عبد الرحمن بن اسود
عبد الرحمن بن اسودؒ تابعین میں سے ہیں۔
عبد الرحمن بن اسود | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
وجہ وفات | طبعی موت |
رہائش | کوفہ |
شہریت | خلافت امویہ |
مذہب | اسلام |
فرقہ | اہل سنت |
عملی زندگی | |
ابن حجر کی رائے | ثقہ |
ذہبی کی رائے | ثقہ |
پیشہ | محدث |
شعبۂ عمل | روایت حدیث |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیمعبد الرحمن نام،ابوحفص کنیت،نسب نامہ یہ ہے،عبد الرحمن بن اسود بن یزیدبن قیس بن عبد اللہ بن مالک بن علقمہ بن سلامان بن سہل بن بکر بن عوف بن نخع نخعی مدحجی ان کے والد اسود بن یزید بڑے صاحب علم اورعابد وزاہد تابعی تھے ان کے حالات اوپر گزرچکے ہیں۔
فضل وکمال
ترمیماگرچہ علم میں عبد الرحمن کا کوئی قابل ذکر پایہ نہ تھا،لیکن وہ اس سے تہی دامن بھی نہ تھے،حضرت عائشہؓ کے ساتھ ان کے والد کے عقیدت مندانہ مراسم تھے،اس سلسلہ میں ان کو حضرت عائشہؓ کی خدمت میں بھی حاضری کا اتفاق ہوتا تھا، ان کا بیان ہے کہ جب تک میں نابالغ تھا، حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں بغیر حصولِ اجازت چلا جاتا،بلوغ کے بعد پھر اجازت لینے لگا۔ [1]
حدیث
ترمیمان تعلقات کی بنا پر ان کو حضرت عائشہؓ سے استفادہ کا موقع ملتا تھا؛چنانچہ حدیث میں انھوں نے حضرت عائشہؓ،انس بن مالکؓ،عبد اللہ بن زبیرؓ، اوراپنے والد اوروالد کے چچا علقمہ بن قیسؓ سے فیض اٹھایا تھااور ان سے ابو اسحٰق سبیعی،ابو اسحق شیبانی،مالک بن مغول ہارون بن عنترہ،عاصم بن کلیب لیث بن ابی مسلم اور محمد بن اسحٰق ابن یسار وغیرہ نے سماع حدیث کیا تھا۔ [2]
فقہ
ترمیمحدیث سے زیادہ ان کو فقہ میں درک تھا، حافظ ابن حجر ان کو فقیہ لکھتے ہیں۔ [3]
عبادت وریاضت
ترمیمگو علم میں اپنے والد کے برابر نہ تھے، لیکن عمل میں ان کے خلف الصدق تھے،رات رات بھر عبادت کرتے تھے، محمد بن اسحٰق روایت کرتے ہیں کہ عبد الرحمن حج کے سلسلہ میں ہمارے یہاں آئے، ان کے ایک پاؤں میں کچھ تکلیف تھی،مگر اس حالت میں بھی وہ صبح تک نمازیں پڑھتے رہے اورعشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی [4] زندگی بھر میں علاحدہ علاحدہ اسی حج اوراسی عمرے کیے۔ [5] رمضان میں اپنے قبیلہ کی امامت کرتے تھے اوراہل قبیلہ کے ساتھ بارہ ترویحے پڑھتے تھے اور اس میں ایک تہائی قرآن سناتے تھے ان کے علاوہ خود علاحدہ ایک ترویحہ میں بارہ بارہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ [6]
بلا تفریق مذہب سلام
ترمیمسلام اسلام کی نشانی سمجھتے تھے اوربلا قید مذہب وملت مسلم اور غیر مسلم سب کو سلام کرتے تھے،سنان بن حبیب سلمی کا بیان ہے کہ میں عبد الرحمن بن اسود کے ساتھ پل کی طرف گیا، راستہ میں جو بھی یہودی اورنصرانی ملتا تھا، سب کو سلام کرتے تھے،میں نے کہا آپ ان مشرکوں کو سلام کرتے ہیں جواب دیا سلام مسلم کی نشانی ہے،اس لیے میں چاہتا ہوں کہ لوگ پہچان لیں کہ میں مسلمان ہوں۔ [7]
تعلقات کا لحاظ
ترمیمقدیم تعلقات اوربزرگوں کے مراسم وتعلقات کا بڑا لحاظ رکھتے تھے ابی غام بن طلق کا بیان ہے کہ جاہلیت کے زمانہ میں ہم اوراسود بن یزید میں ہمسنی کے تعلقات تھے،عبد الرحمن اس کا اتنا لحاظ کرتے تھے کہ جب کسی سفر میں جاتے یا سفر سے آتے، تو ہم لوگوں کو آکر سلام کرتے تھے۔ [8]
حلیہ اورلباس
ترمیمحنا کا خضاب لگاتے تھے اورخز کی چادر اوڑھتے تھے۔