محمد ادریس عنبرؔ بہرائچی کی ولادت 7 مئی 1949ء کو ضلع بہرائچ کے ترقیاتی حلقہ مہسی کے سکندر پور علاقہ میں ہوئی ۔ آپ کے والد کانام جمیل احمد جمیلؔ بہرائچی تھا۔آپ7مئی2021کو وفات پاگئے۔

عنبر ؔبہرائچی
پیدائشمحمد ادریس
7 مئی 1949ء[1]
سکندر پور ،مہاراج گنج ،مہسی ضلع بہرائچ، یوپی، انڈیا
پیشہسرکاری ملازمت سے سبکدوش
زباناردو،ہندی
قومیتبھارتی
نسلبھارتی
شہریتبھارتی
تعلیمایم۔اے
اہم اعزازاتساہتیہ اکادمی ایوارڈ[2]
شریک حیاتشائستہ عنبر

تعلیم ترمیم

عنبر بہرائچی نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جعرافیہ میں ایم۔اے کیا اور صحافت کا ڈپلوما بھی حاصل کیا۔بعد میں پو۔پی کے سول سروس کے مقابلہ جاتی امتحان میں بیٹھے اور کامیاب ہوئے مختلف عہدوں پر فائز رہے۔

حالات ترمیم

عنبر ؔ بہرائچی اپنی تصنیف ″روپ انوپ ″ میں اپنے حالت لکھتے ہیں کہ

جب میں پانچ برس کا تھا ،یہ میری زندگی سے متعلق جیٹھ مہنیے کی تپتی ہوئی دپریاں تھیں ۔میری خوش بختی اور اللہ رب العزت کااحسان کہ میرے والد مرحوم جمیل احمد جمیلؔ صاحب اور میرے تیسرے چچا محمد افتخار صاحب نے گاؤں میں ہر جمعرات کو برپا ہونے والی میلاد کی محفلوں میں نعت خوانی کی تہذہب سکھائی ۔چونکہ خوش آواز تھااس لیے قرب و جوار کی ان محفلوں میں نعت خوانی کرتا رہتا تھا۔اکبر ؔوارثی میرٹھی مرحوم اور فاضلِ بریلوی مولانا احمد رضا خاں صاحب کی نعتیں اور سلام نے سرشار کر رکھا تھا۔اس پاکیزہ مشغلے نے مجھے ثابت قدم رکھا اور عملی زندگی کے تاریک پہلوؤں کا سایہ نہیں پڑنے دیاورنہ میرے جیسا بہت کمزور شخص خود کسی لائق نہیں تھا۔مسیں بھیگنے لگیں تو اپنے گہوارے کی زبان اودھی میں نعتیہ گیت لکھنے لگا اور اپنے گاؤں کے اطراف برپا ہونے والی نعتیہ محفلوں میں پڑھتا رہا۔لوگ خوش ہوکر دعائیں دیتے رہے ۔

خدمات ترمیم

عنبر بہرائچی اپنی تصنیف ″روپ انوپ ″ میں لکھتے ہیں کہ

ایم۔اے کرنے کے بعد تقریباً چھو ہفتے لکھنؤ میں گزارے ۔اسی دوران استاد بابا جمال ؔ بہرائچی مرحوم نے میرا تخلص عنبرؔ تجویز فرمایا ۔اللہ انھیں غریق رحمت کرے۔یہاں کی نعتیہ محفلوں میں کشفیؔ لکھنوی ،بشیر ؔ فاروقی ،ملک زادہ منظور احمدؔ ،والی ؔآسی،تسنیم ؔفاروقی،حیات ؔوارثی ،ہمسرؔ قادری،فہمیؔ انصاری ،رئیس ؔ انصاری،صائم ؔسیدین پوری،ثرور نواز اور اپنے ہم وطن اثرؔ بہرائچی کا ساتھ رہا۔اسی برس یعنی 1973ء میں الہ آباد پہنچا۔دائرہ شاہ محمدی،کہولن ٹولہ اور دائرہ شاہ اجمل کی محفلوں نے اس مشغلے کو مہمیز کیا۔1972ء میں ہی عربی یونی ورسٹی مبارک پور کے افتتاحی جلسے میں ہزاروں علما ء کی موجودگی میں حافظ ملت حضرت مولانا عبد العزیز صاحب کی دعائیں حاصل ہوئی اسی جلسے کئی اور یہیں حضرت مولانا ارشدالقادری اور دوسرے اہم علما ءِ کرام نے بھی میری حوصلہ افزائی کی۔مولانا قمرالزماں صاحب ،مولانا بدر القادری صاحب اور مولانا شمیم گوہر صاحب سے بھی نیاز حاصل ہوا۔اس زمانے میں نعتیہ مشاعروں اور دینی محفلوں میں پدم شری بیکل ؔاتساہی اور اجمل سلطانپوری کی طوطی بولتی تھی۔

[3]

پروفیسر وہاب اشرفی اپنی کتاب ’’تاریخ اردو ادب ‘‘ جلد سوم میں عنبر صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ {{اقتباس| عنبر بہرائچی نے اس وقت سے لکھنا شروع کیا جب وہ ہائی اسکول کے طالب علم تھے۔اردو کے علاوہ ہندی اور انگریزی میں بھی لکھتے ہیں۔’’اقبال:ایک ادھین‘‘1985 ء میں ہندی میں شائع ہوئی تھی۔1987ء آپ نے ایک رزمیہ قلمبند کیا جس کا نام تھا’’مہابھشکرمن ‘‘ یہ مہاتما بدھ کی تعلیمات پر مبنی ہے۔پھر نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ’’ڈوب ‘‘ کے نام سے شائع ہوا ۔’’سوکھی ٹہنی پر ہریل ‘‘ 1995ء میں شائع ہوئی۔اس پر آپ کو ساہتیہ اکادمی انعام [4]بھی حاصل ہوا۔اس کے بعد 1996ء میں ایک اور ایپک ’’لم یات نظیرک فی نظر‘‘ جو حضرت محمدﷺکی تعلیمات کے باب میں ہے شائع ہوئی۔ آپ کی ایک اہم کتاب ’’سنسکرت شعریات ‘‘ہے یہ کتاب 1999ء میں شائع ہوئی۔ان کی غزلوں کا ایک مجموعہ ’’خالی سیپیوں کا اضطراب ‘‘2000ء میں شائع ہوئی۔‘‘ آگے پروفیسر وہاب اشرفی صاحب لکھتے ہیں کہ ’’عنبر ؔ بہرائچی کی حیثیت منفرد ہے۔ان کی شاعری کا ایک سرسری مطالعہ بھی بتا دے گا کہ شمالی ہندوستانی بولیوں پر ان کی کتنی گہری نظر ہے۔اودھی ،برج،بھوجپوری سے ان کی واقفیت کا ہر قدم پر احساس ہوتاہے۔لیکن یہی نہیں بلکہ اس تعلق سے متعلقہ تہذیبی اور ثقافتی زندگی سے بھی ان کی آشنائی قابل لحاظ ہے۔ان کی شاعری کا پس منظر عام طور سے ہندوستان کی دیہی زندگی اور معاشرت پر مبنی ہے۔آپ نے جو ادبی رزمیہ قلمبند کیا ہے اس کی ہیئت کچھ قدیم سنسکرت کے متن پر ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ قصیدہ اور غزل کی جو محترم روایات رہی ہیں ان پر بھی گہری نظر ہے۔ {{اقتباس| 1979ء میں عنبر ؔ بہرائچی صاحب کا انتخاب سول سروس میں ہو گیا اور اترپردیش کے مختلف اضلاع میں اہم عہدوں پر فائز رہے ۔آپ کو 2000ء میں شعری مجموعہ ’’سوکھی ٹہنی پر ہریل ‘‘ کے لیے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔آپ نے اردو،ہندی اور اودھی زبان میں کئی کتابیں تصنیف کئی ہیں۔آپ سنسکرت شعریات کے ماہ رہے۔آپ کی سنسکرت شعریات پر کئی کتابیں شائع ہو کر منظر عام پر آ کر داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ جن میں اہم کتابوں کے نام اس طرح ہیں۔ مہا بھنشکرمن،سنسکرت بوطیقا،شنسکرت شعریات ،آنند وردھن اور ان کی شخصیت ،روپ انوپ،خالی سیپوں کا اضطراب ،ڈوب،گمنام جزیروں کی تمکنت ،اقبال ایک ادھین وغیرہ۔ ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد آپ نے لکھنؤ میں سکونیت اختیار کی اور وہیں رہتے ہے۔آپ کی اہلیہ محترمہ شائشتہ عنب رہے۔جو حقوق نسواں کے لیے کام کرتی ہے۔[5]

حوالہ جات ترمیم

  • روپ انوپ
  • تاریخ اردو ادب جلد سوم از پروفیسر وہاب اشرفی
  • تذکرۂ شعرائے ضلع بہرائچ

بیرونی روابط ترمیم