غلام احمد چشتی

پاکستانی موسیقار

غلام احمد چشتی المعروف بابا جی اے چشتی (انگریزی: Ghulam Ahmed Chishti) (پیدائش: 17 اگست، 1905ء - وفات: 25 دسمبر، 1994ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے برصغیر پاک و ہند کے نامور فلمی موسیقار تھے۔ لازوال دھنوں کے خالق شہرۂ آفاق بھارتی موسیقار خیام ان کے شاگرد تھے۔

جی اے چشتی
معلومات شخصیت
پیدائش 17 اگست 1905(1905-08-17)ء
جالندھر، برطانوی ہندوستان
وفات 25 دسمبر 1994(1994-12-25) (عمر  89 سال)
لاہور، پاکستان
وجہ وفات دورۂ قلب   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قومیت پاکستان کا پرچمپاکستانی
عملی زندگی
پیشہ نغمہ ساز ،  غنائی شاعر ،  نغمہ نگار   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ شہرت موسیقار
صنف فلمی موسیقی
اعزازات
صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی
IMDB پر صفحات[1]  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حالات زندگی

ترمیم

جی اے چشتی 17 اگست، 1905ء کو جالندھر، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے[2][3]۔ ان کا پورا اور اصلی نام غلام احمد چشتی تھا۔ بچپن سے بابا چشتی موسیقی کے شیدائی تھے اور اسکول میں نعت خوانی کے لیے شہرت رکھتے تھے۔ کچھ عرصے بعد وہ لاہور میں آئے تو برصغیر میں اسٹیج ڈراموں کی ترویج کرنیوالے آغا حشر کاشمیری نے بابا چشتی کی صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے انھیں اپنی کمپنی میں ملازمت دیدی، جہاں انھیں موسیقی کی تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔[3]

بابا چشتی نے ہی لاہور میں میڈم نورجہاں کو 1935ء میں ایک اسٹیج ڈرامے میں متعارف کروایا تھا، انھوں نے 1936ء میں دین و دنیا کے نام سے بنائی جانے والی فلم کی موسیقی دے کر اپنے فلمی کریئر کا آغاز کیا۔ تقسیم ہند سے قبل انھوں نے کئی فلموں کی موسیقی دی[3]۔ 1949ء میں جب وہ پاکستان آئے تو اس وقت تک وہ 17 فلموں کی موسیقی ترتیب دے چکے تھے جن میں فلم سوہنی ماہیوال اور شکریہ کے نام سرفہرست تھے۔ پاکستان میں بابا چشتی کی پہلی فلم شاہدہ تھی یہاں انھوں نے مجموعی طور پر 152 فلموں کی موسیقی ترتیب دی اور 5000 سے زیادہ نغمات تخلیق کیے۔[2]

ان کی مشہور فلموں میں پھیرے، مندری، لارے، گھبرو، بلو، سسی، پتن، نوکر، دلا بھٹی (پنجابی فلم)، لخت جگر، ماہی منڈا، مس 56، یکے والی، گمراہ، خیبر میل، مٹی دیاں مورتاں، رانی خان، عجب خان، ڈاچی، چن مکھناں، ماں پتر، قادرا، چن پتر، بھائی چارہ، رب راکھا، غیرت تے قانون، چن تارا اور قاتل تے مفرور شامل ہیں۔ بابا چشتی نے جن گلوکاروں کو فلمی صنعت سے متعارف کروایا ان میں ملکہ ترنم نورجہاں، زبیدہ خانم، سلیم رضا، نسیم بیگم، نذیر بیگم، مالا، مسعود رانا اور پرویز مہدی کے نام شامل ہیں جبکہ ان کے شاگرد موسیقاروں میں رحمن ورما اور شہرۂ آفاق بھارتی موسیقار خیام کے نام سرفہرست ہیں۔[2]

فلمی موسیقی

ترمیم

اردو

ترمیم

پنجابی

ترمیم

مشہور نغمات

ترمیم
  • اے جذبہ دل گر میں چاہوں
  • میری چنی دیاں ریشمی تنداں
  • چن میرے مکھناں
  • تانگے والا خیر منگدا نے

اعزازات

ترمیم

حکومت پاکستان نے جی اے چشتی کی فنی خدمات کے اعتراف کے طور پر انھیں1989ء کو صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔[3]

وفات

ترمیم

جی اے چشتی 25 دسمبر، 1994ء کو لاہور، پاکستان میں حرکت قلب بند ہوجانے کے باعث وفات پاگئے۔ وہ لاہور میں قبرستان سوڈے والی، ملتان روڈ میں سپردِ خاک ہوئے۔[2][3]

مزید دیکھیے

ترمیم
  • پیر کاشف علی چشتی

حوالہ جات

ترمیم