قاری شریف احمد

پاکستانی سنی عالم دین ،قاری،مبلغ وخطیب،محقق ومصنف

قاری شریف احمد پاکستانی سنی عالم دین،حافظ وقاری،مبلغ وخطیب،محقق مورخ اور مصنف تھے۔ آپ قرآن کریم کی تجوید و قرأت کے ماہر تھے۔ آپ حسین احمد مدنی ،شبیر احمد عثمانی اور کفایت اللہ دہلوی جیسے اساتذہ کے شاگرد تھے۔ آپ نے مختلف موضوعات پر تین درجن سے زائد کتب لکھیں۔ جن میں تاریخ قرآن، معلم الدین، تذکرۃ الانبیاء ،طریقۂ حج،تاریخ حرمین شریفین ،تعلیم النساء وغیرہ معروف ہیں۔

قاری شریف احمد
معلومات شخصیت
پیدائشی نام شریف احمد
پیدائش 1914ء
بمقام کیرانہ،ضلع مظفر نگر، برطانوی ہند (موجودہ کیرانہ، ضلع شاملی،ہندوستان)
وفات 27مارچ2011ء
بمقام ضلع کراچی
قومیت  برطانوی ہند
 پاکستان
عرفیت مولانا قاری شریف احمد
مذہب اسلام
رشتے دار تنویر احمد شریفی (پوتا وجانشین)
عملی زندگی
مادر علمی مدرسہ عالیہ فتح پور،جامعہ اسلامیہ ڈابھیل،جامعہ امینیہ دہلی،دارلعلوم دیوبند ہندوستان
پیشہ قاری،تبلیغ وخطابت،مورخ، تصنیف وتالیف
کارہائے نمایاں خدمت قرآن،بانی تنظیم القراء والحفاظ کراچی
باب ادب

ولادت

ترمیم

قاری شریف احمدکیرانہ ضلع مظفر نگر میں 1332ھ / 1914ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد نیاز احمد ابن غلام محمد ایک تاجر تھے۔

حفظ قرآن

ترمیم

(حافظ)رحمت اللہ کیرانوی سے صرف دو سال کے عرصے میں شعبان المعظم 1346ھ / فروری 1928ء میں قرآن کریم حفظ کر لیا۔ سترہ سال کی عمر میں پہلی مرتبہ تروایح میں قرآن مجید سنایا۔[1][2]

تعلیم

ترمیم

حفظ قرآن کے بعد آپ کے والد نے علم دین کے حصول کے لیے آپ کو کفایت اللہ دہلوی کے سپرد کیا اور مدرسہ امینیہ دہلی میں تعلیم کا آغاز ہوا۔ اسی زمانے میں تجوید کی مشق کے لیے حامد حسین کے پاس مدرسہ عالیہ فتح پور بھی جاتے رہے۔ ابھی انھوں نے کافیہ کی تکمیل تک درسیات سے فراغت پائی تھی کہ1933ء میں دار العلوم دیوبند میں داخل کرا دیا گیا۔ دوران تعلیم وہ ایسے بیمار ہوئے کہ انھیں واپس دہلی آنا پڑا، صحت کے بعد انھیں مدرسہ عالیہ فتح پوری میں داخل کرا دیا گیا۔ یہاں سید حامد حسین سے استفادہ مزید آسان ہو گیا ، جس کے لیے پہلے کئی میل کا پیدل سفر کرنا پڑتا تھا۔ مدرستہ فتح پوری میں ان کے داخلے کی وجہ بھی شاید یہی تھی ۔ فتح پور کے تاریخی مدرسے میں انھوں نے موقوف علیہ ( مشکوۃ شریف) تک تعلیم حاصل کی۔دورہ حدیث شریف کے لیے جامعہ اسلامیہ ڈابھیل چلے گئے اور شبیر احمد عثمانی سے بخاری پڑھ کر1939ء میں سند الفراغ حاصل کی۔ ڈابھیل میں فارغ التحصیل ہونے والوں میں آپ کا 477 واں نمبر ہے۔( تاریخ جامعہ اسلامیہ : ص 450 طبع ہند)علم تجوید کی تکمیل کے لیے مدرسہ فرقانیہ لکھنؤ تشریف لے گئے اور علم قرآت کی سند عبد المالک سے حاصل کی۔فن طب میں حکیم مختار حسن( بارہ کھبے والے، پہاڑ گنج ) کی شاگردی اختیار کی۔[3]

مشہور اساتذہ

ترمیم

بیعت و خلافت

ترمیم

بیعت وارادت کا تعلق سید حسین احمد مدنی سے 1946ء میں قائم کیا تقسیم ہند کے بعد اسباق تصوف جاری تھے کہ حسین احمد مدنی دسمبر 1957ء کو وفات پا گئے۔ ان کی وفات کے بعد حامد میاں دیوبندی سے تعلق بیعت قائم کیا۔ انھوں نے 1963ءمیں آپ کو خلافت سے نوازا۔[4]

مدرسہ تعليم القرآن شریفیہ

ترمیم

تعلیم سے فراغت کے بعد اپنے حفظ کے استاذ رحمت اللہ کیرانوی اورعبدالملک کی نصیحت اور اشفاق الرحمن کاندھلوی کے حکم سے دہلی میں کوچہ قابل عطار کی مسجد میں امامت اور حوض والی مسجد نئی سڑک دہلی میں تعلیم القرآن کی ذمے داری قبول فرمائی تھی۔ یہ سلسلہ جون 1939ء سے شروع ہو کر قیام پاکستان تک جاری رہا۔

تلامذہ

ترمیم
  • اخلاق حسین قاسمی
  • محمد سعید دہلوی
  • قاضی نصیر الدین میرٹھی
  • محمد احمد قادری (رابطہ عالم اسلامی، مکہ مکرمہ، ابن حکیم مختار حسن خاں دہلوی)
  • محمد صدیق(فاضل مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور )
  • محمد رفیع عثمانی
  • زبیر احمد صدیقی
  • لیاقت علی شاہ نقش بندی
  • محمد اسرار
  • محمد یوسف شمسی

تقسیم ہند کے بعد

ترمیم

تقسیم ملک کے وقت آپ حج کے سفر پر تھے۔ واپسی پر کراچی کی بندرگاہ پر اترے۔ مسلم لیگ کے طرز سیاست اور اس کے رد عمل نے پنجاب سے لے کر دہلی ، بہار اور بنگال تک قیامت بر پا کر دی تھی۔ معلوم ہوا کہ پہاڑ گنج کے باسی کراچی آگئے ہیں۔ حالات کے اسی ریلے میں آپ کے بھائی، والدہ اور دیگر بھی کراچی پہنچ چکے تھے۔ افراتفری کے اس خلا میں کسی کو قرار نہ تھا، حالات سے کوئی مطمئن نہ تھا، تقریب ڈھائی سال اسی عالم میں گذرے۔ اس زمانے میں آپ نے کچھ عرصے تک تجارت بھی کی۔ کراچی سے مال لے جا کر دہلی اور دہلی سے کراچی لا کر بیچا کرتے تھے۔ اس تجارت میں آپ کے ایک شاگرد محمد دین پراچہ بھی شامل تھے۔آپ اس دوران ایک جمعہ کراچی اور دوسرا دہلی میں پڑھتے تھے۔ حسین احمد مدنی کی خواہش تھی کہ تقسیم ملک کے بعد مدرسہ عالیہ فتح پوری دہلی میں تدریس کریں۔ اس کے لیے ضروری ہدایات انھوں نے حفظ الرحمن سیوہاروی کو دیں تھیں ، لیکن حالات ایسے بگڑ چکے تھے کہ آپ کو کراچی کی سکونت اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا ، فتح پور میں محمد میاں دہلوی (خطیب اونچی مسجد ، بلی ماران دہلی ) کا تقرر ہو گیا۔ جب قدرے سکون واطمینان ہوا تو مدرسہ تعلیم القرآن شریفیہ کا دکھنی مسجد، پاکستان چوک کراچی سے آغاز کیا۔ یہ 1949ء کا واقعہ ہے ۔ دکھنی مسجد میں یہ مدرسہ1989 بیالیس سال تک رہا۔ جب دکھنی مسجد کی موجودہ تعمیر شروع ہوئی تو یہ مدرسہ پاکستان چوک ہی کے علاقے میں ایک مکان میں منتقل ہو گیا۔ اس کے بعد مدرسہ کے لیے ایک مستقل جگہ خریدی گئی، جس کا سنگ بنیاد ارشد مدنی ( استاذ الحدیث دار العلوم دیو بند ) کے دست سے1998ء بروز جمعہ صبح دس بجے رکھا گیا۔[5]

امامت و خطابت

ترمیم

دہلی میں کوچہ قابل عطار اور اس کے بعد حوض والی مسجد نئی سڑک میں امامت و خطابت فرمائی تھی۔ جامع مسجدسٹی اسٹیشن 1950ء میں چھوٹی سی مسجد تھی ، امامت و خطابت کی ذمے داری قبول فرمائی اور تا حیات یہ خدمت انجام دیتے رہے، جب اکثر بیمار رہنے لگے تو پوتے تنویر احمد شریفی کو اپنی جگہ مقرر کیا اور تربیت فرمانے لگے۔

تنظيم القراء والحفاظ

ترمیم

1975ء میں تنظیم القرار والحفاظ قائم فرمائی، جس کا مقصد قرآن کریم کی نشر و اشاعت اور مدرسہ تعلیم القرآن شریفیہ سے پڑھے ہوئے حفاظ کا جوڑ پیدا کرنا تھا۔

تصانیف

ترمیم

آپ کی تقریباً تین درجن سے زائد تالیفات دینی موضوعات پر نہایت مفید وموثر شائع ہو چکی ہیں۔

 قرآنیات

ترمیم
  • تاریخ قرآن
  • قرآن کی فضیلت وعظمت   
  • آسان نورانی قاعدہ
  • یسرنا القرآن

 حدیثیات

ترمیم
  • چہل حدیث اور ان کی تشریح

 ارکانِ اسلام

ترمیم
  • ترغیب الصلوٰة
  • نماز کی کتاب
  • نماز مترجم
  • جنت کی کنجی
  • شرعی دائمی جنتری
  • اوقاتِ نماز (حیدرآباد سندھ کے لیے)
  • تحفة الصیام
  • فضائل الشہور والایام
  • اسلام کا نظام زکوٰة (دو حصے)
  • معین الحجاج
  • معلومات حج
  • طریقہٴ حج
  • طریقہٴ عمرہ

سیرت وسوانح

ترمیم
  • ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم
  • معراج رسول صلی اللہ علیہ وسلم
  • سفر ہجرت کا حکم اور یارِ غار

تاریخ وتذکرہ

ترمیم
  • تاریخ حرمین شریفین(دو حصے)
  • تذکرة الانبیاء علیہم السلام (دو جلدیں) *تذکرہٴ سیدنا حضرت عمر
  • تذکرہٴ سیدنا حضرت عثمان
  • مقام شیخ الاسلام

 فضائل

ترمیم
  • فضیلت شعبان وشب برأت
  • فضائل ومسائل ماہ رمضان المبارک
  • رمضان المبارک کا آخری عشرہ

 حقوق

ترمیم
  • اسلام اور حقوق والدین
  • والدین پر اولاد کے حقوق

عمومی دینیات

ترمیم
  • معلم الدین
  • تعلیم النساء
  • بچوں کے اسلامی اور اچھے نام
  • مسنون ومقبول دعائیں
  • توشہٴ نجات
  • قنوتِ نازلہ، احکام ومسائل
  • تعلیماتِ اسلام (دو حصے)
  • امر بالمعروف ونہی عن المنکر
  • راہ نجات (تین حصے)
  • محمد ابراہیم دہلوی کی کتاب احوالُ الصادقة فی اخبارِ الآخرة معروف بہ قیامت کا سچا فوٹو کی نظر ثانی اور اضافہ
  • خلاصہٴ بہشتی زیور
  • رسالہٴ الابقاء (جس میں اشرف علی تھانوی کے مواعظ شائع ہوتے تھے، ان میں جو فارسی اشعار آتے تھے ان کا ترجمہ آپ کے قلم سے ہوتا تھا)

آپ کی نصف درجن کتابیں جو اگرچہ اپنی ضخامت میں مختصر ہیں؛ لیکن افادیت اور تاثیر میں بے مثال اور ایسی مقبول عام ہوئیں کہ ان کے نہ صرف بیسیوں ایڈیشن چھپ چکے ہیں؛ بلکہ اردو کے علاوہ سندھی، پنجابی، پشتو ملکی زبانوں میں اور فارسی وانگریزی غیر ملکی زبانوں کے تین، چار اور پانچ زبانوں میں ترجمے بھی شائع ہو چکے ہیں۔[6]

سفر آخرت

ترمیم

انتقال سے پانچ سال پہلے ہی علیل تھے۔ پہلے فالج کا حملہ ہوا ، اس کے بعد کو لہے کی ہڈی ٹوٹ گئی ، اس کا آپریشن ہوا، گھٹنوں نے کام کرنا چھوڑ دیا، لیکن اس کے باوجود مدرسہ جانے کے لیے بے چین رہتے ، کرسی پر لے جایا جاتا ۔ جب طبیعت زیادہ خراب ہوتی تو گھر پر ہی چند بچوں کو بلایا جاتا اور وہیں لیٹے لیٹے ان کا قرآن سنتے۔

انتقال

ترمیم

27مارچ2011ءروز اتوار تین بجے سہ پہر کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔

جنازہ وتدفین

ترمیم

جہاں آپ خطیب و امام تھے اس مسجد میں عشاء کی نماز کے بعد جنازے کی نماز ادا کی گئی۔نماز جنازہ تنویر احمد شریفی نے پڑھائی۔انجمن مسلمانان پنجاب ( میوہ شاہ ) قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔[7]


حوالہ جات

ترمیم
  1. استاذ العلماء والقراءحضرت مولانا قاری شریف احمد نوراللہ مرقدہ http://darululoom-deoband.com/urdu/articles/tmp/1489987816%2011_Qari%20Sharif_MDU_8&9_Aug-Sep_11.htm
  2. معلم الدین,قاری شریف احمد, ریختہ https://www.rekhta.org/ebook-detail/muallimuddin-ebooks?lang=ur
  3. ماہنامہ دارلعلوم دیوبند ،شمارہ اگست ستمبر 2011،صفحہ93
  4. ماہنامہ دارلعلوم دیوبند ،شمارہ اگست ستمبر 2011،صفحہ94
  5. ماہنامہ دارلعلوم دیوبند ،شمارہ اگست ستمبر 2011،صفحہ96
  6. ماہنامہ دارلعلوم دیوبند ،شمارہ اگست ستمبر 2011،صفحہ99-102
  7. ماہنامہ دارلعلوم دیوبند ،شمارہ اگست ستمبر 2011،صفحہ106