عبدالحق خیرآبادی

عالم دین

عبد الحق خیرآبادی (پیدائش: 1828ء— وفات: 5 مارچ 1899ء عالم دین تھے۔

عبدالحق خیرآبادی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1828ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دہلی ،  مغلیہ سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 5 مارچ 1899ء (70–71 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دہلی ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد فضل حق خیر آبادی   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ عالم ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

مولانا عبد الحق خیرآبادی 1244ھ مطابق 1828ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ والد علامہ فضل حق خیرآبادی تھے جنھوں نے جنگ آزادی 1857ء کی پاداش میں آخری عمر جلاوطنی کی صورت میں جزائر انڈمان میں بسر کی۔ جس زمانے میں مولانا پیدا ہوئے تو اُس وقت دہلی کے علمی اُفق پر مولانا مملوک علی نانوتوی (متوفی 1851ء)، مولانا رشیدالدین (متوفی 1833ء) اور شاہ محمد اسحاق دہلوی (متوفی 1845ء) جیسے ستارے جگمگا رہے تھے۔ دہلی میں بڑے بڑے شعرا غالب (متوفی 15 فروری 1869ءمومن (متوفی مئی 1852ء) اور مفتی صدر الدین خان آزردہ (متوفی 16 جولائی 1868ء) جیسے افراد کا ڈنکا بج رہا تھا۔ مولانا عبد الحق کو لڑکپن میں اِن اشخاص ممتاز سے ملاقات اور استفادہ کرنے کی خوش نصیبی میسر آئی۔مولانا عبد الحق نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ والد بزرگوار کی علمی و ادبی نشستوں میں شریک رہا کرتے تھے اور سولہ سال کی عمر میں تعلیم سے فارغ ہوئے اور علمی مسائل میں مجتہدانہ گفتگو کی صلاحیت رکھتے تھے۔[1]

ملازمت

ترمیم

مولانا فضل حق خیر آبادی جن دِنوں ریاست الور سے منسلک تھے، مولانا عبد الحق اپنے والد کے ہمراہ دربارِ ریاست الور میں جایا کرتے تھے۔ مہاراجا الور مولانا عبد الحق کی گفتگو سے خاصا متاثر تھا، چنانچہ جب مولانا فضل حق خیر آبادی رامپور چلے گئے تو مہاراجا اَلور نے مولانا عبد الحق کو عمائدِ سلطنت میں شامل کر لیا۔ جنگ آزادی 1857ء کے ہنگامے میں مولانا دہلی میں مقیم تھے۔ مولانا فضل حق خیر آبادی فتویٰ جہاد پر دستخط کرنے کی وجہ سے گرفتار کرلیے گئے تو اُن کی رہائی کے لیے قانونی چارہ جوئی کی، تاہم قانونی چارہ جوئی کے باوجود مولانا فضل حق خیر آبادی کو بطور سزا کے جزائر انڈمان بھیج دیا گیا جہاں وہ 20 اگست 1861ء کو انتقال کرگئے۔ مولانا فضل حق خیر آبادی کے جزائر انڈمان چلے جانے کے بعد مولانا عبد الحق آبائی گاؤں خیرآباد چلے گئے۔ کچھ عرصے کے بعد نواب ٹونک نے اپنے پاس بلوا لیا۔ پھر حکومت برطانیہ نے مدرسہ عالیہ کلکتہ کے لیے مولانا کی علمی خدمات حاصل کیں مگر کلکتہ کی آب و ہوا راس نہ آئی اور نواب کلب علی خان کے اصرار پر رامپور چلے گئے۔ رامپور میں 1864ء سے 1883ء تک حاکم مرافعہ اور پرنسپل مدرسہ عالیہ کے عہدوں پر فائز رہے۔[2] نواب کلب علی خان کی وفات کے بعد واپس اپنے آبائی علاقے خیرآباد آگئے اور کچھ عرصے کے لیے حیدرآباد دکن چلے گئے۔ نواب حامد علی خان کی فرمائش پر دوبارہ رامپور آگئے اور ایک سال قیام کے بعد مستقل طور پر خیرآباد چلے گئے اور آخری دم تک وہیں مقیم رہے۔

وفات

ترمیم

مولانا آخری عمر میں کئی امراض میں مبتلا ہوئے۔ بڑھاپے نے سب امراض کو گھیرلیا تھا۔ ضیق النفس اور استسقا کے مریض ہو گئے تھے ۔ 5 مارچ 1899ء کو فوت ہوئے اور اپنے دادا فضل امام کے پہلو میں دفن ہوئے۔

تصانیف

ترمیم
  • حاشیہ غلام یحییٰ
  • شرح ہدایت الحکمت
  • تسہیل الکافیہ:  یہ علامہ سید شریف جرجانی کی فارسی شرح الکافیہ کا عربی ترجمہ ہے۔
  • جواہر غالیہ
  • حاشیہ قاضی مبارک
  • حاشیہ میرزاہد ہروی (اُمورِ عامہ)
  • رسالہ تحقیق تلازم
  • شرح مسلم الثبوت
  • شرح سلاسل الکلام
  • حاشیہ حمداللہ
  • تحفہ وزیریہ، علم نحو پر ایک رسالہ۔[3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. باغی ہندوستان: صفحہ 198۔
  2. باغی ہندوستان: صفحہ 201۔
  3. تذکرہ مصنفین درس نظامی:  صفحہ 121۔

مزید دیکھیے

ترمیم