حضرت عتبہ بن ابی لہب صحابی رسول تھے۔عتبہ پیغمبر اسلام کے اس سب سے بڑے دشمن کے فرزند تھے

عتبہ بن ابی لہب
(عربی میں: عتبة بن عبدالعزى بن عبدالمطلب الهاشمي القرشي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
مقام پیدائش مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت جزیرہ نما عرب   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ رقیہ بنت محمد [1]  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد ابولہب   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ ام جمیل   ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
پیشہ تاجر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوہ حنین ،  غزوہ طائف   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب

ترمیم

عتبہ نام، مشہور دشمنِ اسلام ابو لہب ان کا باپ تھا، نسب نامہ یہ ہے،عتبہ بن ابی لہب ابن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی قرشی ہاشمی،ابولہب آنحضرتﷺ کا چچا تھا،اس رشتہ سے عتبہ آپ کے ابن عم تھے۔

اسلام

ترمیم

عتبہ پیغمبر اسلام کے اس سب سے بڑے دشمن کے فرزند تھے جس نے بھتیجے کی تحقیر مسلمانوں کی ایذا رسانی اوراسلام کی بیخ کنی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا تھا پھر بھی ان کااورآنحضرتﷺ کا گوشت وپوست ایک تھا، خون کا اثر کہاں جاتاہے، چنانچہ جب مکہ فتح ہوا اور معاندین اسلام کا شیرازہ بکھر چکا تو آنحضرتﷺ کو چچیرے بھائی کا خیال آیا،حضرت عباسؓ سے پوچھا تمھارے دونوں بھتیجوں (عتبہ اور معتب) کو نہیں دیکھا ،معلوم نہیں کہاں ہیں،عباسؓ نے کہا مشرکین قریش کے ساتھ وہ بھی مکہ چھوڑ کر کہیں نکل گئے ہیں ، فرمایا جاؤ جہاں کہیں ملیں لے آؤ، اس ارشاد پر حضرت عباسؓ تلاش میں نکلے اوردونوں کو ڈھونڈ کر کہا چلو تم کو رسول اللہ ﷺ نے یاد فرمایا ہے؛چنانچہ یہ دونوں چچا کے ساتھ بھائی کی خدمت میں حاضر ہوئے،آپ نے اسلام پیش کیا ،اب انکار کا وقت گذر چکا تھا،اس لیے بلاتامل قبول کر لیا، ،قبول اسلام کے بعد آنحضرتﷺ دونوں کا ہاتھ پکڑے ہوئے بابِ کعبہ اور حجر اسود کے درمیان میں لاکر کچھ دعا کی ،دعا سے واپسی کے وقت چہرہ انور وفور مسرت سے چمک رہا تھا،عباس نے کہا خدا آپ کو ہمیشہ خوش رکھے،آپ کے چہرہ پر مسرت کے آثار دیکھ رہا ہوں، فرمایا میں نے اپنے ان دونوں بھائیوں کو خدا سے مانگا تھا، اس نے مجھے دیدیا یہ مسرت اسی کا نتیجہ ہے۔ [2]

غزوات

ترمیم

اسلام کے بعد مکہ ہی میں رہے، البتہ بعض غزوات میں شریک ہونے کے لیے مدینہ آجاتے تھے ؛چنانچہ غزوۂ حنین میں آنحضرتﷺ کے ساتھ شریک ہوئے اور اس فدویت اورجانثاری کے ساتھ کہ جب ساری فوج میں اضطراب پیدا ہو گیا اوربہت سے مسلمانوں کے پاؤں عارضی طور سے اکھڑگئے،اس وقت بھی ان کے پیروں میں لغزش نہ آئی ،حنین کے بعد طائف میں بھی ساتھ تھے۔ [3]

وفات

ترمیم

ان کے زمانہ وفات کی تصریح نہیں ملتی، لیکن عہد صدیقی اور فاروقی میں کہیں نظر نہیں آتے،اس سے قیاس ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ ہی کے زمانہ میں وفات پاچکے تھے، حافظ ابن حجر عسقلانی کی بھی یہی رائے ہے۔ [4]

حوالہ جات

ترمیم
  1. عنوان : Рукайя бинт Мухаммад
  2. (ابن سعد،جلد4،ق1،صفحہ:41،42)
  3. (اسد الغابہ:3/366)
  4. (اصابہ:4/216)