عبدالشکور ترمذی
سید عبد الشکور ترمذی پاکستانی سنی عالم دین، مدرس،محقق،مصنف اور شیخ طریقت تھے۔
عبد الشکور ترمذی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | عبد الشکور |
پیدائش | رجب المرجب 1341ھ بمطابق مارچ 1923ء موضع اردن ریاست پٹیالہ ہندوستان |
وفات | ٥ شوال المکرم 1421ھ بروز سوموار یکم جنوری 2001ء ضلع سرگودھا |
قومیت | برطانوی ہند پاکستان |
عرفیت | فقیہہ العصر مولانا سید عبد الشکور ترمذی |
مذہب | اسلام |
رشتے دار | سید عبد القدوس ترمذی(بیٹا) |
عملی زندگی | |
مادر علمی | مدرسہ معین الاسلام ،دارلعلوم دیوبند |
پیشہ | تدریس،افتاء،تصوف وسلوک،تحقیق، تصنیف وتالیف |
کارہائے نمایاں | جملہ تصانیف |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
ولادت
ترمیمآپ کی ولادت موضع اردن ریاست پٹیالہ ہندوستان میں رجب المرجب 1341ھ بمطابق مارچ 1923ء کو ہوئی، عبد الشکور آپ کا نام رکھا گیا۔
تعلیم و تربیت
ترمیمآپ نے قائدہ مدرسہ معین الاسلام قصبہ نوح ضلع گڑگانواں میوات کے علاقہ میں پڑھا، یہ مدرسہ محمد الیاس کاندھلوی نے بنایا تھا، ابتدائی نوشت و خواند کے بعد اردو، ناظرہ قرآن پاک ، حساب کی تعلیم مدرسہ امداد العلوم تھانہ بھون میں ہوئی اور قرآن کریم اسی مدرسہ میں خلیفہ حافظ اعجاز احمد تھانوی سے حفظ کیا۔
سفر حجاز
ترمیمحفظ کے بعد فارسی کتب اپنے والد عبد الکریم گمتھلوی سے پڑھیں، پھر جب 1356ھ 1938ء میں آپ کے والد حج کے لیے حجاز تشریف لے گئے تو آپ بھی ہمراہ تھے، آٹھ ماہ آپ کا قیام مدینہ منورہ میں ہوا، وہاں آپ نے ابتدائی عربی کتب والد ماجد سے پڑھنے کے علاوہ قاری اسعد وغیرہ سے قرآن کریم کی مشق کی اورکتبِ تجوید پڑھیں، قاری حسن مسجد نبوی میں مقدمہ جزریہ پڑھاتے تھے آپ اس میں بھی شریک ہوتے۔ حجاز سے واپسی 1358ھ بمطابق 1939ء میں دوسرے حج کے بعد ہوئی۔
عربی تعلیم
ترمیمحجاز سے واپسی پر قصبہ راج پورہ ریاست پٹیالہ کے عربی مدرسہ میں سمیع اللہ خان (برادر مسیح اللہ خان) اسے ابتدائی عربی کتابیں پڑھیں۔پھر انبالہ چھاؤنی کے مدرسہ معین الاسلام میں محمد متین اور محمد مبین سے کتب عربیہ متوسطہ پڑھیں۔
سبعہ قرأت مع ثلاثہ
ترمیمانبالہ چھاؤنی کے زمانہ تعلیم میں "شاطبیہ" اپنے والد سے پڑھی بعد ازاں محی الاسلام عثمانی کی خدمت میں پانی پت حاضر ہو کر سارا قرآن کریم بطریق جمع الجمع سنایا اور نقل بھی کیا اور شاطبیہ بھی دوبارہ پڑھی، اس کے بعد قاری فتح محمد سے" الدرة المفیة" پڑھی اور شاطبیہ کا بعض حصہ اور مقدمہ جزریہ پوراسنایا پھر بزمانہ قیام دار العلوم دیوبند حفظ الرحمن سے مشق کی اور کلیۃ النشر کا بعض حصہ پڑھا۔
تکمیل علوم
ترمیمپانی پت سے فراغت کے بعد آپ کے والد نے آپ کو شاہ آباد ضلع کرنال مدرسہ حقانیہ میں اپنے پاس بلالیا اور جامی ، شرح وقایہ، ہدایہ اولین قطبی وغیرہ کتب خود پڑھائیں ،شوال 1362ھ میں مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور میں داخلہ لیا مگر عیدالاضحی کے بعد 1944ء میں مدرسہ قاسم العلوم فقیر والی ضلع بہاولنگر چلے گئے اس وقت وہاں آپ کے والد صدر مدرس اور شیخ الحدیث تھے۔آپ نے جلالین والد ماجد سے اور ہدایہ اخیرین، مشکوۃ شریف منطق کے دیگر اسباق ظہور احمد النشہ سے پڑھے ،شوال 1363ھ میں آپ کا داخلہ دار العلوم دیوبند میں ہوا وہاں آپ دو سال زیر تعلیم رہے پہلے سال مطول ، شرح عقائد،ملاحسن وغیرہ کتب عبد الحق اکوڑہ خٹک،عبد الخالق ، فخر الحسن، محمد جلیل سے پڑھ کر اگلے سال شوال 1364ھ بمطابق 1945ء میں دورہ حدیث میں داخل ہوئے اور شعبان المعظم 1365ھ 1946ء میں فراغت پائی۔دورہ حدیث شریف میں ترمذی حسین احمد مدنی نے شروع کر دی تھی کہ وہ اس کے بعد تین ماہ کی رخصت پر تشریف لے گئے، ان کی جگہ فخر الدین مراد آبادی تقریباً تین ماه سه ماهی تک ترمذی اور بخاری کا درس دیتے رہے اس عرصہ میں ترمذی کی کتاب الصلاۃ اور بخاری کی کتاب العلم ختم ہو گئی تھی پھر حسین احمد مدنی تشریف لے آئے ، آپ نے ترندی جلد اول اور بخاری کی ہردو جلد مکمل کرائیں۔ترمذی کی جلد ثانی اور شمائل ترندی اعزاز علی نے پڑھائی۔ مسلم، ابوداؤد،نسائی، طحاوی، موطا امام مالک علی الترتیب حضرت مولانا بشیر احمد گلاؤٹھی ،ادریس کاندھلوی ،فخر الحسن ، عبد الحق ، عبد الخالق سے اور ابن ماجہ، موطا امام محمد دیگر اساتذہ سے پڑھیں۔[1]
بیعت وارادت
ترمیمزمانہ طالب علمی میں اشرف علی تھانوی سے بیعت ہو گئے تھے، چودہ سال کی عمر تک اشرف علی تھانوی کے زیر سایہ تھانہ بھون ہی میں آپ کا قیام رہا۔ اشرف علی تھانوی کی وفات کے بعد اصلاحی تعلق مفتی محمد حسن سے رہا پھر شاہ عبد الغنی پھولپوری سے اور پھر ظفر احمد عثمانی سے رہا، ان کی وفات کے بعد محمد شفیع عثمانی سے۔ آواخرالذکر دونوں بزرگوں نے آپ کو اجازت بیعت سے بھی نوازا۔[2]
علمی خدمات
ترمیمتقسیم ہندکے بعد یکم فروری 1948ء کو ساہیوال ضلع سرگودھا صوبہ پنجاب میں قیام ہوا، یہاں تعلیم وتبلیغ ، تصنیف و افتاء اور تدریس کی خدمات انجام دیں، یہاں آپ نے پہلے مدرسہ قاسمیہ کے نام سے شہر کی قدیم مسجد شہانی میں ایک مدرسہ قائم کیا، حفظ و ناظرہ کے علاوہ مشکوۃ تک کتابیں بھی آپ پڑھاتے رہے ،1953ء میں ختم نبوت کی تحریک چلی تو تین چار ماہ آپ جیل میں رہے جس کی وجہ سے مدرسہ بند ہو گیا ، پھر آپ نے 1955ء میں نئی جگہ پر مدرسہ حقانیہ کے نام سے دینی ادارہ کی بنیاد رکھی۔1960ء میں مسجد حقانیہ کے نام سے آپ نے ایک عظیم مسجد کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔[3]
تصانیف
ترمیمآپ کی تصنیفات ، رسائل مقالات،مضامین کی تعداد 200 سے متجاوز ہے ان میں بعض تصنیفات کے نام یہ ہیں:(1) تکملہ احکام القرآن شیخ محمد ادریس کاندھلوی (2) تکملہ احکام القرآن للعلامة الشيخ ظفر احمد عثمانی (3) سمة البیان فی ترجمۃ القرآن (4) اشرف البیان فی علوم القرآن (5) ہدایتہ الحیر ان فی جواہر القرآن (6) تقریر ترمذی شریف (7) خلاصة الارشاد فی مسئلۃ الااستمداد(8) ادراک الفضيلة في الدعاء بالوسيلة (9) اسلامی حکومت کا مالیاتی نظام (١٠)شخصی ملکیت اور اسلام (11) دعوت و تبلیغ کی شرعی حیثیت (12) حیات انبیا کرام علیہم السلام (13) مجموعہ فتاویٰ فی امداد السائل فی الاحکام والمسائل (14) گاؤں میں جمعہ کا شرعی حکم (15) گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مرتد کی شرعی سزا (16) عورت کی سربراہی اور اسلام (17) تحریک پاکستان کی شرعی حیثیت (18) عقائد علما دیوبند(19) رویت ہلال کی شرعی حیثیت (20) فضائل جہاد (21) تذکرة الظفر(٢٢) تذکرہ شیخ الاسلام حضرت مدنی (23) معارف حضرت مدنی (24) تذکرۃ الشیخ محمد زکریا کاندھلوی (25) اشرف المعارف (26) حضرت افغانی کی تفسیری خدمات (27) حضرت مفتی اعظم کی تفسیری خدمات (28) تاریخ مدارس دینیہ (29) دینی مدارس اور ان کا نصاب تعلیم (30) نفاذ شریعت بل اسمبلی کی ذمہ داری اور علما کا کردار (31) ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کے نظریات پر ایک تحقیقی نظر (32) محمود احمد عباسی کے نظریات پر تحقیقی نظر (33) تفسیر ترجمان القرآن اور ابوالکلام کے نظریات پر ایک نظر[4]
وفات وتدفین
ترمیم5ر شوال المکرم 1421ھ بروز سوموار یکم جنوری 2001ء کو انتقال فرمایا، اگلے روز آپ کا جنازہ مشرف علی تھانوی نے پڑھایا، ہزاروں افراد نے اس میں شرکت کی اور عصر سے قبل حقانیہ قبرستان ساہیوال ضلع سرگودھا میں آپ کی تدفین ہوئی۔
سوانح حیات
ترمیمآپ کی مفصل سوانح حیات سید عبد القدوس ترمذی نے"حیات ترمذی" کے نام سے مرتب کی۔