حضرت عبد اللہ بن نافعؒ کا شمار تبع تابعین ہوتا ہے۔

حضرت عبد اللہ بن نافعؒ
معلومات شخصیت

نام ونسب ترمیم

عبد اللہ نام،ابو محمد کنیت اوروالد کا اسم گرامی نافع تھا،مدینہ طیبہ کے رہنے والے تھے،بنو مخزوم سے نسبت ولاء رکھنے کے باعث مخزمی مشہور ہوئے،ممتاز ائمہ میں ان کی ہم نام ایسی شخصتیں ملتی ہیں جن کے باپ کا نام بھی نافع تھا،اس لیے اکثر اوقات علما کو ثقاہت وعدالت اور علم و فضل کی تعیین میں خلط مبحث ہو گیا ہے،اس لیے امام عبد اللہ بن نافع کو "الصائغ"کے لفظ سے ممتاز کیا گیا ہے،مؤرخ ابن اثیر کی رائے کے مطابق الصائغ یا الصائغی کی نسبتیں رکھنے والے تمام ائمہ "صیاغہ" کی طرف منسوب ہیں۔ [1]

علم و فضل ترمیم

علمی کمالات کے اعتبار سے وہ کبار اتباع تابعین کے زمرے میں شامل ہیں، امام مالکؒ کے ارشد تلامذہ میں تھے،زمانہ دراز تک امام صاحبؒ کے دامنِ فیض سے وابستہ رہنے کی وجہ سے ان کے فقہی افکار وخیالات کا مخزن بن گئے تھے،علامہ ابن سعد رقم طراز ہیں: کان قد لزم مالک لزوما شدیدا وکان لا یقدم علیہ احد [2] انھوں نے امام مالک کا ساتھ شدت کے ساتھ پکڑا،حتیٰ کہ وہ ان پر کسی کو فوقیت نہیں دیتے تھے۔ احمدؒ بن صالح کا بیان ہے: کان اعلم الناس برای مالک [3] وہ امام مالکؒ کے خیالات کو لوگوں میں سب سے زیادہ جانتے تھے۔ ابوداؤدؒ فرماتے ہیں: کان عبد اللہ عالما بمالک وکان صاحب فقہ [4] عبد اللہ بن نافع امام مالک کے مسلک کے سب سے زیادہ عالم اورفقیہ تھے۔

فقہ ترمیم

امام ابن نافع کو فقہ اوربالخصوص فقہ مالکی میں خاص مہارت حاصل تھی اور اسی کمال تفقہ کے باعث وہ مدینہ میں افتاء کے مرجع تھے[5]یحییٰ بن معین بیان کرتے ہیں کہ ابن نافعؒ کے پاس امام مالکؒ کے چالیس ہزار مسائل تھے۔ [6]

حدیث ترمیم

ان کی فقیہانہ حیثیت کو اس قدر شہرت نصیب ہوئی کہ اس کے سامنے حدیث میں ان کے تفوق کا چراغ زیادہ روشن نہ ہو سکا ،یہاں تک کہ بعض علما سرے سے انھیں محدث ہی تسلیم نہیں کرتے [7] لیکن حقیقت واقعہ یہ ہے کہ اس فن پر بھی انھیں یکساں قدرت حاصل تھی۔ ان کی مرویات کے پایہ استناد پر علماومتفق نہ ہو سکے؛چنانچہ امام احمدؒ بن حنبل اوربخاری اورابو حاتم وغیرہ نے انھیں ضعیف الحافظ قراردیا ہے[8] لیکن اکابر علما کی ایک بڑی جماعت نے جس میں ابن معینؒ ،امام نسائیؒ اورابو زرعہؒ وغیرہ شامل ہیں، انھیں ثقہ اور عدل بتایا ہے [9]ان کی عدالت کی ایک بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ امام مسلم کے علاوہ ائمہ اربعہ نے ان کی روایت کی تخریج کی ہے [10] ابن حبان نے کتاب الثقات میں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: کان صحیح الکتاب واذا احدث کان حفظہ بما اخطأ [11] وہ صحیح الکتاب تھے،جب اپنے حافظہ سے روایت کرتے تو اکثر غلطی کرجاتے تھے۔ امام بخاریؒ نے بایں ہمہ تبحر وجلالت علم ان سے دو تین حدیثیں روایت کی ہیں اوران کے فضل وکمال کو سراہا ہے۔

شیوخ وتلامذہ ترمیم

جن حفاظِ حدیث سے انھوں نے سماع حاصل کیا ان میں سے کچھ یہ ہیں:لیث بن سعد، عبد اللہ بن نافع مولیٰ ابن عمر، سلیمان بن یزید الکعبی،داؤد بن قیس الفراء، اسامہ بن زید اللیثی، محمد بن عبد اللہ،ابن ابی ذئب ،ہشام بن سعد۔ خود ان سے روایت کرنے والوں میں قتیبہ،سلمہ بن شیب،حسن بن علی الجلال،احمد بن صالح مصری، ابوالطاہر بن السرح،زہیر بن بکار،ابراہیم بن المنذر،احمد بن حسن الترمذی، محمد بن یحیی الذہلی،یونس بن عبد الاعلیٰ کے اسمائے گرامی نمایاں ہیں۔ [12]

وفات ترمیم

ماہِ رمضان 206ھ میں بمقام مدینہ وفات پائی۔ [13]

حوالہ جات ترمیم

  1. (اللباب فی تہذیب الانساب:2/48)
  2. (طبقات ابن سعد:5/324)
  3. (العبر فی خبر من غبر:1/349)
  4. (تہذیب التہذیب:6/52)
  5. (شذرات الذہب:2/52)
  6. (تہذیب :6/52)
  7. (العبر:1/349)
  8. (تہذیب،التہذیب :6/51)
  9. (میزان الاعتدال:2/82)
  10. (خلاصہ تذہیب :216)
  11. (تہذیب :6/51)
  12. (طبقات ابن سعد:5/324)
  13. (طبقات ابن سعد:5/324)