معاذ بن جبل
معاذ بن جبل انصاری خزرجی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو یمن کا گورنر بنایا، عمر فاروق نے شام کا حاکم مقرر کیا، ۔[4] معاذ نام، ابو عبدالرحمن کنیت،امام الفقہا ءکنز العلماء اور عالم ربانی القاب، قبیلہ خزرج کے خاندان ادی بن سعد سے تھے، نسب نامہ یہ ہے:معاذ بن جبل بن عمروبن اوس بن عائذ بن عدی بن کعب بن عمرو بن ادی بن سعد بن علی بن اسد بن ساردۃ بن یزید بن جشم بن خزرج اکبر۔ سعد بن علی کے دو بیٹے تھے سلمہ اور ادی، سلمہ کی نسل سے بنو سلمہ ہیں، جن میں ابو قتادہ، جابر بن عبداللہ ،کعب بن مالک، عبداللہ بن عمرو بن حرام مشہور صحابہ گزرے ہیں ان لوگوں کے ما سوا اور بھی بہت سے بزرگوں کو اس خاندان سے انتساب تھا،لیکن سلمہ کے دوسرے بھائی ادی کے گھر میں رسول اللہ ﷺ کی ہجرت کے وقت صرف ایک فرزند تھا جس کی وفات پر خاندان ادی کا چراغ ہمیشہ کے لیے گل ہو گیا۔ امام سمعانی نے کتاب الانساب میں حسین بن محمد بن [5] طاہر کو اسی ادی کی طرف منسوب کیا ہے؛ اسلام کے زمانہ میں اس خاندان میں صرف دو شخص باقی تھے، ایک معاذ اور دوسرے ان کے صاحبزادے عبدالرحمن۔ بنوادی کے مکانات ان کے بنو اعمام (بنو سلمہ) کے پڑوس میں واقع تھے،مسجد قبلتین جہاں تحویل قبلہ ہوا تھا، یہیں واقع تھی معاذ کا گھر بھی یہیں تھا۔
معاذ بن جبل | |
---|---|
معاذ بن جبل خزرجی الانصاری | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 600ء کی دہائی مدینہ منورہ[1] |
وفات | سنہ 640 (39–40 سال)[2] شام |
مدفن | شمالی شونہ، ![]() |
شہریت | ![]() |
لقب | امام العلماء |
زوجہ | اُم عمرو بنت خالد بن عمرو خزرجی |
اولاد | عبد الرحمن، اُم عبداللہ |
رشتے دار | والد: جبل بن عمرو بن اوس |
عملی زندگی | |
نمایاں شاگرد | انس بن مالک |
پیشہ | محدث، فقیہ |
شعبۂ عمل | فقہ، تفسیر قرآن |
درستی - ترمیم ![]() |
نام ونسب اور ابتدائی حالات ترميم
معاذ نام، ابو عبدالرحمن کنیت،امام الفقہا ءکنز العلماء اور عالم ربانی القاب، قبیلہ خزرج کے خاندان ادی بن سعد سے تھے، نسب نامہ یہ ہے:معاذ بن جبل بن عمروبن اوس بن عائذ بن عدی بن کعب بن عمرو بن ادی بن سعد بن علی بن اسد بن ساردۃ بن یزید بن جشم بن خزرج اکبر۔ سعد بن علی کے دو بیٹے تھے سلمہ اور ادی، سلمہ کی نسل سے بنو سلمہ ہیں، جن میں حضرت ابو قتادہؓ،جابر بن عبداللہؓ ،کعب بن مالکؓ، عبداللہ ؓ بن عمرو بن حرام مشہور صحابہؓ گذرے ہیں ان لوگوں کے ما سوا اور بھی بہت سے بزرگوں کو اس خاندان سے انتساب تھا،لیکن سلمہ کے دوسرے بھائی ادی کے گھر میں رسول اللہ ﷺ کی ہجرت کے وقت صرف ایک فرزند تھا جس کی وفات پر خاندان ادی کا چراغ ہمیشہ کے لئے گل ہوگیا۔ امام سمعانی نے کتاب الانساب میں حسین بن محمد بن [6] طاہر کو اسی ادی کی طرف منسوب کیا ہے؛ لیکن یہ صحیح نہیں ،تمام موثق روایتوں سے ثابت ہے کہ اسلام کے زمانہ میں اس خاندان میں صرف دو شخص باقی تھے، ایک حضرت معاذؓ اور دوسرے ان کے صاحبزادے عبدالرحمن۔بنوادی کے مکانات ان کے بنو اعمام (بنو سلمہ) کے پڑوس میں واقع تھے،مسجد قبلتین جہاں تحویل قبلہ ہوا تھا، یہیں واقع تھی حضرت معاذؓ کا گھر بھی یہیں تھا۔
اسلام ترميم
طبیعت فطرۃ اثر پذیر واقع ہوئی تھی؛چنانچہ نبوت کے بارہویں سال جب مدینہ میں اسلام کی دعوت شروع ہوئی تو حضرت معاذؓ نے اس کے قبول کرنے میں ذرہ بھی پس و پیش نہ کیا، حضرت مصعب بن عمیرؓ داعی اسلامؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صدق دل سے توحید کا اقرار کیا اس وقت ان کا سن ۱۸ سال کا تھا۔ حج کا موسم قریب آیا تو حضرت مصعبؓ مکہ روانہ ہوئے،اہل مدینہ کی ایک جماعت جس میں مسلم اور مشرک دونوں شامل تھے ان کے ہمراہ ہوئی، حضرت معاذؓ کی آنکھوں نے کبھی نہ دیکھا تھا، یعنی رسول اللہ ﷺ رات کے وقت تشریف لائے اوراس جماعت سے بیعت لی۔
یہ جماعت مکہ سے مدینہ واپس ہوئی،تو آفتاب اسلام کی روشنی گھر گھر پھیل گئی، یثرب تمام مطلع انوار ہوگیا۔ حضرت معاذؓ کمسن تھے،مگر جوش ایمان کا یہ عالم تھا کہ بنو سلمہ کے بت توڑے جانے لگےتو بت شکنوں کی جماعت میں وہ سب کے پیش پیش تھے، بُت کا کسی کے گھر میں موجود ہونااب ان کے لئے سخت تکلیف دہ تھا، بنو سلمہ کے اکثر گھر ایمان کی روشنی سے منور ہوچکے تھے،لیکن اب بھی کچھ لوگ ایسے باقی تھے جن کا نفس آبائی مذہب چھوڑنے سے اعراض کرتا تھا، عمروؓ بن جموح بھی انہی لوگوں میں تھے جو اپنے قبیلہ کے سردار اور نہایت معزز شخص تھے،انہوں نے لکڑی کا ایک بت بنا رکھا تھا، جس کا نام مناۃ تھا ،حضرت معاذؓ اور کچھ دوسرے نوجوان رات کو ان کے گھر پہنچے وہ بے خبر سو رہے تھے ،ان لوگوں نے بت کو اٹھا کر محلہ کے ایک گڑھے میں پھینک دیا کہ آنے جانے والے اس کو دیکھ کر عبرت حاصل کریں، صبح کو بت کی تلاش کے لئے نکلے تو اپنے معبود کو ایک گڑھے میں اوندھا پڑا دیکھ کر عمرو کا غیظ وغضب اختیار سے باہر ہوگیا، بہر حال اس کو اٹھا کر گھر لائے ،نہلایا،خوشبو لگائی اور اس کی اصل جگہ پر رکھ دیا اورنہایت طیش میں کہا کہ جس شخص نے یہ حرکت کی ہے اگر مجھے اس کا نام معلوم ہوجائے تو بری طرح خبر لو؛لیکن جب پھر یہی واقعہ کئی مرتبہ لگاتار پیش آیا تو کفر سے بیزار ہوکر اسلام کے حلقہ میں داخل ہوگئے۔
تعلیم و تربیت ترميم
حضرت معاذؓ ابتداہی سے ہونہار تھے،آنحضرتﷺ مدینہ تشریف لائے تو وہ آپ کے دامن سے وابستہ ہوگئے اورچند ہی دنوں میں فیض نبوت کے اثر سے اسلام کی تعلیم کا اعلی نمونہ بن گئے اوران کا شمار صحابہ کے برگزیدہ افراد میں ہونے لگا۔ رسول اللہ ﷺ کو ان سے اس قدر محبت تھی کہ بسا اوقات ان کو اپنے ساتھ اونٹ پر بٹھا تے تھے اور اسرار وحکم کی تلقین کرتے تھے ،ایک مرتبہ وہ آنحضرتﷺ کے ردیف تھے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا، یا معاذ بن جبل! انہوں نے کہا ابیک یا رسول اللہ وسعد یک آپ نے پھر ان کا نام پکارا، انہوں نے پھر اسی ادب اور محبت بھرے الفاظ سے جواب دیا،اسی طرح تین مرتبہ آپ نے انکا نام لیا، اور وہ اسی طرح برابر لبیک کہتے رہے،پھر ارشاد فرمایا کہ جو شخص صدق دل سے کلمہ توحید پڑھ لے اس پر دوزخ حرام ہوجاتی ہے،حضرت معاذؓ نے کہا یا رسول اللہ کیا میں لوگوں کو یہ بشارت سنادوں؟ آنحضرتﷺ نے فرمایا نہیں ورنہ لوگ عمل کرنا چھوڑدیں گے۔ [7]
حضرت معاذؓ پر شفقت نبوی کا یہ حال تھا کہ وہ خود کوئی سوال نہ کرتے تو آنحضرت ﷺ نے کوڑے یا عصا سے ان کی پشت پر آہستہ سے ٹھوکر دی، اور فرمایا جانتے ہو بندوں پر خدا کا کیا حق ہے؟ "عرض کیا" اللہ اور رسول کو زیادہ معلوم ہے ، فرمایا "یہ کہ بندے اس کی عبادت کریں اور شرک سے اجتناب کریں" تھوڑی دور چل کر پھر پوچھا کہ "خدا پر بندوں کا کیا حق ہے؟" پھر عرض کی کہ "خدا اور رسول کو معلوم ہے" آپﷺ نے فرمایا یہ کہ وہ ان کو جنت میں داخل کرے۔ [8] حضرت معاذؓ ہمیشہ شفقت نبوی سے سرفراز رہتے تھے،ان کو اٹھتے بیٹھتے ،حامل نبوت سے تعلیم ملتی تھی، ایک مرتبہ آنحضرتﷺ نے ان کو دروازہ پر کھڑا دیکھا تو ایک چیز کی تعلیم دی، ایک اور مرتبہ لطف و کرم سے فرمایا کہ میں تمہیں جنت کا ایک دروازہ بتاؤں؟ گذارش کی ارشاد ہو، فرمایا لا حول ولا قوۃ الا باللہ [9] پڑھ لیا کرو۔ تعلیم زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی تھی،مذہبی،اخلاقی، علمی عملی ہر قسم کی تعلیم سے وہ بہرہ ور ہوئے جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
حضرت معاذؓ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے، ایک روز صبح کے وقت جب لشکر اسلام منزل مقصود کی طرف روانہ ہورہا تھا، حضرت معاذؓ رسول اللہ ﷺ کے قریب تھے،پوچھا ایسا عمل بتائیے جو مجھ کو جنت میں داخل کرے اور دوزخ سے بچائے،فرمایا تم نے بہت بڑی بات پوچھی؛ لیکن جس کو خدا توفیق دے اس پر آسان بھی ہے ،شرک نہ کرو عبادت کرو، نماز پڑھو، زکوٰۃ دو، رمضان میں روزے رکھو، حج کرو،پھر فرمایا خیر کے کچھ دروازے ہیں میں تم کو بتاتا ہوں، روزہ جو سپر کا حکم رکھتا ہے،صدقہ جو آتش معصیت کو پانی کی طرح بجھا دیتا ہے اور نماز جو رات کے حصوں میں پڑھی جاتی ہے،پھر یہ آیت تلاوت فرمائی،تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ (یعلمون تک)پھر فرمایا کہ اسلام کے سر اور عمود اور چوٹی کی خبر دیتا ہوں سر اور پاؤں تو نماز ہے اور کوہان کی چوٹی جہاد۔
پھر ارشاد ہوا کہ ان تمام باتوں کی بیخ وبن صرف ایک چیز ہے،زبان اس کو روکو آنحضرتﷺ نے اپنی زبان کو پکڑ کر فرمایا حضرت معاذؓ نے سوال کیا کہ کیا جو کچھ ہم بولتے ہیں اس پر مواخذہ ہوگا، آنحضرتﷺ نے فرمایا ثکلتک امک یا معاذ! بہت سے لوگ صرف اسی کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے۔ [10] حضرت معاذؓ کو آنحضرتﷺ نے دس باتوں کی وصیت کی تھی شرک نہ کرنا، خواہ تم کو کوئی اس کے عوض قتل کردے یا جلادے،فرض نماز قصداً کبھی نہ ترک کرنا، کیونکہ جو شخص قصداً نماز چھوڑتا ہے،خدا اس کی ذمہ داری سے بری ہوجاتا ہے،شراب نہ پینا کیونکہ یہ تمام فواحش کی بنیاد ہے، معصیت میں مبتلا نہ ہونا، کیونکہ مبتلائے معصیت پر خدا کا غصہ حلال ہوجاتا ہے،لڑائی سے نہ بھاگنا اگرچہ تمام لشکر خاک و خون میں لوٹ چکا ہو، موت عام ہو (بیماری آئے ) تو ثابت قدم رہنا، اپنی اولاد کے ساتھ سلوک کرنا ان کو ہمیشہ ادب دینا اور خدا سے خوف دلانا۔ [11] رسول اللہ ﷺ نے پانچ چیزوں کی حضرت معاذؓ کو تاکید کی تھی اور فرمایا تھا کہ جوان کو عمل میں لائے، خدا اس کا ضامن ہوتا ہے،مریض کی عیادت، جنازہ کے ساتھ جانا، غزوہ کے لئے نکلنا، حاکم کی تعزیر یا توقیر کے لئے جانا، گھر میں بیٹھ رہنا جس میں وہ تمام لوگوں سے محفوظ ہوجائے اور دنیا سے سلامت رہے۔ [12] اخلاقی تعلیم ان الفاظ میں دی، معاذ! ہر برائی کے پیچھے نیکی کرلیا کرو نیکی اس کو مٹادے گی اور لوگوں کے سامنے اچھے اخلاق ظاہر کرو۔ [13] یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اتق دعوۃ المظلوم فان لیس بینھا و بین اللہ حجاب ! یعنی مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہو، کیونکہ اس کے اور خدا کے درمیان کوئی پردہ نہیں۔ [14] یمن کا حاکم مقرر کرکے بھیجا تو فرمایا، معاذ! خبردار عیش و تنعم سے علیحدہ رہنا،کیونکہ خدا کے بندے عیش پرست اور تنعم پسند نہیں ہوتے۔ [15] اجتماعی زندگی کی تلقین اس طرح کی: انسان کا بھیڑیا شیطان ہے ،جس طرح بھیڑیا اس بکری کو پکڑتا ہے جو گلہ سے دور ہوتی ہے،اسی طرح شیطان اس انسان پر قابو پالیتا ہےجو جماعت سے الگ ہوتا ہے،خبردار!خبردار!متفرق نہ ہونا؛بلکہ جماعت کے ساتھ رہنا۔ [16] اشاعتِ اسلام کے متعلق فرمایا، معاذ! اگر تم ایک مشرک کو بھی مسلمان کرلو، تو تمہارے لئے دنیا کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے۔ [17] غرض یہ پاکیزہ خیالات اور اعلیٰ تعلیمات جس بزرگ کے رگ وپے میں سرایت کر گئی تھیں وہ جماعت انصار کا وہ "نوجوان" تھا جس کو حضرت ابن مسعودؓ فرد نہیں ؛بلکہ ایک امت کہا کرتے تھے۔
غزوات اور عام حالات ترميم
آنحضرتﷺ نے مدینہ تشریف لاکر مواخاۃ کی تو حضرت معاذؓ کا مہاجری بھائی،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو تجویز فرمایا۔ ۲ھ میں غزوۂ بدر پیش آیا، حضرت معاذؓ اس میں شریک تھے اوراس وقت ان کا سن ۲۱ سال کا تھا،بدر کے علاوہ تمام غزوات میں حضرت معاذؓ نے شرف شرکت حاصل کیا۔ ان فضائل کے ماسوا حضرت معاذؓ نے آنحضرتﷺ کے عہد مبارک میں قرآن حفظ کیا تھا۔
امامت مسجد ترميم
بنو سلمہ نے اپنے محلے میں ایک مسجد بنالی تھی جس کے امام حضرت معاذؓ تھے ایک دن عشا کی نماز میں انہوں نے سورۂ بقرہ پڑھی، پیچھے صفوں میں ایک شخص تھا جو دن بھر کھیت میں کام کرنے کی وجہ سے بالکل تھکا ہوا تھا، حضرت معاذؓ کی نماز ابھی ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ وہ نیت توڑ کر چل دیا، حضرت معاذؓ کو اطلاع ہوئی تو کہا کہ وہ منافق ہے، اس کو یہ نہایت ناگوار گذرا اوررسول اللہ ﷺ سے آکر شکایت کی آنحضرتﷺ نے معاذ ؓ سے فرمایا :افتان انت ؟ کیا لوگوں کو فتنہ میں مبتلا کروگے؟ اس کے بعد فرمایا کہ چھوٹی سورتیں پڑھا کرو، کیونکہ تمہارے پیچھے صفوں میں بوڑھے ضعیف اورارباب حاجت سبھی قسم کے لوگ ہوتے ہیں، تم کو ان سب کا خیال کرنا چاہیے۔ [18]
امارت یمن اور اشاعت اسلام ترميم
۹ھ میں آنحضرتﷺ غزوہ تبوک سے تشریف لائے تھے کہ رمضان میں ملوک حمیر (یمن) کا قاصد اہل یمن کے قبول اسلام کی خبر لے کر مدینہ پہنچا، اب آنحضرتﷺ نے یمن کی امارت کے لئے حضرت معاذؓ کو تجویز فرمایا۔ اس سے پیشتر حضرت معاذؓ کی جائداد قرض میں بیع ہوچکی تھی، حضرت معاذؓ بہت فیاض تھے اورخوب خرچ کرتے تھے اور لازماً اس کا بار جائداد پر پڑرہا تھا، قرض خواہوں نے زیادہ تنگ کیا تو کچھ دنوں گھر میں چھپ رہے، وہ لوگ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ معاذؓ کو بلوائیے آپ نے آدمی بھیج کر حضرت معاذؓ کو بلوایا ،قرض خواہوں نے شور مچایا کہ ہمارا ابھی فیصلہ ہونا چاہیے ،لیکن جائداد سے قرض بہت زیادہ ہوچکا تھا، اس لئے آنحضرتﷺ نے فرمایا جو شخص اپنا حصہ نہ لےگا، اس پر خدا رحم کرے گا، چنانچہ کچھ لوگوں نے اپنا حصہ چھوڑدیا، لیکن کچھ لوگ بضد رہے ،آنحضرتﷺ نے حضرت معاذؓ کی کل جائدادان لوگوں پر تقسیم کردی؛لیکن قرض اب بھی ادا نہ ہوا،تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اس سے زیادہ نہیں مل سکتا، اسی کو لیجاؤ، حضرت معاذؓ اب بالکل مفلس تھے، آنحضرتﷺ کو ان کا بہت خیال تھا، فرمایا کہ گھبرانا نہیں، خدا اس کی جلد تلافی کردیگا۔
فتح مکہ کے بعد آنحضرتﷺ نے ان کو امارت یمن کے لئے منتخب فرمایا اگرچہ ان کی قابلیت پر آپ کو ہر طرح کا اطمینان تھا،تاہم امتحان لے لینا مناسب تھا، پوچھا "فیصلہ کس طرح کروگے"؟ حضرت معاذؓ نے کہا کہ قرآن مجید سے فیصلہ کرونگا، فرمایا اگر اس میں نہ ملے کہا کہ سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق فیصلہ کروں گا ،فرمایا اوراس میں بھی نہ ہو، کہا میں خود اجتہاد کرونگا، آنحضرتﷺ نہایت مسرور ہوئے اور فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کے رسول کو اس چیز کی توفیق دی جس کو اس کا رسول پسند کرتا ہے۔ امتحان ہوچکا تو اہل یمن کو ایک فرمان لکھوایا، جس میں حضرت معاذؓ کے رتبہ کی طرف ان الفاظ میں اشارہ تھا: انی بعثت لکم خیر اھلی میں اپنے لوگوں میں سے بہترین کو تمہارے لئے بھیجتا ہوں۔ اس میں یہ بھی تحریر تھا کہ معاذ بن جبلؓ اور دوسرے آدمیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور صدقہ اور جذبہ کی رقمیں وصول کرکے ان کے پاس جمع کرنا اور معاذ بن ؓ جبل کو سب پر امیر بناتا ہوں ،ان کو راضی رکھنا، ایسا نہ ہو کہ وہ تم سے ناخوش ہوجائیں۔
یہ تمام مراحل طے ہوگئے تو حضرت معاذؓ نے یمن کے سفر کی تیاری کی اور سوار ہوکر آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور لوگ بھی ساتھ ساتھ تھے، روانگی کا وقت آیا تو کچھ دور تک خود سرکاردو عالمؓ نے مشایعت کی،حضرت معاذ بن جبلؓ اونٹ پر سوار تھے اور شہنشاہ مدینہ اونٹ کے ساتھ پا پیادہ چل رہےتھے اور باہم گفتگو کا سلسلہ جاری تھا، جس کے ایک ایک فقرہ سے شفقت و محبت کا اظہار ہو رہا تھا،فرمایا معاذ! تم پر قرض بہت ہے اگر کوئی ہدیہ لائے تو قبول کرلینا، میں تم کو اس کی اجازت دیتا ہوں، وداع کا وقت آیا تو حضرت سرورکائناتؓ نے حضرت معاذؓ سے کہا شائد اب تم سے ملاقات نہ ہو،اب مدینہ واپس آؤ گے تو میرےبجائے میری قبر ملے گی، یہ سننا تھا کہ حضرت معاذؓ کی آنکھیں ابل پڑیں اور زار و قطار رونے لگے، آنحضرتﷺ نے فرمایا نہ رؤو ،رونا شیطانی حرکت ہے،رخصت ہونے لگے تو آنحضرتﷺ نے فرمایا، حفظك الله من بين يديك ومن خلفك وعن يمينك وعن شمالك ومن فوقك ومن تحتك وأدرأ عنك شرور الإنس والجن، یعنی جاؤ، خدا تم کو ہر قسم کے آفات سے محفوظ رکھے حضرت معاذؓ نے مدینہ کی طرف [19] نہایت حسرت سے دیکھا اور کہا کہ میں متقیوں کو اچھا سمجھتا ہوں خواہ کوئی ہوں (یہ غالباً خلفاء کی طرف اشارہ تھا)
رسول اللہ ﷺ سے رخصت ہوکر یمن روانہ ہوگئے،جب یمن پہنچے تو سپیدۂ صبح نمودار [20] تھا رسول اللہ ﷺ کا رسول کسی دنیاوی فرما نروا کا نائب نہ تھا،ظاہری شان وشوکت سے اس کا جلوس بالکل خالی تھا، خدم وحشم ،نقیب و چاؤش خیل و سپاہ میں سے ایک چیز بھی اس کے ساتھ نہ تھی، تاہم اسلام وایمان کا نور چہرہ مبارک پر چمک رہا تھا اورزبان و لب نعرہ تکبیر بلند کررہے تھے،جس کو ہوا کی موجیں اڑا اڑا کر اہل یمن کے کانوں تک پہنچا رہی تھیں، غرض اس شان وشوکت سے رسول اللہ ﷺ کا رسو ل پہنچا تو قصر کفر کی بنیادیں ہل گئیں اور کفر ستانِ یمن نعرہ توحید سے گونج اٹھا۔ حضرت معاذؓ ملک یمن کے صرف امیر ہی نہ تھے ؛بلکہ محکمۂ مذہبی کے بھی انچارج تھے ،ایک طرف اگر وہ صوبۂ یمن کے والی و گورنر تھے تو دوسری طرف دین اسلام کے مبلغ و معلم بھی اس لئے حضرت معاذؓ عدالت وقضاء کے فرائض کے علاوہ مذہبی خدمات بھی انجام دیتے تھے ؛مثلاً لوگوں کو قرآن مجید پڑھانا اوراسلام کے احکام کی تعلیم و تلقین کرنا۔ قبیلہ حولان کی ایک عورت ان کے پاس آئی، اس کے ۱۲ بیٹے تھے، جن میں سب سے چھوٹا بھی بے داڑھی مونچھ کے نہ تھا شوہر کو گھر میں تنہا چھوڑ کر ان سب کو اپنے ساتھ لائی تھی ضعف کا یہ حال تھا کہ دو بیٹے اس کے بازو پکڑے ہوئے تھے آکر پوچھا آپ کو یہاں کس نے بھیجا ہے؟ حضرت معاذؓ نے کہا مجھ کو رسول اللہ ﷺ نے بھیجا ہے، اس نے کہا تو آپ رسول اللہ ﷺ کے فرستادہ ہیں؟ میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں، کیا آپ بتائیں گے؟ حضرت معاذؓ نے کہا ہاں جو جی چاہے پوچھو، اس نے کہا یہ بتائیے کہ شوہر کا بیوی پر کیا حق ہے،حضرت معاذؓ نے کہا حتی الامکان خدا سے ڈر ے اور اس کی اطاعت و فرما نبرداری کرے اس نے کہا آپ کو خدا کی قسم ٹھیک ٹھیک بتائیے ،حضرت معاذؓ نے کہا کیا اتنے پر تم راضی نہیں وہ بولی کہ لڑکوں کا باپ بہت بوڑھا ہے میں اس کا حق کس طرح ادا کروں؟ حضرت معاذ نے کہا جب یہ بات ہے تو تم ان کے حق سے کبھی سبکدوش نہیں ہوسکتیں، اگر جذام نے ان کا گوشت پھاڑ دیا ہو اوراس میں سے خون اور پیپ بہ رہا ہو اور تم اپنا منہ اس میں لگادو تب بھی حق نہ ادا ہوگا۔ [21]
یمن کا ملک آنحضرتﷺ نے پانچ حصوں پر تقسیم کردیا تھا، صنعاء،کندہ، حضر موت، جند، زبید،(رمعہ، عدن اور ساحل تک اس میں شامل تھے) یمن کا صدر مقام جند تھا اورحضرت معاذؓ یہیں رہتے تھے،باقی چار حصوں میں حسب ذیل حضرات حاکم تھے۔ حضرت خالدؓ بن سعید صنعاء حضرت مہاجرؓ بن ابی امیہ کندہ حضرت زیادؓ بن لبید حضر موت حضرت ابو موسیٰؓ اشعری زبید اورساحل یہ چاروں بزرگ اپنے اپنے علاقوں سے صدقہ اورجزیہ وغیرہ کی رقمیں وصول کرکےحضرت معاذؓ کے پاس بھیج دیتے تھے،خزانہ حضرت معاذؓ کے پاس تھا۔ حضرت معاذؓ اپنے ماتحت عمال کے علاقوں میں دورہ کرتے تھے، اُن کے فیصلوں کی دیکھ بھال کرتے تھے اور ضرورت کے وقت خود مقدمہ کی سماعت کرتے تھے ؛چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کے علاقہ میں جاکر ایک مقدمہ کا فیصلہ کیا تھا، دورہ میں خیموں میں قیام فرماتے تھے؛چنانچہ یہاں بھی آپ کے لئے خیمہ ہی نصب کیا گیا اور آپ اس میں فروکش ہوئے اوراس کے قریب ہی حضرت ابو موسیٰ ؓ بھی ایک خیمہ میں مقیم ہوئے۔ [22] حضرت معاذؓ صدقات کی تحصیل اس فرمان کے مطابق کرتے تھے جو رسول اللہ ﷺ کو لکھوا کر عطا فرمایا تھا، یہ فرمان تاریخ کی کتابوں میں بتمامہا [23] مذکور ہے، اس میں غنیمت ،خمس، صدقات،جزیہ اوربہت سے مذہبی احکام کی تفصیل ہے،حضرت معاذؓ نے ہمیشہ اس پر عمل کیا۔ ایک مرتبہ گایوں کا ایک گلہ ایک شخص لے کر آیا، گائیں تعداد میں ۳۰ سے کم تھیں ،رسول اللہ ﷺ نے ان کو حکم دیا تھا کہ ایک بچہ لینا، اس لئے حضرت معاذ نے کہا کہ میں تا وقتیکہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھ نہ لوں اس پر کچھ نہ لوں گا، کیونکہ آنحضرتﷺ نے اس کے متعلق مجھ سے کچھ نہیں فرمایا، اس واقعہ سے یہ معلوم ہوا کہ عہد نبوت کے عمال دنیاوی حکومتوں کے امراء وعمال کی طرح جبار اور ظالم نہیں ہوتے تھے،راعی اور رعایا کے جو تعلقات اسلام نے بیان کئے ہیں ان کی ہمیشہ نگہداشت کرتے تھے اور راعی پر شریعت کی طرف سے جو ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں وہ ان پر نہایت شدت سے عمل در آمد کرتے تھے۔ فیصلوں میں بھی اس کی رعایت رکھی جاتی تھی کہ رعایا کی حق تلفی نہ ہو عمال کی عدالتوں میں حق وصداقت کو غلبہ ہوتا تھا، ایک یہودی مرگیا، ورثہ میں صرف ایک بھائی تھا جو مسلمان ہوچکا تھا، حضرت معاذؓ کی عدالت میں مرافعہ (اپیل ) ہوا، تو انہوں نے بھائی کو ترکہ دلوایا۔ [24] حضرت معاذؓ کی حکومت یمن میں ۲ برس رہی ۹ھ میں وہ عامل بناکر یمن بھیجے گئے تھے اور ۱۱ ھ میں خود ہی اپنی مرضی سے واپس آگئے۔ حضرت معاذؓ نے یمن میں بیت المال کے روپیہ سے تجارت کی تھی اس سے جو منافع تھا اس سے اپنا قرض پورا کیا، [25] اس کے ماسوا ہدیہ کی رقم بھی رسول اللہ ﷺ کے حکم سے قبول کی تھی ؛چنانچہ جب یمن سے روانہ ہوئے تو۳۰راس ان کے ساتھ تھیں ،یہ سب گو ایک طرح سے خود امیر وقت کے اشارہ کے مطابق ہوا تھا، لیکن چونکہ کوئی تصریحی حکم نہ تھا، اس لئے بیت المال کے سرمایہ سے اتنا فائدہ اٹھانا بھی کھٹکتا تھا ۔
یمن سے واپسی ترميم
گورنری کی میعاد ختم کرکے مدینہ منورہ واپس آئےتو رسول اللہ ﷺ کا وصال ہوچکا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ کا عہدِ خلافت تھا، حضرت معاذؓ مال و متاع کے ساتھ آئے تو حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو مشورہ دیا کہ ان کے گذر اوقات کے بقدر علیحدہ کرکے بقیہ سارا سامان ان سے وصول کرلیا جائے، حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ ان کو رسول اللہ ﷺ نے حاکم بناکر بھیجا تھا، اگر ان کی مرضی ہوگی اور میرے پاس لائیں گے تو لے لوں گا، ورنہ ایک حبہ نہ لونگا، حضرت ابوبکرؓ سے یہ صاف جواب ملا تو حضرت عمرؓ خود حضرت معاذؓ کے پاس پہنچے اوران سے اپنا خیال ظاہر کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ کو رسول اللہ ﷺ نے صرف اس لئے بھیجا تھا کہ وہاں رہ کر اپنے نقصان کو پورا کرلوں، میں کچھ بھی نہ دونگا، حضرت عمرؓ خاموش ہوکر واپس چلے آئے، تاہم وہ اپنے خیال پر قائم تھے۔
حضرت معاذؓ نے گو اس وقت حضرت عمرؓ سے انکار کردیا ؛لیکن آخر تائید غیبی نے حضرت عمرؓ کی موافقت کی،حضرت معاذؓ نے خواب میں دیکھا کہ وہ پانی میں غرق ہو رہے ہیں حضرت عمرؓ نے آکر نکالا اور اس مصیبت سے نجات دی سو کے اٹھے تو سیدھے حضرت عمرؓ کے پاس پہنچے اور خواب بیان کرکے کہا کہ جو آپ نے کہا تھا مجھے منظور ہے وہاں سے حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں آئے اورخواب کا پورا واقعہ سنا کر قسم کھائی کہ جو کچھ ہے سب لاکر دونگا حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا میں تم سے کچھ نہ لونگا،میں نے تم کو ہبہ کردیا، حضرت عمرؓ نے حضرت معاذؓ سے کہا اب اپنے پاس رکھو، اب تمہیں اجازت مل گئی۔
شام کی روانگی ترميم
یہ مراحل طے ہوگئے تو حضرت معاذؓ نے شام کا قصد کیا اوراپنے اہل وعیال کو لے کر وہیں سکونت پذیر ہوگئے،حضرت ابوبکرؓ نے انتقال کیا تو حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے فتوحات اسلامی کا سیلاب بلاد شام سے گذر رہا تھا، حضرت معاذؓ بھی فوج میں شامل تھے اورمیدانوں میں داد شجاعت دیتے تھے۔
سفارت ترميم
رسول اللہ ﷺ کی تعلیم کی خوبی دیکھئے کہ صحابہؓ میں بیک وقت مختلف کاموں اورگونا گوں فرائض کے انجام دینے کی قابلیت پیدا ہوگئی تھی،یہیں حضرت معاذؓ مفتی شرع بھی تھے،مجلس ملکی کے ممبر بھی، جامع حمص میں قرآن وحدیث کے معلم بھی تھے اور صوبہ یمن کے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں سلطنت کا سب سے بڑا صوبہ تھا حاکم وقت بھی ،اسلام کے سفیر بھی تھے اور میدانِ جنگ میں غازی و شجاع ومجاہد بھی۔
سفارت کا منصب تفویض ہوا تو نہایت خوش اسلوبی سے متعلقہ فرائض انجام دیئے، شام کے ایک شہر فحل میں ۱۴ ھ میں معرکہ کی تیاریاں ہوئیں تو رومی صلح پر آمادہ ہوئے اورحضرت ابو عبیدہؓ سپہ سالار لشکر اسلام کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ کسی شخص کو سفیر بناکر ہمارے پاس بھیجے، حضرت ابو عبیدہؓ نے حضرت معاذؓ کو تجویز کیا، حضرت معاذ رومی لشکر میں پہنچے تو وہاں نہایت سازوسامان سے دربار آراستہ کیا گیا تھا ،ایک خیمہ نصب تھا جس میں دیبائے زریں کا فرش بچھا ہوا تھا، معاذؓ نے یہ تکلفات دیکھے تو باہر کھڑے ہوگئے، ایک عیسائی نے آگے بڑھ کر عرض کیا کہ گھوڑا میں تھام لیتا ہوں، آپ اندر تشریف لے جائیں، حضرت معاذؓ جن کی بزرگی اورتقدس کا عیسائیوں تک میں چرچا تھا، فرمایا کہ میں اس فرش پر جو غریبوں کا حق چھین کر تیار کیا گیا ہے بیٹھنا پسند نہیں کرتا، یہ کہہ کر زمین پر بیٹھ گئے، عیسائیوں نے افسوس کیا ہم آپ کی عزت کرنا چاہتے تھے ؛لیکن آپ کو خود اس کا خیال نہیں، یہ سننا تھا کہ حضرت معاذؓ کو غصہ آگیا گھٹنوں کے بل کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ جس کو تم عزت سمجھتے ہواس کی مجھے حاجت نہیں،اگر زمین پر بیٹھنا غلاموں کا شیوہ ہے تو مجھ سے بڑھ کر خدا کا کون غلام ہوسکتا ہے،رومی حضرت معاذؓ کی اس آزادی اوربے پروائی پر سخت متحیر تھے؛ یہاں تک کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ مسلمانوں میں تم سے بھی بڑھ کر کوئی ہے انہوں نے کہا،"معاذ اللہ یہی بہت ہے کہ میں سب سے بد تر ہوں" رومی خاموش ہوگئے، حضرت معاذؓ نے کچھ دیر انتظار کرکے ترجمان سے فرمایا کہ رومیوں سے کہو کہ اگر وہ کوئی معاملہ کی گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو ٹھہروں ورنہ جاتا ہوں ،رومیوں نے کہا ہمارا آپ سے یہ سوال ہے کہ ہمارے ملک پر کیوں حملہ کیا گیا؟ حبشہ کا ملک عرب سے قریب ہے،فارس کا بادشاہ فوت ہوچکا ہے اورسلطنت کی باگ ایک عورت کے ہاتھ میں ہے،ان ملکوں کوچھوڑ کر تم نے ہماری ہی طرف کیوں رخ کیا، حالانکہ ہمارا بادشاہ، تاجدارانِ روئے زمین کا شاہنشاہ ہے اور تعداد میں ہم آسمان کے ستاروں اورزمین کے ذروں کے برابر ہیں، حضرت معاذؓ نے کہا ہمیں تم سے جو کچھ کہنا ہے اس کا ماحصل یہ ہے کہ مسلمان ہوجاؤ، ہمارے قبلہ کی طرف نماز پڑھو، شراب چھوڑدو، سور کا گوشت چھوڑ دو، اگر تم ایسا کروگے تو ہم تمہارے بھائی ہیں اوراگر اسلام منظور نہیں تو جزیہ دو اوراس سے بھی اگر انکار ہے تو اعلان جنگ کرتا ہوں،اگر تم آسمان کے ستاروں اورروئے زمین کے ذروں کے برابر ہو تو ہم کو قلت و کثرت کی قطعی پرواہ نہیں۔
اور ہاں تم کو اس پر ناز ہے کہ تمہارا شہنشاہ تمہاری جان اورمال کا مالک ہے لیکن ہم نے جس کو بادشاہ بنایا ہے، وہ اپنے آپ کو ہم پر ترجیح نہیں دے سکتا، اگر وہ زنا کا مرتکب ہو تو اسے درے لگائے جائیں اور چوری کرے تو اس کے ہاتھ کاٹے جائیں وہ پردے میں نہیں بیٹھتا اپنے کو ہم سے بڑا نہیں سمجھتا، مال و دولت میں بھی اس کو ہم پر کوئی ترجیح نہیں، رومیوں نے ان باتوں کو بڑے غور سے سنا اور اسلام کی تعلیم پر پیرادان دین حنیف کے طور وطریق پر نہایت حیرت زدہ ہوئے ،حضرت معاذؓ سے کہا ہم آپ کو بلقاء کا ضلع اوردون کا وہ حصہ جو آپ کے علاقہ سے متصل ہے دیتے ہیں، آب آپ لوگ اس ملک کو چھوڑ کر فارس جائیے، چونکہ یہ کوئی خرید و فروخت کا معاملہ نہ تھا، حضرت معاذؓ نے اس کا جواب نفی میں دیا اور اٹھ کر وہاں سے چلے آئے۔
فوجی خدمات ترميم
حضرت معاذؓ اگرچہ اپنے عہد کے تمام غزوات میں بڑے بڑے عہدوں پر مامور ہوئے،تاہم دو موقعوں پر ان کو نہایت ممتاز فوجی عہد ے تفویض ہوئے ایک مرتبہ سفارت سے واپس آئے تو لڑائی کی تیاریاں شروع ہوئیں، اس موقع پر ان کو جو امتیاز حاصل ہوا، وہ یہ تھا کہ حضرت ابو عبیدہؓ نے ان کو میمنہ کا افسر بنایا۔ جنگ یرموک میں بھی جو ۱۵ ھ میں ہوئی تھی اور نہایت معرکہ کی تھی،حضرت معاذؓ کو میمنہ کے ایک حصہ کا افسر بنایا گیا، عیسائیوں کا حملہ اس زور وشور کا تھا کہ مسلمانوں کا میمنہ ٹوٹ کر فوج سے علیحدہ ہوگیا تھا، حضرت معاذؓ نے یہ حالت دیکھی تو نہایت استقلال اور ثابت قدمی کا ثبوت دیا گھوڑے سے کود پڑے اور کہا میں پیدل لڑونگا ،اگر کوئی بہادر اس گھوڑے کا حق ادا کرسکے تو گھوڑا حاضر ہے، ان کے بیٹے بھی میدان میں موجود تھے بولے یہ حق میں ادا کرونگا،کیونکہ میں سوار ہوکر اچھا لڑسکتا ہوں،غرض دونوں باپ بیٹے رومی فوج کو چیر کر اندر گھس گئے اور اس دلیری سے لڑے کہ مسلمانوں کے اکھڑے ہوئے پاؤں پھر سنبھل گئے۔
مجلس شوریٰ کی رکنیت ترميم
مجلس شوریٰ کی باضابطہ شکل اگرچہ عہد فاروقی میں عالم وجود میں آئی؛ لیکن اس کا خاکہ عہد صدیقی میں تیار ہوچکا تھا،چنانچہ ابن سعد کی روایت کے مطابق حضرت ابوبکرؓ جن لوگوں سے سلطنت کے مہمات امور میں مشورہ لیتے تھے ان میں حضرت معاذؓ کا نام نامی بھی داخل تھا، حضرت ابوبکرؓ کے بعد حضرت عمرؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں مجلس شوریٰ کا باقاعدہ انعقاد کیا، تو حضرت معاذؓ اس زمانہ میں بھی اس کے رکن تھے۔ [26]
افواجِ شام کی سپہ سالاری ترميم
عہد فاروقی میں ملک شام کی تمام فوج حضرت ابو عبیدہؓ کے ماتحت تھی ۱۸ھ میں نہایت زور شور سے شام میں طاعون نمودار ہوا، جو طاعون عمواس کے نام سے مشہور ہے ،حضرت ابو عبیدہؓ نے اسی میں وفات پائی ،انتقال کے قریب حضرت معاذؓ کو اپنا جانشین بنایا اور چونکہ نماز کا وقت آچکا تھا، حکم دیا کہ وہی نماز پڑھائیں ادھر نماز ختم ہوئی، اُدھر انہوں نے داعیِ اجل کو لبیک کہا اورحضرت معاذؓ کچھ دنوں سپہ سالاری کے منصب پر فائز رہے۔
وفات ترميم
وبا اسی طرح زوروں پر تھی اور لوگ سخت پریشان تھے،حضرت عمروبن عاص نے کہا کہ یہاں سے ہٹ چلو، یہ بیماری نہیں بلکہ آگ ہے، حضرت معاذؓ نے سنا تو نہایت برہم ہوئے کھڑے ہوکر ایک خطبہ دیا جس مین عمروؓ کو سخت وسست کہا، اس کے بعد فرمایا کہ یہ وباء بلاء نہیں خدا کی رحمت ہے،نبی کی دعوت ہے اورصالحین کے اٹھنے کی ساعت ہے ،میں نے آنحضرتﷺ سے سنا تھا کہ مسلمان شام میں ہجرت اختیار کریں گے،شام اسلام کے علم کے نیچے آجائے گا ،پھر ایک بیماری پیدا ہوگی،جو پھوڑے کی طرح جسم کو زخمی کرے گی جو اس میں مرے گا شہید ہوگا اوراس کے اعمال پاک ہوجائیں گے،الہی اگر میں نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے تو یہ رحمت میرے گھر میں بھیج اورمجھ کو اس میں کافی حصہ دے۔ تقریر ختم کرکے اپنے بیٹے کے پاس آئے جن کا نام عبدالرحمنؓ تھا، دعا قبول ہوچکی تھی،دیکھا تو بیٹا اسی بیماری میں مبتلا تھا، باپ کو دیکھ کر کہا "الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ" یہ موت جو حق ہے،خدا کی طرف سے ہے،شک کرنے والوں میں نہ ہوجیے ، حضرت معاذ نے جواب دیا" سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ" تو انشااللہ مجھے صابروں میں پائے گا، حضرت عبدالرحمنؓ نے انتقال کیا، بیٹے کے فوت ہونے سے پہلے دو بیویاں اسی بیماری میں مرچکی تھیں، اب حضرت معاذؓ تنہا رہ گئے تھے،ساعت مقرر ہ آئی تو خدا کا بندہ خاص بھی دائرہ ٔرحمت میں شامل ہوا، دائیں ہاتھ کی کلمہ والی انگلی میں پھوڑا نکلا (مسند:۵/۴۱) حضرت معاذؓ نہایت خوش تھے،فرماتے تھے کہ تمام دنیا کی دولت اس کے سامنے ہیچ ہے تکلیف اس قدر تھی کہ بے ہوش ہو ہو جاتے تھے باایں ہمہ جب ہوش آتا تو کہتے "خدایا مجھ کو اپنے غم میں غمگین کر ؛کیونکہ میں تجھ سے نہایت محبت رکھتا ہوں اوراس کو توخوب جانتا ہے" پھر بے ہوش ہوجاتے جب افاقہ ہوتا تو پھر یہی فرماتے وفات کی رات بھی عجیب رات تھی حضرت معاذؓ نہایت بے چین تھے باربار پوچھتے تھے "دیکھو صبح ہوئی" لوگ کہتے کہ ابھی نہیں جب صبح ہوئی اور خبر کی گئی تو فرمایا، اس رات سے خدا کی پناہ جس کی صبح جہنم میں داخل کرتی ہو،مرحبا اے موت!مرحبا! تو اس دوست کے پاس آئی جو فاقہ کی حالت میں ہے،الہی میں تجھ سے جس قدر خوف کرتا تھا،تجھ کو خوب معلوم ہے،آج میں تجھ سے بڑی امیدیں رکھتا ہوں میں نے کبھی دنیا اور درازی عمر کو اس لئے پسند نہیں کیا کہ درخت بونے اورنہر کھودنے میں وقت صرف کرتا؛بلکہ اس لئے چاہتا تھا کہ فضائح وفواحش سے دور رہوں، کرم وجود کو فروغ دوں اور ذکر کے حلقوں میں علماء کے پاس بیٹھوں وفات کا وقت قریب پہنچا تو حضرت معاذؓ گریہ وبکا میں مشغول تھے لوگوں نے تسلی دی کہ آپ رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں اس کے ماسوا فضائل ومناقب سے ممتاز ہیں،آپ کو رونے کی کیا ضرورت ؟حضرت معاذؓ نے فرمایا مجھے نہ موت کی گھبراہٹ ہے اور نہ دنیا چھوڑنے کا غم،مجھے عذاب وثواب کا خیال ہے ،اسی حالت میں روح مطہر جسم سے پرواز کر گئی اورخالقِ کون ومکاں کا پیارا اپنے محبوب آقا کے جوار رحمت میں پہنچ گیا۔
وفات کے وقت حضرت معاذؓ کی عمر شریف ۳۶ سال کی تھی اور ۱۸ھ تھا ،وفات بھی نہایت مبارک خط میں واقع ہوئی،بیت المقدس اوردمشق کے درمیان غور نامی ایک صوبہ تھا جس میں بیسان ایک مشہور شہر تھا،جو نہر اردن کے قریب واقع تھا، اسی میں حضرت معاذؓ نے وفات پائی ،شہر کے مشرقی طرف وہ مقدس مقام واقع تھا جہاں سے حضرت عیسیٰ آسمان پر اٹھا لئے گئے تھے، مدفن کے لئے وہی مقام تجویز ہوا اور نعش مبارک وہیں سپرد خاک کی گئی۔
حلیہ ترميم
حضرت معاذؓ کا حلیہ یہ تھا رنگ سپید ،چہرہ رشن، قددراز، آنکھیں سرمگیں اور بڑی بڑی ابرو پیوستہ، بال سخت گھونگھروالے،آگے دانت صاف اور چمکدار ،بات کرنے میں دانت کی چمک ظاہر ہوجاتی تھی جس کو ان کا ایک عقیدت کیش "نور"اور"موتی" سے تعبیر کرتا ہے آواز بہت پیاری اور گفتگو نہایت شیریں تھی حسن ظاہر کے لحاظ سے وہ تمام صحابہؓ میں ممتاز تھے ۔
اولاد ترميم
حضرت معاذؓ کا سن ہی کیا تھا وفات کے وقت وہ شباب کی دوسری منزل پر تھے تاہم صاحب اولاد تھے اگرچہ بعض بزرگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ لم یولد لہ قط یعنی حضرت معاذؓ کے سرے سے اولاد ہی نہیں ہوئی، لیکن مستند ذرائع سے ان کے ایک بیٹے کا پتہ چلتا ہے،جن کا نام عبدالرحمن تھا،صاحب استیعاب کا بیان ہے کہ یہ حضرت معاذؓ کے ساتھ یرموک میں شریک تھے اور ۱۸ ھ میں طاعون عمواس میں حضرت معاذؓ سے پیشتر وفات پائی۔ ازواج کی تفصیل اگرچہ نامعلوم ہے،لیکن اتنا پتہ چلتا ہے کہ طاعون عمواس میں ان کی دو بیویوں نے وفات پائی۔
علم و فضل ترميم
حضرت معاذؓ کو جن علوم میں کمال تھا وہ قرآن، حدیث، اورفقہ ہیں ،قرآن دانی کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے کہ خود حامل قرآن نے ان کی مدح فرمائی ہے ؛چنانچہ ایک حدیث جو حضرت عبداللہ بن عمروؓ بن عاص کے ذریعہ سے مروی ہے ہمارے اس قول کی تصدیق کرتی ہے اس حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے صحابہ ؓ میں چار بزرگوں سے قرآن پڑہنے کی تاکید فرمائی تھی، اس میں سے ایک حضرت معاذؓ بھی تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ آنحضرتﷺ کے عہد مبارک میں وہ قرآن کے حافظ ہوچکے تھے۔
حدیث ترميم
رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں اگرچہ صحابہؓ کو روایت حدیث کی بہت کم ضرورت پڑتی تھی کہ خود حامل نبوت سامنے تھا، تاہم اس زمانہ میں بھی متعدد صحابہؓ نے ان سے حدیثیں روایت کی ہیں؛چنانچہ حضرت انسؓ کا واقعہ اسد الغابہ میں مذکور ہے،لیکن چونکہ وہ احادیث کی روایت میں بہت محتاط تھے اور نیز اس لئے بھی کہ آنحضرتﷺ کے اخیر زمانہ سے لے کر اپنی وفات تک بڑے بڑے کاموں کے انجام دینے کے لئے برابر مدینہ سے باہر رہے اس لئے جیسا کہ شاہ ولی اللہ صاحب نے لکھا ہے"حدیث اوچنداں باقی نماند" حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں ان کو تعلیم و روایت حدیث کے لئے شام بھیجا تھا اور وہیں ان کا ۱۸ ھ میں عین عالم شباب میں انتقال ہوگیا۔ تاہم روایت حدیث کا سلسلہ زندگی کی اخیر سانس تک جاری تھا،عمواس کے طاعون میں جب انگلی کی سوزش ان کو بستر مرگ پر تڑپارہی تھی زبان مبارک اس فرض کی ادائیگی میں مصروف تھی۔ [27]
چنانچہ وفات کے وقت حضرت جابر بن عبداللہ ؓ اورکچھ اور لوگ پاس بیٹھے تھے وفات کا وقت قریب آیا تو فرمایا پردہ اٹھاؤ میں حدیث بیان کرونگا جس کو اب تک میں نے اس لئے مخفی رکھا تھا کہ لوگ تکیہ کر بیٹھیں گے،اس کے بعد ایک حدیث بیان کی۔ (مستند:۵/۳۲۶) حضرت معاذؓ کی روایتیں اگرچہ اور صحابہؓ سے کم ہیں تاہم ان کا شمار راویانِ حدیث کے تیسرے طبقہ میں ہے ان کی احادیث کی مجموعی تعداد (۱۵۷) ہے جس میں دو حدیثوں پر بخاری اور مسلم کا اتفاق ہے۔ تلامذہ حدیث کی تعداد کثیر تھی اکابر صحابہؓ کا ایک بڑا طبقہ ان سے حدیث کی روایت کرتا ہے،حضرت عمرؓ، ابو قتادہؓ انصاری، ابو موسیٰ اشعریؓ،جابر بن عبداللؓہ،عبداللہ بن عباسؓ، عبداللہ بن عمرؓ، عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ، انس بن مالکؓ، ابو امامہ ؓ باہلی، ابو لیلیٰ انصاریؓ، ابو لطفیلؓ۔ تلامذہ خاص میں حسب ذیل حضرات شامل ہیں، ابن عدی،ابن ابی اوفی اشعری، عبد الرحمن بن سمرۃ بعثی،جابر بن انسؓ، ابو ثعلبہ خشنی، جابر بن سمرۃ السوائی، مالک بن نیحا مر،عبدالرحمن بن غنم ،ابو مسلم خولانی، ابو عبداللہ صنابحی، ابو وائل ،مسروق،جنادہ بن ابی امیہ، ابو ادریس خولانی، جبیر بن نفیر، اسلم مولی حضرت عمرؓ، اسود بن ہلال، اسود بن یزید وغیرہم فقہ خود عہد نبوی میں حضرت معاذؓ کا شماراکابر فقہاء میں تھا، اس سے بڑھ کر شرف اورکیا ہوسکتا ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے ان کے فقیہ ہونے کی شہادت دی اور فرمایا اعلمھم بالحلال والحرام معاذ ابن جبلؓ ہمارے صحابہ میں حلال وحرام کے سب سے بڑے عالم معاذ بن جبلؓ ہیں حضرت عمرؓ نے ایک موقع پر ان کے متعلق کہا لولا معاذ لھلک عمر یعنی اگر معاذؓ نہ ہوں تو عمر ہلاک ہوجائے، اس سے حضرت معاذؓ کے رتبہ اجتہاد ودرجۂ استنباط پر کافی روشنی پڑتی ہے،حضرت عمرؓ نے اس کے علاوہ اور بھی متعدد مرتبہ حضرت معاذؓ کے فقیہ ہونے کا اعلان کیا چنانچہ جب جابیہ میں خطبہ دیا تو فرمایا: من اراد أن يسأل عنه الفقه فليأت معاذا یعنی جسے فقہ سیکھنا ہو وہ معاذ کے پاس جائے
طلب علم اورشوق تحصیل ترميم
ان اوراق کو پڑھ کر تم کو تعجب ہوگا کہ ان کو یہ فضل وکمال کا منصب کیونکر ہاتھ آیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک تو ان کا فطری شوق اور طبعی ذکاوت وذہانت جس کا ہر موقع پر اظہار ہوتا تھا دوسرے خود معلم نبوتﷺ کا ایسے جوہر قابل اور مستند طالب علم کی طرف جوش التفات وعنایت خاص، حضرت معاذؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اکثر حاضر رہتے تھے،اس کے علاوہ آنحضرتﷺ کی ہر مجلس تعلیم و تربیت کی ایک درسگاہ ہوتی تھی، اس لئے ان کو اکثر اوقات اس سے استفادہ کا موقع حاصل ہوتا تھا۔
حضرت معاذ بسا اوقات آنحضرتﷺ کے ساتھ تنہا ہوتے تھے آنحضرتﷺ ایسے اوقات خاص میں ان کو مختلف مسائل تعلیم کیا کرتے تھے کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ حضرت معاذ کو کوئی مسئلہ پوچھنے کی ضرورت ہوتی تو آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اوراگر آنحضرتﷺ تشریف نہ رکھتے تو وہ آپ کی تلاش میں دور تک نکل جاتے ؛چنانچہ ایک مرتبہ کاشانہ نبویﷺ پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ آپ کہیں تشریف لے گئے ہیں تلاش کے لئے نکلے تو راستہ میں لوگوں سے پوچھتے جاتے تھے کہ حضور کدھر تشریف لے گئے ہیں،آخر ایک جگہ آپ کو پالیا، آنحضرتﷺ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے وہ بھی پیچھے کھڑے ہوگئے اور نماز کی نیت باندھ لی، اس دن آپ نے دیر تک نماز ادا فرمائی ،فارغ ہوئے تو معاذ نے پوچھا کہ "حضورنے بڑی لمبی نماز پڑھی"؟فرمایا"یہ ترغیب و ترہیب کی نماز تھی میں نے خدا سے تین باتوں کی درخواست کی تھی جس میں دو کے متعلق رضا مندی ظاہر ہوئی اور ایک کی نسبت میں روک دیا گیا، میں نے یہ چاہا تھا کہ میری امت غرق ہونے سے محفوظ رہے تو یہ درخواست منظور کرلی گئی، ایک یہ خواہش کی تھی کہ غیر مسلم دشمن اسلام پر غالب نہ آسکے تو وہ بھی پوری کی گئی، ایک تمنا یہ تھی کہ مسلمانوں میں اختلاف و تفریق نہ پڑنے پائے تو اس کو مسترد کردیا گیا۔ [28] غزوۂ تبوک سے مراجعت کے وقت رسول اللہ ﷺ کو تنہا اورخالی پاکر حضرت معاذ نے پوچھا کہ مجھ کو وہ عمل بتائیے جو میرے دخولِ جنت کا سبب بنے ،آنحضرتﷺ اس سوال سے نہایت مسرور ہوئے اور فرمایا: نج لقد سألت عن عظیم یعنی تم نے بہت بڑی بات پوچھی [29]
اس کے ساتھ ہی یہ بھی خوف لگا رہتا تھا کہ کہیں اور لوگ خلل انداز نہ ہوں؛کیونکہ شمع نبوت کے گرد ہر وقت پروانوں کا ہجوم رہتا تھا؛چنانچہ اسی روایت میں حضرت معاذؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ ابھی فرماہی رہے تھے کہ کچھ لوگ آتے دکھائی دیئے مجھ کو ڈر لگا کہ رسول اللہ ﷺ کی توجہ میری طرف سے منعطف نہ ہوجائے میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ فلاں بات جو آپ نے فرمائی تھی اس کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ چنانچہ آنحضرتﷺ نے اس کو بیان فرمایا۔ [30] حضرت معاذؓ کو ایسے موقع کی ہر وقت تلاش رہتی تھی، موقع ملنے پر آنحضرتﷺ سے فورا ًسوال کرتھے،لیکن پاس نبوت ضروری تھا، رسول اللہ ﷺ کا مزاج پہچان کر سوال کی جرأت کرتے تھے ،غزوۂ تبوک سے قبل لوگ طلوع آفتاب کے وقت سواریوں پر سو رہے تھے اور اونٹ ادھر ادھر راستہ میں چر رہے تھے،حضرت معاذؓ نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور آنحضرتﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے،آنحضرتﷺ بھی مصروفِ خواب تھے اور ناقۂ مبارک چرنے اور کھانے میں مشغول،حضرت معاذؓ کے اونٹ نے ٹھوکر کھائی،انہوں نے اس کی مہار کھینچی تو اور متوحش ہوا، اس کے بدکنے سے رسول اللہ ﷺ کا اونٹ بھی بدکا، آنحضرتﷺ خواب سے بیدار ہوئے مڑکر پیچھے دیکھا تو معاذؓ سے زیادہ کوئی قریب نہ تھا، آپ نے پکارا معاذؓ!انہوں نے کہا حضور آپﷺ نے فرمایا میرے قریب آجاؤ،حضرت معاذ اس قدر قریب آگئے کہ آنحضرتﷺ اورحضرت معاذ کے اونٹ بالکل برابر ہوگئے،آنحضرتﷺ نے فرمایا دیکھو لوگ کس قدر دور ہیں، حضرت معاذؓ نے کہا سب لوگ سورہے ہیں اور جانور چررہے ہیں، آپ ﷺنے فرمایا میں بھی سورہا تھا،آپ ﷺ کا رخ اور التفات دیکھا تو کہا یا رسول اللہ !آپ اجازت دیں تو ایسے امر کی نسبت سوال کروں جس نے مجھ کو غمگین مریض اور سقیم بنادیا ہے،آنحضرتﷺ نے فرمایا جو چاہو پوچھ سکتے ہو۔ [31] ایک اور سفر میں جیسا کہ آپ کہیں اوپر پڑھ چکے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے ان کو تین دفعہ پکارا اور ہر دفعہ انہوں نے ادب سے جواب دیا،چنانچہ تیسری دفعہ ان کو پکارا تو فرمایا کہ : کلمہ لا الہ الا اللہ کا قائل جنت میں داخل ہوگا ،اگرچہ وہ گنہگار ہو،حضرت معاذ نے اس کا اعلان کرنا چاہا تو فرمایا ایسا نہ کرو لوگ عمل چھوڑ بیٹھیں گے۔ طبیعت تلاش اور کرید کی عادی تھی،ایک شخص نے آنحضرتﷺ سے ایک خاص مسئلہ دریافت کیا تھا، آپ نے اس کا جواب مرحمت فرمایا، ایک ظاہر بیں کے لئے وہ جواب بالکل کافی تھا،لیکن حضرت معاذؓ نے اسی پر اکتفا نہیں کیا، پوچھا یا رسول اللہ ﷺ یہ حکم اس شخص کے لئے خاص ہے،یا تمام مسلمانوں کے لئے ہے آپ نے فرمایا نہیں عام ہے۔ [32]
منصب تعلیم ترميم
تحصیل علم میں جدوجہد اور مسائل میں غور وخوض کا مرحلۂ دشوار گذار طے ہوا تو منزل مقصود سامنے تھی، یعنی یہ کہ فیض تربیت سے وہ فقیہ امام مجتہد اورمعلم سب بن گئے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک ہی میں حضرت معاذؓ مسند ارشاد پرمتمکن ہوچکے تھے ۸ھ میں کہ فتح مکہ ہوا تو آنحضرتﷺ ان کو مکہ میں چھوڑ گئے کہ یہیں رہ کر لوگوں کو فقہ وسنت کی تعلیمی دیں۔ [33]
۹ھ میں والیٔ یمن بناکر بھیجا،تو فصل قضایا کے علاوہ اہل یمن کی تعلیم بھی انہی کے ذمہ کی حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں بھی منصب افتا پر سرفراز تھے،حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں اہل شام کو تعلیم کی ضرورت تھی، یزید بن ابی سفیان والی شام نے حضرت عمرؓکو لکھا کہ کچھ لوگوں کو اس غرض کے لئے یہاں بھیجیے، حضرت عمرؓ نے حضرت معاذ وغیرہ کو بلایا اور شام جانے کی ہدایت کی حضرت معاذ نے فلسطین میں سکونت اختیار کی اور تعلیم میں مشغول ہوئے،تمام ملک شام میں صرف دو صحابی تھے جن کی ذات علوم و فنون کا مرکز بنی ہوئی تھی حضرت معاذؓ ان میں سے ایک تھے۔ حضرت معاذؓ کی سکونت اگرچہ علاقہ فسلطین میں محدود تھی؛ لیکن اشاعت علوم کا دائرہ غیر محدود تھا،فلسطین سے متجاوز ہوکر دمشق اورحمص تک میں ان کے حلقۂ درس قائم تھے اورخودحضرت معاذؓ نے ان مقامات میں جاکر درس دیا تھاطریقہ یہ تھا کہ مجلس میں چند صحابہ ؓ کسی مسئلہ پر مباحثہ کرتے،حضرت معاذ خاموش بیٹھے رہتے ،جب معاملہ طے نہ ہوتا تو حضرت معاذؓ اس کا فیصلہ کرتے تھے ۔
ابو ادریس خولانی ایک مرتبہ جامع دمشق میں گئے تو دیکھا کہ ایک خوبصورت نوجوان بیٹھا ہے اور اس کے گرد لوگ جمع ہیں جب کسی چیز میں اختلاف ہوتا ہے تو اس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور وہ ان کو تسلی بخش جواب دیتا ہے پوچھا کون ہے؟ لوگوں نےکہا حضرت معاذؓ بن جبل ہیں۔ (مسند:۵/۲۳۳) ابو مسلم خولانی جامع حمص میں آئے تو دیکھا کہ ایک حلقہ قائم ہے جس میں ۳۲ صحابہؓ بیٹھے ہیں اورسب سن کہولت کوپہنچ چکے ہیں،ان میں ایک نوجوان بھی ہے جب کسی مسئلہ میں اختلاف رائے ہوتا ہے تو نوجوان سے فیصلہ کراتے ہیں معلوم ہوا کہ یہ نوجوان معاذبن جبل ہیں۔
(مسند:۵/۲۳۷) ترميم
غرض حضرت معاذؓ کے درس وافادہ کا سلسلہ حمص تک وسیع تھا،شہروں کی جامع مسجدیں درسگاہ کا کام دیتی تھیں، وہ مختلف شہروں میں دورہ کرتے تھے اورجہاں جاتے تھے فیض و برکت کا سرچشمہ جاری ہوجاتا تھا۔ حضرت ابن مسعودؓ فرمایا کرتے تھے کہ دنیا میں صرف تین عالم ہیں، جن میں ایک شام میں اقامت پذیر ہے، یہ حضرت معاذؓ کی طرف اشارہ تھا، حضرت عبداللہ بن عمرؓ لوگوں سے پوچھتے تھے کہ جانتے ہو عقلا ءکون ہیں؟ لوگ لا علمی ظاہر کرتے تو فرماتےمعاذ بنؓ جبل اور ابو درداءؓ عقلاءسے مقصود ظاہر ہے کہ علمائے شریعت ہیں۔ مجتہد کے لئے سب سے زیادہ ضروری اصابت رائے ہے، حضرت معاذؓ اس درجہ صائب الرائے تھے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے بعض موقعون پر ان کی رائے کو پسند فرمایا۔ پڑھ چکے ہیں کہ یمن روانہ کرتے وقت آنحضرتﷺ نے معاذؓ سے پوچھا تھا کہ "مقدمہ آئے گا تو کیونکر فیصل کروگے؟" حضرت معاذؓ نے جواب دیا کتاب اللہ سے آپ نے فرمایا اگر اس میں نہ پاؤ، تو عرض کی سنت رسول اللہ ﷺ سے پھر فرمایا اگر اس میں بھی نہ پاؤ تو عرض کی کہ "اجتہاد کرونگا" یہ سن کر آنحضرتﷺ اس قدر خوش ہوئےکہ ان کے سینہ پر اپنا دست مقدس پھیرا اور فرمایا خدا کا شکر ہے جس نے تم کو اس بات کی توفیق دی جس کو میں پسند کرتا ہوں، حضرت معاذؓ کے جواب سے گویا اصول فقہ کا یہ پہلا اصول مرتب ہوا کہ احکام اسلامی کے یہ تین بہ ترتیب ماخذ ہیں اول کتاب الہی پھر حدیث نبوی اوراس کے بعد قیاس شروع زمانہ میں جو لوگ دیر میں پہنچتے اور کچھ رکعتیں چھوٹ جاتیں تو وہ نمازیوں سے اشارہ سے پوچھ لیتے کہ کتنی رکعتیں ہوئیں اور وہ اشارہ سے جواب دیدیتے ،اس طرح لوگ فوت شدہ رکعتیں پوری کرکے صف نماز میں مل جاتے تھے،ایک دن جماعت ہورہی تھی اور لوگ قعدہ میں تھے کہ معاذؓ آے اور دستور کے خلاف قبل اس کے کہ رکعتیں پوری کرتے جماعت کے ساتھ قعدہ میں شریک ہوگئے،آنحضرتﷺ نے سلام پھیرا تو حضرت معاذ نے اٹھ کر بقیہ رکعتیں پوری کیں، آنحضرتﷺ نے دیکھا تو فرمایا :قد سن لکم فھکذا فاصنعوا یعنی معاذؓ نے تمہارے لئے ایک طریقہ نکالا ہے تم بھی ایسا ہی کرو [34] یہ حضرت معاذؓ کے لئے کتنی قابل فخر مزیت ہے کہ ان کی سنت تمام مسلمانوں کے لئے واجب العمل قرار پائی اورآج تک اسی پر عمل در آمد ہے اور دنیا کے سارے مسلمان اسی کے مطابق اپنی فوت شدہ رکعتیں ادا کرتے ہیں۔
نماز اور روزہ کے تین دور انہوں نے جس طرح قائم کئے ہیں، [35] وہ بھی ان کے تفقہ پر شاہد عدل ہے اسی بناء پر ان کے اجتہادات جہاں دوسرے صحابہؓ سے مختلف تھے وہاں صحت اوریقین بھی انہی کو حاصل تھا۔ جماع کی ایک صورت خاص میں صحابہ کرامؓ میں اختلاف تھا، حضرت عمرؓ بھی نہایت متردد تھے مگر عام صحابہؓ کی تردید نہ کرسکتے تھے، لیکن حضرت معاذؓ اورحضرت علی ؓ کو سب سے اختلاف تھا،آخر حضرت عائشہؓ نے حضرت معاذؓ کی رائے سے اتفاق کیا اوراسی پر حضرت عمرؓ اورتمام صحابہؓ کا اجماع ہوگیا۔ [36]
اسی طرح ایک مرتبہ، ایک اورپیچیدہ صورت پیدا ہوئی،ایک حاملہ عورت کا شوہر دو برس غائب تھا لوگوں کو شبہہ ہوا،حضرت عمرؓ سے ذکر کیا،حضرت عمرؓ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا، حضرت معاذؓ موجود تھے،بولے کہ عورت کے رجم کا آپ کے بے شک حق ہے لیکن بچہ کے رجم کرنے کے کیا معنی ہیں، حضرت عمرؓ نے اس وقت چھوڑدیا اور فرمایا وضع حمل کے بعدسنگسار کیا جائے،لڑکا پیدا ہوا تو خوبی قسمت سے اپنے باپ کے بالکل مشابہ نکلا، باپ نے دیکھا تو قسم کھا کر کہا کہ یہ تو میرا بیٹا ہے، حضرت عمرؓ کو خبر ملی تو فرمایا کہ معاذؓ کا مثل عورتیں نہ پیدا کریں گی، اگر معاذؓ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا۔ [37] قدرت نے جس فیاضی سے حضرت معاذؓ کو کمالات عطا فرمائے تھے اس کا اعتراف طبقہ صحابہؓ میں ہر کہ ومہ کو تھا،حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے عجزت النساء ان یلدن مثل معاذؓ یعنی معاذؓ جیسا شخص پیدا کرنے سے عورتیں عاجز ہیں۔
وہ خلافت کے مستحق تھے ترميم
حضرت عمرؓ کے انتقال کا وقت قریب آیا تو لوگوں نے عرض کیا کہ آپ کے بعد کس کو خلیفہ بنایا جائے،حضرت عمرؓ نے ایک مختصر تقریر فرمائی جس کا ایک فقرہ یہ تھا کہ اگر معاذؓ بن جبل زندہ ہوتے تو ان کو خلیفہ بناتا، خدا پوچھتا تو کہتا کہ اس شخص کو خلیفہ بناکر آیا ہوں جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے، يأتى معاذ يوم القيامة رتوة بين العلماء ۔
اخلاق وعادات ترميم
حضرت معاذؓ کے مناقب ومحامد کا ایک ایک باب پڑھ چکے اس سے ان کی اخلاقی خصوصیات معلوم ہوگئی ہونگی،ایک مسلمان کا سب سے بڑا وصف خالق کائنات کے ساتھ والہانہ لگاؤ اوراس کی اطاعت و عبادت ہے،چنانچہ حضرت معاذؓ دوسرے تربیت یافتگان نبوت کی طرح پچھلی پہر رات سے اٹھ کر اس کاروبار میں مصروف ہوجاتے تھے،یہ اسی عشق الہی و محبت خدا وندی کا اثر تھا کہ جب عمواس میں طاعون کی وبا پھیلی اور حضرت عمرؓ وبن العاص نے آبادی چھوڑ کر میدان میں نکل جانے کی صلاح دی تو ان کو اس تجویز سے سخت تکلیف ہوئی اور فرمایا کہ یہ رحمتِ الہی ہے، اے خدا اپنی اس رحمت کو تو میرے گھر بھیج۔
حب رسول ترميم
حب الہی کے بعد حب رسول کا درجہ ہے،سُن چکے ہیں کہ وہ جب کبھی آپ نہ پاتے تو کس طرح بے تابانہ آپﷺ کی تلاش میں نکل جاتے ،حضورﷺکا قاعدہ تھا کہ سفر میں آپ جب کہیں اترتے تھے تو مہاجرین کو اپنے قریب اتارتے تھے؛چنانچہ ایک بار رسول اللہ ﷺ کسی سفر میں تشریف لے گئےصحابہؓ بھی ہمراہ تھے ،ایک جگہ ان کے ساتھ منزل کی تو آنحضرت ﷺ صحابہؓ کے مجمع سے جن میں معاذ بن جبلؓ بھی تھے اٹھ کر کہیں چلے گئے،معاذؓ کو بڑی پریشانی ہوئی،شام تک انتظار کرتے رہے جب آپﷺ نہ آئے تو حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کو لے کر آپﷺ کی تلاش میں نکل گئے، راستہ میں آواز معلوم ہوئی، دیکھا تو آنحضرتﷺ ہیں، معاذؓ کو دیکھ کر حضورﷺ نے پوچھا تمہارا کیا حال ہے ؟ ان لوگوں نے کہا کہ آج آپ ہم میں تشریف نہ رکھتے تھے، ہم کو خوف ہوا کہ خدانخواستہ کوئی ضرر نہ پہنچا ہو، اس لئے اس وقت آپ کو ڈھونڈ نے نکلے ہیں۔ [38]
ادب رسولﷺ ترميم
آنحضرتﷺ کا بے حد ادب کرتے تھے،ایک بار یمن سے آئے تو آنحضرتﷺ سے درخواست کی کہ یمن میں میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ ایک دوسرے کو سجدہ کرتے ہیں کیا ہم آپ کو سجدہ نہ کریں؟ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اگر میں کسی انسان کے لئے سجدہ جائز کرتا تو عورت سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ جناب رسالت مآب ﷺ بھی اس محبت وجان نثاری کی بناء پر ان سے نہایت محبت کرتے تھے ،ایک بار حضرت معاذؓ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے آنحضرتﷺ نے ان کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کہ مجھ کو تم سے بہت محبت ہے، حضرت معاذ ؓ نے کہا میرے ماں باپ آپ پر فدا! میں بھی آپ کو نہایت محبوب رکھتا ہوں، آنحضرتﷺ نے فرمایا میں ایک وصیت کرتا ہوں اس کو کبھی ترک نہ کرنا، یہ کہہ کر ایک دعا بتائی جو حضرت معاذؓ ہر نماز کے بعد ہمیشہ پڑہتے رہے۔ (اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ)۔[39] رسول اللہ ﷺ کی وصیت کا اس قدر خیال تھا کہ اپنے تلمیذ خاص صنابحی کو حضرت معاذؓ نے وصیت کی،صنابحی پر یہ اثر تھا کہ انہوں نے اپنے شاگرد ابو عبدالرحمن حبلی کو اور حبلی نے عقبہ بن مسلم کو اس کے پڑہنے کی وصیت کی تھی۔ [40] مذکورہ بالا واقعات تما م تر عہد نبوت سے تعلق رکھتے ہیں اوراس عہد میں حضرت معاذؓ کی محبت کا جو حال تھا وہ اوپر گذرچکا ؛لیکن رسول اللہ ﷺ کے بعد ان کی کیا کیفیت تھی اس کا بیان اب سننا چاہیے: رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد حضرت معاذ کا اضطرار اوراضطراب قابل دید تھا، یمن سے واپس ہوکر آئے تو مدینہ منورہ رسول اللہ ﷺ کے جمال جہاں آرا سے محروم ہوچکا تھا، اس لئے انہوں نے مدینہ منورہ کو چھوڑ کر شام میں سکونت اختیار کی۔ شام میں بھی محبوب کا فراق چین نہ لینے دیتا تھا ۱۶ھ میں حضرت عمرؓ بیت المقدس تشریف لے گئے،حضرت بلالؓ بھی وہاں موجود تھے، حضرت عمرؓ نے ان سے درخواست کی آج اذان دیجئے،حضرت بلالؓ نے کہا میں تو ارادہ کرچکا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کے لئے اذان نہ دونگا ،لیکن آج آپ کا ارشاد بجالاتا ہوں ،اذان دینی شروع کی تو صحابہؓ کو رسول اللہ ﷺ کا عہد مبارک یاد آگیا اوران پر رقت طاری ہوگئی اورحضرت معاذ بن جبلؓ تو روتے روتے بیتاب ہوگئے۔
امر بالمعروف ترميم
حضرت معاذؓ نے امر بالمعروف میں کبھی لومۃ لائم کی پرواہ نہ کی،شام گئے تو دیکھا کہ شامی وتر نہیں پڑہتے، امیر معاویہؓ حاکم شام تھے، ان سے پوچھا کہ ان کے وتر نہ پڑہنے کا کیا سبب ہے؟ امیر کو معلوم نہ تھا،پوچھا کیا وتر واجب ہے؟ حضرت معاذؓ نے کہا ہاں۔ [41]
جود ترميم
نہایت فیاض تھے؛چنانچہ اسی سخاوت کی بدولت ان کی تمام جائیداد بیع ہوگئی اسلام کو ان کی سخاوت سے بڑا فائدہ پہنچا۔
صدق ترميم
راست گفتاری ان کی مسلم تھی اورخود رسول اللہ ﷺ نے ان کی صداقت کی تصدیق فرمائی تھی،حضرت انسؓ سے حضرت معاذؓ نے ایک حدیث بیان کی حضرت انسؓ نے رسول اللہ ﷺ سے جاکر پوچھا کہ آپ نے معاذؓ سے یہ فرمایا تھا؟ آنحضرتﷺ نے فرمایا [42] صدق معاذ! صدق معاذ!صدق معاذ! کینہ وحسد سے مبرا تھے،اقران اور ہمعصر اکثر حسد کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ،چند باکمال ایک زمانہ میں موجود ہوں تو کبھی ایک دوسرے کو اچھا نہ کہے گا؛ لیکن رسول اللہ ﷺ کی تعلیم نے صحابہؓ کو اس قسم کے رکیک و باطل خیالات سے پاک کردیا تھا وہ ہمعصروں اور ہمسروں کی قابلیت کا اعتراف کرتے تھے اور وقت پر اس کو ظاہر بھی کردیتے تھے۔ حضرت معاذ کی وفات کا وقت آیا تو تمام لوگ رو رہے تھے کہ علم اٹھا جارہا ہے ،حضرت معاذؓ سے کہا فرمائیے آپ کے بعد کس سے پڑھیں انہوں نے کہا ذرا مجھے اٹھا کے بٹھادو، بیٹھ گئے تو فرمایا "سنو علم وایمان اٹھ نہیں سکتے وہ بدستور رہیں گے،جو جستجو کرے گا پائے گا (تین مرتبہ فرمایا) علم چار آدمیوں سے سیکھو یعنی ابودرداءؓ ،سلمان فارسیؓ، ابن مسعودؓ، عبداللہ بن سلام ؓ سے۔ [43]
- معاذ ہمیشہ شفقت نبوی سے سرفراز رہتے تھے،ان کو اٹھتے بیٹھتے ،حامل نبوت سے تعلیم ملتی تھی، ایک مرتبہ آنحضرتﷺ نے ان کو دروازہ پر کھڑا دیکھا تو ایک چیز کی تعلیم دی، ایک اور مرتبہ لطف و کرم سے فرمایا کہ میں تمہیں جنت کا ایک دروازہ بتاؤں؟ گزارش کی ارشاد ہو، فرمایا لا حول ولا قوۃ الا باللہ [44] پڑھ لیا کرو۔
- تعلیم زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی تھی،مذہبی،اخلاقی، علمی عملی ہر قسم کی تعلیم سے وہ بہرہ ور ہوئے جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
- معاذ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے، ایک روز صبح کے وقت جب لشکر اسلام منزل مقصود کی طرف روانہ ہورہا تھا، معاذ رسول اللہ ﷺ کے قریب تھے،پوچھا ایسا عمل بتائیے جو مجھ کو جنت میں داخل کرے اور دوزخ سے بچائے،فرمایا تم نے بہت بڑی بات پوچھی؛ لیکن جس کو خدا توفیق دے اس پر آسان بھی ہے ،شرک نہ کرو عبادت کرو، نماز پڑھو، زکوٰۃ دو، رمضان میں روزے رکھو، حج کرو،پھر فرمایا خیر کے کچھ دروازے ہیں میں تم کو بتاتا ہوں، روزہ جو سپر کا حکم رکھتا ہے،صدقہ جو آتش معصیت کو پانی کی طرح بجھا دیتا ہے اور نماز جو رات کے حصوں میں پڑھی جاتی ہے،پھر یہ آیت تلاوت فرمائی،تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ (یعلمون تک)پھر فرمایا کہ اسلام کے سر اور عمود اور چوٹی کی خبر دیتا ہوں سر اور پاؤں تو نماز ہے اور کوہان کی چوٹی جہاد۔
- پھر ارشاد ہوا کہ ان تمام باتوں کی بیخ وبن صرف ایک چیز ہے،زبان اس کو روکو آنحضرتﷺ نے اپنی زبان کو پکڑ کر فرمایا حضرت معاذؓ نے سوال کیا کہ کیا جو کچھ ہم بولتے ہیں اس پر مواخذہ ہوگا، آنحضرتﷺ نے فرمایا ثکلتک امک یا معاذ! بہت سے لوگ صرف اسی کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے۔
- معاذکو آنحضرتﷺ نے دس باتوں کی وصیت کی تھی شرک نہ کرنا، خواہ تم کو کوئی اس کے عوض قتل کر دے یا جلادے،فرض نماز قصداً کبھی نہ ترک کرنا، کیونکہ جو شخص قصداً نماز چھوڑتا ہے،خدا اس کی ذمہ داری سے بری ہوجاتا ہے،شراب نہ پینا کیونکہ یہ تمام فواحش کی بنیاد ہے، معصیت میں مبتلا نہ ہونا، کیونکہ مبتلائے معصیت پر خدا کا غصہ حلال ہوجاتا ہے،لڑائی سے نہ بھاگنا اگرچہ تمام لشکر خاک و خون میں لوٹ چکا ہو، موت عام ہو (بیماری آئے ) تو ثابت قدم رہنا، اپنی اولاد کے ساتھ سلوک کرنا ان کو ہمیشہ ادب دینا اور خدا سے خوف دلانا۔
- رسول اللہ ﷺ نے پانچ چیزوں کی حضرت معاذؓ کو تاکید کی تھی اور فرمایا تھا کہ جوان کو عمل میں لائے، خدا اس کا ضامن ہوتا ہے،مریض کی عیادت، جنازہ کے ساتھ جانا، غزوہ کے لیے نکلنا، حاکم کی تعزیر یا توقیر کے لیے جانا، گھر میں بیٹھ رہنا جس میں وہ تمام لوگوں سے محفوظ ہوجائے اور دنیا سے سلامت رہے۔
- اخلاقی تعلیم ان الفاظ میں دی، معاذ! ہر برائی کے پیچھے نیکی کر لیا کرو نیکی اس کو مٹادے گی اور لوگوں کے سامنے اچھے اخلاق ظاہر کرو۔
- یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اتق دعوۃ المظلوم فان لیس بینھا و بین اللہ حجاب ! یعنی مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہو، کیونکہ اس کے اور خدا کے درمیان میں کوئی پردہ نہیں۔
- یمن کا حاکم مقرر کرکے بھیجا تو فرمایا، معاذ! خبردار عیش و تنعم سے علاحدہ رہنا،کیونکہ خدا کے بندے عیش پرست اور تنعم پسند نہیں ہوتے۔
- اجتماعی زندگی کی تلقین اس طرح کی: انسان کا بھیڑیا شیطان ہے ،جس طرح بھیڑیا اس بکری کو پکڑتا ہے جو گلہ سے دور ہوتی ہے،اسی طرح شیطان اس انسان پر قابو پالیتا ہےجو جماعت سے الگ ہوتا ہے،خبردار!خبردار!متفرق نہ ہونا؛بلکہ جماعت کے ساتھ رہنا۔
- اشاعتِ اسلام کے متعلق فرمایا، معاذ! اگر تم ایک مشرک کو بھی مسلمان کرلو، تو تمہارے لیے دنیا کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے۔
- غرض یہ پاکیزہ خیالات اور اعلیٰ تعلیمات جس بزرگ کے رگ وپے میں سرایت کر گئی تھیں وہ جماعت انصار کا وہ "نوجوان" تھا جس کو حضرت ابن مسعودؓ فرد نہیں ؛بلکہ ایک امت کہا کرتے تھے۔[45]
اہل یمن نے امیر اور معلّم مانگا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل کو بلایا اور کہا تم یمن چلے جاؤ تمہاری وہاں ضرورت ہے، گورنر مقرر فرمایا اور کہاشاید تم مجھ سے نہ مل سکوگے، پھر جب روانہ ہونے لگے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیدل چل رہے تھے اور معاذ بن جبل سواری پر تھے، جب معاذ نے عرض کیا کہ اگر مجھے فیصلہ کرنے کے لیے قرآن وسنت میں کوئی چیز نہ ملے تو اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جواب سے اتنی خوشی ہوئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرستادہ کو اس چیز کی توفیق دی جس سے اللہ کا رسول راضی ہے۔ جب معاذ یمن سے واپس آئے تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرماچکے تھے۔ معاذ بن جبل بن عمرو بن اوس بن عائذ الانصاری ہیں، جو اٹھارہ سال کی عمر میں مسلمان ہوئے بیعت عقبہ میں شریک ہونے والے ستر جلیل القدر صحابہ میں سے ایک یہ بھی تھے۔ عمروبن حموح بن جموح کو بت پرستی اور بتوں سے متنفر کرنے والوں میں ان کا بھی کردار تھا۔ آپ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ زبانِ نبوت سے آپ کو یہ سند عطا ہو ”اعلم امتی بالحلال والحرام معاذ بن جبل“ کہ میرای امت میں سب سے زیادہ حلال وحرام سے واقف معاذ بن جبل ہیں۔
مسروق بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن مسعود کی موجودگی میں آیت پاک ”اِنَّ اِبْرَاہِیْمَ کانَ اُمَّةً قَانِتًا للّٰہِ“ پڑھی گئی تو انھوں نے فرمایا کہ معاذ بھی ایک امت تھے، اللہ کے فرماں بردار تھے، ان کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا، جانتے ہو ”امت“ وہ شخص ہے جو لوگوں کو خیر کی باتیں سکھاتا ہے۔[46] ابومسلم خولانی کا بیان ہے کہ ایک روز میں دمشق کی جامع مسجد میں آیا تو وہاں عمر رسیدہ صحابہ کرام تشریف فرماتھے اور ان میں ایک نوجوان سُرمیلی آنکھوں والا اور چمکیلے دانتوں والا تھا، جب یہ حضرات کسی بات میں اختلاف کرتے تو یہ لوگ اس نوجوان کی طرف رجوع کرتے۔
میں نے پوچھا یہ جوان کون ہے؟ بتایا گیا کہ یہ معاذ بن جبل (ان کی کنیت ابوعبدالرحمن، لقب امام الفقہاء ہے) ہیں، پھر ان سے بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خوش نصیب افراد میں شامل فرمایا اور وہ کتابت قرآن کے شرف سے مشرف ہوئے، یہ ان پر اعتماد کامل اور علم کی پختگی کی ایک دلیل تھی، اسی طرح فتح مکہ کے بعد جب لوگ گروہ در گروہ دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے تھے، تو ان میں مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر انتخاب انہی پر پڑی اور انہیں کو اس کام کے لیے متعین فرمایا۔
معاذ بن جبل کے متعلق نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی منقول ہے ”معاذ امام العلماء یوم القیامة برتبة“ معاذ کو قیامت کے دن علما کی پیشوائی حاصل ہوگی اور ایک بڑا درجہ ان کو ملے گا۔[47]
مزید دیکھیے ترميم
حوالہ جات ترميم
- ↑ عنوان : Муаз ибн Джабаль
- ↑ عنوان : Муаз ибн Джабаль
- ↑ رواہ احمد بن حنبل
- ↑ مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح مفتی احمد یار خان نعیمی جلد1صفحہ39نعیمی کتب خانہ گجرات
- ↑ کتاب الانساب ص 23
- ↑ (کتاب الانساب ورق۲۳)
- ↑ (بخاری:۱/۲۴،باب من ترک بعض الاختیار مخافۃ ان یقصرفہم بعض الناس)
- ↑ (مسند احمد:۵/۲۳۸)
- ↑ (مسند احمد:۵/۲۲۸)
- ↑ (مسند احمد:۵/۲۳۱)
- ↑ (مسند:۵/۲۳۸)
- ↑ (مسند:۵/۲۴۱)
- ↑ (مسند:۵/۲۲۸)
- ↑ (بخاری)
- ↑ (مسند:۵/۲۴۳)
- ↑ (مسند:۵/۲۳۸)
- ↑ (مسند:۵/۲۳۸)
- ↑ (بخاری:۱/۹۸)
- ↑ (مسند:۵/۴۳۵)
- ↑ (مسند:۵/۲۳۱)
- ↑ (مسند:۵/۲۳۹)
- ↑ (بخاری:۲/۶۳۳)
- ↑ (طبری:۴/۱۷۱۸)
- ↑ (مسند:۵/۲۳۰)
- ↑ (استیعاب ابن عبدالبر)
- ↑ (کنز العمال:۱۳۴،بحوالہ ابن سعد ،جلد۳)
- ↑ (مستند:۵/۲۳۳)
- ↑ (مسند:۵/۲۴۰)
- ↑ (مسند:۵/۲۳۷)
- ↑ (مسند:۵/۲۳۷)
- ↑ (مسند:۵/۲۴۵)
- ↑ (مسند:۲۴۴)
- ↑ (طبقات ابن سعد، صفحہ۹۹،قسم اول، مغازی)
- ↑ (مسند:۵/۲۴۶،۲۳۳)
- ↑ (مسند:۵/۲۴۶)
- ↑ (ایضاً :۵/۱۱۵)
- ↑ (کنزالعمال:۷/۸۶،بحوالہ صحیح بخاری ومسلم)
- ↑ (مسند:۵/۲۳۲)
- ↑ (مسند:۵/۲۴۵،وادب المفرد:۱۳۶)
- ↑ (مسند:۵/۲۴۵)
- ↑ (مسند:۵/۲۴۲)
- ↑ (مسند:۲۴۳)
- ↑ (مسند:۵/۲۴۳)
- ↑ مسند احمد:5/228
- ↑ مسند احمد:5/231
- ↑ فتح الباری جلد8، صفحہ 494
- ↑ ماہنامہ دار العلوم، شمارہ 5، جلد: 94، جمادی الاول – جمادی الثانی 1431ہجری مطابق مئی 2010 ء