عمران ریاض خان پاکستان کے سینئر صحافی ، تجزیہ کار اور یوٹیوبر ہیں وہ پاکستان میں سب سے زیادہ کمانے والے یوٹیوبر ہیں ان کے چینل پر 3.5 ملین سبسکرائبرز ہیں اور لگ بھگ ایک ارب سے زائد ویوز ہیں۔

تعارف ترمیم

عمران ریاض خان سینئر صحافی، تجزیہ کار، اینکر اور سماجی کارکن ہیں۔ آپ 29 دسمبر 1983 کو کراچی میں پیدا ہوئے، جبکہ آپ کی مستقل رہائش پنجاب کے دار الحکومت لاہور میں ہے۔ آپ کے آبا و اجداد کا تعلق بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کے شہر بانڈی پور سے ہے۔ قومیت بانڈے ہے۔ آپ نے 2010ء میں پنجاب یونیورسٹی سے جرنلزم میں ماسٹرز کیا۔آپ کے مشاغل میں صحافت کے بعد سیاحت، شکار اور کرکٹ شامل ہے۔۔[1]

صحافتی کیریئر ترمیم

  آپ کے کیرئیر کا آغاز 2006 میں ہوا۔2007 کے آخر میں آپ ایکسپریس نیوز کا حصہ بنے جبکہ آپ کی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے ایکسپریس نیوز نے آپ کو پرائم ٹائم شو دیا جس کے بعد آپ " تکرار" کے نام سے معروف زمانہ پروگرام کے اینکر بنے۔ اپنے 17سالہ صحافتی کیرئیر میں آپ نے ایکسپریس نیوز میں رات 8 بجے پروگرام کیا جبکہ 2014 میں 6 ماہ کے لیے دنیا نیوز کے ساتھ وابستہ ہوئے جہاں رات 10 بجے کے پروگرام "سوال" کے میزبان رہے۔ دنیا نیوز کے بعد پھر ایکسپریس نیوز میں آئے اور تین سال تک تکرار کے اینکر کے طور پر کام کیا۔ 2019 میں انھوں نے جی این این نیوز چینل جوائن کیا اور احتساب عمران خان کے ساتھ کے عنوان سے رات 10بجے کا پرائم ٹائم شو کیا۔ 2021 کے آخر میں سماء نیوز جوائن کیا اور چند ماہ رات 10بجے کے پروگرام کے میزبان رہے۔ سماء نیوز چھوڑنے کے بعد ایک بار پھر 2022 میں ایکسپریس نیوز کا حصہ بنے لیکن صرف 2 ہفتے پروگرام کرنے کے بعد آپ کو آف ائیر کر دیا گیا۔ بعد ازاں آپ نے بول نیوز جوائن کیا ہے اور مارچ 2023 تک بول نیوز کا حصہ رہے۔ سال 2020 میں آپ نے یوٹیوب کے ذریعے سیاسی صورت حال پر وی لاگز کا سلسلہ شروع کیا۔ مئی2023 تک آپ کے یوٹیوب پر چار ملین سبسکرائبرز ہیں۔ آپ پاکستان میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے تجزیہ کار سمجھے جاتے ہیں۔ٹوئیٹر پر 5 ملین فالوروز جبکہ فیس بک پر 2.5 ملین فالورز رکھتے ہیں۔ آپ کا ایک وی لاگ کم و بیش 1.5ملین لوگ روزانہ سنتے ہیں۔

گرفتاری ترمیم

عمران ریاض خان 5 جولائی 2022ء کو لاہور سے واپس اسلام آباد آ رہے تھے کہ اس دوران انھیں اسلام آباد ٹول پلازہ کے قریب گرفتار کیا گیا، اس موقع پر پولیس اور رینجرز اہلکاروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

لاہور سے موصول ہونے والی ہدایت کے بعد عمران ریاض کو گرفتار کر کے اُن کا موبائل فون، بٹوا سمیت دیگر تمام اشیا پولیس نے قبضے میں لے لیں، پہلے تو گرفتاری کو چھپانے کی کوشش کی جارہی تھی مگر پھر فوٹیج سامنے آنے کے بعد اٹک پولیس نے گرفتاری کی تصدیق کی‘۔

عمران ریاض خان کی گرفتاری کو لیڈ کرنے والی ٹیم کی سربراہی آر پی او راولپنڈی نے کی اور تصدیق کی کہ انھیں تھانہ ایئرپورٹ منتقل کر دیا گیا ہے۔

عمران ریاض کو الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت درج ہونے والے مقدمے میں گرفتار کیا گیا،

پولیس حکام نے عمران ریاض خان کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں شہری ملک مرید عباس نامی شہری کی جانب سے درج کیے جانے والے مقدمے کے بعد گرفتار کیا گیا۔ (یہ مقدمہ دیگر درج 17 مقدمات کے علاوہ ہے)

ترجمان پولیس کے مطابق عمران ریاض خان کے خلاف تھانہ سٹی اٹک میں الیکٹرانک کرائم ایکٹ اور دیگر 6 دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں شہری نے مؤقف اختیار کیا گیا کہ اُس نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھی جس میں عمران ریاض خان نے پاک فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔

وزیر قانون پنجاب ملک احمد خان نے تصدیق کی کہ عمران ریاض خان کو ضلع اٹک، راولپنڈی ڈویژن سے گرفتار کیا گیا، اُن کے خلاف پنجاب میں مقدمات درج ہیں اس لیے انھیں صوبے کی حدود سے ہی گرفتار کیا گیا‘۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ تاثر غلط ہے کہ اسلام آباد سے گرفتاری عمل میں آئی‘۔

واضح رہے کہ صحافی عمران ریاض نے گرفتاری سے بچنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس پر عدالت نے متعلقہ حکام کو انھیں گرفتار نہ کرنے کی ہدایت کی اور صحافی کو تحقیقات میں تعاون کرنے کی ہدایت کی تھی۔

دوسری جانب عمران ریاض خان کے وکیل میاں علی اشفاق نے بھی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا جس وقت گرفتاری عمل میں آئی وہ میرے ساتھ موبائل فون پر بات کر رہے تھے۔

عمران ریاض خان نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خاتمے پر کڑی تنقید کی تھی، جس کے بعد ان کیخلاف کئی مقدمات بھی درج کیے گئے۔[2] 9 جولائی 2022ء کو لاہور ہائی کورٹ نے چکوال کے مقدمے میں اینکر پرسن عمران ریاض خان کی ضمانت منظور کرلی[3]

نو مئی کو عمران ریاض خان کو دوبارہ گرفتار کرکہ نامعلوم مقام منتقل کر دیا گیا

عمران خان کی گرفتاری کے باعث 9 مئی 2023ء کے ہنگاموں کے باعث انھیں بھی گرفتار کیا گیا تاہم 2 دن کے بعد رہا کر دیے گئے ، مگر تب سے لاپتہ تھے، 25 ستمبر 2023ء کو انھیں بازیاب کروا لیا گیا،

حوالہ جات ترمیم

مزید دیکھیے ترمیم