غزوہ بنی نضیر
بنی نضیر فلسطین کے باشندے تھے۔ 132ء میں رومیوں کی سخت روی کی وجہ سے یہودیوں کے چند قبائل جن میں بنی نضیر اور بنو قریظہ شامل تھے فلسطین کو چھوڑ کر یثرب میں آکر آباد ہو گئے۔ بنی نضیر مدینہ میں قباء کے قریب مشرقی جانب آکر آباد ہو گئے تھے۔ اس وقت مدینہ میں عرب قبائل میں سے بنی اوس اور بنی خزرج ممتاز قبائل تھے یہ دونوں یہودی قبائل بنی نضیر کے خزرج اور بنو قریظہ اوس کے حلیف بن گئے۔ اور بنی اوس اور بنی خزرج کی باہمی لڑائیوں میں اول الذکر کا ساتھ دیتے رہے۔ جب نبی کریم ﷺ ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف فرما ہوئے تو آپ نے ہر دو عرب قبائل اور مہاجرین کو ملا کر ایک برادری بنائی اور مسلم معاشرہ اور یہودیوں کے درمیان واضح شرائط پر ایک معاہدہ طے کیا۔ لیکن یہودی قبائل اور خاص کر بنی نضیر ہمیشہ منافقانہ رویہ اختیار کیے رہے۔ یہاں تک کہ 4 ھ میں انھوں نے رسول کریم ﷺ کے قتل کی سازش کی جس کا بروقت آپ کو علم ہو گیا۔ جس پر آپ نے ربیع الاول 4ھ میں انھیں الٹی میٹم دے دیا۔ کہ پندرہ دن کے اندر اندر یہاں سے نکل جائیں۔ لیکن جب انھوں نے لڑائی کی ٹھان لی تو مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کر لیا جس پر وہ ملک شام اور خیبر کی طرف نکل گئے۔ بنی نضیر کو یہ گھمنڈ تھا کہ یہودی اور عرب قبائل کی مدد سے وہ مسلمانوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ لیکن خدائی طاقت کے سامنے بہت جلد ان کو ہار مان کر اپنی بستی کو چھوڑ کر چلے جانا پڑا[1] یہودیوں کا ایک قبیلہ جو مدینہ منورہ کے نواح میں آباد تھا۔ یہ لوگ بار بار مسلمانوں سے عہد باندھتے اور پھر توڑ دیتے ایک موقع پر انھوں نے حضور ﷺ کے قتل کی سازش بھی کی لیکن بروقت مطلع ہو جانے پر آپ صاف بچ گئے۔ بنو نضیر کی وعدہ خلافیوں اور سازشوں سے تنگ آکر آپ نے ان کے قلعے کا محاصرہ کر لیا جو پندرہ دن تک جاری رہا۔ بالآخر 4ھ میں بنو نضیر نے صلح کے لیے التجا کی۔ قرار پایا کہ وہ مدینہ خالی کر دیں۔ اور جو مال اسباب اٹھا کر لے جا سکتے ہوں لے جائیں۔ بنو نضیر یہاں سے اٹھ کر خیبر میں جا بسے۔ انہی لوگوں نے قریش کو ایک بار پھر مدینے پر حملہ کرنے کے لیے اکسایا۔ جس میں قریش کے علاوہ دوسرے قبیلے بھی شریک ہوئے۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ انوار البیان فی حل لغات القرآن جلد4 صفحہ229 ،علی محمد، سورۃالحشر، آیت2،مکتبہ سید احمد شہید لاہور