عبدالصمد میتلو
بریلوی مکتب فکر کے عالم دین
ولادت
ترمیماستاد العلماء حضرت مولانا علامہ عبد الصمد بن عبد اللہ میتلو کی ولادت تحصیل ڈوکری ( ضلع لاڑکانہ ) کے گوٹھ ’’بڈو واہن ‘‘ میں 21 مارچ 1918 ء میں ہوئی۔
تعلیم و تربیت
ترمیماپنے آبائی گوٹھ میں حکیم حاذق اور عالم دین مولانا اللہ بخش پنجابی کے پاس قرآن مجید ناظرہ پڑھا ۔ اس کے بعد قریب میں گوٹھ ’’چھتوواہن ‘‘میں پرائمری کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد مدرسہ شمس العلوم گوٹھ خیر محمد آریجہ میں شیخ الادب حضرت مولانا تاج محمد کھوکھر کی خدمت میں رہ کر درس نظامی کی تکمیل کی اور فارغ التحصیل ہوئے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اسی درسگاہ سے فن کتابت میں مہارت حاصل کی۔
درس و تدریس
ترمیمبعد فراغت آپ کے استاد محترم نے آپ کو اسی درسگاہ میں مدرس مقرر کیا۔ وہیں مادر علمی سے تدریس کا آغاز کیا۔ آپ نہایت ذکی محنتی اور فن تدریس کے قابل فخر اساتذہ میں سے ایک تھے ۔ تھوڑے عرصے میں آپ نے مثالی استاد کے حوالہ سے شہرت حاصل کر لی تو سندھ کی مرکزی اور معیاری درسگاہ جامعہ راشدیہ ، درگاہ شریف پیر جو گوٹھ کے مہتمم حضرت مولانا محمد صالح نے جامعہ راشدیہ کے لیے مولانا عبد الصمد کا انتخاب کیا اور مدرس مقرر کیا ، جہاں مولانا نے 23 برس تدریسی خدمات سر انجام دے کر اپنا لوہا منوایا۔ مولانا عبدالسمد جامعہ میں دوران تدریس چھٹیاں منانے اپنے گھر نہیں جاتے بلکہ جامعہ میں رہ کر طلبہ کو فن کتابت سکھاتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کے تلامذہ عمدہ خوش خط ہیں ۔ آپ کا طریقہ یہ تھا کہ اپنے منتہی طلبہ پر ڈیوٹی عائد فرماتے کہ وہ مبتدی طلبہ کو پڑھائیں ۔ اس کا مطلب مولانا ، قابل فخر اساتذہ کی کھیپ تیار کرنا چاہتے تھے جو ان کے بعد سندھ میں تدریس کا سلسلہ جاری رکھ سکیں ۔ میرے خیال میں مولانا اس پر خلوص کوشش میں یقینا کامیابی سے ہمکنا ر ہوئے ۔ ان کے تلامذہ آج بھی تدریس کے شغل میں مصروف عمل ہیں ۔ مولانا عبد الصمد صرف ونحو اور ترکیب کے فن میں ماہر تھے ، فارسی میں کافی دسترس رکھتے تھے اور علم میراث میں بھی کافی عبور تھا۔ جامعہ راشدیہ میں عرصہ دراز کی تدریس کے بعد ڈوکری کی جامع مسجد میں تدریس کے فرائض انجام دیے ۔ اس کے بعد دوبارہ جامعہ راشدیہ تدریس کے لیے تشریف لے گئے اور انہی دنوں حج مبارک کی سعادت سے سرفراز ہوئے۔ 1380ھ ماہ شوال میں حضرت مولانا ہدایت اللہ کی دعوت پر جامعہ راشدیہ سے رخصت ہو کر مدرسہ حسینیہ تشریف لے گئے جہاں تقریباً چھ ماہ مسند تدریس پر رونق افروز رہے۔ اس کے بعد جامع ماجد سکرنڈ (ضلع نوابشاہ) میں ڈھائی سال ، مدرسہ عین العلوم امینائی شریف (ضلع دادو) میں تین سال اور اس کے علاوہ لاڑکانہ شہر کے مدرسہ سید غلام مرتضیٰ شاہ جیلانی میں چار سال درس دیا۔۔
تلامذہ
ترمیمدرج ذیل حضرات نے جامعہ راشدیہ اور دیگر اداروں میں آپ سے شرف تلمذ حاصل کیا۔
- مفتی محمد رحیم سکندری پیر جو گوٹھ
- مفتی در محمد سکندری سانگھڑ
- مفتی عبدالرحمن ٹھٹوی مہتمم مدرسہ مجددیہ عثمانیہ ٹھٹہ
- مولانا ہدایت اللہ آریجوی مہتمم جامعہ حسینیہ رضویہ خیر محمد آریجہ، ضلع لاڑکانہ
- مولانا سید غلام مجتبی شاہ عرف مصری شاہ مدرس جامعہ راشدیہ
- مولانا محمدقاسم مصطفائی میرپورماتھیلو
- مولانا بشیر احمد سکندری لیکچر ارپبلک اسکول حیدر آباد
- مولانا حافظ نوراحمد جیسر سکندری مہتمم مدرسہ صبغۃالعرفان احسان واہن تحصیل ڈوکری
- مولانا الہی بخش سکندری خطیب جامع مسجد بھلیڈنہ ضلع جیکب آباد
- مولانا قاری خدا بخش قاسمی خطیب جامع مسجد بہان سید آباد ضلع دادو
- مولانا حافظ محمد آدم مہر مہتمم مدرسہ حنفیہ صدیقیہ نور مسجد نزد سول ہسپتال ڈہرکی سندھ
- حافظ قاری ارباب علی عباسی نوشہرو فیروز
- مولانا حافظ عبدالخالق پیر زادہ جوہی ضلع دادو
- مولانا عزیز الرحمن مرحوم سابق خطیب جامع مسجد حنفیہ شہباز روڈ بدین
- مولانا حافظ رب ڈنہ پھنور خطیب جیکب آباد
- استاد الحفاظ حافظ الہڈنہ جنہ مرحوم مہتمم مدرسہ انوارالقرآن ڈوکری
بیعت
ترمیممولانا عبد الصمد میتلو سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت آغا عبداللہ جان سرہندی مجددی ؒ سے دست بیعت ہوئے
اولاد
ترمیممولانا عبد اللہ میتلو اور ماسٹر عبد المجید میتلو آپ کے لخت جگر ہیں ۔ اور اپنے والد کا سالانہ عرس نہایت عقیدت سے منعقد کر تے ہیں،
تصنیف و تالیف
ترمیمآپ کی تصانیف کے سلسلہ میں درج ذیل کتب کا علم ہو سکا ہے۔
- رہبر فارسی
- القول الانور فی بحثالنور والبشر (سندھی ) مطبوعہ غوثیہ کتب خانہ سانگھڑ
وصال
ترمیمحضرت مولانا عبد الصمد نے 4، ربیع الاول 1393ھ بمطابق اپریل 1973ء کو دوپہر کے وقت 51 سال کی عمر میں سول ہسپتال لاڑکانہ میں حرکت قلب بند ہونے کی صورت میں انتقال کیا ۔ گوٹھ بڈوواہن میں نماز جنازہ ہوئی ، وہیں قبرستان میں آپ کی آخری آرامگاہ ہے ۔ جہاں ہر سال 4، ربیع الاول شریف کو عرس منایا جاتا ہے
حوالہ جات
ترمیمانسائیکلوپیڈیا سندھالوجی،کامران اعظم سوہدروی