غلام عباس (افسانہ نگار)

اردو افسانہ نگار

غلام عباس 17 نومبر 1909ء میں امر تسر (چند محققین کی رائے میں 1907) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم لاہور کے دیال سنگھ ہائی اسکول سے حاصل کی ۔ لکھنے لکھانے کا شوق فطرت میں داخل تھا۔ ساتویں جماعت میں ایک کہانی "بکری" لکھی۔ کہانی استاد محترم مولوی لطیف علی کو دکھائی۔ جنھوں نے حوصلہ افزائی فرمائی تو یہ شوق اور بڑھا۔ نویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے اس قابل ہو گئے کہ انگریزی نظموں اور کہانیوں کا اردو میں ترجمہ کر سکیں۔

غلام عباس (افسانہ نگار)
معلومات شخصیت
پیدائش 17 نومبر 1909ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
امرتسر   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 2 نومبر 1982ء (73 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان [1]
برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلاماسلام
عملی زندگی
پیشہ افسانہ نگار ،  ناول نگار ،  بچوں کے مصنف ،  شاعر ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت آل انڈیا ریڈیو   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں آنندی، جاڑے کی چاندنی، کن رس، الحمرا کے افسانے، جزیرہ سخن وراں
اعزازات
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

ادبی زندگی

ترمیم

ان کی باقاعدہ ادبی زندگی کا آغاز 1925ء میں ہوا۔ 1925ء سے 1928ء تک غیر ملکی افسانوں کے ترجمے کرتے رہے۔ رسالہ ہزار داستان کے مدیر حکیم احمد شجاع پاشا کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت انھوں نے متعدد عالمی ادب کی اصناف کو اردو میں قلب میں ڈھالا۔ فی ہفتہ 5 روپے کے عوض ٹالسٹائی کے ناول The Long Exile کا اردو ترجمہ جلاوطن کے عنوان سے کیا۔ حکیم یوسف حسن کے رسالہ تازیانہ میں بھی تراجم اور کہانیاں لکھیں۔ اس کے علاوہ اپنے زمانے کے مشہور ادبی رسالوں میں ادب کے جوہر دکھاتے رہے۔ چند رسالوں کے نام جن کے لیے غلام عباس نے لکھا:

چراغ حسن حسرت کے رسالہ شیرازہ میں اپنا مشہور افسانہ "جزیرہ سخنوراں" سال 1936 سے 1937 میں شائع کروایا۔ یہ افسانہ مشہور فرانسیسی طنز نگار "آندرے مورووا" کی تصنیف "ووژا اوپے ای دیزارتی کول" سے متاثر ہو کر لکھا۔

مدیر ادبی رسائل

ترمیم

1928ء سے 1937ء تک بچوں کے رسالوں (پھول) اور (تہذیب نسواں) کے ایڈیٹر رہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران میں آل انڈیا ریڈیو سے منسلک رہے۔ آل انڈیا کے اردو ہندی رسالے (آواز) اور (سارنگ) کے مدیر بھی رہے۔ اسی دور میں کئی شاہکار افسانے بھی تخلیق کیے۔ تقسیم کے بعد پاکستان آ گئے اور ریڈیو سے وابستہ رہے اور اس کے رسالے آہنگ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔

ملازمت

ترمیم

ملازمت کے دوران افسانہ نگاری کی طرف توجہ کی اور چند کامیاب افسانے لکھ کر اردو افسانہ نگاری میں نمایاں حیثیت حاصل کر لی۔

اردو ادب میں مقام

ترمیم

بحثیت افسانہ نگار غلام عباس کا نام اردو کے افسانہ نگاروں میں ایک منفرد اور اعلیٰ مقام کا حامل ہے، گو کہ انھوں نے بہت کم افسانے لکھے لیکن جتنے لکھے بہت خوب لکھے۔ غلام عباس کے افسانوں میں صداقت، واقعیت اور حقیقت پسندی کا وہ جوہر جھلکتا ہے جو افسانہ نگاری کی جان ہوتا ہے۔ ان کے کردار ہمارے روز مرہ زندگی اور معاشرے ہی کے چلتے پھرتے اور جیتے جاگتے کردار ہیں ۔

تصنیفات

ترمیم

افسانوی مجموعے

ترمیم
  • آنندی، 1948ء
  • جاڑے کی چاندنی، 1960ء<
  • کن رس، 1969ء
  • رینگنے والے، 1980ء

ناولٹ

ترمیم
  • گوندنی والا تکیہ، 1936ء
  • جزیرہ سخن وراں، 1941ء
  • دھنک، 1969ء

بچوں کا ادب

ترمیم
  • الحمرا کے افسانے، 1931ء
  • چاند تارا (نظمیں)،
  • ننھی کی گڑیا، 1936ء

تراجم

ترمیم
  • جلا وطن، از لیو ٹالسٹائی
  • بے چارہ سپاہی[2]
  • صدر ایوب کی کتاب فرینڈ ناٹ ماسٹرز کا ترجمہ، جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی کے نام سے
دیگن
  • چار چھوٹے ناٹک، 1936ء[3]

وفات

ترمیم

غلام عباس 2 نومبر 1982ء کو کراچی میں وفات پاگئے اور سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb162701300 — اخذ شدہ بتاریخ: 25 مارچ 2017 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. کلیات غلام عباس، غلام عباس، ترتیب و تعارف محمد عاصم بٹ، صفحہ 7 تا 11
  3. غلام عباس۔ "چار چھوٹے ناٹک برقی کتاب از غلام عباس"۔ ریختہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 جنوری 2019