قاضی دتہ سیوستانی

سندھ کے مشہور صوفی بزرگ

قاضی دِتہ سیوستانی (وفات: 970ھ مطابق 1563ء) سندھ کے مشہور صوفی بزرگ ہیں۔قاضی دِتہ اپنے وقت کے بہت بڑے عالم اور صاحب کشف بزرگ تھے۔ بہت سے اولیا آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اِن سے اِکتساب فیض کیا اور روحانی تعلیم بھی حاصل کی۔

قاضی دتہ سیوستانی
معلومات شخصیت
مقام پیدائش سیہون شریف  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1563ء  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سیہون شریف  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ صوفی،  عالم،  قاضی  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح ترمیم

آپ کا نام قاضی دِتہ ہے جبکہ والد کا نام قاضی شرف الدین تھا جنہیں مخدوم راہو بھی کہا جاتا ہے۔ مخدوم راہو کے والد شیخ محمود جلیل القدر اولیا میں سے تھے۔ قاضی دِتہ نے علومِ متداولہ کی تعلیم ایک طویل عرصے تک اپنے والد محترم قاضی شرف الدین کی خدمت میں رہ کر کی۔ جب وہ علوم و فنون میں خاطرخواہ ترقی کرچکے تو مخدوم بلال (متوفی 931ھ مطابق 1525ء) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اُن سے تفسیر قرآن اور حدیث پڑھی۔ بعض علوم میں انھوں نے مخدوم محمود داؤد پوتہ اور مولانا عبد العزیز ہروی کے تلمذ کا فخر حاصل کیا۔ تفسیر قرآن مجید سے غیر معمولی شغف رکھتے تھے۔ تقریباً قرآن مجید کی 18 تفاسیر کا مطالعہ کیا تھا اور قرآنی معارف و نکات کو بے ساختہ بیان کر دیا کرتے تھے۔ مختلف علوم پر کامل دستگاہ تھی۔ حافظے کی یہ کیفیت تھی کہ اکثر کتب کی عبارات بغیر کتاب کے ہی سنا دیا کرتے تھے۔[1] اکثر کتب آپ کو حفظ تھیں۔ ترکی زبان کے علاوہ ہندی زبان اور عربی زبان پر بھی مکمل عبور حاصل تھا۔قاضی داؤد پوتہ سندھ کے اکابر علما میں سے تھے اور اُن کی وجہ سے سندھ میں کافی علوم کی اِشاعت ممکن ہوئی۔ عالم اور صاحب باطن بزرگ تھے اور علم میں فیوض و برکات کا یہ عالم تھا جس طالب علم نے بھی آپ سے علمی اِکتساب کیا، ہمیشہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوا۔ آپ ہرات سے سندھ تشریف لائے تھے۔[2]

شاہ حسن ارغون کی عقیدت ترمیم

ارغون خاندان حکومت سندھ کا دوسرا فرمانروا مرزا شاہ حسن ارغون آپ کے علم و فضل اور تقویٰ و تقدس کی وجہ سے آپ سے بے حد عقیدت رکھتا تھا اور آپ کی اِنتہائی تعظیم و توقیر بجا لاتا تھا۔ شاہ حسن ارغون نے بعض علوم میں آپ سے اِستفادہ بھی کیا تھا۔ اِس لیے وہ کہا کرتا تھا کہ آپ میرے اُستاد بھی ہیں۔ علمی عظمت کی بنا پر آپ کو امام جاراللہ کہتا تھا۔ مؤلف تاریخ معصومی میر محمد معصوم بکھری (متوفی 1605ء) بھی آپ کے حلقہ درس میں شریک رہے ہیں۔[3]

وفات ترمیم

قاضی دِتہ نے 970ھ مطابق 1563ء میں موضع باغبان، سیہون شریف میں وفات پائی۔ تدفین بھی موضع باغبان میں کی گئی اور آپ کا مزار وہیں مرجع خاص و عام ہے۔[4]

حوالہ جات ترمیم

  1. اعجاز الحق قدوسی: تذکرہ صوفیائے سندھ، صفحہ 20۔ مطبوعہ کراچی، 1959ء
  2. تاریخ معصومی: صفحہ 198۔
  3. اعجاز الحق قدوسی: تذکرہ صوفیائے سندھ، صفحہ 21۔ مطبوعہ کراچی، 1959ء
  4. حدیقۃ الاولیا، قلمی نسخہ،  صفحہ 93/94۔  مملوکہ سندھ یونیورسٹی، جامشورو۔

مزید دیکھیے ترمیم