عبد الرحمن بن غنم
عبد الرحمٰن بن غنمؒ کبائر تابعین میں سے ہیں۔آپ نے 78ھ میں وفات پائی ۔
عبد الرحمن بن غنم | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
عملی زندگی | |
پیشہ | محدث |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیمعبد الرحمن نام، والد کا نام غنم تھا، نسب نامہ یہ ہے، عبد الرحمن بن غنم بن کریب ابن ہانی بن ربیعہ بن عامر بن عدی بن وائل بن ناجیہ بن انخیل بن جماہر بن اوغم بن اشعر اشعری بعض علما انھیں صحابی بتاتے ہیں اور اس کے ثبوت میں یہ واقعہ پیش کرتے ہیں کہ وہ ابو موسیٰ اشعری کے ساتھ آئے تھے، لیکن یہ بیان صحیح نہیں ہے وہ عہد رسالت میں موجود ضرور تھے اور اسی عہد میں مشرف بہ اسلام بھی ہوئے تھے، لیکن آنحضرت ﷺ کے شرف زیارت سے محروم رہے، یہ روایت تقریباً متفق علیہ ہے۔ [1]
فضل وکمال
ترمیمفضل وکمال کے لحاظ سے عبد الرحمن ممتاز تابعین میں تھے، ابو مسہر غسانی انھیں راس التابعین کہتے تھے، حافظ ذہبی لکھتے ہیں ‘کان کثیر القدر صادقا فاضلاً’ [2] ابن سعد نے انھیں شام کے تابعین طبقہ اول میں لکھا ہے، عجلی کبار تابعین میں لکھتے ہیں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ وہ صاحبِ جلالت اور ذی مرتبہ تھے۔ [3]
حدیث
ترمیمانھوں نے جاہلیت اور اسلام دونوں کا زمانہ پایا، اس لیے انھیں صحابہ کبار کی ایک بڑی جماعت سے استفادہ کا موقع ملا؛چنانچہ حضرت عمرؓ،حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، ابوذرغفاریؓ، ابودرداءؓ، ابوعبیدہؓ بن جراحؓ، ابو مالک اشعریؓ، ابو موسیٰ اشعریؓ ، عبادہ بن صامتؓ، ثوبانؓ اور امیر معاویہؓ وغیرہ سے انھوں نے سماعِ حدیث کیا تھا۔ [4]
حضرت معاذ بن جبلؓ کی صحبت سے خصوصیت کے ساتھ زیادہ مستفید ہوئے تھے،ان کی ہم جلیسی اور صحبت کی وجہ سے صاحب معاذ ان کا لقب ہو گیا تھا۔ [5] خود ان سے فیض پانے والوں میں ان کے لڑکے محمد بن عبدالرحمن ،عطیہ بن قیس ، ابو سلام الاسود، مکحول شامی، شہر بن جوشب ، رجاءبن حیوٰۃ، عبادہ بن بشر، مالک بن ابی مریم اور صفوان بن سلیم وغیرہ لائق ذکر ہیں۔ [6]
فقہ
ترمیمعبد الرحمٰن کا خاص فن فقہ تھا، اس میں ان کو بڑی بصیرت حاصل تھی، ان کے تفقہ کی بڑی سند یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو فقہ کی تعلیم دینے کے لیے شام بھیجا تھا، شام کے تمام تابعین نے فقہ انھی سے حاصل کی تھی۔ [7]