خانیت کریمیا یا ریاستِ خانان کریمیا ،1441ء سے 1783ء تک کریمیائی تاتار مسلمانوں کی ایک ریاست تھی، جس کا مقامی نام ”قرم یورتی“(کریمیائی تاتار: Qırım Yurtu) تھا جبکہ ترکی میں اسے ”قرم خانلغی“ (ترکی: Kırım Hanlığı، کریمیائی تاتار:Qırım Hanlığı) کہتے تھے۔ انگریزی میں اسے”Crimean Khanate“ کہا جاتا ہے۔ خانان کریمیا کی یہ ریاست آلتن اوردہ کے خاتمے پر قائم ہونے والی ترک خانان کی ریاستوں میں سب سے زیادہ طویل عرصہ تک قائم رہنے والی حکومت تھی۔

خانان کریمیا کی ریاست بمطابق 1600ء

یہ دشت قپچاق (موجودہ یوکرین و جنوبی روس کے میدانی علاقوں)میں سلطنت آلتن اوردہ کے اُن مختلف قبائل نے مل کر تشکیل دی جو کریمیا کو اپنی سرزمین بنانا چاہتے تھے۔ اس امر کے لیے انھوں نے حاجی گیرائے کو اپنا حکمران مقرر کیا اور 1441ء میں ایک آزاد ریاست قائم کی۔ یہ سلطنت جزیرہ نما کریمیا اور دشت قپچاق پر مشتمل تھی۔ حاجی گیرائے کے انتقال کے بعد اس کے بیٹوں میں تخت کے لیے کشمکش شروع ہو گئی اور یوں 1478ء میں سلطنت عثمانیہ کے زیر تحفظ چلی گئی جو اس وقت بحیرہ اسود کے ساحلی علاقوں میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کر رہی تھی۔ سلطنت عثمانیہ اور خانان کریمیا کے تعلقات انتہائی خوشگوار تھے، حالانکہ منتخب خان کو سلطان سے منظوری لینا پڑتی تھی لیکن وہ قسطنطنیہ کا مقرر کردہ نہیں ہوتا تھا۔ علاوہ ازیں خارجہ پالیسی میں بھی وہ کسی حد تک عثمانی اثر سے آزاد تھے۔ خانان کو اپنے سکے چلانے اور خطبۂ جمعہ میں اپنا نام شامل کرنے کی بھی اجازت تھی جو ان کی سالمیت کی ایک اہم علامت تھی۔ وہ سلطنت عثمانیہ کو کسی قسم کا خراج نہیں دیتے تھے بلکہ اس کے برعکس عثمانی انھیں فوجی خدمات کے عوض ادائیگی کرتے تھے۔ 1502ء میں خانان کریمیا نے آلتن اوردہ کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا اور اس کی جانشیں قرار پائی۔ اس کے نتیجے میں ماسکوی کی ننھی ریاست سے محاذ آرائی بھی شروع ہو گئی اور 1571ء میں دولت اول گیرائے کی زیر قیادت ایک کامیاب مہم میں روسی دار الحکومت کو نذر آتش کر دیا گیا۔

ایک کریمیائی تاتار سپاہی دوران جنگ پولش-لتھووینیائی سپاہی سے مدمقابل

1532ء میں ریاست کا دار الحکومت سلاچق سے باغچہ سرائے منتقل کر دیا گیا۔ خانان کریمیا کی سلطنت بلاشبہ 18 ویں صدی تک مشرقی یورپ کی طاقتور ترین ریاستوں میں سے ایک تھی۔ کریمیائی تاتار مسلمانوں نے سلطنت اسلامیہ کی سرحدوں کے دفاع کے لیے، خاص طور پر ماسکوی اور پولش ریاستوں کے خلاف، ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے۔ خانان کریمیا کی سلطنت کا زوال سلطنت عثمانیہ کے زوال سے منسلک ہے اور جیسے جیسے مشرقی یورپ میں طاقت کا توازن مسیحی سلطنتوں کے حق میں بڑھتا گیا ویسے ہی مسلم ریاستیں تیزی سے تنزلی کی جانب بڑھنے لگیں۔ جدید اسلحہ کی کم یابی کے باعث تاتاری مسلم افواج یورپی اور روسی جدید افواج کے سامنے شکست کھانے لگیں۔ 17 ویں صدی کے اواخر میں ماسکوی کی ریاست اتنی مضبوط ہو گئی کہ وہ کریمیا کو کچل سکتی تھی۔ 18 صدی کے وسط میں روس ترک جنگوں کے دوران روسی و یوکرینی افواج کریمیا میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئیں اور بالآخر ملکہ کیتھرائن ثانی کے دور میں معاہدہ کوچک کناری کے نتیجے میں خانان کریمیا کی سلطنت عثمانی اثر سے نکل گئی اور روسی سلطنت اس پر حاوی ہو گئی۔ آخری خان شاہین گیرائے کے دور میں روسی اثر و رسوخ بڑھتا چلا گیا اور کیتھرائن نے انتہائی چالاکی سے جو منصوبہ تیار کیا تھا اس کے عین مطابق 8 اپریل 1783ء کو معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے کریمیا کو سلطنت روس میں شامل کر لیا۔

متعلقہ مضامین

ترمیم