ابو عبیدہ بن جراح

صحابی رسول

ابوعبیدہ ابن الجراح جنہیں دربار رسالت سے امین الامت کا خطاب ملا قبیلہ فہر سے متعلق تھے۔ جو قریش کی ایک شاخ تھی۔ اصل نام عامر بن عبد اللہ تھا۔ ہجرت مدینہ کے وقت عمر 40 سال تھی۔ بالکل ابتدائی زمانے میں مشرف باسلام ہوئے۔ دیگر مسلمانوں کی طرح ابتدا میں قریش کے مظالم کا شکار ہوئے۔ حضور سے اجازت لے کر حبشہ ہجرت کر گئے لیکن مکی دور ہی میں واپس لوٹ آئے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے چند روز قبل اذن نبی سے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور حضور کی آمد تک قبا میں قیام کیا۔ مواخات مدینہ میں معزز انصاری صحابی ابوطلحہ کے بھائی بنائے گئے۔ بے مثال خدمات اسلام کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جن صحابہ کو دنیا میں جنت کی بشارت دی ان سے ایک ہیں۔

ابوعبیدہ ابن جراح

(عربی: أبو عبيدة بن الجراح)

عامر بن عبد الله بن الجراح بن ہلال بن اہيب بن ضبہ بن الحارث بن فہر بن مالك بن النضر بن كنانہ بن خزيمہ بن مدركہ بن الياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان القرشی الفہری المكی۔
تخطيط اسم أبو عبيدة بن الجراح.png

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 583  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 639 (55–56 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات طاعون[2]  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن غور الأردن
شہریت Black flag.svg خلافت راشدہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لقب امین الامت
رشتے دار والد عبد الله بن الجراح بن ہلال:
والدہ: اميمہ بنت عثمان بن جابر
عملی زندگی
نسب الفہری القرشی
فرمان نبوی إن لكل أمة أمينا وأمين هذه الأمة أبو عبيدة بن الجراح
اہم واقعات فتح الشام کے چار رہنماؤں میں سے ایک
خصوصیت غزوہ احد، عشرہ مبشرہ، امین امت
پیشہ عينہ عمر قائدا عاما على جيوش شام
مادری زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوۂ بدر،  جنگ یرموک  ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مقبرہ - ابوعبیدہ ابن الجراح

نام،نسب،خاندانترميم

عامر نام،ابوعبیدہ کنیت،امین الامۃ لقب،گووالد کا نام عبد اللہ تھا لیکن دادا کی طرف منسوب ہوکر ابن الجراح کے نام سے مشہور ہوئے ،سلسلہ نسب یہ ہے عامر بن عبد اللہ بن الجراح ابن ہلال بن اُہیب بن ضبہ بن الحارث بن الفہر القرشی الفہری ،حضرت ابوعبیدہ ؓ کا سلسلہ نسب پانچویوں پشت میں فہر پرحضرت سرورِکائنات ﷺ سے مل جاتا ہے۔ ماں بھی اسی فہری خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اوراصحاب سیر کی تحقیق کے مطابق مسلمان ہوئیں۔

اسلامترميم

حضرت ابو عبیدہ ؓ حضرت ابوبکرصدیق ؓ کی تبلیغ ودعوت پر حلقہ بگوش اسلام ہوئے،اس وقت تک رسول اللہ ﷺ ارقم کے مکان میں پناہ گزین نہیں ہوئے تھے۔[3]

غزواتترميم

مشرکین قریش نے مدینہ پہنچنے کے بعد بھی مسلمانوں کو چین سے بیٹھنےنہ دیا،اور مبازرت طلبی کرکےمیدانِ جنگ کی دعوت دی، چنانچہ غزوۂ بدر اس سلسلہ کی پہلی کڑی تھی،حضرت ابوعبیدہ ؓ شجاعت جانبازی کے ساتھ اس جنگ میں سرگرم پیکار ہوئے،ان کے والد عبد اللہ بھی اس وقت تک زندہ تھے اورکفار کی طرف سے لڑنے آئے تھے،انہوں نے تاک تاک کر خود اپنےلخت جگر کونشانہ بنانا چاہا،حضرت ابو عبیدہ ؓ تھوڑی دیر تک طرح دیتے رہے، لیکن جب دیکھا کہ وہ باز نہیں آتے تو بالآخر جوشِ توحید نسبی تعلق پر غالب آگیا،اورایک ہی ہاتھ میں ان کا کام تمام کر دیا، درحقیقت یہ والہانہ جوش اورمذہبی دارفتگی کی نہایت سچی مثال تھی جس میں ماں،باپ،بھائی، بہن ،غرض تمام رشتہ دار بالکل ایک اجنبی دشمن کی طرح نظر آتے ہیں، چنانچہ قرآن پاک نے اس انقطاع الی اللہ کی ان الفاظ میں داددی۔ "لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَادُّوْنَ مَنْ حَادَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ کَانُوْٓا اٰبَاءَہُمْ اَوْ اَبْنَاءَہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِیْرَتَہُمْoاُولٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَہُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ"[4] تم نہ پاؤ گے اس قوم کو جو خدا اور قیامت کے دن پر ایمان لائی کہ وہ خدا اوراس کے رسول کے مخالفین سے محبت رکھتے ہوں گے گووہ ان کے باپ،بیٹے ،بھائی یا ان کے کنبہ کے ہی کیوں نہ ہوں یہی وہ مسلمان ہیں جن کے دلوں کے اندر خدا نےایمان نقش کر دیا ہے اوراپنے فیضان غیبی سے ان کی مدد کی ہے۔ غزوۂ احد میں آنحضرت ﷺ کا چہرہ مبارک زخمی ہو گیا اورزرہ کی دوکڑیاں چبھ گئیں تھیں جس سے سخت تکلیف ہوئی تھی،حضرت ابوعبیدہ ؓ نے دانت سے پکڑ کر کھینچا اگرچہ ان کڑیوں نے نکلتے نکلتے ان کے دو دانت شہید کر دیے ،لیکن رسول اللہ ﷺ کی خدمت گزاری میں دو دانت کیا جان بھی نثارہوجاتی توپرواہ نہ تھی۔[5] غزوۂ خندق،اوربنوقریظہ کی سرکوبی میں بھی سرگرم پیکار تھے،پھر 6 ھ میں جب قبیلہ ثعلبہ اورانمار نے قحط زدہ ہوکر اطراف مدینہ میں غارت گری شروع کی تو بارگاہ رسالت سے ان کی سرکوبی پر مامور ہوئے،چنانچہ انہوں نے ربیع الثانی کے مہینے میں چالیس آدمیوں کے ساتھ ڈاکوؤں کے مرکزی مقام ذی القصہ پر چھاپہ مار کر ان کو پہاڑوں میں منتشر کر دیا اورایک شخص کو گرفتار کرکے لے آئے جس نے مدینہ پہنچ کر بطیب خاطر اسلام قبول کر لیا۔[6]

اسی سال بیعت رضوان میں شریک ہوئے،بلکہ مقامِ حدیبیہ میں قریش مکہ سے جو عہد نامہ طے پایا اس پر ان کی شہادت بھی تھی،[7] پھر 7ھ میں خیبر کی فتح کشی میں رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب ہوئے اور اس کی فتح میں شجاعت و بہادری کے ساتھ حصہ لیا ان مہمات سے فارغ ہوکر سرورِ کائنات ﷺ نے حضرت عمروبن العاص ؓ کو ایک جمعیت کے ساتھ ذات السلاسل کی طرف روانہ فرمایا،وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے، اس لیے انہوں نے دربارِرسالت سے کمک طلب کی آنحضرت ﷺ نے حضرت ابو عبیدہ ؓ کی زیر امارت دوسو جنگی بہادر روانہ فرمائے اس امدادی فوج کی ہمت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ اس میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ اورحضرت عمر فاروق جیسے جلیل القدرصحابہ شامل تھے،غرض جب یہ فوج حضرت عمروبن العاص ؓ کی فوج سے مل گئی تو قدرۃامامت و سپہ سالاری عام کی بحث پیدا ہوئی ،ظاہر ہے کہ حضرت ابوعبیدہ ؓ کی جلاتِ شان و علو مرتبت کے مقابلہ میں حضرت عمروبن العاص ؓ کو اس اشرف گرامی کااستحقاق نہ تھا؛ تاہم ان کے ضد اوراصرار سے حضرت ابو عبیدہ نے اطاعت کا طوق خود اپنے گلے میں ڈال لیا اورنہایت کامیابی کے ساتھ حملہ کرکے غنیم کو زیر وزبر کر دیا۔[8]

رجب 8ھ میں ایک دوسری مہم خود حضرت ابو عبیدہ ؓ کی زیر قیادت ساحلی علاقہ کی طرف روانہ کی گئی؛ تاکہ قریشی قافلوں کی نقل وحرکت کا پتہ چلائیں، اورسامانِ رسد میں صرف کھجوریں ساتھ کردی گئیں،یہاں تک کہ جب یہ سرمایہ ختم ہونے لگا تو چند دنوں تک صرف ایک ایک کھجور پر قناعت کرنا پڑی، لیکن خدائے پاک نے بہت جلد یہ مصیبت دورکردی اورسمندر کے کنارے ایک ایس عظیم الشان مچھلی مل گئی کہ مجاہدین نے عرصہ تک اس پر گذراوقات کی اورکامیابی کے ساتھ مدینہ واپس آئے۔[9] اسی سال مکہ فتح ہوا پھر حنین اورطائف کی جنگیں پیش آئیں،حضرت ابو عبیدہ ؓ ان تمام معرکوں میں جانبازی کے ساتھ پیش پیش رہے۔

متفرق خدماتترميم

جنگی مہمات کے علاوہ حضرت ابو عبیدہ ؓ کو بعض دوسری اہم خدمتیں بھی سپرد ہوئیں،مثلا 9ھ میں اہل نجران نے بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوکر ایک معلم دین کی درخواست کی جو مذہبی تعلیم و تلقین کے سواان کے جھگڑوں کو بھی فیصل کرے،آنحضرت ﷺ نے فرمایا"ابو عبیدہ اُٹھ" جب وہ کھڑے ہوئے تو اہل نجران سے مخاطب ہوکر فرمایا یہ امت کا امین ہے اس کو تمہارے ساتھ کرتا ہوں۔[10] آنحضرت ﷺ نے اہل بحرین سے مصالحت کرلی تھی، اورعلاء بن الحضرمی کو بحرین کا امیر مقرر کیا تھا، حضرت ابو عبیدہ ؓ ایک دفعہ وہاں سے جزیہ کی رقم لانے پر مامور ہوئے جب لے کر مدینہ پہنچے تو اس روز نماز صبح میں انصار ؓ کا غیر معمولی مجمع ہوا آنحضرت ﷺ نے تبسم ہوکر فرمایا شاید تم لوگوں کو ابو عبیدہ کے آنے کی اطلاع ہو گئی ہے، لوگوں نے عرض کیا ‘ہاں یارسول اللہ’ سرورعالم ﷺ نے فرمایا بشارت ہوکہ آج تمہیں خوش کردوں گا؛لیکن خدا کی قسم میں تمہارے فقروافلاس سے نہیں ڈرتا؛ بلکہ مجھے ڈر ہے کہ پہلی قوموں کی طرح تمہارے اوپر بھی دنیا کشادہ ہوجائے گی اورجس طرح ان کو منافست باہمی اورحسد وطمع سے ہلاک کر دیا ہے،تمہیں بھی ہلاک کرے گی۔[11] 10ھ میں رسول اللہ ﷺ حجۃ الوادع کے لیے تشریف لے گئے، حضرت ابوعبیدہ ؓ ہمرکاب تھے، اس سفر سے واپس آنے کے بعد آنحضرت ﷺ نے وفات پائی اورسقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت کا جھگڑا پیدا ہو گیا، لیکن صلحائے امت کی کوشش سے بہت جلد فروہوگیا،اس آتش خرمن سوز کے بجھانے میں امین امت کی کوشش بھی کسی سے کم نہ تھیں،چنانچہ انہوں نے انصار ؓ کو مخاطب کرکے فرمایا۔ یا معشر الانصار انکم کنتم اول من نصرفلاتکونوااول من غیر۔[12] اے گروہِ انصار تم نے سب سے پہلے امدادو امانت کاہاتھ بڑھایا تھا،اس لیے تم ہی سب سے پہلے افتراق واختلاف کے بانی نہ ہوجاؤ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے خود ان کے نام کو پیش کرکے فرمایا،دیکھو یہ عمربن الخطاب موجود ہیں،جن کی نسبت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہےکہ ان کی ذات سے خدا نے دین کو معزز کیا ہے، یہ دیکھو ابو عبیدہ بن الجراح ؓ موجود ہیں جن کو امین الامت کا خطاب عطا کیا گیا ہے ان دونوں میں سے جس کے ہاتھ پر چاہو بیعت کرلو، لیکن ان دونوں بزرگوں نے بالاتفاق صدیق اکبر ؓ کی موجودگی میں اپنے استحقاق سے انکار کیا، اوربڑھ کر سب سے پہلے بیعت کرلی[13] اس کے بعد تمام مہاجرین وانصار بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے اور فتنہ کا ابرِ تاریک افق اسلام سے چھٹ گیا۔

شام کی سپہ سالاریترميم

حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے مسند نشینی کے بعد 13ھ میں ملک شام پر کئی طرف سے لشکرکشی کا اہتمام کیا،حضرت ابو عبیدہ ؓ کو حمص پر یزید بن ابی سفیان کو دمشق پر شرجیل کو ارون پر عمروبن العاص ؓ کو فلسطین پر مامور کیا،اورہدایت کی کہ جب سب ایک جگہ مجتمع ہوجائیں تو ابو عبیدہ ؓ سپہ سالار عام ہوں گے۔ حضرت ابوعبیدہ ؓ جب عرب کی سرحد سے باہر نکلے تو کثیر التعداد رومی فوجوں کا سامنا ہوا یہ دیکھ کر انہوں نے تمام اسلامی فوجوں کو یکجا کر لیا اور دربارِ خلافت سے مزید کمک طلب کی،چنانچہ حضرت خالید بن ولید ؓ جو عراق کی مہم پر مامور تھے،دربارِ خلافت کے حکم سے راہ میں چھوٹی چھوٹی لڑائیاں لڑتے ہوئے شامی فوج سے آکر مل گئے اور متحد فوج نے بصریٰ، فحل اوراجنادین کو فتح کرکے دمشق کا محاصرہ کر لیا۔

فتح دمشقترميم

دمشق کا محاصرہ جاری تھا کہ خلیفہ اول نے داعی اجل کو لبیک کہااور فاروق اعظم ؓ کی ابتدائی حکومت میں خالد بن ولید ؓ بیدار مغزی اورحسنِ تدبیر کے ساتھ فصیل پھاند گئے اور شہر میں داخل ہوکر دروازے کھول دیے،حضرت ابو عبیدہ ؓ اپنی فوج کے ساتھ تیار کھڑے تھے،فوراً اندر گھس گئے،عیسائیوں نے یہ رنگ دیکھا تو مصلحت اندیشی کے ساتھ اسلامی سپہ سلار اعظم سے مصالحت کرلی،حضرت خالد ؓ کو خبرنہ تھی،وہ شہر کے دوسرے حصہ میں سرگرم پیکار تھے،عیسائی آکر ملتجی ہوئے کہ ہم کو خالد ؓ سے بچایے، وسط بازار میں دونوں آدمیوں کا سامنا ہوا،حضرت ابوعبیدہ ؓ نے صلح کرلی،مفتوحہ حصہ کو بھی صلح میں رکھا، اوراس پر صلح کے شرائط جاری کیے۔

معرکہ فحلترميم

دمشق فتح کرکے اسلامی فوجیں آگے بڑھیں اورمقام فحل میں خیمہ افگن ہوئیں،رومیوں کا پڑاؤ فحل کے سامنے مقام ہسیان میں تھا، انہوں نے حضرت ابوعبیدہ ؓ کے پاس مصالحت کا پیام بھیجا اورگفت وشنید کے لیے ایک سفیر بلایا، چنانچہ حضرت معاذ بن جبل ؓ اس عہدہ پر مامور ہوئے،لیکن یہ سفارت بے نتیجہ رہی اور رومیوں نے براہِ راست حضرت ابو عبیدہ ؓ سے گفتگو کرنے کے لیے قاصد بھیجا، جس وقت وہ پہنچاتو یہ دیکھ کر متحیررہ گیا کہ یہاں پر ایک ادنی واعلی ایک ہی رنگ میں ڈوبا ہوا ہے اور افسری اورماتحتی کی کوئی تمیز نظر نہیں آتی آخر اس نے گھبراکر پوچھا کہ تمہارا سردار کون ہے؟ لوگوں نے حضرت ابوعبیدہ ؓ کی طرف اشارہ کیا،اس وقت وہ زمین پر بیٹھے ہوئے تھے، اس نے متعجب ہوکر کہا کیا درحقیقت تم ہی سردار ہو؟ فرمایا ہاں"قاصد نے کہا"تمہاری فوج کو دواشرفیاں فی کس دیں گے،تم یہاں سے چلے جاؤ، حضرت ابوعبیدہ ؓ نےا نکار فرمایا، اورقاصد کے تیور دیکھ کر فوج کو تیاری کا حکم دے دیا، غرض دوسرے دن جنگ شروع ہوئی،حضرت ابو عبیدہ ؓ ایک ایک صف میں جاکر کہتے تھے۔ عباداللہ استوجبوا من اللہ النصر بالصبرفان اللہ مع الصابرین خدا کے بندو! صبر کے ساتھ خدا سے مدد چاہو کیونکہ خدا صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے۔ حضرت ابو عبیدہ ؓ خود فوج میں تھے اور دانشمندی کے ساتھ سب کو لڑا رہے تھے،یہاں تک کہ مسلمانوں کی قلیل تعداد نے رومیوں کی پچاس ہزار باقاعدہ فوج کو شکست دے دی، اورضلع اردن کے تمام مقامات فرزندانِ توحید کے زیر نگین ہو گئے۔

فتح حمصترميم

یہاں سے چھوٹے چھوٹے مقات فتح کرتے ہوئے حمص کی طرف بڑھے اور محاصرہ کا سامان پھیلادیا،اہل حمص کچھ عرصہ تک کمک کی امید پر مدافعت کرتے رہے ،لیکن جب ہرطرف سے مایوسی ہوئی تو انہوں نے خود بخود شہر حوالہ کر دیا،[14]حضرت ابوعبیدہ ؓ نے یہاں عبادہ بن صامت ؓ کو چھوڑکر لاذقیہ کا رخ کیا اورراہ میں شیرز،حماۃ،معرۃالنعمان اوردوسرے مقامات میں اسلامی جھنڈا گاڑتے ہوئے منزل مقصود پر دم لیا۔ لاذقیہ نہایت مستحکم مقام تھا، حضرت ابوعبیدہ ؓ نے اس کو فتح کرنے کی ایک نئی تدبیر اختیار کی،یعنی میدان میں بہت سے پوشیدہ غار کھدوائے،اورمحاصرہ اٹھا کر حمص کی طرف روانہ ہو گئے شہروالوں نے جو مدت کی قلعہ بندی سے تنگ آگئے اس کوتائیدغیبی خیال کیا، اوراطمینان کے ساتھ شہر پناہ کا دروازہ کھول کر کاروبار میں مصروف ہو گئے،لیکن حضرت ابوعبیدہ ؓ اس رات کو اپنے سپاہیوں کے ساتھ پلٹ کر غاروں میں چھپ رہے تھے،صبح کے وقت نکل کر دفعۃ شہر میں گھس گئے اورآسانی کے ساتھ اسلام کا علم بلند کر دیا۔[15]

یرموک کی فیصلہ کن جنگترميم

رومیوں کی متواتر ہزیمتوں نے ان کے آتشِ غیظ وغضب کو بھڑکادیا اورہر قل شہنشاہ روم کی دعوت پر تمام اطرافِ ملک سے ٹڈی دل فوج مجتمع ہو گئی، حضرت ابوعبیدہ ؓ کوخود شامی امرا اوررؤساء نے جو باوجود مذہبی اختلاف کے ان کے اخلاق کے گرویدہ ہوگئےتھے ،تمام واقعات کی اطلاع دی انہوں نے اچھی طرح سے غنیم کی تیاریوں کی تحقیقات کرکے اپنے ماتحت افسروں کو جمع کیا،اورایک پرجوش تقریر کے بعد اس مہیب سیلاب کے روکنے کے متعلق مشورہ طلب کیا، یزید بن ابی سفیان ؓ نے کہا میرے رائے یہ ہے کہ عورتوں اوربچوں کو شہر میں چھوڑ کر ہم لوگ مقابلہ کے لیے نکلیں اس کے ساتھ خالد ؓ اورعمروبن العاص ؓ کو لکھا جائے کہ دمشق اورفلسطین سے چل کر مدد کوآئیں، شرجیل بن حسنہ نے کہا یزید کی رائے یقینا مخلصانہ ہے،لیکن ہم کو اپنا ننگ وناموس شہر کے عیسائی باشندوں کے رحم پر نہ چھوڑنا چاہیے،حضرت ابو عبیدہ ؓ نے فرمایا،توپھر سردست اس کی تدبیر یہ ہے کہ ہم عیسائیوں کو شہر بدر کر دیں، شرجیل نے اُٹھ کر کہا اے امیریہ صریحاً نقصِ عہد ہوگا تجھ کو ہرگز اس کا حق نہیں ہے،حضرت ابو عبیدہ ؓ نے فوراً اپنی غلطی تسلیم کرلی، اوربالآخر بحث و مباحثہ کے بعد یہ رائے قرار پائی کہ مفتوحہ ممالک چھوڑ کر تمام فوجیں دمشق میں جمع ہوں،غرض اس قرارداد کے بعد حضرت ابو عبیدہ ؓ نے عیسائیوں سے جو کچھ جزیہ یا خراج لیا تھا واپس کر دیا اورفرمایا کہ یہ تمہاری حفاظت کا معاوضہ تھا،لیکن جب ہم پر سردست، اس سے عاجز ہیں تو پھر ہم کو اس سے مستفید ہونے کاکوئی استحقاق نہیں ہے،چنانچہ کئی لاکھ رقم جو وصول ہوئی تھی سب واپس کردی گئی،عیسائیوں پر اس قدر حق پسندی وانصاف کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ روتے تھے اورجوش کے ساتھ کہتے جاتے تھے کہ "خدا تم کو پھر واپس لائے۔[16]

دمشق میں جب اسلامی فوجیں مجتمع ہوگئیں تو حضرت ابو عبیدہ ؓ نے آگے بڑھ کر یرموک کے میدان میں (جو جنگی ضروریات کے لحاظ سے نہایت مناسب موقع تھا) مورچہ جمایا ،اسی اثناء میں اُردن سے حضرت عمروبن العاص ؓ کا خط پہنچا کہ آپ کی معاونت نے اس علاقہ پر بہت بُرا اثرڈالا ہے اور ہر طرف بغاوت وشورش پھیل گئی ہے، حضرت ابو عبیدہ ؓ نے جواب میں لکھا کہ ہم کو مصلحۃ پیچھے ہٹنا پڑا تاکہ تمام منتشر قوت مجتمع ہوجائے،بہرحال تم اپنی جگہ جمے رہو،میں عنقریب آکر تم سے ملتا ہوں۔ مسلمانوں کے پیچھے ہٹ آنے سے رومیوں کی ہمت بڑھ گئی اورایک عظیم الشان جمعیت کے ساتھ یرموک پہنچ کر مسلمانوں کے مقابلہ میں خیمہ زن ہوئے؛ تاہم جو عربی تلوار کا مزہ چکھ چکے تھے وہ دل سے صلح کے متمنی تھے،سپہ سالار اعظم باہان کی بھی یہی خواہش تھی،غرض جارج نامی ایک رومی قاصد اسلامی لشکر گاہ میں پہنچا کہ کسی مسلمان سفیر کو ساتھ لے جائے، اس وقت شام ہوچکی تھی ،ذرادیر کے بعد مغرب کی نماز شروع ہوئی،مسلمانوں کے مؤثر طریقہ عبادت خشوع وخضوع اورمحویت واستغراق نے اس پر عجیب وغریب کیفیت طاری کی،وہ استعجاب کے ساتھ دیکھتا رہا،یہاں تک کہ جب نماز ہوچکی تو اس نے حضرت ابوعبیدہ ؓ سے چند سوالات کیے جن میں ایک یہ بھی تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق کیا اعتقاد رکھتے ہو؟ حضرت ابو عبیدہ ؓ نے قرآن کی یہ آیتیں پڑھیں۔ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَی اللہِ اِلَّا الْحَقَّo اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللہِ وَکَلِمَتُہٗo اَلْقٰہَآ اِلٰی مَرْیَمَ[17] اے اہل کتاب اپنے دین میں زیادہ غلو نہ کرو اورخدا کی طرف حق کے سوا غلط باتیں نہ منسوب کرو حقیقت میں مسیح بن مریم خدا کے رسول اوراس کا کلمہ ہیں جس کو اس نے ان کی طرف ڈال دیا تھا۔ لَنْ یَّسْتَنْکِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّکُوْنَ عَبْدًا لِّلہِ وَلَا الْمَلٰئِکَۃُ الْمُقَرَّبُوْنَ[18] مسیح بن مریم اورملائکہ مقربین کو خدا کی بندگی میں عار نہیں ہے۔

جارج نے ان آیتوں کا ترجمہ سنا تو بے اختیار پکار اُٹھا،بے شک عیسیٰ علیہ السلام کے یہی اوصاف ہیں اوردرحقیقت تمہار اپیغمبر سچاہے، یہ کہہ کر بطیب خاطر مسلمان ہو گیا، وہ اپنی قوم میں واپس جانا نہیں چاہتا تھا،لیکن حضرت ابو عبیدہ ؓ نے اس خیال سے کہ رومیوں کو بد عہدی کا گمان نہ ہو واپس جانے پر مجبور کیا، اورفرمایا کہ کل جو سفیر یہاں سے جائے گا اس کے ساتھ چلے آنا۔[19] غرض دوسرے روز حضرت خالد ؓ سفیر بنا کر بھیجے گئے؛ لیکن اس سفارت کا بھی اس کے سوا کوئی نتیجہ نہ نکلا کہ دونوں فریق اور بھی زیادہ جوش وخروش کے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہو گئے ؛کیونکہ مسلمانوں کی صرف دو شرطیں تھیں جو ہر موقع پر پیش کی جاتی تھیں اوراس میں تغیر و تبدل قطعاًناممکن تھا یعنی "اسلام""یا جزیہ" دوسری طرف رومی جو اپنی شہنشاہی کے نشہ میں سرشار تھے ایسے شرائط کا سننا بھی گوارا نہیں کرتے تھے، بہرحال جنگ شروع ہوئی اور گو مسلمان تعداد میں صرف تیس بتیس ہزار تھے تاہم افسران فوج کی دانش مندی، فنِ سپہ گری کی واقفیت اورخود سپاہیوں کے غیر معمولی جوش نے غنیم کے پاؤں اکھاڑ دیے، اس جنگ کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ تقریباً ستر ہزار رومی کھیت رہے، مسلمان بھی کم و بیش تین ہزار شہید ہوئے، جن میں ضرار بن ازور ؓ، ہشام بن العاص ابان ؓ، سعید ؓ وغیرہ جیسے جنگ آزما افسر بھی تھے۔ فتح یرموک کے بعد تمام ملک شام مسلمانوں کے خیر مقدم کے لیے تیار تھا،حضرت ابوعبیدہ ؓ نے حمص پہنچ کر حضرت خالد ؓ سیف اللہ کو قنسرین روانہ کیا اورخود حلب کی طرف بڑھے، یہ دونوں مقامات آسانی کے ساتھ مفتوح ہو گئے، چند دنوں کے بعد اہل انطاکیہ نے بھی سپرڈال دی، غرض بیدالمقدس کے سوا تمام شام پر آسانی کے ساتھ قبضہ ہو گیا۔

بیت المقدسترميم

ہم پہلے لکھے آئے ہیں کہ فلسطین کی مہم حضرت عمروبن العاص ؓ کے سپرد تھی،چنانچہ وہ بڑے بڑے شہر فتح کرکے عرصہ سے بیت المقدس کا محاصرہ کیے ہوئے تھے، حضرت ابوعبیدہؓ کو اپنی مہم سے فرصت ہوئی تو وہ بھی اس فوج سے آملے، عیسائیوں نے ایک عرصہ کی قلعہ بندی سے تنگ آکر صلح کی درخواست کی اور مزید اطمینان کے لیے یہ شرط لگائی کہ امیر المومنین خود یہاں آکر اپنے ہاتھ سے معاہدہ صلح لکھیں، حضرت ابو عبیدہ ؓ نے حضرت عمر ؓ کو خط لکھ کر اس شرط سے مطلع کیا اورملک شام تشریف لانے کی دعوت دی،حضرت عمرؓ مدینہ سے روانہ ہوکر مقام جابیہ پہنچے،حضرت ابو عبیدہ ؓ نے اپنے ماتحت افسروں کے ساتھ ان کا استقبال کیا،بیت المقدس کے نمایندے بھی یہیں پہنچے اورمعاہدہ صلح ترتیب پانے کے بعد اس مقدس شہر پر قبضہ ہو گیا۔[20]

رومیوں کی آخری کوششترميم

شام جیسے سرسبزوشاداب ملک کا ہاتھ سے نکل جانا رومیوں کے لیے سخت سوہان روح تھا، انہوں نے جزیرہ اورآرمینیہ والوں کی امداد سے ایک مرتبہ پھر قسمت آزمائی کی اورایک عظیم الشان جمعیت کے ساتھ حمص کی طرف بڑھے۔ حضرت ابو عبیدہ ؓ نے بھی ادھر ادھر سے فوجیں جمع کیں اوردربارخلافت کو تمام واقعات سے مطلع کیا،چنانچہ امیرالمومنین کے حکم سے عراق سے ایک بہت بڑی کمک پہنچ گئی اورحضرت ابوعبیدہ ؓ اس عظیم الشان قوت کے ساتھ رومی سیلاب کو روکنے کے لیے آگے بڑھے،میدان جنگ میں پہنچ کر باقاعدہ صف آرائی کی اورایک پرجوش مؤثر تقریر کے بعد فرمایا، مسلمانو آج جو ثابت قدم رہ گیا اوراگر زندہ بچا تو ملک ومال ہاتھ آئے گا اورمارا گیا تو شہادت کی دولت ملے گی، میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ"جو شخص مرے اورمشرک ہوکر نہ مرے وہ ضرور جنت میں جائے گا،اس زمانہ میں اسلام کا ہر ایک فرزند جوش ملی اورغیرت دینی کا مجسم پتلا تھا،اس تقریر نے اوربھی گرما دیا،غرض! مجاہدین نے اس زور سے حملہ کیا کہ رومیوں کے پاؤں اکھڑ گئے اورمرج الدیباج تک بھاگتے چلے گئے، اس طرح رومیوں کی آخری کوشش بھی ناکام رہی اورپھر انہیں کبھی پیش قدمی کا حوصلہ نہ ہوا۔

امارتترميم

حضرت خالد سیف اللہ ؓ دمشق کے امیر یاوالی مقرر ہوئے تھے،لیکن ؁ 17ھ میں حضرت عمرؓ نے ان کو معزول کر کے یہ عہدہ بھی حضرت ابوعبیدہ ؓ کو تفویض کیا، حضرت خالد ؓ دمشق سے روانہ ہونے لگے تو انہوں نے لوگوں سے کہا، تمہیں خوش ہونا چاہیے کہ امینِ امت تمہار والی ہے حضرت ابو عبیدہ ؓ نے اس کے جواب میں کہا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ خالد ؓ خدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے،غرض اسی لطف ومحبت کے ساتھ امارت یا ولایت کا چارج لینے کے بعد ملکی انتظامات میں مصرورف ہوئے۔ حضرت عمرؓ نے انتظامی حیثیت سے ملک شام میں جو مختلف اصلاحیں جاری کیں،ان میں سے اکثر حضرت ابوعبیدہ ؓ کے ہاتھ سے عمل میں آئیں،18ھ میں جب عرب میں قحط پڑا تو نہایت سرگرمی کے ساتھ شام سے چارہزار اونٹ غلے سے لدے ہوئے بھیجے[21] اشاعت اسلام کا بھی ان کو خاص خیال تھا،چنانچہ قبیلہ تنوخ،بنوسلیج اورعرب کے دوسرے بہت سے قبائل جو مدت سے شام میں آباد ہو گئے تھے اورعیسائی مذہب کے پیرو تھے،صرف ابوعبیدہ ؓ کی کوشش سے حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے،بعض شامی اوررومی عیسائی بھی ان کے اخلاق سے متاثر ہوکر اسلام لائے۔

طاعونِ عمواسترميم

18ھ میں تمام ممالک مفتوحہ میں نہایت شدت کے ساتھ طاعون کی وبا پھیلی خصوصاً شام میں اس نے بہت نقصان پہنچایا، یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ خود تدبیر انتظام کے لیے دار الخلافہ چھوڑکر مقام سرع پہنچے، حضرت ابو عبیدہ ؓ اوردوسرے سرداروں نے یہاں استقبال کیا،حضرت عمرؓ نے شدت کی کیفیت سن کر پہلے مہاجرین ؓ اورپھر انصار ؓ سے مشورہ طلب کیا، سب نے مختلف رائیں دیں، اس کے بعد مہاجرین فتح سے جو عموماً قریش کے بوڑھے تجربہ کار لوگ تھے مشورہ چاہا،انہوں نے ایک زبان ہوکر کہا سرِدست یہاں سے لوگوں کا منتقل ہوجانا مناسب ہوگا، چنانچہ حضرت عمر ؓ نے منادی کرادی کہ میں کل صبح واپس جاؤں گا،سب ساتھ چلیں،چونکہ حضرت ابوعبیدہ ؓ نہایت شدت کے ساتھ تقدیر کے قائل تھے، اس لیے ان کو یہ حکم ناگوار ہوا اورآزادی کے ساتھ کہا"افرارا من قدر اللہ" یعنی تقدیر الہیٰ سے بھاگتے ہو، حضرت عمرؓ عموماً حضرت ابوعبیدہ ؓ کی رائے سے اختلاف ظاہر کرنا ناپسند کرتے تھے،اس لیے انہوں نے کہا کاش! تمہارے سوا کوئی دوسرا یہ جملہ کہتا ،ہاں تقدیر الہی سے بھاگتا ہوں لیکن تقدیر الہیٰ کی طرف۔[22] غرض حضرت عمر ؓ مدینہ واپس آئے اورحضرت ابو عبیدہ ؓ کو خط لکھ کر بلایا کہ کچھ دنوں کے لیے یہاں چلے آؤ، تم سے کچھ کام ہے،حضرت ابو عبیدہ ؓ اس طلبی کا مقصد سمجھ گئے اورلکھا کہ جو مقدر ہے وہ ہوگا میں مسلمانوں کو چھوڑ کر اپنی جان بچانے کے لیے یہاں سے ٹل نہیں سکتا،حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ وہ کسی طرح ٹلنے کا نام نہیں لیتے تو پھر بتاکید لکھا کہ فوج کو لیکر کسی بلند اورصحت بخش مقام کی طرف چلے جاؤ، اس وقت جہاں پڑاؤ ہے وہ نہایت نشیبی اورمرطوب جگہ ہے،حضرت ابوعبیدہ ؓ نے اس حکم کی تعمیل کی اورحضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کے انتخاب پر جابیہ اُٹھ گئے۔[23]

وفاتترميم

جابیہ پہنچ کر حضرت ابوعبیدہ ؓ طاعون میں مبتلا ہوئے،جب مرض کی زیادہ شدت ہوئی، تو حضرت معاذ بن جبل ؓ کو جوان کے اسلامی بھائی تھے اپنا جانشین کیا اورلوگوں کو جمع کرکے ایک نہایت مؤثر تقریر کی،آخر میں فرمایا،صاحبو یہ مرض خدا کی رحمت اورتمہارے نبی کریم ﷺ کی دعوت ہے،پہلے بہت سے صلحائے روزگار اس میں جاں بحق ہو گئے ہیں اوراب عبیدہ ؓ بھی اپنے خدا سے اس سعادت میں حصہ پانے کا متمنی ہے۔[24] نماز کا وقت آیا تو حضرت ابو عبیدہ ؓ نے اپنے جانشین کو نماز پڑھانے کا حکم دیا، ادھر نماز ختم ہوئی اوراُدھر راضی برضائے الہی یعنی ابو عبیدبن الجراح ؓ امین الامت نے داعیِ حق کو لبیک کہا، حضرت معاذ بن جبل نے تجہیز و تکفین کا سامان کیا اورحاضرین کے سامنے ایک مؤثر پردرد تقریر کے بعد کہا"صاحبو! آج تم سے ایک شخص ایسااُٹھ گیا کہ خدا کی قسم میں نے اس سے زیادہ صاف دل، بے کینہ، سیر چشم، عاقبت اندیش، باحیا اورخیر خواہِ خلق کبھی نہیں دیکھا، پس خدا سے اس کے لیے رحم و مغفرت کی دعا کرو"۔[25]

18ھ اٹھاون برس کی عمر میں یہ تاریخ ساز شخصیت مالک حقیقی سے جا ملی ۔ ضرت ابو عبیدہ ؓ نے اٹھاون برس کی عمر پائی اور اس قلیل عرصہ میں اپنے حیرت انگیز کارناموں کا منظر دیکھا 18 ھ میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

اخلاق وعاداتترميم

حضرت ابو عبیدہ ؓ کے صحیفہ اخلاق میں خدا ترسی، اتباعِ سنت ،تقویٰ، زہد،تواضع،مساوات اور ترحم کے ابواب نہایت روشن ہیں۔ خوفِ خدا کا یہ حال تھا کہ محض معمولی واقعات ان کے لیے سرمایہ عبرت بن جاتے اوراکثر خدا کی ہیبت و جلال کو یاد کرکے جشم پرنم ہوجاتے تھے،ایک دفعہ ایک شخص ان کے گھر آیا دیکھا تو زار وقطار رو رہے ہیں اس نے متعجب ہوکر پوچھا، ابوعبیدہ ؓ خیر ہے؟ یہ رونا دھونا کیسا؟ کہنے لگے ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے آیندہ فتوحات اورتمول کا ذکر کرتے ہوئے شام کا تذکرہ فرمایا اور کہا، ابو عبیدہ! اگر اس وقت تک تمہاری عمروفاکرے تو تمہارے لیے صرف تین خادم کافی ہوں گے ایک خاص تمہاری ذات کے لیے ایک تمہارے اہل و عیال کے لیے اورایک سفر میں ساتھ جانے کے لیے اسی طرح سواری کے تین جانور کافی ہیں، ایک تمہارے لیے ایک غلام کے لیے ایک اسباب وسامان کے لیے،لیکن اب دیکھتا ہوں تو میرا گھر غلاموں سے اوراصطبل گھوڑوں سے بھرا ہوا ہےآہ! میں رسول اللہ ﷺ کو کیا منہ دکھاؤں گا؟ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا تھا کہ وہ شخص میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہوگا جو اسی حال میں ملے گا جس حال میں میں اسے چھوڑ جاؤں گا۔[26] ہادیٔ دین کی اطاعت محبت اورخدمت گزاری میں امین امت سے زیادہ کون پیش پیش رہتا؟ واقعہ بدر میں باپ کو قتل کیا،رسول برحق کی راحت رسانی کے لیے دو دانت شہید کیے، غزوۂ ذات السلاسل میں حضرت عمروبن العاص ؓ سے اختلاف ہوا تو صرف اس لیے طوقِ اطاعت گلے میں ڈال لیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اتفاق باہمی کی ہدایت کی تھی اور فرمایا کہ میں تمہاری اطاعت نہیں کرتا؛ بلکہ فرمانِ رسولﷺ پر گردن جھکا تا ہوں۔[27] امین اُمت کا آخری لمحہ حیات بھی اطاعتِ رسول میں گذرا، شام میں طاعون کی شدت ہوئی تو بڑے بڑے ثابت قدم بزرگوں کے پاؤں ڈگمگاگئے، لیکن انہوں نے صرف اس وجہ سے ٹلنے کا نام نہ لیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے بھاگنے کی ممانعت کی تھی،حضرت ابوعبیدہ ؓ زہد و بے نیازی کے بادشاہ تھے،ان کی نظر میں دنیا اوراس کی نعمتیں ایک حقیر ذرہ سے بھی زیادہ بے وقعت تھیں، شام کی آب وہوا نے بڑے بڑے صحابہ کے طرزِ معاشرت کو بدل دیا تھا، چنانچہ حضرت عمرؓ نے سفرِ شام کے موقع پر افسروں کو پر تکلف قبائیں، اورزرق برق پوشاک پہنے دیکھا تو اس قدر غصہ ہوئے کہ گھوڑے سے اتر پڑے اورسنگریزے اٹھا کر ان کی طرف پھینکنے لگے کہ اس قدر جلد تم نے عجمی عادتیں اختیار کر لیں،لیکن حضرت ابوعبیدہ ؓ جس حال میں ملے وہ وہی عرب کی سادگی تھی،بدن پرسادہ کپڑے اورسواری میں اونٹنی جس کی نکیل بھی معمولی رسی کی تھی،حضرت عمر ؓ ان کے قیام گاہ پر تشریف لائے تو وہاں اس سے بھی زیادہ سادگی تھی،یعنی ڈھال،تلوار اوراونٹ کے کجاوہ کے سوا کوئی سامانِ راحت نہ تھا، حضرت عمرؓ نے فرمایا،ابوعبیدہ ؓ کاش تم ضروری سامان تو فراہم کرلیتے،اس بے نیاز عالم نے جواب دیا"امیرالمومنین ہمارے لیے بس یہی ہے"۔[28] ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابو عبیدہ ؓ کے پاس چارسو دینار اورچار ہزار درہم بطور انعام بھیجے، انہوں نے تمام رقم فوج میں تقسیم کردی اوراپنے لیے ایک حبہ بھی نہ رکھا، حضرت عمرؓ نے سنا تو فرمایا الحمد للہ کہ اسلام میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں۔[29]

امین امت کی خاکساری اورتواضع کا اس سے اندازہ ہوگا کہ انہوں نے باوجود سپہ سالار اعظم ہونے کے جاہ و حشم سے کبھی سرورکار نہ رکھا،رومی سفراء جب کبھی اسلامی لشکر گاہ میں آئے تو انہیں ہمیشہ سردارِ فوج کی شناخت میں دقت پیش آئی،ایک دفعہ ایک رومی قاصد آیا، وہ یہ دیکھ کر متحیر ہو گیا کہ یہاں سب ایک ہی رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں،بالآخر اس نے گھبراکر پوچھا تھا سردار کون ہے؟ لوگوں نے حضرت ابو عبیدہ ؓ کی طرف اشارہ کیا،دیکھا تو ایک نہایت معمولی وضع قطع کا عرب فرشِ خاک پر بیٹھا ہے۔ مساواتِ اسلامی کا حددرجہ خیال تھا، ان کے لشکر گاہ میں ایک معمولی مسلمان سپاہی کو بھی وہی عزت حاصل تھی جوایک بڑے سے بڑے سردار کو ہوسکتی ہے،ایک دفعہ ایک مسلمان نے غنیم کے ایک سپاہی کو پناہ دی،حضرت خالد بن ولیدؓ اورعمروبن العاص ؓ نے اس کے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ؛لیکن سپہ سالارِ اعظم حضرت ابو عبیدہ ؓ نے فرمایا ہم اس کو پناہ دیتے ہیں؛ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ایک مسلمان سب کی طرف سے پناہ دے سکتا ہے۔[30] حضرت ابو عبیدہ ؓ کا خلق وترحم تمام خلق اللہ کے لیے عام تھا، شام میں ان کی شفقت اوررعایا پروری نے عیسائیوں کو بھی مرہونِ منت بنارکھا تھا،وہاں عیسائیوں کو نماز کے وقت ناقوس بجانے کی اورعام گذرگاہوں میں صلیب نکالنے کی سخت ممانعت تھی، لیکن انہوں نے عرضی پیش کی کہ کم سے کم سال میں ایک دفعہ عید کے روز صلیب نکالنے کی اجازت دی جائے، حضرت ابو عبیدہ ؓ نے خوشی کے ساتھ یہ درخواست منظور کرلی اس رواداری کا یہ اثر ہوا کہ شامی خود اپنے مذہب رومیوں کے دشمن ہو گئے اورخوشی کے ساتھ جاسوسی اورخبررسانی کے فرائض انجام دینے لگے۔ حضرت ابو عبیدہ ؓ کی خانگی زندگی کے حالات نامعلوم ہیں تاہم اس قدر یقینی ہے کہ جذبہ انقطاع الی اللہ نے بیوی بچوں سے غیر معمولی شغف پیدا ہونے نہ دیا۔

حلیہترميم

حلیہ یہ تھا، قدلمبا، جسم نحیف ولاغر،چہرہ کم گوشت،سامنے کے دودانت خدمت رسول اللہ ﷺ میں قربان ہو گئے تھے،ڈاڑھی گھنی نہ تھی،اوربعض روایات کے مطابق خضاب استعمال کرتے تھے۔

اولاد وازواجترميم

حضرت ابوعبیدہ ؓ کی صرف دو بیویوں سے اولاد ہوئی،ہندبنت جابر سے یزید اوردرجا سے عمیر پیدا ہوئے،لیکن دونوں لاولد فوت ہوئے۔

 
مزار - ابوعبیدہ ابن الجراح

حدیث میں ذکرترميم

ان 10 صحابہ کرام م اجمعین کا ذکر عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ: عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عثمان رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں، علی رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، طلحہ رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، زبیر رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عبدالرحمن رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، سعد رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں، سعید رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، ابوعبیدہ رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں۔[31]

حوالہ جاتترميم

  1. عنوان : Абу Убайда ибн аль-Джаррах
  2. عنوان : Исламский энциклопедический словарьISBN 978-5-98443-025-8
  3. (طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث : 1298)
  4. (مجادلہ:22)
  5. (طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث:298)
  6. (ابن سعد حصہ مغازی:62)
  7. (ابن سعد ایضاً
  8. (ابن سعد صفحہ 95)
  9. (بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ سیف الجرا)
  10. (بخاری قصہ اہل نجران)
  11. (بخاری کتاب الرفاق باب یایخدر من زہرۃ الدنیا)
  12. (بخاری کتاب الرفاق باب مایخدرمن زہرۃ الدنیا)
  13. (بخاری کتاب الرفاقا)
  14. (ابن اثیر جلد 2 صفحہ 381 وفتوح البلدان صفحہ 137)
  15. (فتوح البلدان بلاذری صفحہ 138)
  16. (فتوح البلدان :143،144)
  17. (نساء:171)
  18. (نساء:172)
  19. (طبری کے نزدیک جارج خالد ؓ کی کوششوں سے اسلام لایا)
  20. (فتوح البلدان :145)
  21. (طبری : 2577)
  22. (مسلم باب الطاعون)
  23. (فتح الباری :1/159)
  24. (مسندل :1/196)
  25. (اصابہ :4/12)
  26. (مسند:1/196)
  27. (مسند:1/196)
  28. (اصابہ:4/12)
  29. (طبقات ابن سعد قسم اول جز وثالث : 301)
  30. (مسند:1/195)
  31. جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر1713