عمرو بن قرظہ انصاری کوفہ کے ان شہدا میں سے ہیں جو 61 ہجری کی 10 محرم کو امام حسین کی نصرت کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ان کے والدقرظہ بن کعب خزرجی، صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت علی کے جاں نثار ساتھیوں میں سے تھے۔ان کا ایک بھائی واقعہ کربلا میں عاشورا کے روز لشکر عمر بن سعد میں شامل تھا۔

نسب ترمیم

ان کے والد کا نام قرظہ بن کعب خزرجی تھا جو اصحاب پیغمبر اور حدیث کے راوی بھی ہیں نیز انھوں نے جنگ احد اور اس کے بعد ہونے والی جنگوں میں شرکت کی[1] ۔حضرت علی ؑ کے دور خلافت میں انھیں کوفہ کی گورنری سونپی گئی نیز انھوں نے جنگوں میں شرکت بھی کی [2]۔

واقعۂ کربلا ترمیم

عاشورا سے چند روز پہلے امام حسین ؑ نے عمرو بن قرظہ انصاری کے ذریعے عمر بن سعد کو ملاقات کا پیغام بھیجا[3] ۔لہوف میں مذکور ہے کہ عاشور کے روز عمرو بن قرظہ انصاری امام حسین سے اجازت لے کر میدان جہاد میں گئے اور درج ذیل رجز[4] پڑھے:

قد علمت کتیبة الانصارأنی سأحمی حوزة الذمار
ضرب غلام غیر نکس شاری دون حسین مهجتی و داری

۔نیز ان کے بارے میں منقول ہے اس روز جو تیر بھی امام کی جانب آتا یہ اسے روکتے تا کہ امام کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔جان نچھاور کرنے سے پہلے امام سے سوال کیا : کیا میں نے اپنا عہد وفا پورا کیا ؟ امام نے جواب میں فرمایا : ہاں ،تو جنت میں میرے سامنے ہو گا رسول اللہ کو میرا سلام پہنچانا[5]۔

عمرو کا بھائی ترمیم

ان کے بھائی کا نام "علی" یا "زبیر"[6] نقل ہوا ہے یہ عمر بن سعد کے لشکر میں تھا۔جب عمرو شہید ہوئے تو ان کے بھائی نے حضرت امام حسین ؑ کو مخاطب ہو کر کہا : میرے بھائی کو تو نے گمراہ کیا اور اسے دھوکا دیا ۔ بالآخر اسے قتل کر وادیا۔ امام نے جواب میں ارشاد فرمایا :خدا نے اس کی ہدایت کی اور تجھے گمراہ کیا ۔ اس نے کہا : اللہ مجھے قتل کرے اگر میں تمھیں قتل نہ کروں۔یہ کہہ کر امام کی طرف حملہ آور ہوا لیکن نافع بن ہلال نے نیزے سے اس پر وار کر کے زخمی کیا۔وہ نیچے گر پڑا تو لشکری اسے اٹھا کر لے گئے [7]۔

حوالہ جات ترمیم

  1. الاصابہ فی تمییز الصحابہ،ج5، ص329
  2. تاریخ الإسلام، ذہبی،ج‌3، ص662
  3. تاریخ طبری، ج5، ص413
  4. تاریخ الامم و الملوک، ج5، ص434
  5. لہوف، ص107-108
  6. انساب الاشراف، ج3، ص192
  7. تاریخ طبری، ج5، ص434؛ وقعہ الطف، أبو مخنف، ص223

مآخذ ترمیم

  • الإصابہ في تمييز الصحابہ، ابن حجر عسقلانى‏، دار الكتب العلميہ، بيروت‏، اول، 1415ق‏.
  • تاريخ الإسلام و وفيات المشاہير و الأعلام‏، شمس الدين ذہبى‏، دار الكتاب العربى‏، بيروت‏، دوم، 1409ق‏.
  • تاريخ الأمم و الملوك‏، محمد بن جرير طبرى‏، دار التراث‏، بيروت‏، دوم، 1387 ق‏.
  • أنساب الأشراف، احمد بن یحیی بلاذری،‌دار الفکر، اول، بیروت،1417ق.
  • وقعہ الطف‏، ابومخنف كوفى‏، جامعہ مدرسين‏، قم‏، سوم، 1417ق.