عامرعبدالرحمن چیمہ
اس مضمون یا قطعے کو عامر چیمہ میں ضم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ |
عامرعبدالرحمن چیمہ رحمۃ اللہ علیہ 4 دسمبر 1977ء کو اپنے ننھیال خافظ آباد میں پیدا ہوئے جبکہ آپ کے والد پروفیسر نذیر احمد چیمہ کا آبائی گھر ساروکی چیمہتحصیل وزیرآباد ضلع گوجرانوالہ ہے عامر عبد الرحمن رحمۃ اللہ علیہ ان کے اکلوتے بیٹے جبکہ تین بیٹیاں ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے آپ مینشن گلاڈباخ یونیورسٹی آف اپلائیڈ سائنسز جرمنی میں زیر تعلیم تھے۔
وقوعہ
ترمیمڈنمارک کے ایک اخبار Die Welt نے اپنے خبث باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گستاخانہ خاکے شائع کرکے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی سخت دل آزاری کی۔ مزید 15 یورپی ممالک (جو انسانی حقوق کی بانسری بجاتے نہیں تھکتے) کے اخبارات نے اس بدبخت اخبار کی جسارت کو دوبارہ دہرایا۔ ایک جرمن اخبار نے بھی اس شرمناک حرکت میں حصہ لیا۔ آپ کی غیرت ایمانی نے چاہا کہ اس اخبار کے مدیر کو اس کی اس حرکت پر تنبیہ کریں اس کے لیے ایک شکاری چاقو خریدا 20 مارچ 2006ء کو وہ Die Welt اخباربرلن آفس میں ایڈیٹر کی موجودگی کا پتہ چلنے پراندر داخل ہونے لگے مگر سخت حفاظتی اقدامات کے باعث سیکورٹی گارڈ نے روکنے کی کوشش کی تو عامر چیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا میں نے اپنے جسم کے ساتھ بم باندھ رکھا ہے اس طرح وہ چیف ایڈیٹر کے دفتر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ایڈیٹر پر جاتے ہی حملہ آور ہو گئے اس حملے سے ایڈیٹر کا پیٹ چاک کر دیا اس سے پہلے کہ اس کا کام تمام ہوتا عملہ نے عامر چیمہ کو قابو کر لیا اس زخمی ایڈیٹر کو فوراً اسپتال لے جایا گیا وقتی طور پر بچ گیا لیکن انہی زخموں سے وہ جانبر نہ ہو سکا اور جرمن پولیس نے آپ کو گرفتار کر لیا لیکن امت مسلمہ کو عامر چیمہ نے پیغام دے دیا کہ میں نے فرض ادا کر دیا۔[1]
ایک حقیقت
ترمیمعامرچیمہ کے والد کے مطابق عامر نے اس ایڈیٹر سے پہلے وقت لیا اس سے اخبار Die Welt کے دفتر کی ساتویں منزل پر ملاقات کی اس ایڈیٹر سے کارٹون چھاپنے کی تصدیق کی جب اس نے اعتراف کر لیا تو اس پر خنجر سے وار کیے جب واپس ہو رہا تھا تو اس کے کپڑوں پر خون کے نشان دیکھ کر پکڑنے کی کوشش کی جس پر عامرچیمہ نے جسم پر بم باندھنے کا اعلان کیا ایمر جنسی کال دی گئی جس کے بعد عامر چیمہ کو گرفتار کیا گیا[2]
شہادت
ترمیمغازی عامر چیمہ کے اس عمل کو ہر طرح سے خفیہ رکھنے کی کوشش کی گئی ۔ جس میں پاکستانی حکومت اور مشرف پے بیرونی آقاوں کا دباو تھا۔ جرمنی کے شہر برلن کی بدبخت جیل میں آپ پر45 دن تک بے پناہ تشدد کیا گیا جس کے باعث 3 مئی 2006ء کو آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ آپ کی شہادت کے بعد آپ کے جسد خاکی کو پاکستانی حکام کے حوالے نہ گیا۔ جس پے متعدد مظاہرے کیے گے اور سنی مکتب فکر کے جید علما کرام و مشائخ اور طلبہ نے حصہ لیا۔ حکومت پے دباو بڑھنے کی وجہ سے جرمن حکام کو جسد خاکی پاکستانی حکام کے حوالے کرنا پڑا۔ جبکہ جرمن حکومت نے اسے خود کشی قرار دیا۔
تدفین
ترمیمآپ کے اہل خانہ ایک عرصہ دراز سے راولپنڈی میں مقیم ہیں اور ان کا اپنے آبائی علاقے ساروکی چیمہ سے تعلق برائے نام ہے۔ اسی وجہ سے آپ کو راولپنڈی میں سپرد خاک کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مگر مشرف حکومت کہاں ایک شہید کی دار الحکومت کے قرب وجوار میں تدفین برداشت کرسکتی تھی۔ اس لیے ارباب اختیار نے آپ کی راولپنڈی میں تدفین کی اجازت نہ دی اور آپ کو زبردستی آپ کے آبائی گاؤں ساروکی چیمہ میں سپردخاک کروا دیا گیا۔[3]