فخر الدین بن تیمیہ

مشہور فقیہ اور مفسر

فخر الدین بن تیمیہ، پورا نام: ابو عبد اللہ فخر الدین محمد بن ابو القاسم خضر بن محمد بن علی بن عبد اللہ بن تیمیہ نمیری حرانی حنبلی ہے، مشہور مفسر اور فقہ حنبلی مذہب کے عالم تھے۔ آپ حران کے شیخ اور خطیب تھے، کچھ شعر و ادب کا بھی ذوق رکھتے تھے۔ سنہ 542 ہجری کے اواخر میں حران کے اندر پیدا ہوئے، آل تیمیہ کے بزرگ مانے جاتے تھے، مجد الدین ابن تیمیہ کے چچا تھے۔

فخر الدین بن تیمیہ
معلومات شخصیت
پیدائش دسمبر1148ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حران   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 20 فروری 1225ء (76–77 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حران   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت
فقہی مسلک حنبلی
عملی زندگی
پیشہ فقیہ ،  مفسر قرآن ،  محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

شہر حران میں سنہ 542 ہجری کے شعبان کے اخیر میں پیدا ہوئے، ابو عبد اللہ کنیت تھی، ان کی اولاد میں عبد اللہ، عبد الحلیم، عبد الغنی اور بدرہ تھے۔[1]

طلب علم

ترمیم

دس سال کی عمر ہی میں اپنے والد ابو القاسم کے پاس قرآن پڑھا، حران میں ابو النجیب سہروردی سے علم حاصل کیا، بچپن ہی میں علم میں مشغول ہو گئے، اس کے علاوہ فتیان بن مباح اور ابن عبدوس کے پاس آیا جایا کرتے تھے۔

حدیث کا علم: بغداد بھی گئے، وہاں مبارک بن خضر، ابو الفتح ابن بطی، سعد اللہ بن دجاجی، یحییٰ بن ثابت، ابو بکر بن نقور، جعفر بن دامغانی اور دوسرے محدثین سے حدیث کا علم حاصل کیا۔

فقہ کا علم: بغداد میں ناصح الاسلام ابو الفتح بن المنی، ابن بکروس احمد بن بکروس اور دوسرے فقہا سے حاصل کیا۔

تفسیر: اس کے علاوہ ابن جوزی سے تفسیر میں "زاد المیسر" پڑھا اور ان کی بہت سے کتابوں کو ان سے پڑھا، جامع حران میں ان کا تفسیر کا بڑا حلقہ لگتا تھا جس میں روزانہ حاضر ہوتے تھے، یہاں تک کہ پانچ مرتبہ تفسیر کا دور مکمل کیا۔

حدیث کی سماعت: شہدہ بنت ابری، ابن المقرب اور ابن بطی سے حدیث سماعت کی۔

عربی زبان: ابو محمد بن خشاب سے سیکھا۔

اس کے علاوہ ابو الفتح محمد بن عبد الباقی بن بطی سے بھی روایت بیان کیا ہے۔[2]

تلامذہ

ترمیم

ان سے ایک بڑی جماعت نے علم حاصل کیا ہے، اس میں سے: ان کے لڑکے ابو محمد عبد الغنی خطیب حران اور ان کے بھتیجے مجد الدین عبد السلام ہیں، ان کے علاوہ ائمہ و حفاظ کی ایک بڑی تعداد نے ان سے سماعت کیا ہے، ان میں: ابن نقطہ، ابن نجار، سبط ابن جوزی اور ابن عبد الدائم ہیں۔ ان سے حدیث کی روایت: عبد الرحمن بن محفوظ رسعنی، ابو عبد اللہ بن حمدان فقیہ، ابرقوہی اور شہاب قوصی نے کی ہے۔[2]

علما کی آرا

ترمیم
  • ناصح بن حنبلی کہتے ہیں: «ان پر حران کی سرداری کی انتہا تھی، جمعہ کا خطبہ دیا کرتے تھے، جامع حران کے امام تھے، مدرسہ نوریہ میں درس دیا کرتے تھے، شہر کے مشہور واعظ تھے، عوام میں بہت مقبول تھے، حکمرانوں میں ان کا رعب تھا، اصلاح اور ظاہری طریقت کے ساتھ تفسیر و وعظ سے خاص شغل تھا»۔
  • ابن خلکان کہتے ہیں: «ان کا ذکر محاسن ابن سلامہ نے تاریخ حران میں اور ابن مستوفی نے تاریخ اربل میں کیا ہے، لکھا ہے کہ: عوام میں خواص میں قبول تام حاصل تھا، تفسیر میں خوب مہارت تھی، اس کے علاوہ تمام علوم میں دسترس رکھتے تھے»۔
  • ابن نقطہ کہتے ہیں: «ثقہ اور فاضل شیخ تھے، ان سے بڑی تعداد سماعت کرتی تھی، میں حران میں دو مرتبہ ان سے سماعت کیا ہے»۔
  • ابن نجار نے کہا ہے: «میں بغداد اور حران میں ان سے سماعت کی ہے، فاضل شیخ تھے، حسن اخلاق، شفقت، دوستی اور دینداری سے متصف تھے»۔
  • ابن الساعی کہتے ہیں: «فضائل و کمالات اور دینداری سے متصف تھے»۔
  • ابن حمدان کہتے ہیں: «حران کے شیخ، مدرس، خطیب اور مفسر تھے، وعظ و تفسیر سے زبردست عشق تھا، پابندی سے وعظ و تفسیر کیا کرتے تھے»۔[3]

تصنیفات

ترمیم

ان کی کئی تصانیف ہیں، چند کے نام درج ذیل ہیں:

  • "کتاب التفسیر الکبیر"، تفسیر میں تقریباً 80 جلدوں پر مشتمل ہے۔
  • "الموضح فی الفرائض"، علم فرائض فقہ میں ہے۔
  • "ترغیب القاصد"، فقہ میں ہے۔
  • "مختصر فی المذہب"
  • "النظم و النثر"
  • "تلخیص المطلب فی تلخیص المذہب"، فقہ میں ہے۔
  • "شرح الہدایہ"
  • "دیوان الخطب الجمعیۃ" شعری مجموعہ کلام ہے۔
  • ایک رسالہ اہل بدعت کے جہنم میں ہمیشہ رہنے کے تعلق سے ہے، ابن قدامہ نے اس رسالہ کی تردید میں ایک رسالہ لکھا ہے۔

وفات

ترمیم

ان کی وفات حران میں، 10 یا 11 صفر المظفر سنہ 622 یا 621 ہجری میں نماز عصر میں ہوئی، وفات کے وقت ان کی عمر 80 سال تھی۔[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب "وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان - ابن خلكان - ج 4 - الصفحة 387"۔ shiaonlinelibrary.com۔ 18 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 دسمبر 2018 
  2. ^ ا ب الذهبي۔ سير أعلام النبلاء، الطبقة الثالثة والثلاثون، ابن تيمية، جـ 22۔ مؤسسة الرسالة۔ صفحہ: 289، 290 
  3. فخر الدين بن تيمية، تحقيق بكر أبو زيد۔ بلغة الساغب (PDF)۔ دار العاصمة للنشر والتوزيع