عُثمان بن سعید عَمْری (متوفی 265 ہجری قمری) جو اَبوعَمرو کے نام سے مشہور ہیں، امام زمانہ کی غیبت صغری کے زمانے میں نواب اربعہ میں سے پہلے نائب خاص ہیں۔ آپ کو امام ہادی(ع)، امام عسکری(ع) اور امام مہدی(ع) کے اصحاب میں سے جانا گیا ہے لیکن کیا آپ کا شمار امام جواد(ع) کے اصحاب میں بھی ہوتا ہے یا نہیں، اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ سن 260 ہجری قمری میں امام مہدی(ع) کی امامت کے آغاز سے لے کر پانچ سال تک آپ امام زمانہ(ع) کے نائب خاص رہے پھر ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے محمد بن عثمان عمری اس عہدے پر فائز ہوئے۔ نیابت کے دوران آپ بغداد چلے گئے اور نیابت کا پورا عرصہ وہیں پر ہی مقیم رہے۔ بغداد سمیت عراق کے مختلف شہروں میں انھوں نے اپنا وکیل مقرر کیا ہوا تھا جو شرعی وجوہات کو لوگوں سے جمع کرکے ان تک پہنچاتے تھے۔ امام مہدی(ع) نے ان کی وفات پر ان کے بیٹے محمد بن عثمان کو تسلیتی خط تحریر فرمایا۔ مختلف منابع میں عثمان بن سعید کو متعدد القابات سے یاد کیا گیا ہے۔

عثمان بن سعید عمری
(عربی میں: عثمان بن سعيد العمري ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
مقام پیدائش Bit   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت عراق   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد محمد بن عثمان عمری   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عثمان بن سعید عمری
(عربی میں: عثمان بن سعيد العمري ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
مقام پیدائش Bit   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت عراق   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لقب عَمری، سمّان، اسدی ،عسکری
اولاد محمد بن عثمان عمری   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

زندگی‌نامہ

ترمیم

عثمان بن سعید کی تاریخ ولادت سے متعلق کوئی دقیق معلومات نہیں لیکن کہا گیا ہے کہ آپ گیارہ سال کی عمر سے ہی [[امام محمد تقی] کے خادم کے طور پر امام کے گھر میں کام کرتے تھے اور بعد میں امام نے انھیں اپنا نمائندہ بنایا یوں آپ امام کے با اعتماد اصحاب میں سے تھے۔ [1]

آپ امام ہادی(ع)، امام حسن عسکری(ع) اور امام زمانہ(ع) کے بھی وکیل رہے ہیں اسی بنا پر ہمیشہ ان حضرات معصومین کے بھی مورد اعمتاد ٹھرے ہیں۔ عثمان بن سعید شروع میں سامرا میں رہتے تھے اور امام حسن عسکری(ع) کی شہادت کے بعد وہ بغداد چلے گئے۔ اس وقت سامرا عباسیوں کا دار الخلافہ اور فوجی چھاونی تھا جو اپنی حکومت کے آغاز سے ہی آئمہ معصومین کے ساتھ کوئی اچھا برتاؤ روا نہیں رکھتے تھے۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ احتمال زیادہ قوی ہے کہ عثمان بن سعید نے اسی وجہ سے سامراء سے بغداد کی طرف ہجرت کی اور وہاں پر کرخ نامی جگہے کو جو ایک شیعہ نشین علاقہ تھا، سکونت کے لیے انتخاب کر کے اسے شیعوں کی رہبری کے لیے مرکز قرار دے دیا۔[2]

اسامی اور القاب

ترمیم

آپ کا نام رجالی منابع میں "عثمان بن سعید" آیا ہے لیکن صرف رجال کشی میں آپ کو "حفص بن عمرو" کے نام سے بھی یاد کیا ہے جو ممکن ہے دوسرے وکلا کے ساتھ خفیہ ملاقاتوں کے لیے ان کا رمزی نام یا کوڈ ورڈ ہو۔[3] تمام منابع میں ان کی کنیت ان کے جد پدری سے منسوب کرتے ہوئے "ابوعمرو" مذکور ہے۔ چونکہ ان کا محمد نامی ایک بیٹا تھا اس مناسبت سے بحارالانوار اور سفینۃ البحار میں انھیں "ابو محمد" نیز کہا گیا ہے۔[4][5]

لیکن آپ "عَمْری" کے نام سے مشہور تھے اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ دو وجوہات کی بنا پر انھیں اس لقب سے یاد کیا جاتا تھا؛ ایک یہ کہ امام حسن عسکری(ع) نے خلیفہ سوم (عثمان) کا نام اور لقب (ابوعمرو) دونوں "عثمان بن سعید" کے نام میں جمع ہونے پسند نہیں فرماتے تھے اس بنا پر انھیں "عَمری" کے نام سے خطاب فرماتے تھے۔ دوسری وجہ یہ کہ انھیں ان کے جد پدری "عمرو" کی طرف نسبت دے کر "عمری" کہا جاتا تھا۔[6] محدث قمی نے انھیں "عَمْری" کہلانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں ان کی ماں کی طرف سے "عُمَر بْن اَطْرَف اَعْلی" کی طرف نسبت دیتے ہوئے "عمری" کہا جاتا تھا۔[7] [8]

آپ "سمّان" اور "زَیّات" کے لقب سے بھی ملقب تھے کیونکہ آپ روغن اور زیتون کی خرید و فروش کیا کرتے تھے اور حقیقت میں یہ پیشہ انھوں نے اپنی اصلیت کو مخفی رکھنے کے لیے اپنایا تھا کیونکہ آپ امام زمانہ(ع) کی وکالت اور نیابت کی ذمہ داری کو مخفیانہ طور پر انجام دیتے تھے تاکہ حکومت کے نقصان سے محفوظ رہ سکے۔ آپ شیعوں کی جانب سے جمع شدہ اموال اور خطوط کو روغن کے برتنوں میں ڈال کر امام(ع) کی خدمت میں پہنچاتے تھے تاکہ حکومتی کارندے ان چیزوں سے با خبر نہ ہو۔[9]

قبیلہ بنی اسد سے منسوب ہونے کی وجہ سے انھیں "اسدی" اور چونکہ سامراء کے رہنے والے تھے جو فوجی چھاونی یعنی "عسکر" کے طور پر مشہور تھا، اس لیے انھیں "عسکری" کے نام سے بھی یاد کیا کرتے تھے۔[10]

اولاد

ترمیم

عثمان بن سعید کے دو بیٹے تھے:

  1. محمد بن عثمان جو اپنے والد کی وفات کے بعد امام زمانہ(ع) کا دوسرا نائب خاص مقرر ہوئے۔
  2. احمد بن عثمان جن کا نام کسی منابع میں نہیں آیا ہے لیکن امام زمانہ(ع) کے جھوٹے وکلا کی فہرست میں "ابوبکر محمد بن احمد بن عثمان" نامی ایک شخص کا تذکرہ ملتا ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ "محمد بن عثمان" کا بھتیجا تھا۔[11]

وفات

ترمیم

آپ کی تاریخ وفات بھی ولادت کی طرح نامعلوم ہے لیکن اس حوالے سے دو قول نقل کیے جاتے ہے:

  1. سن 267ق سے پہلے: یہ قول علم رجال کے اکثر علما کا مورد اتفاق ہے۔
  2. سن 280ق: اس قول کو ایک توقیع (مکتوب) سے استناد کرتے ہیں جو سن 280ق میں نقل ہوئی ہے۔ شیخ طوسی کے مطابق چونکہ اس حدیث کے راوی نے اس روایت کو سن 280ق میں سنا ہے اس بنا پر یہ سال "عثمان بن سعید" کی وفات نہ ہونا واضح ہے۔[12]

عثمان بن سعید کی وفات کے بعد ان کے بیٹے "محمّد بن عثمان" نے انھیں غسل دیا اور بغداد کے "السلام" نامی منطقے کے مغرب میں ایک مشہور و معروف مقام "الدرب" میں سپرد خاک کیا۔ شیخ طوسی فرماتے ہیں کہ سن 408ق سے 430ق تک آپ اس مقام پر "عثمان بن سعید" کی قبر کی زیارت کرتے تھے۔[13] ان کی آرامگاہ سے متعلق جو چیز موجودہ دور میں معروف ہے وہ یہ ہے کہ ان کی قبر بغداد کے مشرق میں واقع "شورجہ" نامی بازار کے "رصّافہ" نامی مقام پر واقع ہے۔ [14]

اماموں کی نیابت اور وکالت

ترمیم

جو چیز علم رجال کے منابع میں نقل ہوئی ہے اس کے مطابق عثمان بن سعید ائمہ معصومین میں سے تین امام، امام ہادی، امام حسن عسکری اور امام زمانہ کے وکیل اور نائب رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض منابع کے مطابق آپ گیارہ سال کی عمر میں امام محمد تقی کے خادم کے طور امام کی خدمت کرتے تھے اور یہاں تک امام کا مورد اعتماد قرار پائے تھے کہ امام(ع) بعض اہم امور کی انجام دھی بھی ان کے سپرد فرمایا کرتے تھے۔[15] لیکن بعض شیعہ علما عثمان بن سعید کی عمر کو مد نظر رکھتے ہوئے اس آخری بات کو غیر قابل قبول قرار دیتے ہیں اور اسے علم رجال کے بزرگان کی ایک فاحش غلطی سے تعبیر کرتے ہیں۔[16]

امام علی النقی(ع) کی وکالت

ترمیم

عثمان بن سعید امام ہادی(ع) کے اصحاب میں سے تھے اور اس بات کی بھی تصریح کی گئی ہے کہ امام نے انھیں اپنا وکیل اور نمائندہ بھی بنایا تھا۔ [17] احمد بن اسحاق قمی نے امام ہادی(ع) سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں "عثمان بن سعید" کو ایک موثق اور امین شخص کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ جو کچھ وہ امام کی طرف نسبت دیتے ہوئے لوگوں تک پہنچاتے ہیں وہ سب کے سب امام ہادی ہی کی جانب سے ہیں۔[18]

امام عسکری(ع) کی وکالت

ترمیم

عثمان بن سعید، امام ہادی(ع) کے علاوہ امام حسن عسکری کے لیے بھی مورد اعتماد شخص تھے۔[19] شیخ طوسی نے رجال الطوسی میں عثمان بن سعید کو امام حسن عسکری(ع) کا بھی وکیل قرار دیا ہے۔[20] مختلف احادیث میں نقل ہوا ہے کہ امام حسن عسکری(ع) نے عثمان بن سعید کو مورد خطاب قرار دیتے ہوئے انھیں اپنا وکیل مقرر فرمایا ہے۔ ایک اور جگہ پر یہ بات بهی آئی ہے کہ امام نے اپنے اردگرد موجود افراد کو گواہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ عثمان بن سعید میرا وکیل ہے۔ امام نے عثمان بن سعید کو اپنے تمام وکلا کا صدر قرار دیا تھا یوں تمام وجوہات امام کے وکلا کے ذریعے ان تک پہنچتے تھے اور وہ انھیں امام کی خدمت میں پہنچاتے تھے۔[21]

امام حسن عسکری(ع) کی شہادت کے بعد عثمان بن سعید نے آپ(ع) کی تکفین اور تدفین کے مراسم کو انجام دیا جو شیعہ عقاید کے مطابق ان کی امام زمانہ(ع) کے وکیل اور نائب ہونے کی نشانیوں میں سے ہے۔[22]

امام زمانہ(ع) کی نیابت

ترمیم

امام حسن عسکری(ع) نے عثمان بن سعید کی نیابت کو واضح الفاظ میں بیان کیا ہے۔ آپ(ع) نے اپنے فرزند ارجمند یعنی امام مہدی(ع) کو اپنے اصحاب میں سے چالیس افراد کو دکھا کر ان چالیس افراد سے فرمایا کہ امام زمانہ(ع) کی غیبت کے دوران عثمان بن سعید کی اطاعت کریں۔ [23] ایک اور روایت کے مطابق خود امام مہدی(ع) نے اہل قم کے ساتھ ملاقات میں عثمان بن سعید کی نیابت کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے ان کو عثمان کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔[24]

تسلیت نامہ سے اقتباس
"تمھارے والد ایک سعادتمند اور خوشبخت زندگی گزار کر پسندیدہ حالت میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ خدا ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے اور انھیں اولیاء، سادات اور اپنے موالیوں کے ساتھ محشور فرمائے۔ خدا ان کے چہرے کو تروتازہ اور شاداب رکھے، ان کے گناہوں کو معاف فرمائے اور تمھیں ان کی مصیبت میں اجر عظیم اور صبر جمیل عنایت فرمائے۔ تم مصیبت زدہ ہو اور ہم بھی تمھارے غم میں برابر کے شریک ہیں اور تمھارے والد کی موت نے ہمیں وحشت میں ڈال دیا پس خداانہیں اپنی رحمت واسعہ کے ذریعے ابدی زندگی میں خوش و خرم رکھے۔"

عثمان بن سعید سامراء میں حکومتی کارندوں کی کڑی نگرانی اور دشمنوں کی فراوانی کی وجہ سے امام زمانہ(ع) کے حکم سے بغداد چلا گیا۔"غیبت امام زمانہ کی سیاسی تاریخ" نامی کتاب کے مصنف جاسم حسین کے مطابق سامراء اگرچہ عباسی حکومت کا دار الخلافہ تھا لیکن ہمیشہ ائمہ مخالف سپاہیوں کی کثیر تعداد کی موجود کی وجہ سے ایک لحاظ سے فوجی چھاونی کی حیثیت بھی رکھتا تھا اور دوسری طرف سے عثمان بن سعید بھی حکومتی کارندوں کی نظروں سے دور رہ کر وکالت اور نیابت کے اس منظم سلسلے کی قیادت کرنا چاہتے تھے اسی لیے انھوں نے بغداد کی طرف ہجرت کیا اور "کرخ" نامی ایک شیعہ نشین علاقے کو شیعوں کا مرکز قرار دے دیا۔[25]

عثمان اپنی نیابت کے دوران گرد و نواح کے مختلف علاقوں میں موجود اپنے وکلا کی قیادت کرتے تھے اور ان سے وجوہات شرعیہ کو وصول کرکے انھیں امام زمانہ(ع) کی خدمت میں پہنچاتے تھے۔ اسی طرح وہ شیعوں کے طرف سے لکھے گئے مختلف سوالات اور عرائض کے جواب میں حضرت امام مہدی(ع) کے نصایح اور توقیعات کو متعلقہ اشخاص تک پہنچاتے تھے۔[26]

آپ کی وفات پر امام کا تسلیت نامہ

ترمیم

امام زمانہ(ع) نے عثمان بن سعید کی موت پر ان کے بیٹے محمد بن عثمان کو تسلیت نامہ ارسال فرمایا۔ اس تحریر میں بارہویں امام نے عثمان بن سعید کی نسبت اپنی رضایت کا مکمل اظہار فرمایا اور ان کے حق میں طلب مغفرت فرمائی۔ اسی طرح آپ(ع) نے عثمان کی موت پر احساس غربت اور تنہایی کا اظہار فرمایا اور ان کے بیٹے محمد بن عثمان کو ان کی جگہ اپنا دوسرا نائب خاص مقرر فرمایا۔[27]

آپ کے معاونین

ترمیم

نیابت خاص کے اس عرصے میں عثمان بن سعید نے اپنے تین مشہور وکلا، احمد بن اسحاق قمی، محمد قطان اور حاجز بن یزید وشّاء کو اپنا معاون مقرر کیا جو دوسرے شہروں میں موجود وکلا کے ساتھ رابطہ برقرار کرنے اور ان کے کاموں پر نظارت کرنے میں عثمان بن سعید کے مددگار اور معاونین میں سے تھے۔ [28]

جعفر کذاب کا واقعہ

ترمیم

امام حسن عسکری(ع) کی شہادت کے بعد آپ کے بھائی جعفر نے جھوٹی نیابت کا اعلان کیا اسی بنا پر شیعوں کے یہاں وہ جعفر کذاب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ امام حسن عسکری(ع) کے ایک صحابی احمد بن اسحاق نے جعفر کے مدعا کی درستی اور نادرستی کو ثابت کرنے کے لیے ایک خط لکھا اور عثمان بن سعید کے توسط سے اسے حضرت امام مہدی(ع) تک پہنچایا۔ اس خط کے جواب میں امام(ع) نے واضح دلائل اور شدید الفاظ میں جعفر کی امامت کے دعوے کو رد کیا اور انھیں مفسد اور تارک نماز کہ کر مورد خطاب قرار دیا اور فرمایا کہ یہ شخص حلال و حرام کی تشخیص نہیں دے سکتا اور اس کی نافرمانی کی علامتیں واضح اور آشکار ہیں۔[29]

زیارت نامہ

ترمیم

علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں عثمان بن سعید کے لیے ایک زیارت نامہ نقل کرتے ہوئے یہ تصریح کی ہے کہ اس زیارت نامے کو انھوں نے ایک شیعہ عالم کے کسی قدیمی نسخے میں پایا ہے۔ اگرچہ علامہ مجلسی نے اس کتاب کے نام اور اس کے مصنف کے بارے میں کوئی اشارہ تک نہیں کیا ہے۔[30]

السَّلَامُ عَلَیک أَیها الْعَبْدُ الصَّالِحُ النَّاصِحُ لِلَّه وَ لِرَسُولِه وَ لِأَوْلِیائِه الْمُجِدُّ فِی خِدْمَة مُلُوک الْخَلَائِقِ أُمَنَاءِ اللَّه وَ أَصْفِیائِه السَّلَامُ عَلَیک أَیها الْبَابُ الْأَعْظَمُ وَ الصِّرَاطُ الْأَقْوَمُ وَ الْوَلِی الْأَکرَمُ السَّلَامُ عَلَیک أَیها الْمُتَوَّجُ بِالْأَنْوَارِ الْإِمَامِیة الْمُتَسَرْبِلُ بِالْجَلَابِیبِ الْمَهدِیة الْمَخْصُوصُ بِالْأَسْرَارِ الْأَحْمَدِیة وَ الشُّهبِ الْعَلَوِیة وَ الْمَوَالِیدِ الْفَاطِمِیة السَّلَامُ عَلَیک یا قُرَّة الْعُیونِ وَ السِّرَّ الْمَکنُونَ السَّلَامُ عَلَیک یا فَرَجَ الْقُلُوبِ وَ نِهایة الْمَطْلُوبِ السَّلَامُ عَلَیک یا شَمْسَ الْمُؤْمِنِینَ وَ رُکنَ الْأَشْیاعِ الْمُنْقَطِعِینَ السَّلَامُ عَلَی وَلِی الْأَیتَامِ وَ عَمِیدِ الْجَحَاجِحَة الْکرَامِ السَّلَامُ عَلَی الْوَسِیلَة إِلَی سِرِّ اللَّه فِی الْخَلَائِقِ وَ خَلِیفَة وَلِی اللَّه الْفَاتِقِ الرَّاتِقِ السَّلَامُ عَلَیک یا نَائِبَ قُوَّامِ الْإِسْلَامِ وَ بَهاءِ الْأَیامِ وَ حُجَّة اللَّه الْمَلِک الْعَلَّامِ عَلَی الْخَاصِّ وَ الْعَامِّ الْفَارُوقَ بَینَ الْحَلَالِ وَ الْحَرَامِ وَ النُّورَ الزَّاهرَ وَ الْمَجْدَ الْبَاهرَ فِی کلِّ مَوْقِفٍ وَ مَقَامٍ السَّلَامُ عَلَیک یا وَلِی بَقِیة الْأَنْبِیاءِ وَ خِیرَة إِلَه السَّمَاءِ الْمُخْتَصَّ بِأَعْلَی مَرَاتِبِ الْمَلِک الْعَظِیمِ الْمُنْجِی مِنْ مَتَالِفِ الْعَطَبِ الْعَمِیمِ ذی [ذَا اللِّوَاءِ الْمَنْصُورِ وَ الْعَلَمِ الْمَنْشُورِ وَ الْعِلْمِ الْمَسْتُورِ الْمَحَجَّة الْعُظْمَی وَ الْحُجَّة الْکبْرَی سُلَالَة الْمُقَدَّسِینَ وَ ذُرِّیة الْمُرْسَلِینَ وَ ابْنَ خَاتِمِ النَّبِیینَ وَ بَهجَة الْعَابِدِینَ وَ رُکنَ الْمُوَحِّدِینَ وَ وَارِثَ الْخِیرَة الطَّاهرِینَ صَلَّی اللَّه عَلَیهمْ صَلَاة لَا تَنْفَدُ وَ إِنْ نَفِدَ الدَّهرُ وَ لَا تَحُولُ وَ إِنْ حَالَ الزَّمَنُ وَ الْعَصْرُ اللَّهمَّ إِنِّی أُقَدِّمُ بَینَ یدَی سُؤَالِی الِاعْتِرَافَ لَک بِالْوَحْدَانِیة وَ لِمُحَمَّدٍ بِالنُّبُوَّة وَ لِعَلِی بِالْإِمَامَة وَ لِذُرِّیتِهمَا بِالْعِصْمَة وَ فَرْضِ الطَّاعَة وَ بِهذَا الْوَلِی الرَّشِیدِ وَ الْمَوْلَی السَّدِیدِ أَبِی مُحَمَّدٍ عُثْمَانَ بْنِ سَعِیدٍ أَتَوَسَّلُ إِلَی اللَّه بِالشَّفَاعَة إِلَیه لِیشْفَعَ إِلَی شُفَعَائِه وَ أَهلِ مَوَدَّتِه وَ خُلَصَائِه أَنْ یسْتَنْقِذُونِی مِنْ مَکارِه الدُّنْیا وَ الْآخِرَة اللَّهمَّ إِنِّی أَتَوَسَّلُ إِلَیک بِعَبْدِک عُثْمَانَ بْنِ سَعِیدٍ وَ أُقَدِّمُه بَینَ یدَی حَوَائِجِی أَنْ تُصَلِّی عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ شِیعَتِه وَ أَوْلِیائِه وَ أَنْ تَغْفِرَ لِی الْحُوبَ وَ الْخَطَایا وَ تَسْتُرَ عَلَی الزَّلَلَ وَ السَّیئَاتِ وَ تَرْزُقَنِی السَّلَامَة مِنَ الرَّزَایا فَکنْ لِی یا وَلِی اللَّه شَافِعاً نَافِعاً وَ رُکناً مَنِیعاً دَافِعاً فَقَدْ أَلْقَیتُ إِلَیک بِالْآمَالِ وَ وَثِقْتُ مِنْک بِتَخْفِیفِ الْأَثْقَالِ وَ قَرَعْتُ بِک یا سَیدِی بَابَ الْحَاجَة وَ رَجَوْتُ مِنْک جَمِیلَ سِفَارَتِک وَ حُصُولَ الْفَلَاحِ بِمَقَامِ غِیاثٍ أَعْتَمِدُ عَلَیه وَ أَقْصِدُ إِلَیه وَ أَطْرَحُ نَفْسِی بَینَ یدَیه وَ السَّلَامُ عَلَیک وَ رَحْمَة اللَّه وَ بَرَکاتُه ثُمَّ صَلِّ صَلَاة الزِّیارَة وَ أَهدِها لَه وَ لِشُرَکائِه فِی النِّیابَة صَلَّی اللَّه عَلَیهمْ أَجْمَعِینَ ثُمَّ وَدِّعْه مُسْتَقْبِلًا لَه إِنْ شَاءَ اللَّه تَعَالَی.

متعلقہ صفحات

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، 1385ش، ص142.
  2. جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، 1385ش، ص149.
  3. طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، ص813.
  4. مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج99، ص293.
  5. قمی، سفینۃ البحار، 1414ق، ج6، ص145.
  6. طوسی، الغیبہ، 1411ق، ص354.
  7. قمی، سفینۃ البحار، 1414ق، ج6، ص145.
  8. مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج99، ص310.
  9. طوسی، الغیبہ، 1411ق، ص354.
  10. طوسی، الغیبہ، 1411ق، ص354.
  11. صدر، تاریخ الغیبہ، 1412ق، ج1، ص379.
  12. طوسی، الغیبہ، 1411ق، ص232.
  13. طوسی، الغیبہ، 1411ق، ص232.
  14. رہ توشہ عتبات عالیات، ص367.
  15. ابن شہرآشوب، المناقب، 1379ق، ج4، ص380.
  16. شوشتری، قاموس الرجال، 1410ق، ج2، ص249.
  17. طوسی، رجال طوسی، 1415ق، ص389.
  18. مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج51، ص344.
  19. طوسی،الغیبہ، 1411ق، ص231-229.
  20. طوسی، رجال طوسی، 1415ق، ص401.
  21. مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج50، ص323.
  22. طوسی، الغیبہ، 1411ق، ص231و356.
  23. طوسی، الغیبہ، ص232- 231، صدوق، کمال الدین، ص435.
  24. صدوق، کمال الدین، 1395ق، ج2، ص476.
  25. جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، 1385ش، ص149.
  26. رہ توشہ عتبات عالیات، ص364.
  27. طوسی، الغیبہ، 1411ق، ص361.
  28. جباری، سازمان وکالت، 1382ش، ج1، ص82.
  29. طبرسی، الاحتجاج، 1403ق، ج2، ص468.
  30. مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج99، ص293.

مآخذ

ترمیم
  • صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، تہران، اسلامیہ، 1395ق.
  • طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال، تحقیق: سید مہدی رجایی، مؤسسہ آل البیت، بی‌تا.
  • طوسی، محمد بن حسن، الغیبۃ، قم، مؤسسۃ المعارف الاسلامیۃ، 1411ق.
  • طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، قم، جامعہ مدرسین، 1415ق.
  • جاسم محمد حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، ترجمہ محمد تقی آیت‌اللہی، تہران، امیرکبیر، 1385ش.
  • قمی، عباس، سفینۃ البحار و مدینۃ الحکم و الآثار، قم، اسوہ، 1414ق.
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، مؤسسہ الوفاء، 1403ق.
  • صدر، سید محمد، تاریخ الغیبہ، بیروت، دارالتعارف، 1412ق.
  • ابن شہر آشوب مازندرانی، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، قم، علامہ، 1379ق.
  • جمعی از نویسندگان، رہ توشہ عتبات عالیات، تہران، نشر مشعر، 1391ش.
  • شوشتری، محمدتقی، قاموس الرجال، قم، جامعہ مدرسین، 1419ق.
  • طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، مشہد، مرتضی، 1403ق.
  • جاسم محمد حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، ترجمہ محمد تقی آیت‌اللہی، تہران، امیرکبیر، 1385ش.
  • جباری، محمدرضا، سازمان وکالت و نقش آن در عصر ائمۃ علیہم السلام، قم، مؤسسہ آموزش پژوہشی امام خمینی، 1382ش.
  • جمعی از نویسندگان، رہ‌توشہ عتبات عالیات، تہران، مشعر، 1388ش.