فقیر اللہ مدراسی (1863ء – 1923ء) برصغیر کے معروف اہل حدیث عالم تھے۔ وہ فقیر اللہ پنجابی و فقیر اللہ بنگلوری کے نام سے بھی مشہور تھے۔[1]

فقیر اللہ مدراسی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1863ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کٹھہ مصرال   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 22 مئی 1923ء (59–60 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بنگلور   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
عارضہ ذیابیطس   ویکی ڈیٹا پر (P1050) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعداد اولاد 5   ویکی ڈیٹا پر (P1971) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ سید نذیر حسین دہلوی ،  عبدالمنان وزیر آبادی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث ،  مصنف ،  عالم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی

ترمیم

سنہ 1280ھ مطابق 1863ء کو کٹھہ مصرال، ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام فقیر محمد رکھا گیا مگر انھوں نے فقیر اللہ کے نام سے شہرت پائی۔ والد کا نام فتح دین اور دادا کا نام عبد اللہ تھا۔ راجپوت برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ گھر کا ماحول علمی و دینی تھا۔

نجی زندگی

ترمیم

مدراسی نے دو شادیاں کی تھیں۔ ایک پنجاب میں اور دوسری مداس میں۔ پہلی بیوی سے دو بیٹے ہوئے، حافظ عبد اللہ اور حافظ احمد سعید اور دو بیٹیاں، جن میں سے ایک کی شادی حافظ محمد گوندلوی سے اور دوسری کی مولانا نجم الدین سے ہوئی۔ مدراسی کی دوسری بیوی ان کے تلمیذ مولانا سید اسماعیل پیارم پیٹی

کسب علم

ترمیم

ابتدائی تعلیم اپنے بڑے بھائی مولانا محمد سے حاصل کی جو سید نذیر حسین دہلوی کے تلمیذ تھے۔ اس کے بعد شیخ حسین عرب یمنی (م 1327ھ) سے مستفید ہوئے۔ عبد المنان وزیر آبادی سے بھی تعلیم حاصل کی۔ وزیر آباد سے امرتسر کا قصد کیا۔ امرتسر کے مدرسہ غزنویہ کا اس وقت شہرہ تھا اور مسند تدریس حدیث پر سید عبد الجبار غزنوی براجمان تھے۔ فقیر اللہ نے ان سے استفادہ کیا۔ امرتسر سے فراغت کے بعد دہلی گئے اور سید نذیر حسین سے کتب پڑھیں اور سند و اجازہ سے حاصل کی۔ قیام دہلی کے زمانے میں محمد بشیر سہسوانی ست بھی اکتساب علم کیا اور محمد اسحاق منطقی رام پور سے منطق و فلسفہ کی انتہائی کتابیں پڑھیں۔ علوم متد اولہ کی تحصیل سے فراغت پائی تو فقیر اللہ مدراسی کی خدمات مطبع مجتبائی (دہلی) کے مالکان نے کتب حدیث کی تصحیح کے لیے حاصل کر لیں۔ یہ اس زمانے میں نہایت اہم کام تھا جو فقیر اللہ مدراسی کے سپرد کیا گیا۔ مدراسی کا شمار ماہرین حدیث میں ہوتا تھا۔

تلامذہ

ترمیم

مدراسی سے ان گنت شخصیات نے حصول علم کیا۔ ان کے شاگردوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں۔ تاہم ان کے تلامذہ میں سے اپنے علاقے میں جن علما نے زیادہ شہرت پائی ان میں شامل ہیں:

  • مولانا سید اسماعیل، بانی جامعہ محمدیہ عربیہ رائیدرگ
  • مولانا فضل اللہ مدراسی، ناظم اول جامعہ دار السلام عمر آباد، مدراس
  • مولانا محمد عثمان، خطیب بنگلور و سکندر آباد
  • مولانا بشیر احمد سلیم
  • مولانا عبد العلیم
  • مولانا عبد القاد دکھنی کوٹی

وفات

ترمیم

فقیر اللہ مدراسی کو ذیابیطس کا عارضہ لاحق ہو گیا تھا۔ انھوں نے 6 شوال 1341ھ مطابق 22 مئی 1923ء کو بنگلور میں وفات پائی۔

تصنیفات

ترمیم
  • القول المصدوق في إثبات التشهد للمسبوق
  • الثبوي من افتراء المفتري
  • الموعظة الحسنة في خطبة الجمعة بكل لسان من الألسنة
  • اثبات بالفاتحة في صلاة الجنازة
  • مفسق معاوية من الفرقة الغاوية

حوالہ جات

ترمیم
  1. نذرانہ اشک از مولانا ثناء اللہ عمری، مطبوعہ ندوۃ المحدثین، گوجرانوالہ صفحہ 160، 161، 262، 273۔