فاعل

یہ علم نحو کی ایک اصطلاح ہے اور لغت میں 'فاعل' وہ شخص ہے، جو کسی فعل کو انجام دے۔

فاعل علم صرف کی اصطلاح میں ایسے اسم کو کہتے ہیں، جو رفع کی حالت میں ہو؛ یا رفع کی جگہ میں ہو؛ گو کسی سبب سے اس پر رفع کی کوئی علامت نہ ہو اور اس سے پہلے کوئی فعل تام فاعل کے ذکر کے ساتھ ہو؛ یا کوئی شبہ فعل ہو اور اس فعل تام یا شبہ فعل کی اسناد (نسبت) فاعل کی طرف کی گئی ہو۔ اور لغت (زبان) کے اعتبار سے کسی فعل کے انجام دینے والے کو 'فاعل' کہا جاتا ہے۔ جیسے: «قَرَأَ الطَّالِبُ» (طالب علم نے پڑھا) چناں چہ طالبِ ہی وہ شخص ہے، جس نے پڑھنے کا فعل انجام دیا۔ نیز فاعل اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے، جس کے ساتھ فعل قائم ہو؛ یا جس سے فعل جڑا ہوا ہو؛ یا جس کی طرف فعل کی نسبت کی گئی ہو؛ اس سے قطع نظر کہ حقیقۃً اس نے کام کو انجام دیا۔ جیسے: «اِنكَسرَتِ الزُّجَاجَةُ» (شیشہ ٹوٹ گیا) تو یہاں شیشہ نے فعل کو خود انجام نہیں دیا؛ بل کہ خود فعلِ کسر شیشہ پر واقع ہوا [1][2] یہاں تک مکمل تعریف صادق آجاتی ہے اور فاعل وہ بھی ہے، جو فعل کو اسی وقت انجام دے۔ جیسے: «یَقْرَأُ الطَّالِبُ» (طالب علم پڑھتا ہے) اور فاعل وہ بھی ہے، جو فعل کو مستقبل (آنے والے زمانہ) میں انجام دے۔ جیسے: «سَیَقْرَأُ الطَّالِبُ» (طالب علم پڑھے گا) [3] اور فاعل جملہ فعلیہ کے ارکان میں دوسرا رکن ہے، اس حیثیت سے فاعل؛ فعل کے ساتھ مل کر ایک جملہ کو ارکان کے اعتبار سے مکمل بنا دیتا ہے۔[2] اور یہ ضروری نہیں کہ فعل کے فوراً بعد فاعل آجائے، کبھی فاعل اپنے فعل سے ایک سے زائد فاصل سے ہٹ کر ہوتا ہے [4] اور فاعل صریح ہوتا ہے یا اسم صریح کے ذریعہ تاویل شده ہوتا ہے [5] فاعل میں رفع کبھی ظاہری ہوتا ہے اور کبھی محلی یا تقدیری اور فاعل ہمیشہ مرفوع نہیں ہوتا؛ بل کہ کبھی لفظاً مجرور اور محلاً مرفوع ہوتا ہے [6] اس لیے کہ فاعل کا تصور کرتے وقت ذہن میں ایک معروف و معلوم شخص آتا ہے؛ برخلاف مبنی للمجہول جملوں کے کہ جہاں فاعل محذوف ہوکر فعل مجہول ہوجاتا ہے [7] اور فاعل یا تو اسم ظاہر ہوتا ہے یا اسم ضمیر یا اسم مستتر۔ اور فاعل مصدر مؤول بھی ہو سکتا ہے اور بہت کم ہوتا ہے کہ جملہ فاعل ہو۔ اور ممکن ہے کہ فاعل مذکر ہو یا مؤنث ہو یا مفرد ہو یا تثنیہ کا صیغہ یا جمع مذکر سالم یا جمع مونث سالم ہو یا جمع مکسر ہو۔ [1][8][9] اور فاعل اسمِ معرب ہوتا ہے یا اسمِ مبنی۔ اور فاعل اس وقت مبنی ہوتا ہے، جب وہ اسمِ ضمیر یا اسم اشارہ یا اسم موصول یا اسمائے مبنیہ میں سے کوئی ہو۔[10]

فاعل کے اقسام
اسم ظاهر
نوع (باعتبارِ عدد) علامتِ اِعراب مثال
مفرد ضمّہ (اصل علامت) ذَهَبَ أَحمَدُ
مُثنّٰى (تثنیہ کا صیغہ) الف (فرعی علامت) نَجَحَ الطَالِبَانِ
جمع مذكر سالم واو (فرعی علامت) اجتَهَدَ العَامِلُونَ
جمع مؤنث سالم ضمّہ (اصل علامت) اجتَهَدَتِ العَامِلاتُ
جمع تكسير ضمّہ (اصل علامت) اجتَهَدَ العُمَّالُ
ضمائر مستترہ
ضمير مستتر (پوشیدہ ضمیر) نوع استتار (پوشیدگی کی قسم) مثال
واحد غائب (مذکر) زیادہ تر مقدمات میں جائز الكَاتِبُ كَتَبَ
واحد غائب (مؤنث) زیادہ تر مقدمات میں جائز الكَاتِبَةُ كَتَبَت
واحد مُخاطَب (حاضر) واجب (ضروری) هَل سَتَحضُرُ الحَفلَ؟ (صیغہ مضارع)
اُحضُرِ الحَفلَ (صیغہ امر)
متكلم
(فقط مضارع)
واجب (ضروری) سَأُغَادِرُ الآنَ
ضمائر متصلہ
ضمير متصل استعمال مثال
تائے فاعل صیغہ واحد متکلم کے لیے / صیغہ واحد حاضر کے لیے كَتَبتُ كِتَاباً (متکلم کے لیے)
كَتَبتَ كِتَاباً (حاضر کے لیے)
نون تانیث صیغہ جمع مؤنث غائب کے لیے سَمِعنَ كَلَاماً
واوِ جمع صیغہ جمع مذکر غائب کے لیے استَمَعُوا إِلَى المِذيَاعِ
الفِ تانیث صیغہ تثنیہ غائب کے لیے ذَهَبَا إِلَى العَمَلِ (مذكر)
ذَهَبَتَا إِلى العمل (مؤنث)
يائے خطاب صیغہ حاضر مؤنث کے لیے انتَبِهِي إِلَى الدَرسِ
”نا“ئے متکلم صیغہ جمع متکلم کے لیے شَهِدنَا حَادِثاً
ضمائر منفصلہ
ضمير منفصل کی قسم ہدایات مثال
ضمائر منفصلہ کے تمام اقسام۔
غائب ،متكلم اور مخاطب سے
مفرد ،تثنیہ اور جمع تک
مذکر /
یا مؤنث ضمائر تک سبھی کے لیے
شرط ہے کہ
ضمير منفصل ہو تاکہ
حصر کا فائدہ دے۔ اور زیادہ مشہور بات
یہ ہے کہ حصر کا فائدہ «إِلَّا» کے ذریعہ ہوتا ہے۔
لَم يَنجَح إِلَّا أَنتَ
مصادر مُؤوَّلہ (تاویل شده مصادر)
مصدر مُؤوَّل مثال
”أنَّ“ اور اس کے دونوں معمول يُسعِدُنِي أَنَّكَ بِخَيرٍ
”أَنْ“ اور فعل مضارع يُرِيحُنِي أنْ يَنتَشِرَ الأَمنُ
”ما“ اور فعل ماضی يُطرِبُنِي مَا قُلتَهُ مِن شِعرٍ


اور فاعل کو اس کے آخر میں ضمہ ظاہرہ ــُ دے کر رفع دیا جاتا ہے، جیسے: قَامَ الوَلَدُ اور جب فاعل مثنی (تثنیہ کا صیغہ) ہو تو اسے 'الف' کے ذریعہ رفع دیا جاتا ہے، جیسے: جَاءَ الرَّجُلَان اور جب فاعل جمع مذکر سالم ہو تو اسے 'واو' کے ذریعہ رفع دیا جاتا ہے، جیسے: صَلَّى المُؤمِنُون۔ [11] اور فاعل کے مرفوع ہونے میں عاملِ اصلی؛ فعل ہی ہوتا ہے اور فرعی عوامل ایسے اسماء پر مشتمل ہوتے ہیں جو عمل اور معنئ حدثی میں فعل کے مشابہ ہوتے ہیں؛ لیکن ان کے علاوہ دوسری چیزوں میں فعل کے مخالف ہوتے ہیں؛ اسی لیے ایسے اسماء کو اسمائے شبہ فعل کہا جاتا ہے اور اسمائے شبہ فعل یہ ہیں: اسم فعل، مصدرِ عامل اور مشتقات؛ جیسے: اسم فاعل، صفت مشبہ، اسم تفضیل اور اس کی طرف اضافت کیے ہوئے اسم مصدر۔


عموماً فاعل کو حذف کرنا جائز نہیں ہوتا ہے۔ اور جب جملہ کے اندر فاعل موجود نہ ہو تو زیادہ راجح قول کے مطابق؛ فاعل مستتر (پوشیدہ) ہوتا ہے، علاوہ ازیں اس صورت میں بعض مخصوص حالتیں ہوتی ہیں، جن کی نشان دہی؛ نحویین نے اپنی تالیفات میں کی ہیں، جن میں وجوب یا جواز کے طریقہ پر فاعل کو حذف کرنا درست ہے۔ اور ان مخصوص حالات میں سے زیادہ مشہور و کثیر الاستعمال یہ ہے کہ جب فعل مبنی للمجہول ہو تو فاعل کو وجوبًا حذف کرکے اسے فاعل کی جگہ بطورِ نائب فاعل رکھ دیا جاتا ہے؛ جو عام طور پر مفعول بہ ہوتا ہے۔

فاعل کے تین احکام ترمیم

فاعل کے تین حکم ہیں؛ وہ یہ ہیں:

  1. فاعل اپنے فعل سے پہلے نہیں آتا؛ لہٰذا «قام أخوك» کی جگہ «أخوك قام» کہنا غلط ہوگا؛ بل کہ «أخوك قام هو» کہا جائے گا۔ اس بات کا اعتبار کرتے ہوئے کہ «هو» ضمير مستتر؛ محلِ رفع میں ہوکر ”قامَ“ کا فاعل ہے اور جملہ فعلیہ محلِ رفع میں ہوکر «أخوك» مبتدا کی خبر ہے۔
  2. فاعل تثنیہ کا صیغہ ہو تو فعل تثنیہ کا صیغہ نہیں لایا جاتا اور فاعل جمع کا صیغہ ہو تو فعل جمع کا صیغہ نہیں لایا جاتا، چناں چہ «جاءا الطالبان» کہنا غلط ہوگا اور صحیح «جاء الطالبان» ہے؛ اس لیے کہ یہ صحیح نہیں ہے کہ فعل دو فاعل اختیار کرلے: ایک تثنیہ کا الف، دوسرا خود «الطالبان»۔ اور جو حکم تثنیہ کا ہے، وہی جمع کا بھی ہے یعنی فاعل جمع ہو تو فعل واحد آئے گا، جیسے «جاء الطلاب» صحیح ہے اور «جاؤوا الطلاب» غلط۔
  3. عام طور پر جب فاعل مؤنث ہو تو فعل پر تانیث کی علامت داخل ہوتی ہے اور جب فاعل مذکر ہو تو فعل پر تانیث کی علامت داخل نہیں ہوتی ہے، ہاں! جہاں تانیثِ فعل کی دوسری علامتیں موجود ہوں؛ جیسے: فاعل کا تانیثِ حقیقی، تانیثِ مجازی یا تانیثِ لفظی کے اقسام میں سے ہونا، اسی طرح فاعل کا ایسی جگہ واقع ہونا؛ جہاں فاعل اور اس کے فعل کے درمیان فواصل آجائیں اور تذکیر و تانیث کے باب میں فعل کے علاوہ کئی دیگر عوامل؛ فعل کے مشابہ ہوتے ہیں۔ اور کئی جگہوں پر فعل کے مؤنث ہونے کے خصوصی قواعد؛ شبہ فعل کے مؤنث ہونے پر منطبق (فِٹ) ہوتے ہیں۔ بہر حال جہاں تک فعل کے؛ عدد پر دلالت کا تعلق ہے تو فعل ہمیشہ واحد کا صیغہ ہوگا جب بھی فاعل کی وضع (بناوٹ)؛ عدد کے اعتبار سے ہو۔ نیز یہی قواعد فعل کے علاوہ کئی دیگر عوامل پر صادق آتے ہیں۔

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب محمد أبو العباس، ص. 63
  2. ^ ا ب سليمان الفياض، ص. 108
  3. عباس حسن، ص. 63
  4. فؤاد نعمة، ص. 45
  5. محمد عيد، ص. 396-397
  6. الدروس النحوية، ص. 432
  7. فؤاد نعمة، ص. 48
  8. عبد الله النقراط، ص. 72
  9. سليمان الفياض، ص. 109
  10. فؤاد نعمة، ص. 43
  11. الفاعل: تعريفه – إعرابه – حالاته - نماذج لإعرابه. بقلم: د. فهمي قطب الدين النجار. تاريخ التحرير: 17 ذو الحجة 1435هـ الموافق فيه 12 أكتوبر 2014 آرکائیو شدہ 2017-08-06 بذریعہ وے بیک مشین