الشیخ مولانا حافظ محمد شعیب تورڈھیری درانی سلسلہ قادریہ کے مشہور و معروف بزرگ ہیں۔ ان کی زیادہ شہرت عبد الغفور عرف حضرت سوات کے پیر و مرشد ہونے کی وجہ سے ہے۔

محمد شعیب تورڈھیری
معلومات شخصیت

ولادت

ترمیم

محمد شعیب تورڈھیری کی ولادت کنڈہ تحصیل چھوٹا لاہور ضلع صوابی میں ہوئی

خاندان

ترمیم

ان کے والد محترم کا نام مولانا رفیع القدر [1]المعروف حافظ گل یاد بن ملک غازی خان تھا یہ درانی قبیلہ سے تھے جو احمد شاہ ابدالی کے ساتھ پانی پت گئے اور اس کے بعدعلاقہ یوسف زئی میں وارد ہوئے۔

تعلیم و تربیت

ترمیم

ابتدائی تعلیم اپنے والد صاحب سے علاقے میں ہی حاصل کی حفظ قرآن صرف و نحو،اصول فقہ،حدیث اور قرآن کی تعلیم مکمل کی اس کے علاوہ حافظ محمدقادری موضع عمر زئی میں جو ان کے والد کے شاگرد تھے ان سے بھی ظاہری علوم میں تکمیل کی۔

بیعت و خلافت

ترمیم

کمالات باطنی کا حصول اپنے ظاہری علم کے استاد مولانا حافظ محمد ہشتنگری سے کیا یہ حافظ محمد عمر زئی اور ملامحمد محمد زئی سے بھی شہرت رکھتے ہیں۔ علم ظاہر و باطن یکجا ہو گئے ان کے مرشد چاروں سلاسل (قادریہ، چشتیہ،نقشبندیہ،سہروردیہ)میں خلیفہ مجاز او اذن یافتہ تھے اورخصوصی اجازت تھی سلسلہ قادریہ کو ترویج دینے کی،محمد شعیب تورڈھیری نے اپنے مرشد کی اجازت سے واپس تور ڈھیری میں آکر سلسلہ قادریہ جنیدیہ اور نقشبندیہ مجددیہ کی ترویج کی اپنے علاقے میں مدارس اور تصوف کا مرکز قائم کرنے میں مشغول رہے آپ فتوی بھی دیا کرتے تھے،

سکھوں کے خلاف جہاد

ترمیم

سکھوں کے دور مظالم میں آپ تورڈھیری کو خیرباد کہہ کر صوابی سے دس میل دور خدو خیل کے پہاڑی علاقے میں واقع موضع چینگلی کو ہجرت فرمائی وہاں پر ایک مسجد میں قیام کرنے کا ارادہ فرمایا یا چینگلی میں قیام کے دوران میں درس و تدریس اور وعظ و نصیحت سے جب فرصت ملتی تو بستی سے مغرب کی جانب تقریباً ڈیڑھ میل کے فاصلے پر ایک چوٹی پر تشریف لے جاتے اور وہاں ذکرومراقبہ میں مشغول رہتے ہیں سکھوں کے خلاف معرکہ آرائی میں آپ کے ایک فرزند شیخ سعد الدین المعروف بہ دکنیر بابا جان عزیز کا نذرانہ پیش کر چکے تھے آپ نے خلفاء اورمریدین سے سوات ، بونیر آفریدی پختونوں میں جوش و ولولہ پیدا کیا اور لوگ جوق در جوق مجاہدوں کی جماعت میں شامل ہونے لگے جب آپ نے دیکھا کہ کوہستانی علاقے کے مجاھدوں کا ایک جم غفیر آپ کے گرد جمع ہو گیا ہے تو جہاد کی تیاری کا اعلان کر دیا سرحدی پختونوں کے جہاد کی تیاری کی خبر افغانستان میں بارکزی سردار محمد عظیم خان تک پہنچی وہ بھی اپنی باقاعدہ فوج کے ساتھ پشاور کی طرف چل پڑا میدان جنگ نوشہرہ کے قریب تھا سکھوں کے ظلم و ستم نے حساس افغانوں اور یوسفزئ قبائل کی غیرت ملی اور مذہبی جذبے کو گرما دیا نوشہرہ کے قریب پیر سباق جو دریائے لنڈی سند کے نام سے مشہور ہے کہ بائیں جانب معرکہ ہوا مہاراجہ رنجیت سنگھ نے سردار کھڑک سنگھ کو جنرل الارڈ کے ساتھ سردار محمد عظیم کو روکنے کے لیے دریا کے اس پار بھیجا اور خود رنجیت سنگھ جرنل وینٹورا کے ہمراہ دریا کے اس جانب یوسفزی مجاہدین کے مقابلے پر رہا ابتدا میں سکھوں کے پاؤں اکھڑنے لگے شیخ محمد شعیب اس لڑائی میں شریک تھے پھولا سنگھ سے آپ کی دست بدست لڑائی ہوئی جس میں پھولا سنگھ واصل بجہنم ہوا لیکن جب رنجیت سنگھ نے سکھوں کی پسپائی کے آثار دیکھے تو خود علم اٹھائے ہوئے حملہ آور ہوا سورج کے ڈوبتے ہی سکھوں کا پلڑا بھاری ہو گیا بالآخر افغانوں نے منظم اور باقاعدہ فوج سے شکست کھائی تین ہزار اور ایک روایت کے مطابق دس ہزار مجاہدین مقتول و مجروح ہوئے یے شیخ محمد شعیب اور پیرزادہ محمد اکبر شاہ ترمذی جو سید علی ترمذی المعروف پیر بابا کی اولاد میں سے زیادہ مشہور نھے شیخ محمد شعیب اس لڑائی میں شدید زخمی ہوئے یے آپ کو زخمی حالت میں چینگلی لایا گیا بالآخر زخموں کی تاب نہ لاکرواصل باللہ ہوئے۔

مدرسہ کا قیام

ترمیم

شیخ محمد شعیب کو درس و تدریس اور مدارس کے قیام کا بے حد شوق تھا انھوں نے تورڈھیر میں ایک مدرسہ بھی قائم فرمایا تھا۔

اولاد

ترمیم

شیخ محمد شعیب کے دو صاحبزادے تھے سعیدالدین اور صدرالدین ان دونوں صاحبزادوں کی اولاد سوات بونیر علاقہ یوسفزئی اور ہشت نگر میں آج بھی موجود ہے خلفاء == شیخ محمدشعیب کے خلفاء میں جس بزرگ نے غیر معمولی شہرت و عظمت حاصل کی کی وہ آخوند سوات ہیں ہیں جنھوں نے اپنے علاقے میں سلسلہ نقشبندیہ اور قادریوں کو غیر معمولی فروغ بخشا۔[2]

وفات

ترمیم

ان کی وفات رجب 1238ھ بمطابق مارچ 1823ء میں ہوئی اور مزار مبارک تورڈھیری ضلع صوابی نزدیک مردان ہے۔

خلفاء

ترمیم

شیخ محمد شعیب نے وصال سے پہلے بڑے اشتیاق کے ساتھ اخوند عبد الغفور عرف حضرت سوات المعروف سیدو بابا کو سینے پر لیٹا کر چاروں سلسلوں میں اپنی نسبت منتقل فرمائیں ان کے مشہور خلیفہ ہیں۔[3][4]

حوالہ جات

ترمیم
  1. مرآۃ الاولیاء، شیخ محمد شعیب تورڈھیری صفحہ 46 دار الاخلاص محلہ جنگی پشاور
  2. تذکرہ صوفیائے سرحد اعجاز الحق قدوسی صفحہ 465،مرکزی اردو بورڈ لاہور
  3. تاریخ اولیاء،ابو الاسفارعلی محمد بلخی،صفحہ210،نورانی کتب خانہ قصہ خوانی بازار پشاور
  4. تواریخ حافظ رحمت خانی، پیر معظم شاہ صفحہ 617،پشتو اکیڈمی پشاور