حیدرآباد، دکن

حیدر آباد، دکن
(حیدرآباد دکن سے رجوع مکرر)

حیدرآباد بھارت کی ریاست تلنگانہ کا دار الحکومت اور صوبہ کا سب سے بڑا شہر ہے۔ جنوبی ہند کے سطح مرتفع دکن علاقہ دریائے موسی کے کنارے واقع اس شہر کا کل رقبہ 650 مربع کلومیٹر (250 مربع میل) ہے۔ سطح سمندر سے 542 میٹر 1778 فٹ) کی اونچائی پر واقع یہ شہر کئی پہاڑوں اور مصنوعی تالابوں سے مالا مال ہے۔ شہر کا مشہور حسین ساگر حیدرآباد کی تاسیس سے بھی پرانا ہے۔ مردم شماری، 2011ء کے مطابق حیدرآباد آبادی کے لحاظ سے چو تھا بڑا شہر ہے۔ اس کی کل آبادی 6.9 ملین نفوس پر مشتمل ہے۔ اگر میٹروپولیٹن علاقہ کی بات کریں تو اس کی کل آبادی 9.7 ملین ہے اور اس لحاظ سے یہ بھارت کا چھٹا بڑا میٹروپولیٹن شہر ہے۔ اس کی معیشت کی کل مالیت 74 بلین امریکی ڈالر ہے اور اس لحاظ سے یہ بھارت کی پانچوں بڑی شہری معیشت ہے۔

میٹروپولس
300px
اوپر سے دائیں جانب: رمضان کی ایک شب چار مینار کا بازار، گنبدان قطب شاہی، حسین ساگر پر مجسمۂ بدھا ، فلک نما محل، گاچی باولی کا طائرانہ نظارہ، بیرلہ مندر
حیدرآباد
بلدیہ حیدرآباد کا نشان
نقشہ
حیدرآباد کا نقشہ
تلنگانہ، بھارت میں حیدرآباد کی منظر کشی
تلنگانہ، بھارت میں حیدرآباد کی منظر کشی
حیدرآباد
تلنگانہ، بھارت میں حیدرآباد کی منظر کشی
تلنگانہ، بھارت میں حیدرآباد کی منظر کشی
حیدرآباد
تلنگانہ، بھارت میں حیدرآباد کی منظر کشی
تلنگانہ، بھارت میں حیدرآباد کی منظر کشی
حیدرآباد
تلنگانہ، بھارت میں حیدرآباد کی منظر کشی
تلنگانہ، بھارت میں حیدرآباد کی منظر کشی
حیدرآباد
نقشہ ہائے حیدرآباد
متناسقات: 17°21′42″N 78°28′29″E / 17.36167°N 78.47472°E / 17.36167; 78.47472
ملک بھارت
ریاستفائل:Government of Telangana Logo.png تلنگانہ
ضلع
قیام1591
قائم ازمحمد قلی قطب شاہ
حکومت
 • قسمبلدیہ
 • مجلسعظیم تر بلدیہ حیدرآباد،
حیدرآباد میٹروپولیٹن ڈیولپمنٹ اتھارٹی
 • عظیم تر بلدیہ حیدرآبادGadwal Vijayalakshmi (TRS)
 • رکن پارلیماناسد الدین اویسی (کل ہند مجلس اتحاد المسلمین)
رقبہ
 • اصل شہر650 کلومیٹر2 (250 میل مربع)
 • میٹرو7,257 کلومیٹر2 (2,802 میل مربع)
بلندی542 میل (1,778 فٹ)
آبادی (2011)[1]
 • اصل شہر6,809,970 (نفوس)
 • تخمینہ (2018)[2]9,482,000
 • کثافت10,477/کلومیٹر2 (27,140/میل مربع)
 • شہری[3]7,749,334 (شہری آبادی)
 • میٹرو[4]9.7 ملین (آبادی)
نام آبادیحیدرآباد
منطقۂ وقتبھارتی معیاری وقت (UTC+5:30)
ڈاک اشاریہ رمز500xxx, 501xxx, 502xxx
گاڑی کی نمبر پلیٹTS-07 سے TS-15
(سابقہ AP-09 سے AP-14 اور AP-28, AP-29)
Metro GDP (مساوی قوت خرید)امریکی ڈالر40–امریکی ڈالر74 بلین[5]
سرکاری زبانیں
ویب سائٹwww.ghmc.gov.in

1591ء میں محمد قلی قطب شاہ نے اپنے پایہ تخت کو گولکنڈہ کے باہر وسعت دی۔ گولکنڈہ ایک قلعہ بند شہر تھا۔ 1687ء میں مغلیہ سلطنت نے حیدراباد کو سلطنت مغلیہ کا حصہ بنا دیا۔ 1724ء میں مغل وائسرائے نظام الملک آصف جاہ اول نے مغل سلطنت سے بغاوت کی اور اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا اور مملکت اصفیہ کی بنیاد ڈالی۔ مملکت آصفیہ کو نظام حیدرآباد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ 1769ء تا 1948ء حیدراباد مملکت آصفیہ کا پایہ تخت رہا۔ برطانوی دور میں قانون آزادی ہند 1947ء تک یہ نوابی ریاست برطانوی ریزیڈنسی، حیدرآباد کہلائی۔ 1948ء میں بھارت ڈومینین نے حیدراباد کو بھارت میں شامل کرلیا اور شہر حیدراباد ریاست حیدرآباد کا پایہ تخت بنا رہا۔ 1956ء میں صوبہ تشکیل نو ایکٹ، 1956ء کے تحت ایک نئے صوبہ آندھرا پردیش کا دار الحکومت بنا۔ 2014ء میں آندھرا پردیش کے دو حصے ہوئے اور تشکیل تیلنگانہ عمل میں آیا اور 2024ء تک حیدراباد کو مشترکہ طور پر دونوں صوبوں کا دار الحکومت بنایا گیا۔ 1956ء سے حیدراباد صدر بھارت کا موسم سرما کا دفتر رہا ہے۔ شہر میں قطب شاہی اور نظام شاہی سلطنتوں کے باقیات جا بجا ملتے ہیں۔ چار مینار حیدراباد کی پہچان ہے۔ عہد جدید کے اواخر میں جب مغل سلطنت زوال پزیر ہونے لگی تب نظام حیدراباد نے اپنا دور شباب دیکھا اور حیدراباد کو دنیا بھر میں ایک پہچان مل گئی۔ یہاں کی ثقافت، زیورات، ادب، مصوری، دکنی لہجہ اور ملبوسات اپنی انفرادیت کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ حیدرآبادی پکوان کی وجہ سے یہ شہر یونیسکو کے سٹی آف گیسٹرانومی میں شامل ہے۔ شہر میں واقع تیلگو سنیما بھارت کا دوسرا بڑا سنیما ہے۔ 19ویں صدی تک حیدراباد دنیا بھر میں اپنے ہیروں کی وجہ سے مشہور تھا اور اسے “سٹی آف پلرس“ (ہیروں کا شہر) کہا جاتا تھا۔ دنیا بھر میں گولکنڈہ کے ہیروں کی تجارت ہوتی تھی۔ شہر کے کئی روایتی بازار اب بھی موجود ہیں۔ حیدراباد سطح مرتفع دكن اور مغربی گھاٹ کے درمیان میں واقع ہے اور اسی وجہ سے 20ویں صدی میں یہ تحقیق، تعمیر، تعلیم و ادب اور معیشت کا مرکز بن گیا اور یہاں کئی تعلیمی ادارے قائم ہوئے۔ 1990ء کی دہائی میں یہ شہر ادویات اور بایوٹیکنالوجی میں ترقی کرنے لگا اور یہاں خصوصی معیشتی علاقہ (ہائی ٹیک سٹی) ترقی پزیر ہوا جہاں کئی بین الاقوامی کمپنیاں اور صنعت موجود ہیں۔ ابھی اس وقت فی الحال آندھرا پردیش کا بھی capital ہے

تاریخ

ترمیم

مکان نامی

ترمیم

حیدراباد کے معنی “حیدر کا شہر“ کے آتے ہیں۔ حیدر بمعنی شیراور آباد بمعنی شہر یا آبادی۔ حیدر دراصل خلیفہ راشد رابع علی ابن ابی طالب کا ایک نام ہے اور انہی کے نام پر اس شہر کا نام رکھا گیا ہے۔[6] پہلے اس شہر کا نام “باغ نگر“ (باغوں کا شہر) تھا جسے بعد میں حیدراباد کر دیا گیا۔[7][8] یورپی سیاح وون پوسر اور ثیونوٹ کے مطابق 17ویں صدی میں دونوں نام زیر استعمال تھے۔[9][10] ایک روایت کے مطابق شہر کے بانی محمد قلی قطب شاہ نے اس شہر کا نام بھاگ متی کے نام پر “بھاگیہ نگر“ رکھا۔ وہ ایک مشہور رقاصہ تھی۔ قلی قطب شاہ نے بھاگ متی سے شادی کرلی اور بھاگ متی نے اسلام قبول کر کے اپنا نام حیدر محل رکھ لیا۔ ان کے اعزاز میں یہ شہر حیدراباد کہلانے لگا۔[11]

ابتدائی تاریخ اور عہد وسطی

ترمیم
 
A 17th century Deccani School miniature of قطب شاہی سلطنت ruler ابو الحسن قطب شاہ with Sufi singers in the Mehfil-(“gathering to entertain or praise someone”)۔
 
The گنبدان قطب شاہی at Ibrahim Bagh are the tombs of the seven Qutb Shahi rulers.

1851ء میں عہد نظام شاہی میں مضافات حیدرآباد میں فلپ میڈوز ٹیلر نے ماقبل تاریخ کے کچھ نصب کردہ پتھر دریافت کیے تھے۔ فلپ نظام شاہی سلطنت میں ایک پولیمیتھ تھے۔ فلپ نے ان پتھروں سے نتیجہ نکالا کہ یہ شہر سنگی دور سے آباد ہے۔[12][13] ماہرین آثار قدیمہ کو کھدائی کے دوران میں حیدرآباد کے نزدیک آہنی دور کے کچھ آثار ملے تھے جو تقریباً 500 عام زمانہ کے ہو سکتے ہیں۔[14] یہ پورا علاقہ اور جدید حیدراباد میں شامل ہے اور اور اس کے آس پاس 624ء تا 1075ء چالوکیہ خاندان کی حکومت تھی۔[15] 11ویں صدی میں چالوکیہ سلطنت چار ریاستوں میں منقسم ہو گئی اور گولکنڈہ کی ریاست کیکٹیا خاندان کے حصہ میں آئی۔ انھوں نے 1158ء میں گولکنڈہ کی حکومت سنبھالی اور ان کا پایہ تخت موجودہ حیدراباد سے 148 کلومیٹر (92 میل) شمال مشرق میں آباد وارنگل تھا۔[16] کیکٹیا کے راجا گنپتی دیوا نے پہاڑ کی چوٹی پر ایک قلعہ تعمیر کیا جسے اب قلعہ گولکنڈہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔[13]

1310ء میں دہلی سلطنت کے خلجی خاندان کے حکمران علا الدین خلجی نے کیکٹیا کو شکست دی اور ان کی حکومت محدود کردی۔ 1321ء میں علاءالدین کے سپہ سالار ملک کافور نے کیکٹیا حکومت کو دہلی سلطنت میں شامل کر لیا۔[17] اسی حملہ کے دوران میں خلجی کو مشہور کوہ نور ہاتھ لگا جسے وہ دہلی لے گیا۔ کوہ نور کو گولکنڈہ کے کلور کی کان سے نکالا گیا تھا۔[18] 1325ء میں دہلی سلطنت خلجییوں کے ہاتھوں سے نکل کر تغلق خاندان کے ہاتھ میں آگئی اور وارنگل کو دہلی سلطنت میں شامل کر لیا گیا۔ ملک مقبول تیلاغانی وارنگل کے جنرل مقرر ہوئے۔ 1333ء میں منصوری نایک نے سلطنت کے خلاف بغاوت کر دی اور وارنگل کو اپنی ماتحتی میں لے لیا اور اپنی ریاست کی دارالخلافت کو یہاں منتقل کر دیا۔[19] اس کے بعد تغلق کے ایک گورنر علا الدین بہمن شاہ نے بھی دہلی سلطنت کے خلاف بغاوت کر دی اور سطح مرتفع دكن میں اپنی حکومت قائم کی اور موجودہ حیدرآباد سے 200 کلومیٹر (124 میل) مغرب میں واقع گلبرگہ کو دار الحکومت بنایا۔ وارانگل کے منصور اور گلبرگہ کے بہمنیوں کے درمیان میں 1364-65ء تک خوب جنگیں ہوئیں اور بالآخر ایک معاہدہ پر دستخط ہوئے اور منصوری نے گولکنڈہ کو بہمن کے حوالہ کر دیا۔ بہمن کے گولکنڈہ پر 1518ء تک حکومت کی اور وہ دکن پر پہلے مسلم آزاد حکمران بن گئے۔[20][21][22] 1496ء میں قلی قطب الملک کو تیلنگانہ علاقہ کا نیا گورنر بنایا گیا۔ انھوں نے پرانے گولکنڈہ کی قلعہ بندی کی۔ شہر کے حصار کو بڑھایا اور نئی دیواریں بھی تعمیر کیں اور نئے شہر کا نام محمد نگر رکھا۔ 1518ء میں قلی قبط الملک بہمنی سلطنت کے خلاف بغاوت کر دی اور قطب شاہی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔[16][23][24] قطب شاہی سلطنت کے 5ویں حکمران محمد قلی قطب شاہ نے گولکنڈہ میں پانی کی قلت کی وجہ سے[25] 1591ء میں موسی ندی کے کنارے حیدرآباد کو بسایا۔[26][27] قلی قطب شاہ نے اپنے دور حکومت میں چار مینار اور مکہ مسجد کو تعمیر کیا۔[28] 21 ستمبر 1687ء کو ایک سال تک گولکنڈہ کا محاصرہ کرنے کے بعد اسے فتح کر لیا۔[29][30] انھوں نے گولکنڈہ کو مغلیہ سلطنت کا ایک صوبہ قرار دیا اور حیدرآباد کو دارالجہاد کا نام دیا اور یہاں سے 550 کلومیٹر (342 میل) شمال مغرب میں واقع اورنگ آباد، مہاراشٹر کو گولکنڈہ کا دار الحکومت بنایا۔[31][32][33]

جدید تاریخ

ترمیم
 
تصویر میں ایل مل ہے جس کا نالہ حیسن ساگر تک جاتا ہے۔ 1880ء میں ریلوے آنے کے بعد حسین ساگر کے ارد گرد اس طرح کی صنعتیں قائم کی گئی تھیں۔

1713ء میں مغل شہزادہ فرخ سیر نے مبریز خان کو حیدراباد کا گورنر نامزد کیا تھا۔ انھوں نے شہر کو قلعہ بند کیا اور اندوری معاملات درست کیے اور بیرونی طاقتوں سے بھی نبرد آزما ہو کر انھیں قابو میں کیا۔[31] 1714ء میں فرخ سیر نے نظام الملک آصف جاہ اول کو دکن کا وائسارئے (مغل کے چھ صوبوں کا منتظم اعلیٰ) نامزد کیا۔ انھیں ‘نظام الملک‘ کا خطاب دیا گیا۔ 1721ء میں وہ مغلیہ سلطنت کے وزیر اعظم نامزد ہوئے۔[34] مغلیہ سلطنت سے اختلافات کی بنا پر انھوں نے 1723ء میں تمام عہدوں سے استعفی دے دیا اور دکن واپس آگئے۔[35][36] ادھر مغل بادشاہ محمد شاہ نے مبریز خان کو آصف جاہ کو روکنے کا حکم دیا جس کے نتیجہ میں شکر کھیڑا کی لڑائی ہوئی۔[35]:93–94 آصف جاہ نے مبریز خان کو شکست دی اور سطح مرتفع دكن میں ایک خود مختار ریاست قائم جس کا نام ریاست حیدراباد رکھا گیا۔ بعد میں اس کا نام مملکت آصفیہ رکھ دیا گیا۔ بعد سے حمکرانوں نے نظام الملک کا خطاب برقرار رکھا اور آصف جاہہ نظام یا نظام حیدرآباد کہلائے۔[31][32] 1748ء میں آصف جاہ اول کی وفات کے بعد سلطنت میں سیاسی افراتفری پھیل گئی اور بعد کے حکمرانوں - ناصر جنگ (1748ء - 1750ء)، محی الدین مظفر جنگ ہدایت (1750ء - 1751ء) اور صلابت خان (1751ء - 1762ء) کا عہد حکمرانی پڑوسی ریاستوں سے نبرد آزمائی اور لالچی اور موقع پرستوں کی مدد سے آنے والی کولونیل طاقتوں کو کچلنے میں نکل گیا۔ 1762ء میں آسف جاہ ثانی نے تخت سنبھالا اور انھوں نے ریاست میں سیاسی استحکام قائم کیا۔ وہ 1803ء تک حکمران رہے۔ 1768ء میں انھوں نے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ مسولی پٹنم معاہدہ پر دستظط کیے جس کے رو سے ریاست کے تمام ساحلی علاقے کمپنی کو سونپ دیے گئے۔ بدلے میں کمپنی نے ریاست کو ایک مخصوص سالانہ کرایہ دیا۔[37] 1769ء میں حیدراباد آصف جاہی نظام کا باقاعدہ دار الحکومت قرار پایا۔[31][32] چونکہ نظام کو میسور کے دلوائی حیدر علی، مرہٹہ سلطنت کے پیشوا باجی راؤ اول اور فرانسیسی ہندوستانی جنرل مارقویس دی بوسی کے تعاون سے آصف جاہ اول کے بھائی بصالت خان سے برار خطرہ رہتا تھا، لہذا نظام حیدراباد نے 1798ء میں برطانوی ہندی فوج کے ساتھ ایک ماتحت اتحاد قائم کیا اور بدلے میں نظام نے برطانیہ کو سالانہ معاوضہ ادا کرنے کا وعدہ کیا۔ معاہدہ کی رو سے برطانوی ہندی فوج نے بولارم (موجودہ سکندراباد) میں نظام سلطنت کی حفاظت کے لیے ایک فوجی چھاونی قائم کی۔[37] 1874ء میں حیدراباد میں کوئی صنعت نہیں تھی اور کارخانوے ناپید تھے۔ 1880ء کی دہائی ریل گاڑی کی آمد کے بعد حسین ساگر کے جنوب اور مشرق میں کارخانے قائم کیے گئے۔[38] 20ویں صدی میں جدید مواصلاتی نظام، زیر زمین آبی نکاسی، میٹھے پانی کے نالے، بجلی، ٹیلی مواصلاتی نظام، صنعتیں اور کارخانے اور بیگم پیٹ ہوائی اڈا کے قیام سے حیدراباد کو جدید شہر میں تبدیل کر دیا گیا۔[31][32]

تقسیم کے بعد بھارت ڈومینین یا نومولود پاکستان ڈومنین کے ساتھ جانے کی بجائے خود مختار رہنے کا فیصلہ کیا۔[37] مگر 1948ء میں انڈین نیشنل کانگریس اور بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی کی مدد سے حیدراباد اسٹیٹ کانگریس نے نظام سابع میر عثمان علی خان کے خلاف محاذ کھول دیا۔ اسی سال 17 ستمبر کو بھارتی فوج نے ریاست حیدراباد پر قبضہ کر لیا اور اس عمل کو ‘آپریشن پولو‘ (سقوط حیدرآباد) کا نام دیا گیا۔ نظام کو بھارتی فوج نے حراست میں لے لیا اور ریاست حکومت کو ہند کو سونپنی پڑی۔ حکومت نے انھیں راج پرمکھ بنایا مگر 31 اکتوبر 1956ء کو ان سے یہ عہدہ چھین لیا گیا۔[32][39]

ما بعد آزادی

ترمیم

1946ء اور 1951ء کے دوران میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے تلنگانہ میں علاقہ کے جاگیرداروں کے خلاف عوام کو بھڑکایا اور تیلانگانہ بغاوت کو ہوا دی۔[40] 26 جنوری 1950ء آئین ہند نافذ ہوا جس کی رو سے حیدڑاباد اسٹیٹ کو بھارت کا ایک صوبہ تسلیم کیا گیا اور حیدرآباد شہر بدستور دار الحکومت برقررار رہا۔[41] اس وقت کے آین ہند کے ڈرافٹ کمیٹی کے صدر نشین بھیم راؤ رام جی امبیڈکر نے اپنی 1955ء کی رپورٹ تھاٹس اون لنگوسٹک اسٹیٹس میں حیدرآباد کو اس کی سہولیات اور جغرافیائی اہمیت کی بنا پر بھارت کی کدوسری راجدھانی بنانے کی وکالت کی۔[42] 1 نومبر 1956ء کو بھارت کی ریاستوں کو بلحاظ زبان تقسیم کیا گیا۔ ریاست حیدرآباد کو پڑوسی مہاراشٹرا، کرناٹک اور آندھرا پردیش میں تقسیم کر دیا گیا۔ حیدرآباد کے تیلگو زبان اور اردو بولنے والے 9 ضلعوں کو ریاست آندھرا میں شامل کر کے آندھرا پردیش بنایا گیا اور حیدرآباد کو اس کا دارالخلافت بنایا۔[43][44][45] اس کے خلاف کئی مظاہرے ہوئے اور تلنگانہ تحریک کی ابتدا ہوئی۔ اس تحریک کے ذریعے تیلگو ضلعوں کو آندھرا پردیش میں ضم کے خلاف مظاہرے ہوئے اور ایک نئی ریاست بنام تیلنگانہ بنائے جانے کی مانگ اٹھنے لگی۔ 1969ء اور 1972ء میں کئی بڑے واقعات رونما ہوئے اور پھر 2010ء میں بھی اس مظاہرہ نے زور پکڑ لیا۔[46] شہر میں کئی دھماکے بھی ہوئے جن میں 2002ء میں دل سکھ نگر میں ایک بڑا دھاکہ ہوا جس میں 2 لوگوں کی جان بھی گئی۔[47] 2007ء میں بھارت میں مذہبی تشدد نے زور پکڑا اور مئی اور اگست میں کئی بم دھماکے ہوئے۔[48] اس کے بعد 2013ء حیدرآباد بم دھماکے ہوئے۔[49] 30 جولائی 2013ء کو حکومت ہند نے اعلان کیا کہ آندھرا پردیش کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا اور دوسری ریاست تیلنگانہ کہلائے گی۔ حیدرآدباد تیلنگانہ کا حصہ رہے گا اور دس برسوں کو یہ دونوں ریاستوں کا دار الحکومت بنا رہے گا۔ 13 اکتوبر 2013ء کو حکومت نے یہ پیشکش منظور کرلی۔[50] اور فروری 2014ء میں بھارتی پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے آندھرا پردیش تنظیم نو ایکٹ، 2014ء کو منظور کر لیا۔ 2 جون 2014ء کو تیلنگانہ ایک مستقل ریاست بن گیا۔[51]

جغرافیہ

ترمیم
 
حسین ساگر کی تعمیر قطب شاہی سلطنت کے زمانے میں ہوئی۔ اس زمانہ میں یہ شہر کی آبی کمی کو پورا کرتا تھا۔

حیدرآدباد دہلی سے 1,566 کلومیٹر (5,138,000 فٹ) جنوب، ممبئی سے 699 کلومیٹر (2,293,000 فٹ) جنوب مشرق اور بنگلور سے 570 کلومیٹر (1,870,000 فٹ) شمال میں واقع ہے۔[52] حیدرآباد جنوبی ہند کے سطح مرتفع دكن میں دریائے کرشنا کی ذیلی ندی دریائے موسی کے ساحل پر واقع ہے۔ یہ تیلنگانہ کے جنوبہ حصہ میں ہے۔ یہ پورا علاقہ جنوبی ہند کا حصہ ہے۔[53][54][55][56] عظیم تر حیدرآباد کا کل رقبہ 650 کلومیٹر2 (250 مربع میل) ہے اور یہ بھارت کے سب سے بڑے بلدیہ میں سے ایک ہے۔[57] اس کی اوسط اونچائی 650 کلومیٹر2 (250 مربع میل)۔ حیدرآباد سرمئی اور گلابی گرینائٹ کے دھلوانی زمین پر بسا ہوا ہے جہاں جا بجا چھوٹی پہاڑیاں ہیں۔ سب سے اونچی پہاڑی بنجارا ہلز ہے جس کی اونچائی 672 میٹر (2,205 فٹ) ہے۔[56][58] حیدرآباد میں کئی تالاب ہیں جنہیں یہاں ساگر کہا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ موسی ندی پر باندھ بناکر بنایا گیا ہے جیسے شہر کے مرکز 1562ء میں تعمیر شدہ حسین ساگر، عثمان ساگر اور حمایت ساگر وغیرہ۔[56][59] بمطابق 1996ء، حیدرآباد میں 140 بڑی جھیلیں اور 834 چھوٹے تالاب ہیں۔[60]

آب و ہوا

ترمیم

حیدرآباد کی آب ہوا کوپن موسمی زمرہ بندی کے تحت آتی ہے۔[61] سالانی اوسب درجہ حرارت 26.6 °C (79.9 °F) ہے اور ماہانہ اوسط درجہ حرارت; 21–33 °C (70–91 °F) ہے۔[62] موسم گرما (مارچ تا جون) گرم اور نم رہتا ہے۔ درجہ حرارت اوسطا 30 ڈگری سیلسیس کے قریب رہتا ہے۔[63] اپریل اور جون کے درمیان میں درجہ حرارت 40 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔<[62] سرد مہینے دسمبر اور جنوری ہیں، اس دوران میں درجہ حرارت 10 °C (50 °F) تک گر جاتا ہے۔ مئی کا مہینہ سب سے گرم رہتا ہے، اس دوران میں اوسط درجہ حرارت 26–39 °C (79–102 °F) تک رہتا ہے۔[63] جون اور اکتوبر کے درمیان میں مانسون رہتا ہے اور اس دوران موسلادھار بارش ہوتی ہے۔ اسی دوران میں سال بھر کی زیادہ تر بارش ہو جاتی ہے۔[63] 1891ء سے بارش کا ریکارڈ رکھنا شروع ہوا ہے اور تب سے 24 اگست 2000ء کو 24 گھنٹے میں سب سے زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی تھی۔ اس دن کل 241.5 mm بارش ہوئی تھی۔ جو اب تک سب سے زیادہ ہے۔ 2 جون 1966ء کو اب تک کا سب زیادہ گرم دن آنکا گیا ہے۔ اس دن کا درجہ حرارت 45.5 °C (114 °F) اور سب سے کم درجہ حرارت 6.1 °C (43 °F) 8 جنوری 1946ء کو تھا۔[64] شہر پورے سال تقریباً 2,731 گھنٹے تک سورج کی روشنی حاصل کرتا ہے۔ سب سے زیادہ فروری کا مہینہ سورج کی تپش میں رہتا ہے۔[65]

کے موسمی تغیرات حیدرآباد، دکن (بیگم پیٹ ہوائی اڈا) 1981–2010، extremes 1951–2012)
مہینا جنوری فروری مارچ اپریل مئی جون جولائی اگست ستمبر اکتوبر نومبر دسمبر سال
بلند ترین °س (°ف) 35.9
(96.6)
39.1
(102.4)
42.2
(108)
43.3
(109.9)
44.5
(112.1)
45.5
(113.9)
37.4
(99.3)
36.2
(97.2)
36.1
(97)
36.7
(98.1)
34.0
(93.2)
34.2
(93.6)
45.5
(113.9)
اوسط بلند °س (°ف) 29.3
(84.7)
32.4
(90.3)
35.9
(96.6)
38.1
(100.6)
39.4
(102.9)
34.9
(94.8)
31.3
(88.3)
30.1
(86.2)
31.1
(88)
31.0
(87.8)
29.6
(85.3)
28.7
(83.7)
32.7
(90.9)
یومیہ اوسط °س (°ف) 22.7
(72.9)
25.3
(77.5)
28.6
(83.5)
31.3
(88.3)
33.0
(91.4)
29.7
(85.5)
27.0
(80.6)
26.2
(79.2)
26.7
(80.1)
25.8
(78.4)
23.7
(74.7)
21.9
(71.4)
26.8
(80.2)
اوسط کم °س (°ف) 15.9
(60.6)
18.3
(64.9)
21.5
(70.7)
24.4
(75.9)
26.3
(79.3)
24.2
(75.6)
22.8
(73)
22.2
(72)
22.3
(72.1)
20.6
(69.1)
17.4
(63.3)
15.1
(59.2)
20.9
(69.6)
ریکارڈ کم °س (°ف) 6.1
(43)
8.9
(48)
13.2
(55.8)
16.0
(60.8)
16.7
(62.1)
17.8
(64)
18.6
(65.5)
18.7
(65.7)
17.8
(64)
11.7
(53.1)
7.4
(45.3)
7.1
(44.8)
6.1
(43)
اوسط بارش مم (انچ) 9.3
(0.366)
9.2
(0.362)
17.8
(0.701)
21.7
(0.854)
31.7
(1.248)
111.2
(4.378)
179.2
(7.055)
207.0
(8.15)
132.9
(5.232)
103.6
(4.079)
26.1
(1.028)
4.9
(0.193)
854.6
(33.646)
اوسط بارش ایام 0.6 0.5 1.1 1.8 2.4 6.9 10.0 11.5 7.6 5.5 1.6 0.4 49.9
اوسط اضافی رطوبت (%) (at 17:30 بھارتی معیاری وقت) 40 32 28 28 30 51 64 69 65 56 48 43 46
ماہانہ اوسط دھوپ ساعات 272.8 265.6 272.8 276.0 279.0 180.0 136.4 133.3 162.0 226.3 243.0 251.1 2,698.3
اوسط روزانہ دھوپ ساعات 8.8 9.4 8.8 9.2 9.0 6.0 4.4 4.3 5.4 7.3 8.1 8.1 7.4
ماخذ#1: India Meteorological Department (sun 1971–2000)[66][67][68]
ماخذ #2: Tokyo Climate Center (mean temperatures 1981–2010)[69]


تحفظ

ترمیم
 
کالے ہرن مہاویر ہرینا ونستھلی نیشنل پارک میں گھاس چرتے ہوئے

حیدرآدباد میں تالابوں اور جھیلوں کی بہتات ہے اور یہاں کی پہاڑی اور ڈھلوانی زمین کی وجہ سے حیوانات اور نباتات کے پھلنے پھولنے کا اچھا موقع ملتا ہے۔ 1996ء میں حیدرآباد کی زمین کا کل 2.7% حصہ درختوں پر مشتمل تھا مگر بمطابق 2016 یہ تناسب گھٹ کر 1.7% رہ گیا ہے۔[70] شہر کے مضافات کے جنگلات خاصے اہمیت کے حامل ہیں اور حکومت نے انھیں مختلف شکلوں میں محفوظ کر رکھا ہے مثلاً قومی باغستان، چڑیا گھر، چھوٹے چڑیا گھر، جنگلی حیات کی پناہ گاہ وغیرہ۔ نہرو چڑیا گھر (شہر کا سب سے بڑا چڑیا گھر) ملک کا پہلا چڑیا گھر تھا جس میں شیر اور ببر شیر کا سفاری پارک تھا۔ حیدرآباد میں 3 نیشنل پارک ہیں؛ موروگوانی نیشنل پارک، مہاویر ہرینا ونستھلی نیشنل پارک اور کاسو برہانندا ریڈی نیشنل پارک۔ ان کے علاوہ منجیرا وائلڈ لائف سینکچری شہر کے تقریباً 50 کلومیٹر (31 میل) کی مسافت پر واقع ہے۔ حیدرآباد میں کوٹلہ وجے بھاسکر ویڈی بوٹانیکل گارڈن، امین پور لیک، شامیرپیٹ لیک، حیسن ساگر، فوکس ساگر لیک، میر عالم ٹینک اور پتنچیرو لیک موجود ہیں جو شہر کی آب ہوا کو متناسب رکھنے کے ساتھ ساتھ یہاں کے اہم سیاحتی مقامات میں شامل ہیں۔ بالصوص شامیرپیٹ لیک اور پتنچیرو لیک مختلف ملکوں سے آئے مہاجری پرندوں کی آماجگاہ ہیں۔[71] ریاست کی کئی تنظیمیں شہر کی حیواناتی اور نباتاتی تناسب کو برقرار رکھنے اور انھیں منظم کرنے کے لیے وقف ہیں مثلاً تیلنگانا محمکہ جنگلات[72]، انڈین کونسل آف فاریسٹری ریسرچ اینڈ ایجوکیشن، دی انٹرنیشنل کروپس ریسرچ انسٹیٹیوٹ فار دی سیمی ایریڈ ٹراپکس، دی انیمل ویل فیئر بورڈ آف انڈیا، دی بلیو کراس آف حیدرآباد اور دی یونیرسٹی آف حیدرآباد[71]

نظم و نسق

ترمیم

مشترکہ دار الحکومت

ترمیم

آندھرا پردیش تنظیم نو ایکٹ، 2014ء کے حصہ 2 سیکشن 5[73] میں درج ہے: “(1) - تنظیم نو کے بعد کے دن سے حیدرآباد موجودہ آندھرا پردیش اور تیلنگانہ کا آئندہ دس برسوں تک مشترکہ دار الحکومت ہوگا۔ (2) - سیکشن (1) کے مطابق دس سال کی مدت ختم ہونے کے بعد حیدرآباد تیلنگانہ کا دار الحکومت برقرار رہے گا اور آندھرا پردیش کا نیا دار الحکومت ہوگا۔“ اسی سیکشن میں یہ بھی درج ہے کہ حیدرآباد میونسپل ایکٹ 1955ء کے تحت قائم کردہ موجودہ دار الحکومت میں عظیم تر بلدیہ حیدرآباد بھی مشترکہ دار الحکومت میں شامل ہے۔

علاقائی حکومت

ترمیم
 
The GHMC is divided into six municipal zones

عظیم تر بلدیہ حیدرآباد (جی ایچ ایک سی) شہر کے بنیادی ڈھانچے کا ذمہ دار ہے۔ جی ایچ ایم سی کو کل 6 خطوں میں تقسیم کیا گیا ہے:

ان 6 خطوں میں کل 30 ذیلی خطے ہیں اور کل 150 میونسپل وارڈ ہیں۔ ہر وارڈ کا ایک کارپوریٹر ہوتا ہے جسے انتخابات میں ووٹ کے ذریعہ منتخب کیا جاتا ہے۔ 2020ء میں کل 7,400,000 ووٹر ہیں جن میں 3,850,000 مرد اور 3,500,000 خواتین ہیں۔[74] سارے کارپوریٹر مل کر ناظم شہر کو منتخب کرتے ہیں کو جی ایچ ایم سی کا سربراہ اعلیٰ بھی ہوتا ہے۔ حالانکہ عاملہ کا اختیار میونسپل کمشنر کے پاس ہوتا ہے جسے ریاستی حکومت نامزد کرتی ہے۔ جی ایچ ایم سی شہر کے بنیادی ڈھانچوں کی دیکھ ریکھ اور مرمت کرتی ہے مثلاً سڑکوں کی تعمیر اور مرمت، آبی نکاسی کی مرمت اور تعمیر، شہری منصوبہ بندی، جیسے تعمیری منصوبہ بندی، میونسپل کے بازار اور باغات کی دیکھ ریکھ، کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانا، پیدائش اور وفات کی سند جاری کرنا، تجارتی اجازت نامہ جاری کرنا، املاک کا ٹیکس جمع کرنا اور سماجی فلاح و بہبود کے کام کرنا جیسے زچہ بچہ فلاح و بہبود اور ماقبل اسکول تعلیم وغیرہ۔[75] اپریل 2007ء میں عظیم تر بلدیہ حیدرآباد اور دیگر 12 میونسپلٹیوں کو ملا کر جی ایچ ایم سی کو قائم کیا گیا تھا۔ ان میں: حیدرآباد ضلع، بھارت، رنگا ریڈی ضلع اور میدک ضلع شامل ہیں جن کا رقبہ 650 کلومیٹر2 (250 مربع میل) ہے۔[57]:3

صاف صفائی اور دیگر سہولیات

ترمیم
 
جی ایچ ایم سی کی ایک ملازمہ ٹینک بنڈ روڈ کی صفائی کرتی ہوئی

حیدرآباد میٹروپولیٹن واٹر سپلائی اینڈ سیویج بورڈ (ایچ ایم ڈبلیو ایس ایس بی) بارش کے پانی کی نکاسی، گندے پانی کی نکاسی اور پانی کی فراہمی کا ذمہ دار پے۔ شہر میں پانی کی کی بڑھتی کمی کو دیکھتے ہوئے 2005ء میں ایچ ایم ڈبلیو ایس ایس بی نے ناگارجن ساگر ڈیم سے حیدرآباد تک کے لیے 116 کلومیٹر-long (72 میل) طویل پائپ لائن کا آغاز کیا۔[76][77] تیلانگانا سدرن پاور ڈسٹریبیوشن لیمیٹیڈ بجلی کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔[78] بمطابق 2014 شہر میں کل 15 آگ بجھانے کے اسٹیشن ہیں۔[79] شہر میں حکومت کے پانچ بھارتی ڈاک کے مرکزی دفاتر ہیں اور متعدد ذیلی ڈاکخانے ہیں جہاں کورئر کی سہولت موجود ہے۔[56]

آلودگی پر قابو

ترمیم

حیدرآباد روزانہ تقریباً 4500 ٹن کوڑا جمع ہوتا ہے۔ تمام کوڑا یوسفگودا اور ٹینک بنڈ سے اکٹھا کر کے جواہر نگر میں جمع کیا جاتا ہے۔[80] تمام کوڑا کرکٹ کے نظم و نسق کا ذمہ سولڈ ویسٹ مینیجمینٹ پروجیکٹ کا ہے جسے 2020ء میں جی ایچ ایم سی نے شروع کیا تھا۔[81] فضائی آلودگی، شور کی آلودگی اور آبی آلودگی کی ذمہ داری تیلانگانہ آلودگی کنٹرول بورڈ (ٹی پی سی بی) کی ہے۔[82][83] شہر میں بڑھتی آبادی اور صنعت کی وجہ سے ان الودگیوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ بمطابق 2006ء، 20 تا 50% فیصد آلودگی گاڑیوں سے، 40 تا 70 فہصد آلودگی سڑک کی دھول سے۔۔ 10 تا 30 فیصد کارخانوں سے اور 3 تا 10 فیصد گھریلو دھواں سے فضائی آلودگی ہوتی ہے۔[84] فضائی آلودگی کی وجہ ہر سال تقریباً 1700 تا 3000 اموات ہوتی ہیں۔[85] شہر کے وی آئی پی علاقوں، اسمبلی کے دفاتر، سکریٹری عمارت اور تیلانگانا کے وزارت اعکی کے دفاتر کے علاقوں میں فضائی آلودگی کا اوسط نسبتا زیادہ خراب ہے۔ ان علاقوں کا ہوا کے معیار کا انڈیکس پی ایم 2۔5 ہے۔[86] حیدرآباد میں زمین کا پانی ہی پینے کے پانی کا اہم ذریعہ ہے مگر اس پانی کی سختی 1000 پی پی ایم ہے جو اوسط سختی سے 3 گنا زیادہ ہے۔[87] بڑھتی آبادی کی وجہ سے پانی کی مانگ میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور زمینی پانی کے ساتھ ساتھ تالابوں اور ندیوں کے پانی کا لیول بھی نیچے گرتا جا رہا ہے۔[88][89] اس کے ساتھ شہر کے کارخانوں کا آلودہ پانی اچھے پانی کو مزید آلودہ کررہا ہے جو مستقبل کے لیے زیادہ خطرناک ہے اور پینے کے پانی میں مزید قلت کا سبب ہے۔[90]

محمکہ صحت

ترمیم
 
حسین ساگر کے احاطہ میں بنا این ٹی آر باغات عوام کے لیے سیر و تفریح کا اہم مقام ہے۔

شہر میں صحت اور خاندانی بہبود کا محکمہ موجود ہے جسے ہیلتھ اینڈ فیملی ویلفیئر کمشنریٹ کہا جاتا ہے۔[91][92] بمطابق 2010–11 شہر میں 52 سرکاری اسپتال، [93]، 300 نجی اسپتال اور 194 نرسنگ ہوم تھے جن میں کل 12000 بستر ہیں۔ مگر یہ ضرورت سے نصف سے بھی کم ہیں۔[94] شہر میں 10،000 لوگوں کے لیے 17.6 بستر ہیں، [95] 9 خصوصی ڈاکٹر، 14 نرسیں اور 6 فزیشین ہیں۔[94] شہر میں تقریباً 4،000 کلینک ہیں۔[96] سرکاری اسپتالوں کی دوری، خراب دیکھ بھال اور لمبے وقفہ انتظار کی وجہ سے زیادہ تر لوگ نجی کلینک کا رخ کرتے ہیں۔ 2005ء کے قومی فیملی صحی سروے کے مطابق شہر کی زرخیزی کی شرح 1.8 ہے جو کل شرح سے کم ہے۔[97]:47 61 محض 60 فیصد بچوں کو تمام بنیادی ٹیکے لگے ہیں۔ ان میں بی سی جی، خسرہ کا ٹیکا اور مکمل پولیو کا ٹیکا اور ڈی ٹی پی کی شرح میرٹھ سے بھی کم ہے۔[97]:98 نومولود کی شرح اموات 35 فی 1000 ہے اور 5 سال بچوں کی شرح اموات 41 فی 1000 ہے۔[97]:97 سروے میں یہ بھی پایا گیا کہ خواتین میں تہائی اور مرد میں چوتھائی آبادی موٹاپے کا شکار ہے۔ 5 سال یا کم کے عمر کے بچوں میں 49 فیصد فقر الدم کا شکار ہیں اور 20 فیصد بچوں کا وزن کم ہے۔[97]:44, 55–56۔ 2 فیصد خواتین اور 3 فیصد مرد کو ذیابطیس ہے۔[97]:57

شماریات

ترمیم
تاریخی آبادی
سالآبادی±%
1951 1,085,722—    
1961 1,118,553+3.0%
1971 1,796,000+60.6%
1981 2,546,000+41.8%
1991 3,059,262+20.2%
2001 3,637,483+18.9%
2011 6,809,970+87.2%

2007ء میں عظیم تر بلدیہ حیدرآباد کی تشکیل کے بعد بلدیہ کے رقبہ اور آبادی دونوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جہاں رقبہ 175 کلومیٹر2 (68 مربع میل) سے بڑھ کر 650 کلومیٹر2 (250 مربع میل) ہو گیا [57][100] وہیں آبادی میں 87 فیصد اضافہ ہوا اور 2001ء کی مردم شماری میں آبادی 3,637,483 سے بڑھ کر 2011ء میں 6,809,970 ہو گئی۔ البتہ اس میں کچھ مہاجرین کی تعداد بھی شامل ہے۔[101]:2۔ بلحاظ آبادی حیدراباد بھارت کا چوتھا بڑا شہر ہے۔[1][3] 2011ء کے مطابق حیدراباد کی کثافت 18,480/کلو میٹر2 (47,900/مربع میل) ہے[102] 7,749,334کی آبادی کے ساتھ بھارت کے دس لاکھ سے زیادہ آبادی والے شہروں کی فہرست میں حیدراباد کا چھٹھا مقام ہے۔[3] اگر جنسی تناسب کی بات کریں تو کل 3,500,802 مرد اور 3,309,168 خواتین ہیں یعنی 1000 مرد کے لیے 945 خواتین اور یہ تناسب قومی جنسی تناسب 926 خواتین 1000 مردوں کے لیے، سے کہیں بہتر ہے۔[103][104] 0-6 سال کے بچوں میں 373,794 لڑکے اور352,022 لڑکیاں ہیں اور یہ تناسب 1000 لڑکوں میں 945 لڑکیوں کا بنتا ہے۔ حیدراباد کی شرح خواندگی 83% ہے جس میں مرد کا فیصد 86% اور خواتین کا 80% اور یہ تناسب بھی قومی شرح خواندگی 74.04% سے بہتر ہے۔[103][105] شہر میں 20 فیصد اعلیٰ طبق، 50 فیصد درمیانی طبقہ اور 30 فیصد مزدور طبقہ ہے۔[106]

نسلیت

ترمیم

حیدرآباد میں اکثریت تیلگو قوم اور دکنی زبان بولنے والوں کی ہے۔ اقلیت اقوام میں بنگالی، سندھی لوگ، کنڈ لوگ، میمن لوگ، نوایاتھی لوگ، [[ملیالی، مراٹھی قوم، گجراتی قوم، مارواڑی لوگ، اڈیہ قوم، پنجابی قوم، تمل لوگ اور اتر پردیش کے کچھ لوگ شامل ہیں۔[107] حیدرآبادی مسلمان ایک مخصوص قوم ہے جو اپنی تاریخ، ثقافت، پکوان کے لیے مشہور ہے۔ ان ہی لوگوں نے گذشتہ عرصہ میں حیدرآباد پر حکومت کی ہے۔ ان کے علاوہ حضرمی عرب، ارمینیائی لوگ، حبشی، ایرانی لوگ، پٹھان قوم اور ترکی قوم کے قبائل بھی حیدرآباد میں پائے جاتے ہیں۔ ان میں ضرمی عرب سب سے زیادہ ہیں۔ مگر جب سے ریاست حیدرآباد بھارت یونین کا حصہ بنا ہے ان کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔[107]

مذہب

ترمیم
عظیم تر حیدرآباد میں مذہب (2011)[108]
ہندو مت
  
64.93%
اسلام
  
30.13%
مسیحیت
  
2.75%
دیگر
  
2.19%

ہندو اکثریت میں ہیں۔ مسلمان سب سے بڑی اقلیت ہے۔ قدیم شہر میں مسلمانوں کی خاصی تعداد رہتی ہے ان کا جلوہ دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے علاوہ مسیحی، سکھ، جین، بدھ اور آتش پرست یہاں آباد ہیں۔ یہاں کئی علامتی مساجد، مندر اور گرجا گھر موجود ہیں۔[109] بھارت میں مردم شماری، 2011ء کے مطابق شہر میں (64.9%) ہندو، (30.1%) مسلمان، (2.8%) مسیحی، (0.3%) جین، (0.3%) سکھ، (0.1%) بدھ مت کے ماننے والے ہیں۔ 1.5% لوگوں نے اپنے مذاہب کا اعلان نہیں کیا ہے۔[110]

زبان

ترمیم



 

حیدرآباد کی زبانیں (2011)[111]

  تیلگو زبان (58.23%)
  اردو (29.47%)
  ہندی زبان (4.89%)
  تمل زبان (1.09%)
  دیگر (4.78%)

تیلگو زبان اور اردو حیدرآباد کی دو بڑی زبانیں ہیں اور دونوں کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ زیادہ تر حیدرآبادی دونوں زبانوں کو جانتے ہیں۔[112] حیدرآباد میں تیلگو زبان کا جو لہجہ زیر استعمال ہے اسے تیلگو منڈلیکا کہا جاتا ہے۔ اور اردو کا جو لہجہ بولا جاتا ہے اسے دکنی کہتے ہیں۔[113]:1869–70[114] انگریزی زبان کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ یہ زبان زیادہ تر تجارت اور انتظامیہ میں استعمال ہوتی ہے۔ میڈیا اور تعلیم میں بھی زیادہ تر انگریزی کا ہی استعمال ہوتا ہے۔[115] ان لے علاوہ ہندی زبان، بنگالی زبان، کنڑ زبان، مراٹھی زبان، پنجابی زبان، مارواڑی زبان، اڈیہ زبان اور تمل زبان کے بولنے والے بھی یہاں موجود ہیں۔[107]

جھگی جھونپڑیاں

ترمیم

عظیم تر حیدرآباد میں 13 فیصد لوگ خط غریبی کے نیچے رہتے ہیں۔[116] 2012ء میں عظیم تر بلدیہ حیدرآباد نے عالمی بینک کو ایک رپورٹ میں بتایا کہ شہر میں کل 1476 جھونپڑیاں ہیں جن میں 17 لاکھ لوگ رہتے ہیں۔ ان میں 66 فیصد 985 ان جھونپڑیوں میں رہتے ہیں جو شہر کے مرکزی علاقوں میں واقع ہیں۔ باقی 34 فیصد شہر کے مضافاتہ علاقوں میں آباد ہیں۔[117] ان میں تقریباً 22 فیصد لوگ 20ویں صدی کے آخری دہائی میں ملک کے دیگر حصوں ہجرت کر یہاں آباد ہوگیے۔ 63% لوگوں کا دعوی ہے کہ وہ یہاں دس سال سے زیادہ عرصہ سے یہاں اباد ہیں۔[101]:55 ان لوگوں کی مجموعی شرح خواندگی 60 تا 80 فیصد ہے۔ ایک تہائی لوگوں کے پاس بنیادی سہولیات موجود ہیں اور باقی لوگ حکومت کی جانب سے فراہم کردہ سہولیات پر قناعت پزیر ہیں۔ ان میں 405 سرکاری اسکول، 267 حکومتی تعاون کے اسکول، 175 نجی اسکول اور 528 کیونٹی ہال موجود ہیں۔[118]:70 2008ء میں حکومت نے ایک سروے کیا جس کے مطابق جھونپڑیوں میں 87.6% جوہری خاندان، 18 فیصد جہایت غریب ہیں جن کی سالانہ آمدنی 20,000 (امریکی $280) تک محدود ہے۔ 73 فیصد خط غریبی کے نیچے رہتے ہیں۔ (24,000 (امریکی $340) سالانہ سے کم کمانے والے خط غریبی کے نیچے مانے جاتے ہیں)۔ 5 سال کی عمر تک کے 3.7% بچے اسکول نہیں جاتے ہیں۔ ان میں سے 3.2% بچہ مزدوری کرتے ہیں جن میں 64 فیصد لڑکے اور 36 فیصد لڑکیاں ہیں۔ ان میں زیادہ تر تعمیری کاموں اور دوکانوں میں کام کرتے ہیں۔ 35 فیصد بچے انتہائی خطرناک کاموں میں ملوث ہیں۔[101]:59

بلند ترین عمارتیں

ترمیم
Gachibowli IT & Financial District skyline view

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ "Cities having population 1 lakh and above, census 2011" (PDF)۔ Government of India۔ 2011۔ ص 11۔ 2012-05-07 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-12-10
  2. "The World's Cities in 2018" (PDF)۔ United Nations Department of Economic and Social Affairs۔ 2018۔ 2021-03-15 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-07-11
  3. ^ ا ب پ "Urban agglomerations/cities having population 1 lakh and above" (PDF)۔ Government of India۔ 2011-11-13 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-10-17
  4. "Time to put metropolitan planning committee in place"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ Hyderabad۔ 28 جولائی 2014۔ 2021-03-14 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-03-22
  5. John Everett-Heath (2005)۔ Concise dictionary of world place names۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ ص 223۔ ISBN:978-0-19-860537-9
  6. Andrew Petersen (1996)۔ Dictionary of Islamic architecture۔ روٹلیج۔ ص 112۔ ISBN:978-0-415-06084-4۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-06-28
  7. John Norman Holister (1953)۔ The Shia of India (PDF)۔ Luzac and company limited۔ ص 120–125۔ 2018-10-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-07-15
  8. Donald F Lach؛ Edwin J. Van Kley (1993)۔ Asia in the Making of Europe۔ University Of Chicago Press۔ ج 3۔ ص ?۔ ISBN:978-0-226-46768-9۔ 2018-03-03 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
  9. Serish Nanisetti (7 اکتوبر 2016)۔ "The city of love: Hyderabad"۔ دی ہندو۔ 2020-12-07 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-10-09
  10. Michael W. McCann (1994)۔ Rights at work: pay equity reform and the politics of legal mobilization۔ University of Chicago Press۔ ص 6۔ ISBN:978-0-226-55571-3
  11. "Prehistoric and megalithic cairns vanish from capital's landscape"۔ The Times of India۔ 21 جولائی 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-09-19
  12. ^ ا ب Ababu Minda Yimene (2004)۔ An African Indian community in Hyderabad۔ Cuvillier Verlag۔ ص 2۔ ISBN:978-3-86537-206-2۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-09-19
  13. K. Venkateshwarlu (10 ستمبر 2008)۔ "Iron Age burial site discovered"۔ دی ہندو۔ 2013-11-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-06-07
  14. Suryanarayana Kolluru (1993)۔ Inscriptions of the minor Chalukya dynasties of Andhra Pradesh۔ Mittal Publications۔ ص 1۔ ISBN:978-81-7099-216-5
  15. ^ ا ب (Sardar, Golconda through Time 2007، صفحہ 19–41)
  16. Iqtidar Alam Khan (2008)۔ Historical dictionary of medieval India۔ The Scarecrow Press۔ ص 85 and 141۔ ISBN:978-0-8108-5503-8
  17. Archana Khare Ghose (29 فروری 2012)۔ "Heritage Golconda diamond up for auction at Sotheby's"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 2013-05-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-03-01
  18. R. C. Majumdar (1967)۔ "Muhammad Bin Tughluq"۔ The Delhi Sultanate۔ Bharatiya Vidya Bhavan۔ ص 61–89۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-03-05
  19. Prasad, History of the Andhras 1988، صفحہ 172
  20. Sardar, Golconda through Time 2007، صفحہ 20
  21. Mainak Ghosh (2020)۔ Perception, Design and Ecology of the Built Environment: A Focus on the Global South۔ Springer Nature۔ ص 504۔ ISBN:978-3-030-25879-5۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-10-13
  22. M.A Nayeem (28 مئی 2002)۔ "Hyderabad through the ages"۔ The Hindu۔ 2009-06-04 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-12-18
  23. Ara Matsuo (22 نومبر 2005)۔ "Golconda"۔ جامعہ ٹوکیو۔ 2013-06-13 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-12-18
  24. Shamim Aleem؛ M. Aabdul Aleem، مدیران (1984)۔ Developments in administration under H.E.H. the Nizam VII۔ Osmania University Press۔ ص 243۔ 2020-12-16 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-06-15
  25. James Stuart Olson؛ Robert Shadle (1996)۔ Historical dictionary of the British empire۔ Greenwood Press۔ ص 544۔ ISBN:978-0-313-27917-1
  26. "Opinion A Hyderabadi conundrum"۔ 15 نومبر 2018۔ 2018-11-15 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-11-15
  27. Sunita Pant Bansal (2005)۔ Encyclopedia of India۔ Smriti Books۔ ص 61۔ ISBN:978-81-87967-71-2
  28. J. F. Richards (1975)۔ "The Hyderabad Karnatik, 1687–1707"۔ Modern Asian Studies۔ ج 9 شمارہ 2: 241–260۔ DOI:10.1017/S0026749X00004996۔ ISSN:0026-749X
  29. Waldemar Hansen (1972)۔ The Peacock throne: the drama of Mogul India۔ Motilal Banarsidass۔ ص 168 and 471۔ ISBN:978-81-208-0225-4
  30. ^ ا ب پ ت ٹ John.F. Richards (1993)۔ The Mughal Empire, Part 1۔ کیمبرج یونیورسٹی پریس۔ ج 5۔ ص 279–281۔ ISBN:978-0-521-56603-2۔ 2016-05-29 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-06-29
  31. ^ ا ب پ ت ٹ S. M. Ikram (1964)۔ "A century of political decline: 1707–1803"۔ در Ainslie T Embree (مدیر)۔ Muslim civilization in India۔ کولمبیا یونیورسٹی۔ ISBN:978-0-231-02580-5۔ 2012-03-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-10-08
  32. Serish Nanisetti (13 دسمبر 2017)۔ "Living Hyderabad: drum house on the hillock"۔ The Hindu۔ 2021-02-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2017-12-19
  33. Jaswant Lal Mehta (2005)۔ Advanced Study in the History of Modern India: 1707–1813۔ Sterling Publishing۔ ص 143۔ ISBN:978-1-932705-54-6
  34. ^ ا ب Jaswant Lal Mehta (2005)۔ Advanced Study in the History of Modern India: 1707–1813۔ Sterling Publishing۔ ص 143۔ ISBN:978-1-932705-54-6
  35. Olivier Roy (2011)۔ Holy Ignorance: When Religion and Culture Part Ways۔ Columbia University Press۔ ص 95۔ ISBN:978-0-231-80042-6
  36. ^ ا ب پ Sarojini Regani (1988)۔ Nizam-British relations, 1724–1857۔ Concept Publishing۔ ص 130–150۔ ISBN:978-81-7022-195-1
    • Salma Ahmed Farooqui (2011)۔ A comprehensive history of medieval India۔ Dorling Kindersley۔ ص 346۔ ISBN:978-81-317-3202-1
    • George Bruce Malleson (2005)۔ An historical sketch of the native states of India in subsidiary alliance with the British government۔ Asian Education Services۔ ص 280–292۔ ISBN:978-81-206-1971-5
    • Meredith Townsend (2010)۔ The annals of Indian administration, Volume 14۔ BiblioBazaar۔ ص 467۔ ISBN:978-1-145-42314-5
  37. Deen Dayal (2013)۔ "The mills, Hyderabad."۔ Europeana۔ 2016-01-01 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-10-31
  38. K Venkateshwarlu (17 ستمبر 2004)۔ "Momentous day for lovers of freedom, democracy"۔ دی ہندو۔ 2012-08-17 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-05-23
  39. P.V. Sathees؛ Michel Pimbert؛ The DDS Community Media Trust (2008)۔ Affirming life and diversity۔ Pragati Offset۔ ص 1–10۔ ISBN:978-1-84369-674-2
  40. "Demand for states along linguistic lines gained momentum in the '50s"۔ The Times of India۔ 10 جنوری 2011۔ 2015-09-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-07-31
  41. Mahesh Ambedkar (2005)۔ The Architect of Modern India Dr Bhimrao Ambedkar۔ Diamond Pocket Books۔ ص 132–133۔ ISBN:978-81-288-0954-5
  42. Mark-Anthony Falzon (2009)۔ Multi-sited ethnography: theory, praxis and locality in contemporary research۔ Ashgate Publishing۔ ص 165–166۔ ISBN:978-0-7546-9144-0
  43. M.B Chande (1997)۔ The Police in India۔ Atlantic Publishers۔ ص 142۔ ISBN:978-81-7156-628-0
  44. Ramachandra Guha (30 جنوری 2013)۔ "Living together, separately"۔ The Hindu۔ 2013-09-21 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-08-05
  45. "How Telangana movement has sparked political turf war in Andhra"۔ Rediff.com۔ 5 اکتوبر 2011۔ 2012-01-23 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-02-19
  46. "Timeline:history of blasts in Hyderabad"۔ فرسٹ پوسٹ۔ 22 فروری 2013۔ 2013-02-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-02-22
  47. "At least 13 killed in bombing, riots at mosque in India"۔ CBC News۔ 18 مئی 2007۔ 2013-09-23 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-09-21
  48. "At least 13 killed in bombing, riots at mosque in India"۔ CBC News۔ 18 مئی 2007۔ 2013-09-23 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-09-21
  49. Aurangzeb Naqshbandi (31 جولائی 2013)۔ "Telangana at last: India gets a new state, demand for other states gets a boost"۔ ہندوستان ٹائمز۔ 2014-01-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-07-31
  50. "what you need to know about India's newest state-Telangana"۔ Daily News and Analysis۔ 2 جون 2014۔ 2014-12-05 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-11-29
  51. گوگل (6 جنوری 2013)۔ "حیدرآباد، دکن" (Map)۔ گوگل نقشہ جات۔ گوگل {{Cite map}}: |mapurl= میں بیرونی روابط (معاونتالوسيط |access-date بحاجة لـ |مسار= (معاونت)، والوسيط غير المعروف |mapurl= تم تجاهله يقترح استخدام |مسار الخريطة= (معاونت)
  52. Umar farooque Momin؛ Prasad.S Kulkarni؛ Sirajuddin M Horaginamani؛ Ravichandran M؛ Adamsab M Patel؛ Hina Kousar (2011)۔ "Consecutive days maximum rainfall analysis by gumbel's extreme value distributions for southern Telangana" (PDF)۔ Indian Journal of Natural Sciences۔ ج 2 شمارہ 7: 411۔ ISSN:0976-0997۔ 2015-06-08 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-02-11
  53. "New geographical map of Hyderabad released"۔ 17 دسمبر 2014۔ 2016-03-03 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-04-12
  54. "Greater Hyderabad Municipal Corporation"۔ www.ghmc.gov.in۔ 2016-01-01 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-12-23
  55. ^ ا ب پ ت "Physical Feature" (PDF)۔ AP Government۔ 2002۔ 2012-04-16 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-04
  56. ^ ا ب پ C Ramachandraia (2009)۔ "Drinking water: issues in access and equity" (PDF)۔ jointactionforwater.org۔ 2013-11-10 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-11-18
  57. "Hyderabad geography"۔ JNTU۔ 2013-11-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-05-04
  58. "Water sources and water supply" (PDF)۔ rainwaterharvesting.org۔ 2005۔ ص 2۔ 2012-01-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-01-20
  59. Sreoshi Singh (2010)۔ "Water security in peri-urban south Asia" (PDF)۔ South Asia Consortium for Interdisciplinary Water Resources Studies۔ 2012-01-16 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-05-18
  60. Climate and food security۔ International Rice Research Institute۔ 1987۔ ص 348۔ ISBN:978-971-10-4210-3
    • Michael John Thornley Norman؛ C.J Pearson؛ P.G.E Searle (1995)۔ The ecology of tropical food crops۔ Cambridge University Press۔ ص 249–251۔ ISBN:978-0-521-41062-5
  61. ^ ا ب "Weatherbase entry for Hyderabad"۔ Canty and Associates LLC۔ 2013-10-30 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-06-13
  62. ^ ا ب پ "Hyderabad"۔ India Meteorological Department۔ 2013-11-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-06-13
  63. "Extreme weather events Overall"۔ Meteorological Centre, Hyderabad۔ دسمبر 2013۔ 2015-04-02 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-03-06
  64. "Historical weather for Hyderabad, India"۔ Weatherbase۔ 2011-12-04 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2008-10-03
  65. "Station: Hyderabad (A) Climatological Table 1981–2010" (PDF)۔ Climatological Normals 1981–2010۔ India Meteorological Department۔ جنوری 2015۔ ص 331–332۔ 2020-02-05 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-02-13
  66. "Extremes of Temperature & Rainfall for Indian Stations (Up to 2012)" (PDF)۔ India Meteorological Department۔ دسمبر 2016۔ ص M9۔ 2020-02-05 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-02-13
  67. "Table 3 Monthly mean duration of Sun Shine (hours) at different locations in India" (PDF)۔ Daily Normals of Global & Diffuse Radiation (1971–2000)۔ India Meteorological Department۔ دسمبر 2016۔ ص M-3۔ 2020-02-05 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-02-13
  68. "Normals Data: Hyderabad Airport – India Latitude: 17.45°N Longitude: 78.47°E Height: 530 (m)"۔ Japan Meteorological Agency۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-02-29
  69. Siddharth Tadepalli (17 اگست 2016)۔ "Bats seen in the day? Experts blame habitat loss"۔ Times of India۔ 2016-08-17 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-17
  70. ^ ا ب "Annual administration report 2011–2012" (PDF)۔ Andhra Pradesh Forest Department۔ ص 78۔ 2016-01-01 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-10-31
  71. "T'gana forest dept to develop 10 nature parks around Hy'bad"۔ Business Standard۔ 8 اکتوبر 2014۔ 2015-02-19 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-02-19
  72. "AP Reorganisation Bill, 2014" (PDF)۔ prsindia.org۔ 2014۔ 2014-03-27 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-07-29
  73. "Live Results: Greater Hyderabad Municipal Elections 2020"۔ Network18 Group۔ 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-09-13
  74. "Citizen's charter" (PDF)۔ GHMC۔ 2013-07-17 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-07-31
  75. "Profile"۔ Hyderabad Metropolitan Water Supply and Sewerage Board۔ 2016-01-01 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-10-31
  76. Anon (2011)۔ "Hyderabad" (PDF)۔ Excreta Matters۔ Centre for Science and Environment: 331–341۔ 2016-03-04 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-02-20
  77. "About TSSPDCL"۔ Telangana Southern Power Distribution Company Limited۔ 2015-02-20 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-02-20
  78. Yunus Y Lasania (20 اکتوبر 2014)۔ "Telangana has fewer fire stations than A.P."۔ The Hindu۔ 2016-01-01 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-02-18
  79. "Twin festivals pile more garbage load on GHMC"۔ The Hindu۔ 3 ستمبر 2011۔ 2012-09-17 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-18
  80. "Waste management project gets nod"۔ The Times of India۔ 18 جنوری 2010۔ 2015-09-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-17
  81. Sarath Guttikunda (مارچ 2008)۔ "Co-benefits analysis of air pollution and GHG emissions for Hyderabad, India" (PDF)۔ Integrated Environmental Strategies Program۔ 2015-02-20 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-02-20
  82. "Pollution up in Hyderabad post Pollution Control Board split"۔ The Deccan Chronicle۔ 17 نومبر 2014۔ 2015-02-20 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-02-20
  83. Bhola R. Gurjar؛ Luisa T. Molina؛ Chandra S.P. Ojha، مدیران (2010)۔ Air pollution:health and environmental impacts۔ Taylor and Francis۔ ص 90۔ ISBN:978-1-4398-0963-1
  84. "50 research scholars to study pollution"۔ CNN-IBN۔ 3 جنوری 2012۔ 2012-01-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-18
  85. Prabeerkumar Sikdar (15 دسمبر 2016)۔ "Gasping for breath in VIP areas, blame it on toxic cloud in the air"۔ The Times of India۔ 2018-06-16 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-05-27
  86. "Ground water in city unfit for use"۔ The Deccan Chronicle۔ 30 اگست 2011۔ 2011-12-14 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-18
  87. "If Singur, Manjira dry up, there's Krishna"۔ The Times of India۔ 11 فروری 2005۔ 2015-09-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-21
  88. "City stares at water scarcity"۔ The Times of India۔ 13 جنوری 2012۔ 2015-09-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-21
  89. Mridula Chunduri (29 نومبر 2003)۔ "Manjira faces pollution threat"۔ The Times of India۔ 2015-09-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-21
  90. "Welcome to Commissionerate of Health and Family Welfare"۔ Government of Telangana state۔ 2015-05-01 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-02-18
  91. Loraine Kennedy؛ Ravi Duggal؛ Stephanie Tawa Lama-Rewal (2009)۔ "7: Assessing urban governance through the prism of healthcare services in Delhi, Hyderabad and Mumbai"۔ در Joel Ruet؛ Stephanie Tawa Lama-Rewal (مدیران)۔ Governing India's metropolises: case studies of four cities۔ Routledge۔ ISBN:978-0-415-55148-9
  92. "Government hospitals"۔ GHMC۔ 2011۔ 2012-08-02 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-05-09
  93. ^ ا ب "Hyderabad hospital report"۔ Northbridge Capital۔ مئی 2010۔ ص 8۔ 2010-08-15 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-05-10
  94. بمطابق 2011، the census city population was 6,809,970 and there were 12,000 available hospital beds, giving the derived rate.
  95. M.Sai Gopal (18 جنوری 2012)۔ "Healthcare sector takes a leap in city"۔ The Hindu۔ 2012-05-08 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-05-06
  96. ^ ا ب پ ت ٹ
  97. K.N Gopi (1978)۔ Process of urban fringe development: A model۔ Concept Publishing Company۔ ص 25۔ 2021-06-28 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-08-06
  98. Neelakantan Krishna Iyer؛ Sumati Kulkarni؛ V. Raghavaswam (13 جون 2007)۔ "Economy, population and urban sprawl a comparative study of urban agglomerations of Banglore and Hyderabad, India using remote sensing and GIS techniques" (PDF)۔ circed.org۔ ص 21۔ 2012-05-19 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-12-10
  99. "Corporation History"۔ عظیم تر بلدیہ حیدرآباد۔ 2021-05-22 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-03-13
  100. ^ ا ب پ
  101. "Sex ratio goes up in state"۔ The Times of India۔ 1 اپریل 2011۔ 2015-09-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-04-16
  102. ^ ا ب "Cities having population 1 lakh and above, Census 2011" (PDF)۔ censusindia.gov.in۔ 2011۔ ص 11۔ 2022-10-09 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-09-13
  103. "Urban sex ratio below national mark"۔ The Times of India۔ 21 ستمبر 2011۔ 2015-09-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-16
  104. Nikhila Henry (23 مئی 2011)۔ "AP slips further in national literacy ratings"۔ The Times of India۔ 2015-09-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-02-18
  105. Rakhi Dandona؛ Anil Kumar؛ Md Abdul Ameer؛ G Mushtaq Ahmed؛ Lalit Dandona (16 نومبر 2009)۔ "Incidence and burden of road traffic injuries in urban India"۔ Injury Prevention۔ ج 14 شمارہ 6: 354–359۔ DOI:10.1136/ip.2008.019620۔ PMC:2777413۔ PMID:19074239
  106. ^ ا ب پ Sabrina Krank (2007)۔ "Cultural, spatial and socio-economic fragmentation in the Indian megacity Hyderabad" (PDF)۔ Irmgard Coninx Foundation۔ 2015-02-23 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-17
  107. "C-01 Population By Religious Community: Andhra Pradesh"۔ Census of India
  108. Masood Ali Khan (31 اگست 2004)۔ "Muslim population in AP"۔ The Milli Gazette۔ 2012-04-20 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-05-23
  109. "C-1 Population By Religious Community"۔ Government of India, Ministry of Home Affairs۔ 2015-09-13 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-02-22 On this page, select "Andhra Pradesh" from the download menu. Data for "GHMC (M Corp. + OG)" is at row 11 of the downloaded excel file.
  110. "Table C-16 Population by Mother Tongue: Andhra Pradesh (Urban)"۔ Census of India۔ Registrar General and Census Commissioner of India
  111. "Urdu is now first language in Indian state of Telangana"۔ Greater Kashmir۔ 2016-05-14 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-04-24
  112. James Minahan (2002)۔ Encyclopedia of the stateless nations: ethnic and national groups around the world۔ Greenwood Publishing Group۔ ج 4۔ ISBN:978-0-313-32384-3
  113. Peter K Austin (2008)۔ 1000 languages: living, endangered, and lost۔ University of California Press۔ ص 120۔ ISBN:978-0-520-25560-9
  114. "MCH plans citizens' charter in Telugu, Urdu"۔ The Times of India۔ 1 مئی 2002۔ 2015-09-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-10-25
  115. "Poverty reduction at city level: strategy development for Hyderabad" (PDF)۔ Center for Good Governance, Hyderabad۔ 2012-06-29 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-05-17
  116. "World bank team visits Hyderabad slums"۔ The Times of India۔ 12 جون 2012۔ 2015-09-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-06-12
  117. "Basic services to the urban poor" (PDF)۔ City development plan۔ Greater Hyderabad Municipal Corporation۔ 2009-02-06 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-17

بیرونی روابط

ترمیم