ہے۔ ہر ریاست کے دو سینیٹر ہوتے ہیں جو ریاستی سطح پر چھ سال کے لیے منتخب ہوتے ہیںْ۔ ایک تہائی سینیٹ کے انتخابات ہر دوسرے سال منعقد ہوتے ہیں۔
ریاست ہائے متحدہ کا آئین امریکی نظام میں سب سے اعلیٰ قانونی دستاویز ہے اور اسے سماجی معاہدہ بھی سمجھا جا سکتا ہے جو امریکی شہریوں اور ان کی حکومت کے مابین ہے۔ وفاقی اور ریاستی حکومت کے تمام قوانین پر نظر ثانی کی جاتی ہے جو کسی طور پر بھی آئین کے خلاف ہوں اور عدلیہ انھیں ختم بھی کرسکتی ہے۔ آئین ایک زندہ دستاویز ہے اور اس میں ترمیم کئی طریقوں سے کی جا سکتی ہے لیکن اس کی بہر طور منظوری ریاستی اکثریت ہی دیتی ہے۔ اب تک آئین میں 27 بار ترمیم کی جاچکی ہے۔ آخری ترمیم 1992ء میں کی گئی۔ آئین میں آزادی کی ضمانت دی گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی حقوق کی بھی وضاحت موجود ہے اور دیگر ترامیم بھی جن میں آزادئ اظہار رائے، مذہب، پریس کی آزادی، منصفانہ عدالتی کارروائی، ہتھیار رکھنا اور ان کا استعمال، ووٹ کا حق اور غریبوں کے حقوق شامل ہیں۔ تاہم ان قوانین کو کس حد تک استعمال کیا جا ئے، قابل بحث بات ہے۔ آئین ایک عوامی طرز کی حکومت کی ضمانت دیتا ہے لیکن اس کی بہت کم وضاحت کی گئی ہے۔
امریکی سیاست پر ریپبلک اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے اثرات بہت گہرے ہیں اور انہی جماعتوں کی حکمرانی ہے۔ وفاقی، ریاستی اور نچلے درجوں کی حکومت میں انہی پارٹیوں کی اکثریت موجود ہے۔ آزاد امیدوار نچلے درجوں پر بہتر کام کرسکتے ہیں اگرچہ ان کی کچھ مقدار سینیٹ اور ایوان نمائیندگان (ہاؤس آف ریپریزنٹیٹوز ) میں بھی موجود ہے۔ امریکی سیاسی کلچر کے مطابق ری پبلک پارٹی کو دائیں بازو کی جماعت یا قدامت پرست جماعت کہا جاتا ہے جبکہ ڈیمو کریٹک پارٹی کو بائیں بازو کی جماعت یا آزاد خیال جماعت کہا جاتا ہے۔ تاہم پارٹیوں کے حجم اور ان کے قوانین میں لچک کی وجہ سے دونوں پارٹیوں کے اراکین کی رائے بہت مرتبہ پارٹی سے مختلف بھی ہو جاتی ہے اور آپ محض پارٹی کے نام کی وجہ سے اس کے رائے کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔
2001ء سے امریکی صدرجارج ڈبلیوبش ایک ری پبلکن صدر تھے۔ اور 2006ء کے وسط مدتی انتخابات کے دوران میں ڈیمو کریٹس کو، 1994ء کے بعد دونوں ایوانوں میں پہلی بار اکثریت حاصل ہوئی ہے۔
حالت جمہوریت
ترمیمامریکا نے برطانوی بادشاہت سے بغاوت کے بعد ملک کی بنیاد جمہوریت پر رکھی تاہم ووٹ کا حق صرف زمیندار مردوں کو دیا گیا۔ آئین میں ترامیم کے ذریعہ عوام کو بنیادی حقوق دیے گئے۔ اس کے بعد 1920ء میں خواتین کو بھی ووٹ کا حق دے دیا گیا اور پھر 1950ء کی دہائی میں حقوق کی تحریک کے بعد کالوں کو بھی ووٹ کا حق مل گیا۔ پھر 2008ء میں ایک کالا امریکی صدر، باراک حسین اوباما، منتخب ہوا۔ تاہم 2001ء کے واقعات کے بعد امریکی سرکار بہت سے ایسے قوانین بنا چکی تھی جس میں عوام کے حقوق سلب کیے جاتے رہے۔ حتٰی کہ 2013ء میں کالے صدر کے دور حکومت میں سابق امریکی صدر جمی کارٹر کو یہ کہنا پڑا کہ آج ملک میں عملی جمہورت موجود نہیں۔[18]
America does not have a functioning democracy at this point in time
—
خارجہ تعلقات اور فوج
ترمیمامریکا کا دنیا بھر میں وسیع معاشی، سیاسی اور فوجی اثر ہے جس کی وجہ سے اس کی خارجہ پالیسی دنیا بھر میں مباحثوں کا ایک پسندیدہ موضوع ہے۔ تقریباً تمام ممالک کے سفارت خانے واشنگٹن ڈی سی میں موجود ہیں اور قونصل خانے پورے ملک میں موجود ہوتے ہیں۔ تاہم کیوبا، ایران، شمالی کوریا اور سوڈان کے امریکا کے ساتھ کوئی خاص سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ امریکا اقوام متحدہ کا بانی رکن ہے اور اسے سلامتی کونسل میں مستقل نشست بھی ملی ہوئی ہے اور اس کے علاوہ اور بھی بہت سے بین الاقوامی اداروں کا بھی رکن ہے۔ امریکا میں فوجی معاملات میں شہری کنٹرول کی طویل روایت موجود ہے۔ محکمہ دفاع کا کام امریکی مسلح افواج کو سنبھالنا ہے جو بری، بحری، میرین کارپس اور فضائی افواج پر مشتمل ہے۔ کوسٹ گارڈ زمانہ امن میں محکمہ داخلہ کے ذمے ہے اور دوران میں جنگ یہ بحری فوج کے ماتحت۔
امریکی فوج میں چودہ لاکھ افراد خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور کئی لاکھ مزید افراد ریزور اور نیشنل گارڈز کی صورت میں موجود ہیں۔ فوجی خدمات سر انجام دینا ایک رضاکارانہ فعل ہے تاہم بعض اوقات عام لام بندی کے احکامات بھی دیے جا سکتے ہیں۔ امریکا کی فوج دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور فوج ہے۔ اس کا بجٹ بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ امریکی فوجی بجٹ 2005 میں امریکا کے بعد آنے والے چودہ ممالک کے فوجی بجٹ سے زیادہ ہے۔ مزے کی بات کہ امریکا کا فوجی بجٹ کل ملکی آمدنی کا صرف چار فیصد ہے۔ امریکی فوج کے زیر انتظام 700 سے زیادہ مراکز ہیں۔ انٹارکٹیکا کے سوا دنیا کے ہر براعظم میں اس کے فوجی مراکز موجود ہیں۔
انتظامی تقسیم
ترمیماڑتالیس ریاستیں، الاس کا اور ہوائی کے سوا، جو زمینی طور پر ایک ساتھ موجود ہیں، مل کر کانٹیننٹل ریاست ہائے متحدہ کہلاتی ہیں۔ کچھ ذرائع الاس کا کو بھی اس میں شامل سمجھتے ہیں کیونکہ یہ امریکا کی دیگر ریاستوں سے تو ہٹ کر ہے لیکن ہے براعظم شمالی امریکا کا حصہ ہی۔ ڈسٹرکٹ کولمبیا اس میں شمار ہوتا ہے۔ ہوائی، جسے پچاسویں ریاست کہا جاتا ہے، بحرالکاہل میں جزائر کی ایک پٹی کی صورت میں ہے۔
ریاست ہائے متحدہ کے پاس کئی دیگر علاقے موجود ہیں جن میں کولمبیا کی ڈسٹرکٹ بھی شامل ہے اور جہاں ملکی دار الحکومت واشنگٹن ڈی سی موجود ہے اور اس کے علاوہ سمندر پار بھی بہت سے علاقے امریکا کا حصہ ہیں۔
اس کے علاوہ بھی کئی ریاستیں ایسی ہیں جنھوں نے امریکا سے الحاق کیا ہوا ہے۔
ماحول
ترمیمامریکا میں 17000 سے زائد اقسام کے پودے اور درخت پائے جاتے ہیں جن میں سے 5000 صرف کیلیفورنیا میں ہیں۔ ان 5000 دنیا کے سب سے لمبے، سب سے بھاری اور سب سے پرانے درخت بھی شامل ہیں۔ امریکا کا ماحول خط استوائی ماحول سے لے کر ٹنڈرائی نوعیت کا ہے اور اس میں نباتات کی اقسام دنیا بھر کے کسی دوسرے ملک سے زائد ہیں۔ اگرچہ ہزاروں غیر ملکی نباتات کی وجہ سے اس ملک کی اپنی نباتات اور انسانوں پر منفی اثرات واقع ہوئے ہیں۔ 400 سے زائد ممالیا، 700 سے زائد پرندے، 500 ریپٹائل یعنی خزندے اور 90000 سے زائد حشرات الازض کو نوٹ کیا جا چکا ہے۔
بہت سے جانور اور پودے خاص جگہوں تک محدود ہیں اور بہت سی انواع معدوم ہونے والی ہیں۔ امریکا نے معدومیت کے خطرے سے دوچار انواع کے تحفظ کے لیے 1973 میں قانون بنایا ہے کہ ان انواع کو ان کے قدرتی ماحول میں تحفظ دیا جائے۔
معدومیت کے خلاف تحفظ کے حوالے سے امریکی تاریخ بہت پرانی ہے۔ 1872 میں دنیا کا پہلا نیشنل پارک ییلو سٹون میں بنایا گیا۔ اس کے بعد اب تک 57 مزید نیشنل پارک اور سینکڑوں دیگر پارک اور جنگلات کو اس ضمن میں بنایا جا چکا ہے۔ ملک کے کچھ حصوں کو اس مقصد کے لیے مخصوص کر دیا ہے کہ ادھر کوئی تبدیلی واقع نہیں کی جا سکتی۔ امریکی ماہی پروری اور جنگلی حیات کے محکمے نے خطرے میں اور معدوم ہونے کے قریب موجود نسلوں کو ان کے قدرتی ماحول میں بچا کر الگ کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ امریکا کی حکومت 1020779 مربع میل کا علاقہ چلا رہی ہے جو کل رقبے کا 28 % ہے۔ اس زمین کو پارکوں اور جنگلات کے لیے مختص کیا گیا ہے لیکن اس کا کچھ حصہ تیل اور گیس کی دریافت، کان کنی اور مویشیوں کے فارمز کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
معیشت
ترمیمعمومی صورت حال
ترمیمامریکا کی معیشت کی تاریخ دراصل ایک کہانی ہے جو نوآبادیاتی نظام کی معاشی ترقی سے شروع ہوئی اور ترقی کرکے اب بیسیوں اور اکیسویں صدی میں دنیا کی سب سے بڑی معاشی اور صنعتی طاقت بننے کی ہے۔
ریاست ہائے متحدہ کا معاشی نظام مخلوط سرمایہ دارانہ معاشی نظام ہے جس میں کارپوریشنیں، دیگر پرائیوٹ فرمیں اور افراد مل کر زیادہ تر مائیکرو اکنامک فیصلے کرتے ہیں اور حکومت اس سطح پر زیادہ مداخلت نہیں کرتی تاہم بحیثیت مجموعی تمام سطحوں پر حکومت کا عمل دخل بہت زیادہ ہے۔ ریاست ہائے متحدہ کے زیادہ تر کاروبار اور تجارت کارپوریشنیں نہیں ہیں اور ان کا کوئی پے رول نہیں ہے بلکہ وہ ذاتی ملکیت ہیں۔
امریکا میں اوسط گھریلو آمدنی 46326 ڈالر سالانہ ہے اور 25 سے 64 سال کی عمر کے افراد کی اوسط سالانہ انفرادی آمدنی 32611 ڈالر ہے۔
معاشی سرگرمیاں ملک میں بہت زیادہ متفرق ہوتی ہیں۔ نیو یارک شہر کو ملک کی معاشی، چھپائی، نشر و اشاعت اور اشتہاراتی مرکز کی حیثیت ہے جبکہ لاس اینجلس کو فلم اور ٹیلی ویژن کے لیے مشہور مانا جاتا ہے۔ سان فرانسسکو کی خلیج ٹیکنالوجی کے لیے بہت اہم ہے۔ وسطی مغربی علاقہ اپنی بھاری صنعتوں کے لیے مشہور ہے، ڈیٹرائیٹ امریکی موٹر گاڑیوں کی صنعت کے لیے تاریخی اہمیت کا حامل ہے اور شکاگو اپنے علاقے میں تجارتی اور معاشی حوالے سے بہت اہم ہے۔ جنوب مشرق میں زراعت، سیاحت اور درختوں کی صنعت کے لیے مشہور ہے کیونکہ یہاں معاوضے ملک کے دیگر حصوں سے نسبتا کم ہوتے ہیں۔
امریکی معیشت کا زیادہ تر حصہ خدمات سے حاصل ہوتا ہے جہاں کل افراد کا تین چوتھائی حصہ کام کرتا ہے۔ صنعتی زوال کی وجہ سے 2011ء میں 22 ملین افراد حکومت کے ملازم تھے اور صناعی میں 11 ملین، جبکہ 1960ء میں صورت حال اس کے برعکس تھی۔[19]
ملک کی معیشت کا بہت بڑا حصہ قدرتی ذرائع کی کثرت ہے جیسا کہ کوئلہ، تیل اور قیمتی دھاتیں۔ تاہم ابھی تک یہ ملک اپنی توانائی کے لیے زیادہ تر دیگر ممالک پر انحصار کرتا ہے۔ زراعت میں مکئی، سورج مکھی، چاول اور گندم کی پیداوار کے لیے یہ ملک پہلے نمبر پر ہے۔ امریکا میں سیاحت کی کافی وسیع صنعت موجود ہے اور یہ دنیا میں تیسری نمبر پر آتی ہے۔ اس کے علاوہ ہوائی جہازوں، سٹیل، ہتھیاروں اور الیکٹرانکس کی مصنوعات کی برآمد کے لیے امریکا کا بہت بڑا حصہ ہے۔ کینیڈا امریکا کی بیرونی تجارت میں انیس فیصد کے ساتھ پہلے نمبر پے اور اس کے بعد چین، میکسیکو اور جاپان کے نمبر آتے ہیں۔
امریکا میں فی کس آمدنی کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ آمدنیوں میں سے ہوتا ہے۔ اس کی فی کس آمدنی مغربی یورپ سے زیادہ ہے۔ 1975ء سے ملکی منڈی کی حقیقی آمدنی تقریباً ساری کی ساری بیس فیصد خاندانوں میں پہنچتی ہے۔
امریکی معاشرے میں سماجی طبقات کی تبدیلی یورپی، سکینڈے نیویا کے ممالک اور کینیڈا سے کم ہے۔ بعض ماہرین کے خیال میں اس کی وجہ تعلیمی نظام ہے۔ امریکی تعلیمی نظام میں تعلیم کا خرچہ زیادہ تر ٹیکسوں سے اور بقیہ حصہ حکومتی خزانے سے ادا کیا جاتا ہے۔ اس لیے امیر علاقوں اور غریب علاقوں کی تعلیم میں زمین آسمان کا فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ ایک سابقہ فیڈرل ریزرو بورڈ کے چئیرمین ایلن گرین سپین کے مطابق یہ آمدنیوں کا یہ فرق اور لوگوں کا معاشی ترقی کرنے کی کم ہوتی ہوئی رفتار بالآخر اس پورے نظام کو زمین بوس کر دے گی۔
ایجادات
ترمیمامریکا اپنی سائنسی اور ٹیکنالوجی کی ایجادات کی وجہ سے اور نئی ایجاد ہونے والی مصنوعات کی پیداوار کے لیے بہت مشہور ہے۔ تحقیق و ترویج کے لیے فنڈز کا 69% حصہ پرائیوٹ سیکٹر سے ملتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکا نے ایٹم بم کی ایجاد کے کام کی سربراہی کی اور نئے ایٹمی دور کی بنیاد قائم کی۔ سرد جنگ کے آغاز میں امریکا نے خلائی سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت کامیابیاں حاصل کیں اور خلائی دوڑ کا آغاز بھی کیا۔ اس دوران میں امریکا نے راکٹ، ہتھیاروں، مادی سائنسوں، کمپیوٹروں اور دیگر شعبوں میں ترقی کی۔ ٹیکنالوجی میں ترقی کی معراج تب دکھائی دی جب نیل آرم سٹرانگ نے پہلی بار جولائی 1969ء میں اپالو 11 کی مدد سے چاند پر قدم رکھا۔ اسی طرح امریکا نے انٹرنیٹ اور اس سے پہلے آرپا نیٹ کو بھی بنایا۔ امریکا اپنے زیادہ تر انفراسٹرکچر کو خود ہی کنٹرول کرتا ہے۔
سائنسی بالخصوص فزیالوجی اور میڈیسن میں امریکیوں نے بہت زیادہ نوبل پرائز حاصل کیے ہیں۔ قومی ادارہ برائے صحت بائیو میڈیسن کے لیے امریکا کا مرکز ہے اور پرائیوٹ فنڈ سے چلنے والا ادارہ سیلیرا جی نومکس نے انسانی جینیاتی پروجیکٹ کی تکمیل میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہوابازی اور خلا کے لیے ناسا کا کردار بہت اہم ہے۔ بوئنگ اور لاک ہیڈ مارٹن بھی بہت اہم ہیں۔
ذرائع نقل و حمل
ترمیمآٹو موبائل کی صنعت اکثر ممالک کی نسبت جلدی شروع ہوئی۔ ملکی ذرائع نقل و حمل کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ہائی ویز ادا کرتے ہیں جن میں بہت بڑی تعداد میں مسافر گاڑیاں اور مال برداری کے ٹرک روزانہ گزرتے ہیں۔ 2004ء میں لیے گئے ڈیٹا کے مطابق امریکا میں 3982521 میل یعنی 6407637 کلومیٹر لمبی سڑکیں موجود ہیں جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہیں۔
عوام کے سفر کے لیے نظام بڑے شہروں میں موجود ہیں جیسا کہ نیو یارک میں دنیا کا بہت مصروف سب وے سسٹم موجود ہے۔ چند شہروں کے سوا، اکثر امریکی شہر نسبتا کم گنجان آباد ہیں اور اس کی وجہ سے اکثر خاندانوں کے پاس ذاتی گاڑیاں لازمی چیز بن گئی ہیں۔
امریکا پرائیوٹ مسافر ریل کی پٹڑیوں کے لیے بھی منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ 1970ء کے دوران میں حکومت نے مداخلت کرکے انھیں باقاعدہ کیا اور تمام پیسنجر سروسوں کو حکومتی ماتحت ایمٹریک کارپوریشن کے ماتحت کر دیا۔ امریکا کا ریلوے کا نظام دنیا میں سب سے بڑا نظام ہے۔
لمبے فاصلے کے لیے مسافر ہوائی سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔ مسافروں کی تعداد کے لحاظ سے 2004ء میں دنیا کے تیس مصروف ترین ایئرپورٹس میں سے سترہ امریکی شمار ہوتے تھے۔ مسافروں کے لحاظ سے دنیا کا سب سے مصروف ائیر پورٹ ہارٹس فیلڈ جیکسن اٹلانٹا انٹرنیشنل ایئر پورٹ امریکا میں ہی ہے۔ اسی طرح سامان کی منتقلی کے لیے دنیا کے تیس مصروف ترین ائیر پورٹوں میں سے بارہ امریکا میں ہیں۔ سامان کی منتقلی کے لیے دنیا کا سب سے مصروف ایئر پورٹ ممفس انٹرنیشنل ائیر پورٹ ہے۔
دنیا کی کئی بڑی بندرگاہیں امریکا میں ہیں جن میں سے تین سب سے زیادہ مصروف، کیلیفورنیا کی لاس اینجلس بندرگاہ، لانگ بیچ کی بندرگاہ اور نیویارک اور نیو جرسی کی بندرگاہ شامل ہیں۔ امریکا کے اندر بھی آبی نقل و حمل کے لیے سینٹ لارنس کی بحری گزرگاہ اور دریائے مسی سیپی بہت مشہور ہیں اٹلانٹک اور گریٹ لیک کے درمیان میں بننے والی پہلی نہر ایری کینال نے زراعت اور صنعت کو وسط مغربی امریکا میں بہت ترقی دی اور نیویارک شہر کو ملک کا معاشی مرکز بنا دیا۔
آبادی
ترمیم
ثقافت
ترمیمریاست ہائے متحدہ کی ثقافت کی ابتدا انگریز نو آباد کاروں کی ثقافت سے ہوئی تھی۔ اس ثقافت نے بہت تیزی سے ارتقا کے مراحل طے کیے اور اپنی آزادانہ شناخت کے علاوہ مقامی اور سپینی-میکسیکو کے کاؤ بوائے ثقافت اور پھر بعد ازاں یورپی اور افریقی اور ایشیائی نو آباد کاروں نے بھی اس پر اپنے اثرات ڈالے۔ مجموعی طور پر یورپ میں جرمنی، برطانوی اور آئرش ثقافتوں نے اپنے اثرات دکھائے اور بعد ازاں اطالوی، یونانی اور اشکینازی (یہودی جو جرمنی اور مشرقی یورپ سے تعلق رکھتے ہیں) نے بھی کچھ نہ کچھ اثرات مرتب کیے۔ ابتدائی امریکی ثقافت میں افریقی غلاموں کی اولادوں نے بھی اپنے کچھ علاقائی اثرات ڈالے۔ جغرافیائی مقامات کے نام بھی انگریزی، ولندیزی، فرانسیسی، جرمن، ہسپانوی اور مقامی امریکی الفاظ سے مل کر بنے ہیں۔
ثقافتی حوالوں سے ہمیں دو مختلف ماڈل(خاکے) ملتے ہیں۔ روایتی 'میلٹنگ پاٹ' یا 'پگھلتے برتن' کاخاکہ جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ تمام ثقافتیں کیسے مل کر ایک ہوئیں۔ اس کے مطابق ہر نئے آنے والے نے اپنی ثقافت کو امریکی معاشرے میں متعارف کرایا۔ اس کے بعد جس چیز کو قبول کر لیا گیا، وہ ایک بڑی ثقافت کا حصہ بنی۔ اس طرح یہ ایک 'یکجان آمیزے' کی طرح موجود ہیں۔ نیا ماڈل جسے 'سلاد کا پیالا ماڈل' یعنی 'سے لیڈ باؤل ماڈل' کہا جاتا ہے، کے مطابق ہر ثقافت آکر امریکی معاشرے میں اس طرح جمع ہوئی ہے جیسے مختلف سبزیوں سے بنا ہوا سلاد، جس میں ہرسبزی اس سلاد کا حصہ ہوتے ہوئے اپنی الگ شناخت بھی قائم رکھتی ہے۔ امریکی ثقافت کا ایک اہم جزو امریکی کا خواب ہے، جس کے مطابق اپنی معاشی حیثیت سے قطع نظر، سخت محنت، ہمت اور مقصد کی سچی لگن سے آپ بہتر زندگی کو حاصل کر سکتے ہیں۔
خوراک
ترمیمامریکی خوراک زیادہ تر قدیم امریکیوں سے آئی ہے جس میں ٹرکی، آلو، مکئی اور سکوائش شامل ہیں۔ اب یہ خوراکیں امریکی غذا کا لازمی جزو بن چکی ہیں۔ اس کے علاوہ ایپل پائی، پیتزا اور ہیم برگر بھی یا تو یورپی خوراکوں سے آئے ہیں یا یورپی خوراکوں کو کچھ تبدیلی کے ساتھ اپنا لیا گیا ہے۔ بوریٹو اور ٹاکو میکسیکو سے آئے ہیں۔ سول فوڈ افریقی غلاموں کی پسندیدہ خوراک تھی جو اب امریکا میں بہت مشہور ہے۔ تاہم آج دنیا میں پسند کی جانے والی خوراکوں کا زیادہ تر حصہ یا تو امریکا سے شروع ہوا یا اسے امریکی باورچیوں نے تبدیلی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ واضح رہے کہ پوری دنیا کے معصوم انسانوں بالخصوص مسلمانوں کا خون پینا امریکی ثقافت کا حصہ ہے۔
بصری فنون لطیفہ
ترمیماٹھارہویں اور انیسویں صدی میں امریکی فنون لطیفہ نے یورپ سے بہت اثر لیا۔ مصوری، مجسمہ سازی اور ادب کے لیے یورپ کی تقلید کی گئی اور پورپ سے اس کی قبولیت کو معیار بنایا گیا۔ امریکی خانہ جنگی کے اختتام تک امریکی ادب کی تخلیق شروع ہو گئی تھی۔ مارک ٹوئین، ایمائیلی ڈکنسن اور والٹ وہائٹ مین نے سب کچھ امریکی انداز میں پیش کرنا شروع کیا۔ بصری فنون میں امریکی اثرات بہت آہستہ روی سے مرتب ہوئے۔ 1913ء میں نیویارک میں ہونے والے آرمری شو کے دوران میں ایک نمائش منعقد ہوئی جس میں یورپی جدت پسند فنکاروں کا امریکا کے لیے کیا جانے والا کام سامنے لایا گیا اور اس نے نہ صرف عوام کو جھنجھوڑا بلکہ بیسوی صدی کے بقیہ حصے میں اپنے اثرات مرتب کیے۔ اس نمائش کے دو سطحی اثرات واقع ہوئے جس میں انھوں نے امریکی فنکاروں کو یہ دکھایا کہ فنون لطیفہ اپنے خیالات کا اظہار ہے اور یہ کوئی ادبی یا حقیقت پسندی کو ظاہر نہیں کرتی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دکھایا کہ یورپ فنکاروں کے کام پر تنقید کے لیے اپنے قدیم خیالات کو چھوڑ چکا ہے جن میں فنکاروں کو سختی کے ساتھ اصولوں کی پاسداری کرنی پڑتی تھی۔ اس سے امریکی فنکاروں کو اپنی شناخت کا موقع ملا اور ایک جدت پسندی کی مہم چلی اور امریکی تہذیب ابھر کر سامنے آئی۔ ایلفرڈ سٹی گلیٹز (1864ء سے 1946ء) فوٹو گرافر، چارلس ڈی متھ (1883ء سے 1935ء) اور مارسڈین ہارٹلے (1877ء سے 1943ء)، دونوں مصوروں نے فنون لطیفہ کے حوالے سے امریکا کا مقام بنایا۔ ماڈرن آرٹ کے عجائب گھر، جو نیو یارک میں 1929ء میں بنایا گیا، امریکی اور بین الاقوامی فنون لطیفہ کا شوکیس بن گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے فیصلے کے بعد دنیا کے فنون لطیفہ کا مرکز پیرس سے منتقل ہو کر امریکا میں منتقل ہو گیا۔
موسیقی
ترمیمملکی موسیقی بھی مختلف شاخوں سے ہوتی ہوئی یہاں تک پہنچی ہے۔ راک، پاپ، سول، ہپ ہاپ، کنٹری، بلیوز اور جاز ابھی بھی اس ملک کے وہ ساز ہیں جو بین الاقوامی طور پر مانے جاتے ہیں۔ 19ویں صدی کے اختتام پر امریکی ریکارڈ شدہ موسیقی پوری دنیا میں پھیل چکی تھی اور امریکی موسیقی کی مشہور دھنوں کو آج بھی ہر جگہ سنا جا سکتا ہے۔
سینما
ترمیمسینما کی ابتدا اور اس کی ترقی تقریباً ساری کی ساری امریکا میں ہی ہوئی۔ 1878ء میں پہلی بار سلسلہ وار کیمروں کی مدد سے ایک برطانوی فوٹو گرافر نے دوڑتے گھوڑے کی متحرک تصاویر بنائیں۔ اسی طرح کامک بک اور ڈزنی کی متحرک فلمیں آج بھی دنیا میں اپنا منفرد مقام رکھتی ہیں۔
کھیل
ترمیمکھیل ملکی تفریح کا ذریعہ ہیں اور ہائی اسکولوں کی سطح پر خصوصا امریکی فٹ بال، بیس بال اور باسکٹ بال کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔ پروفیشنل سپورٹس کو امریکا میں ایک بہت بڑا کاروبار سمجھا جاتا ہے اور دنیا بھر میں سب سے زیادہ معاوضہ بھی کھلاڑیوں کو یہیں ملتا ہے۔ چار مشہور کھیلوں میں بیس بال، امریکی فٹ بال، آئس ہاکی اور باسکٹ بال ہیں۔ بیس بال کو قومی کھیل کا درجہ حاصل ہے لیکن 1990ء کی دہائی کے شروع سے امریکی فٹ بال کو زیادہ شہرت ملی ہے۔ ہاکی بھی حال ہی میں اپنی شہرت کھو چکا ہے۔
دیگر کھیلوں میں کار ریسنگ، لیکروس، سوکر (فٹ بال) گالف اور ٹینس کے کھیلنے والے کافی ہیں۔ امریکا نے تین بورڈز والی کھیلوں پر اپنا اثر ڈالا ہے جن میں سرف بورڈنگ، سکیٹ بورڈنگ اور سنو بورڈنگ شامل ہیں۔ اب تک آٹھ اولمپک مقابلے امریکا میں منعقد ہو چکے ہیں۔ اب تک کے تمغوں کے لحاظ سے امریکا سرمائی کھیلوں میں 218 تمغوں کے ساتھ (78 طلائی، 81 چاندی کے اور 59 تابنے کے ) تیسرے نمبر پر اور 2321 تمغوں کے ساتھ (943 طلائی، 736چاندی کے اور 642 تابنے کے ) گرمائی کھیلوں میں پہلے نمبر پر ہے۔
مزید دیکھیے
ترمیمویکی ذخائر پر ریاست ہائے متحدہ سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
حواشی
ترمیم- ↑ سانچہ:USC
- ↑ English is the official language of 33 states; English and ہوائی زبان are both official languages in ہوائی، and English and 20 Indigenous languages are official in الاس کا۔ Algonquian، Cherokee، and Sioux are among many other official languages in Native-controlled lands throughout the country. فرانسیسی زبان is a de facto، but unofficial, language in میئن and لوویزیانا، while نیو میکسیکو law grants ہسپانوی زبان a special status.[4][5]
- ↑ In five territories, English as well as one or more indigenous languages are official: ہسپانوی زبان in Puerto Rico, سمووائی زبان in American Samoa, چامورو زبان in both Guam and the Northern Mariana Islands. Carolinian is also an official language in the Northern Mariana Islands.
- ↑ See ریاستہائے متحدہ میں وقت for details about laws governing time zones in the United States.
- ↑ Except the امریکی جزائر ورجن۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ McKenna 2007, p. 280.
- ↑ Kidder & Oppenheim 2007, p. 91.
- ↑ "uscode.house.gov"۔ Public Law 105-225۔ uscode.house.gov۔ اگست 12, 1999۔ صفحہ: 112 Stat. 1263۔ اخذ شدہ بتاریخ ستمبر 10, 2017۔
Section 304. "The composition by John Philip Sousa entitled "The Stars and Stripes Forever" is the national مارچ۔"
- ↑ Cobarrubias 1983, p. 195.
- ↑ García 2011, p. 167.
- ↑ "U.S. Census Bureau QuickFacts selected: United States"۔ QuickFacts۔ U.S. Department of Commerce۔ جولائی 1, 2018۔ اخذ شدہ بتاریخ فروری 12, 2019
- ↑ Gallup, Inc.۔ "Five Key Findings on Religion in the U.S."۔ Gallup.com (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ اپریل 5, 2018
- ↑ Areas of the 50 states and the District of Columbia but not Puerto Rico nor (other) island territories per State Area Measurements and Internal Point Coordinates، ریاستہائے متحدہ مردم شماری بیورو، اگست 2010، اخذ شدہ بتاریخ نومبر 17, 2017،
reflect base feature updates made in the MAF/TIGER database through اگست، 2010.
- ↑ "Population increases to جولائی 1, 2018"۔ ریاستہائے متحدہ مردم شماری بیورو
- ↑ "Annual Estimates of the Resident Population: اپریل 1, 2010 to جولائی 1, 2016"۔ ریاستہائے متحدہ مردم شماری بیورو۔ 12 اگست 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ جولائی 25, 2017 The 2016 estimate is as of جولائی 1, 2016. The 2010 census is as of اپریل 1, 2010.
- ^ ا ب پ ت "World Economic Outlook Database, اکتوبر 2018 – Report for Selected Countries and Subjects"۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF)۔ اخذ شدہ بتاریخ اپریل 1, 2018
- ↑ "OECD Income Distribution Database: Gini, poverty, income, Methods and Concepts"۔ Organisation for Economic Co-operation and Development۔ اخذ شدہ بتاریخ فروری 11, 2019
- ↑ "2018 Human Development Report"۔ United Nations Development Programme۔ 2018۔ 14 ستمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ ستمبر 14, 2018
- ↑ آیون ایلنڈ (12 مئی 2011ء)۔ "'Unprovoked' attacks, from 1812 to 9/11"۔ دی نیشن۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مئی 2011
- ↑ بی سی ڈاٹ کام، 6 اگست 2007ء، [مردہ ربط] "1945:امریکا نے ہیروشیما پر ایٹم بم گرا دیا"
- ↑ "Court: No right to resist illegal cop entry into home"۔ nwi.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مئی 2011
- ↑ "Supreme Court Declines Rendition Torture Case Involving 'State Secrets'"۔ وائرڈ۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مئی 2011
- ↑ "Jimmy Carter Defends Edward Snowden, Says NSA Spying Has Compromised Nation's Democracy"۔ ہفنگٹن پوسٹ۔ 19 جولائی 2013ء
- ↑ اسٹیفم موور (وال سٹریٹ جورنل1 اپریل 2011ء)۔ "We've Become a Nation of Takers, Not Makers: More Americans work for the government than in manufacturing, farming, fishing, forestry, mining and utilities combined."۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 اپریل 2011