قاضی عبدالرحمن
قاضی عبد الرحمن 1908ء میں بھٹے وڈ، امرتسر میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی اسکول امرتسر سے حاصل کی، اعلیٰ تعلیم کے حصول کا شوق انھیں اسلامیہ کالج لاہور لے گیا۔ قاضی عبد الرحمن قیام پاکستان کے بعد عارف والا، ضلع ساہیوال چلے آئے۔
انھوں نے ضلع ساہیوال کے مختلف اسکولوں میں معلمی کے فرائض انجام دیے۔ اپنے دور ملازمت میں انھوں نے سب سے طویل عرصہ ٹاؤن کمیٹی ہائی اسکول عارف والا میں گزارا۔ یہیں سے 1968ء میں ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے۔ اسلامیہ کالج لاہور میں جن دنوں قاضی صاحب مرحوم زیرتعلیم تھے۔ علامہ اقبال پنجاب لیجسلیٹو کونسل کا الیکشن لڑ رہے تھے۔قاضی صاحب ان کے انتخابی جلوس میں شرکت کرتے۔ایک روز جب یہ جلوس مسجدوزیرخان کے پاس سے گذرا تو مسجدسے اذان کی آواز آنے پروہیں صفیں باندھ لی گئی۔ قاضی عبد الرحمٰن کو اس نماز کی امامت کے لیے کہا گیا۔ جب نماز ہو چکی تو عبداللہ چغتائی نے اس بات پرنوجوان طالب علم کو مبارک باد دی۔ قاضی صاحب ساری زندگی اس بات پر نازاں رہے کہ علامہ اقبال نے ان کی امامت میں نماز پڑھی تھی۔ اس واقعے کو انھوں نے اردو ڈائجسٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون”ایک یادگار واقعہ“بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ لاہور کی محفلوں میں انھیں ایم۔ڈی۔تاثیر، ،ظفر علی خان،طغرائی امرتسری اورصوفی تبسم جیسی شخصیات سے ملاقات کا موقع ملا۔
قاضی عبد الرحمن کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد کا نام تجویز کیا۔[1] اخبار میں اشتہار آیا کہ ایک نیا شہر آباد کیا جارہاہے جو کراچی کی بجائے پاکستان کا دار الحکومت ہوگا۔ اس کے لیے نام تجویز کرنے والے کو انعام واکرام سے نوازا جائے گا۔ اس سلسلے میں بہت سے نام تجویز ہوئے۔ 24 فروری 1960ء کو فیلڈ مارشل ایوب خان کی صدارت میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس میں تمام تجاویز کا جائزہ لیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ پاکستان کے اس مجوزہ وفاقی دار الحکومت کا نام اسلام آباد ہوگا۔ یہ نام عارف والا سے تعلق رکھنے والے ایک اسکول ٹیچر قاضی عبد الرحمن نے تجویز کیا تھا۔ کابینہ کے اس فیصلے کا اعلان جناب ذو الفقار علی بھٹو نے کیا جو ان دنوں وزیر اطلاعات کے عہدے پر فائز تھے۔ قاضی صاحب کا دیا ہوا نام منتخب ہوا۔ اس وقت کے صدر ایوب خان نے انھیں انعام کے طور پر اسلام آباد میں ایک کنال کا پلاٹ دینے کا وعدہ کیا۔یہ وعدہ بار بار یقین دہانی کے باوجود ایفا نہیں ہو سکا۔ وہ ایک عمدہ نعت گو بھی تھے، حفیظ تائب مرحوم رقم طراز ہیں:”قاضی عبد الرحمن کی نعتیہ شاعری میں حضور اکرمﷺ کی صفات و معجزات سے لے کر تعلیمات تک ہر رُخ،ہر پہلو موضوع سخن بنا ہے۔
ان کی نعت میں زمانے کے عکس بھی نظر آتے ہیں اور یوں ان کی شاعری آشوب ذات سے آشوب کائنات تک کا احاطہ کرتی ہے“ قاضی عبد الرحمن کا نعتیہ شعری مجموعہ ”ہوائے طیبہ“کے نام سے 1981ء میں شائع ہوا۔جسے انھوں نے ظفر علی خان کے نام معنون کیا ہے۔ آپ کے فرزند ارجمند قاضی حبیب الرحمن اردو کے رحجان ساز شاعر ہیں گورنمنٹ کالج ساہیوال میں قاضی حبیب تدریس کرتے رہے، ۔قاضی عبد الرحمن کا انتقال 25 اپریل1990ء میں ہوا۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "اسلام آباد: پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کا نام کس نے اور کیسے تجویز کیا؟ - BBC News اردو"۔ BBC News اردو۔ Bbc.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 فروری 2022