عبد الغفور عرف حضرت سوات
الشیخ مولانا عبد الغفور آخوند قادری عرف حضرت سوات اور سیدو بابا سوات، امام المجاہدین، شیخ الاسلام والمسلمین سے شہرت رکھتے ہیں ریاست سوات بلکہ پورے خیبر پختونخوا میں مذہبی طور پر ایک بلند پایہ شخصیت جنھوں نے جدید ریاست سوات کی بنیاد رکھنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
عبد الغفور عرف حضرت سوات | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | سنہ 1793ء |
تاریخ وفات | سنہ 1878ء (84–85 سال) |
مدفن | سیدو شریف |
درستی - ترمیم |
نام
ترمیمحضرت آخوند صاحب سوات کا اصلی نام عبد الغفور اور والد کا نام عبد الوحید تھا۔ آپ کا تعلق بالائی وادئ سوات کے ایک گجر گھرانے سے تھا۔[1]
ولادت
ترمیمآپ علاقہ شامیزے (سوات) کے موضع جبڑی میں 1794ء بمطابق 1209ھ کو پیدا ہوئے۔
بیعت و خلافت
ترمیمپشاور کے مشہور عالم وعارف حافظ محمد عظیم معروف بہ گنج والے میں حاضر ہوکر سلسلہ قادریہ میں مرید ہوئے اور مرشد کی طرف سے اجازت وخلافت حاصل کی۔ آپ شیخ المشائخ صاحبزادہ محمد شعیب صاحب ساکن تورڈھیری کی خدمت میں پہنچ کر طریقہ قادریہ میں بیعت ہو کر ریاضت و مجاہدات میں مشغول ہو گئے۔ دریائے کابل اور دریائے سوات کے جنگلوں میں کافی عرصہ زہد و عبادت میں گزارا۔ جب سلسلہ قادریہ کے اسباق طریقت کو مکمل کر کے اپنے پیر و مرشد کے حضور میں پہنچے۔ تو صاحبزادہ صاحب نے آپ کو ہر چہار سلاسل یعنی قادریہ، نقشبندیہ، چشتیہ اور سہروردیہ میں ماذون اور صاحب مجاز فرمایا۔ آپ نے اس سلسلہ مبارکہ کی بہت اشاعت کی۔ یہاں تک کہ یہ سلسلہ آپ کے نام سے موسوم ہو کر قادریہ چشتیہ نقشبندیہ کا ایک خانوادہ مشہور ہو گیا۔ اب آپ کا سلسلہ صرف صوبہ سرحد ہی نہیں، بلکہ کابل، ہرات، غزنی، ہندوستان اور عرب تک پھیل چکا تھا اور ہر جگہ آپ کے خلفاء مصروف تبلیغ تھے اور اشاعت سنت نبوی ﷺ کر رہے تھے۔
سیر و سیاحت
ترمیمحصولِ علم کا شوق اور زہد و تقویٰ سے رغبت رہی۔ تعلیم کے ابتدائی مدارج طے کرنے کے بعدآپ گھر سے نکل کرگجر گڑھی (ضلع مردان) میں مولانا عبد الحکیم سے حصولِ تعلیم کرتے رہے۔ چمکنی(پشاور) اور زیارت کاکا صاحب نوشہرہ پھر پشاور میں حضرت جی صاحب میں رہے اور آخرمیں تور ڈھیری ضلع مردان میں کچھ عرصہ مولانا محمد شعیب کی خدمت میں گزارا۔ سکھوں اور درانیوں کی جنگ میں آپ نے دوست محمد خان فرمان روائے افغانستان کا ساتھ دیا۔ چوبیس سال کی عمر میں ستمبر 1835ءاپنے وطن لوٹ آئے۔ پہلے پہل علاقہ ملوچ (سوات) کی ایک مسجدمیں قیام کیا۔ وہاں سے موضع رنگیلا منتقل ہوئے۔ پھر سوات کے اوڈی گرام نامی تاریخی گاؤں کے قریب غازی بابا(پیر خوش حال) کے مزار میں قیام پزیر رہے اور بعد ازاں مرغزار کی خوب صورت وادی کی راہ لی۔ وہاں سے مرغزارکے قریب سپل بانڈی نامی گاؤں میں مقیم ہو گئے۔ وہاں شادی کی اور 1845 میں اس جگہ سے نکل کر سیدو میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ جو اس وقت صرف سیدو کے نام سے پہچانا جاتا تھا لیکن ان کے مستقل قیام کی وجہ سے سیدو، سیدو شریف کہلانے لگا۔ سیدو میں مقیم ہو جانے کے بعد آپ نے مخلوقِ خدا کی فلاح وبہبود کی طرف توجہ دی۔ مختلف جگہوں پر جاکرلوگوں کو امر بالمعروف نہی عن المنکر پر عمل کی ترغیب دی۔
تحریک جہاداور حضرت سوات
ترمیمجذبہ دینی کے تحت اسماعیل دہلوی کی تحریک جہاد میں شرکت کی اور پشاور میں ان کی طرف سے جنگ بھی کی، اظہارحقیقت کے بعدتحریک جہاد علیحدگی اختیار کرلی اور ‘‘جماعت مجاہدین’’ کے باطل عقائد سے مسلمانوں کو آگاہ کیا، انہی کے حکم سے آپ کے خلیفہ حضرت مولانا نصیر احمد قصہ خوانی نے تقویۃ الایمان کے رد میں احقاق حق تالیف کیا،
احکام شرعیہ کا نفاذ
ترمیمتحریک جہاد سے بددل ہوکرسوات تشریف لے گئے اور بڑی جدو جہد کے بعد احکام شرعی کا نفاذکیاآپ اس اسلامی ریاست کے شیخ مقرر ہوئے، تمام معاملات دستور اسلامی کے مطابق فیصل ہوئے،
جنگ آزادی میں شرکت
ترمیمآپ نے اس زہد و تقویٰ، مشاہد ہ و مراقبہ، ذکر وفکر، امر باالمعروف نہی عن المنکر اور اشاعت سلسلہ کے ساتھ ساتھ ’’ جہاد باالسیف ‘‘ بھی کیا۔ نہایت ہی شجاعت، ہمت اور استقلال کے ساتھ وہ کا رہائے نمایاں سر انجام دیے جو رہتی دنیا تک زندہ رہیں گے اور جن کی یاد ہمیشہ رہے گی۔ جب کبھی مورخ تاریخ مجاہدین سرحد لکھے گا تو وہ آپ کے جہادوں کو فراموش نہیں کرے گا اور نہ کر سکتا ہے۔1857ء میں آپ نے اپنی جماعت کے ستھ امبیلہ کے مقام پر انگریزوں سے جہاد کیا اور انھیں زبردست شکست دی، 1863ء میں آخوند صاحبِ سوات (سیدوبابا) نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ کونڑ، باجوڑ، دیر، جندول، بونیر اور سوات کے لشکر آخوند صاحب کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے اور انگریزوں پر حملہ کر دیا گیا۔ انگریزوں نے بونیر پر لشکر کشی کی۔ بونیر میں امبیلہ کے مقام پر انگریزی فوج اور مجاہدین کے لشکر کے درمیان میں خون ریزجنگ ہوئی۔ جنگ کے بعد انگریز امبیلہ سے واپس چلے گئے۔ یہ جنگ امبیلہ کمپین 1863ء کے نام سے مشہور ہے۔
اولاد
ترمیمحضرت سوات کے دو فرزند بنام عبد الحنان میاں گل اور عبد الخالق میاں گل تھے۔ عبد الخالق میاں گل صاحب کے فرزند ارجمند عالی مرتبت میاں گل عبد الودود صاحب ہیں۔ آپ نے خود بنفس نفیس اپنی حکومت
سلسلہ شیوخ
ترمیموصال
ترمیمساتویں محرم الحرام 1295ھ بمطابق 12 جنوری 1877ء کو بمقام سیدوشریف آپ کا وصال ہوا، وہیں سپرد خاک کیے گئے، جہاں ایک بڑی مسجد میں آپ کا عالی شان مزار عوام و خواص کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ موجودہ بادشاہ سوات میاں گل عبد الودود آپ کے بیٹے میاں گل عبد الخالق کے صاحبزادہ ہیں۔[2][3][4]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Waleed Ziad (2021)۔ Hidden Caliphate: Sufi Saints Beyond the Oxus and Indus (بزبان انگریزی)۔ Harvard University Press۔ ISBN 978-0-674-24881-6
- ↑ تذکرہ اولیاء پاکستان جلد اول، عالم فقری، صفحہ284 تا288 شبیر برادرزلاہور
- ↑ سوات سیاحوں کی جنت، فضل ربی راہی، صفحہ167 تا 169ناشر شعیب سنز سوات
- ↑ تذکرہ علما و مشائخ سرحد جلد اوّل، صفحہ 149 تا 157،محمد امیر شاہ قادری، مکتبہ الحسن کوچہ آقہ پیر جان یکہ توت پشاور
مزید دیکھیے
ترمیم- ↑ -تاریخ-کا-ایک-ورق۔4556/page-2 ریاست سوات، تاریخ کا ایک ورق | صفحہ 2 | اردو محفل فورم[مردہ ربط]
- ↑ "ضیائے طیبہ"۔ 20 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جنوری 2017