قرظہ بن کعب خزرجی
قرظہ بن کعب انصاری صحابی رسول ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے دو حدیثیں ان سے مروی ہیں، کوفہ میں سکونت پزیر تھے۔انھیں اور کچھ دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو جناب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے قرآن و فقہ کی تعلیم دینے کے لیے کوفہ بھیجا تھا۔
قرظہ بن کعب خزرجی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیمقرظہ نام، ابو عمرو کنیت، قبیلۂ حارث بن خزرج سے ہیں،سلسلۂ نسب یہ ہے :قرظہ بن کعب بن کعب بن ثعلبہ بن عمرو بن کعب بن الاطنابہ، بعض لوگوں نے اس طرح لکھا ہے، قرظہ بن عمرو بن کعب بن عمرو بن عائذ بن زید مناۃ بن مالک بن ثعلبہ کعب بن الخزرج بن الحارث بن الخزرج، ماں کا نام خلیدہ بنت ثابت بن سنان تھا۔
اسلام
ترمیمہجرت کے بعد مشرف بااسلام ہوئے۔
غزوات
ترمیمغزوہ احد، غزوۂ خندق اور تمام غزوات میں شرکت کی عہد صدیقی مدینہ میں گذرا ،حضرت عمر کے زمانۂ خلافت میں عمار بن یاسر کے ساتھ کوفہ آئے اور یہیں مقیم ہو گئے، عبداللہ بن مسعود کے زمانۂ امارت میں مسیلمۂ کذاب مدعی نبوت کے ایک دوست کو جو ابن النواحہ کے نام سے مشہور تھا۔ کوفہ میں قتل کیا۔ 23ھ عہد فاروقی میں رے کی مہم سر کی، حضرت علی جنگ جمل کے لیے روانہ ہوئے تو ان کو کوفہ میں اپنا جانشین بنایا اور جب صفین کے لیے نکلے تو ان کو ہمراہ لے گئے اور ابو مسعود بدری کو جانشینی کے لیے کوفہ میں چھوڑا۔[1]ا اس زمانہ میں ان کے علاقہ کا ایک واقعہ تاریخوں میں مذکور ہے، ذمیوں کی ایک نہر خشک ہو کر مٹ رہی تھی اور ذمی پانی نہ ہونے کی وجہ سے اس مقام کو چھوڑ دینا چاہتے تھے، خلیفہ چہارم کے پاس ایک وفد بھیجا اور حالات گوش گزار کیے، آپ نے قرظہ کو ایک خط لکھا :
فانظر انت وہم ثم اعمر واصلح النہر فلعمری لان یعمروااحب الینا من ان یخرجوا وان یعجزوا اویقصروا فی واجب من صلاح البلاد
تم اور وہ (ذمی) مل کر اس معاملہ پر غور کرو، ان کے آباد رہنے کی فکر رکھو اور نہر درست کرا دو خدا کی قسم میں انکا آباد رہنا زیادہ پسند کرتا ہوں انکا عاجز آکر بھاگ جانا یا زمین اور آبادی کی سعیِ فلاح میں ناکام رہنا مجھے منظور نہیں۔
وفات
ترمیمحضرت علی کرم اللہ وجہہ کے عہد خلافت میں انتقال فرمایا، حضرت علیؓ نے نماز جنازہ پڑھائی، اہل کوفہ کو ان کی وفات کا سخت صدمہ ہوا، چنانچہ بزم ماتم قائم ہوئی اور ہر طرف کہرام مچ گیا کوفہ میں یہ بالکل نئی بات تھی ابو حاتم رازی بن سعد، ابن حبان اور قاضی ابن عبدالبر کا یہی خیال ہے۔
لیکن صحیح مسلم میں اس کے خلاف روایت آئی ہے، اس بنا پر بعض لوگوں نے کہا ہے کہ ان کی وفات حضرت علیؓ کے زمانہ خلافت کی بجائے عہد معاویہؓ میں ہوئی ہے ،صحیح مسلم میں ہے کہ قرظہ بن کعب پر کوفہ میں نوحہ کیا گیا تو مغیرہ بن شعبہؓ نے کہا آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے جس پر نوحہ کیا جائے اس کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا، اس روایت میں چند باتیں قابل لحاظ ہیں۔
1۔مغیرہ بن شعبہؓ کے کوفہ میں موجود ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ امیر معاویہؓ کا عہد خلافت تھا اور مغیرہؓ کوفہ کے والی تھے، کیونکہ حضرت علیؓ اور امیر معاویہؓ کی باہمی جنگ میں مغیرہؓ طائف میں گوشہ نشین تھے، حضرت علیؓ کے انتقال کے بعد کوفہ آئے اور امام حسن سے صلح ہو جانے کے بعد امیر معاویہؓ نے ان کو کوفہ کا حاکم مقرر کیا۔
2۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں تصریح ہے کہ مغیرہؓ اس زمانہ میں امیر کوفہ تھے۔
3۔ ترمذی میں ہے کہ مغیرہؓ نے منبر پر چڑھ کر خطبہ دیا اور رونے کی ممانعت پر حدیث پڑھی ۔
4۔صحیح بخاری کتاب العلم میں ہے کہ مغیرہؓ نے بحالت امارت حضرت معاویہؓ کے زمانۂ خلافت میں انتقال کیا۔
5۔مغیرہؓ کی امارت کوفہ 3ھ میں تھی۔
ان تمام روایتوں کے ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر معاویہؓ کے عہد میں ان کا انتقال ہوا یہی وجہ ہے کہ ابن سعدؓ نے طبقات الکوفیین میں پہلی روایت کو لیا ہے ، دوسری جگہ اس سے ذرہ ہٹ کر لکھتے ہیں، مات بالکوفۃ والمغیرۃ وال علیھا حافظ ابن حجر نے تہذیب میں ایک احتمال پیدا کیا ہے، یعنی یہ کہ صحیح مسلم کی روایت میں جو واقعہ ہے ،ضروری نہیں کہ امارت مغیرہؓ کے زمانہ کا ہو، ممکن ہے کہ مغیرہؓ امیر نہ ہوں اور یہ حملہ عہد امیر معاویہ میں ہوا ہو؛ لیکن یہ کسی طرح صحیح نہیں مسلم کی دوسری روایت میں اس کی تصریح موجود ہے اس کے علاوہ جیسا کہ اوپر لکھا ہے جناب امیر ؓ کے زمانہ خلافت میں حضرت مغیرہؓ سرے سے کوفہ میں موجود ہی نہ تھے۔
فضل وکمال
ترمیمفضلائے صحابہ میں تھے،حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ والی کوفہ کے ہمراہ انصار کے دس بزرگوں کو تعلیم فقہ کے لیے بھیجا تھا، قرظہ بھی انہی میں تھے۔ آنحضرتﷺ اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ سے چند روایتیں کیں، عامر بن سعد بجلی اور امام شعبی ان کے مسند فیض کے حاشیہ نشین ہیں۔[2]
دو بیٹے
ترمیمان کے ایک بیٹے عمرو بن قرظہ انصاری کربلا میں امام حسین رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے تھے اور واقعہ کربلا میں شہید ہوئے۔
ان کا ایک بیٹا جس کا نام "علی" یا "زبیر"[3] نقل ہوا ہے واقعہ کربلا میں عمر بن سعد کے لشکر میں تھا۔جب اس کے بھائی عمرو بن قرظہ انصاری، شہید ہوئے تو اس نے حضرت امام حسین ؑ کو مخاطب ہو کر کہا : میرے بھائی کو تو نے گمراہ کیا اور اسے دھوکا دیا ۔ بالآخر اسے قتل کر وادیا۔ امام نے جواب میں ارشاد فرمایا :خدا نے اس کی ہدایت کی اور تجھے گمراہ کیا ۔ اس نے کہا : اللہ مجھے قتل کرے اگر میں تمھیں قتل نہ کروں۔یہ کہہ کر امام حسین علیہ السلام کی طرف حملہ آور ہوا لیکن نافع بن ہلال نے نیزے سے اس پر وار کر کے زخمی کیا۔وہ نیچے گر پڑا تو لشکری اسے اٹھا کر لے گئے [4]۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ أسد الغابة۔المؤلف: أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم بن عبد الواحد الشيباني الجزري، عز الدين ابن الأثير۔الناشر: دار الفكر - بيروت
- ↑ الاستيعاب في معرفة الأصحاب : أبو عمر يوسف بن عبد اللہ بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي :الناشر: دار الجيل، بيروت
- ↑ انساب الاشراف، ج3، ص192
- ↑ تاریخ طبری، ج5، ص434؛ وقعہ الطف، أبو مخنف، ص223