عتبہ بن ابی لہب
حضرت عتبہ بن ابی لہب صحابی رسول تھے۔عتبہ پیغمبر اسلام کے اس سب سے بڑے دشمن کے فرزند تھے
عتبہ بن ابی لہب | |
---|---|
(عربی میں: عتبة بن عبدالعزى بن عبدالمطلب الهاشمي القرشي) | |
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | مکہ |
شہریت | جزیرہ نما عرب |
زوجہ | رقیہ بنت محمد [1] |
والد | ابولہب |
والدہ | ام جمیل |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
پیشہ | تاجر |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوہ حنین ، غزوہ طائف |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیمعتبہ نام، مشہور دشمنِ اسلام ابو لہب ان کا باپ تھا، نسب نامہ یہ ہے،عتبہ بن ابی لہب ابن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی قرشی ہاشمی،ابولہب آنحضرتﷺ کا چچا تھا،اس رشتہ سے عتبہ آپ کے ابن عم تھے۔
اسلام
ترمیمعتبہ پیغمبر اسلام کے اس سب سے بڑے دشمن کے فرزند تھے جس نے بھتیجے کی تحقیر مسلمانوں کی ایذا رسانی اوراسلام کی بیخ کنی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا تھا پھر بھی ان کااورآنحضرتﷺ کا گوشت وپوست ایک تھا، خون کا اثر کہاں جاتاہے، چنانچہ جب مکہ فتح ہوا اور معاندین اسلام کا شیرازہ بکھر چکا تو آنحضرتﷺ کو چچیرے بھائی کا خیال آیا،حضرت عباسؓ سے پوچھا تمھارے دونوں بھتیجوں (عتبہ اور معتب) کو نہیں دیکھا ،معلوم نہیں کہاں ہیں،عباسؓ نے کہا مشرکین قریش کے ساتھ وہ بھی مکہ چھوڑ کر کہیں نکل گئے ہیں ، فرمایا جاؤ جہاں کہیں ملیں لے آؤ، اس ارشاد پر حضرت عباسؓ تلاش میں نکلے اوردونوں کو ڈھونڈ کر کہا چلو تم کو رسول اللہ ﷺ نے یاد فرمایا ہے؛چنانچہ یہ دونوں چچا کے ساتھ بھائی کی خدمت میں حاضر ہوئے،آپ نے اسلام پیش کیا ،اب انکار کا وقت گذر چکا تھا،اس لیے بلاتامل قبول کر لیا، ،قبول اسلام کے بعد آنحضرتﷺ دونوں کا ہاتھ پکڑے ہوئے بابِ کعبہ اور حجر اسود کے درمیان میں لاکر کچھ دعا کی ،دعا سے واپسی کے وقت چہرہ انور وفور مسرت سے چمک رہا تھا،عباس نے کہا خدا آپ کو ہمیشہ خوش رکھے،آپ کے چہرہ پر مسرت کے آثار دیکھ رہا ہوں، فرمایا میں نے اپنے ان دونوں بھائیوں کو خدا سے مانگا تھا، اس نے مجھے دیدیا یہ مسرت اسی کا نتیجہ ہے۔ [2]
غزوات
ترمیماسلام کے بعد مکہ ہی میں رہے، البتہ بعض غزوات میں شریک ہونے کے لیے مدینہ آجاتے تھے ؛چنانچہ غزوۂ حنین میں آنحضرتﷺ کے ساتھ شریک ہوئے اور اس فدویت اورجانثاری کے ساتھ کہ جب ساری فوج میں اضطراب پیدا ہو گیا اوربہت سے مسلمانوں کے پاؤں عارضی طور سے اکھڑگئے،اس وقت بھی ان کے پیروں میں لغزش نہ آئی ،حنین کے بعد طائف میں بھی ساتھ تھے۔ [3]
وفات
ترمیمان کے زمانہ وفات کی تصریح نہیں ملتی، لیکن عہد صدیقی اور فاروقی میں کہیں نظر نہیں آتے،اس سے قیاس ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ ہی کے زمانہ میں وفات پاچکے تھے، حافظ ابن حجر عسقلانی کی بھی یہی رائے ہے۔ [4]
حوالہ جات
ترمیم
پیش نظر صفحہ اسلام سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ |