سلطنت عثمانیہ کا زوال
عثمانی سلطنت کا دور زوال کو مورخین جدید دور بھی قرار دیتے ہیں۔ اس دور میں سلطنت نے ہر محاذ پر شکست کھائی اور اس کی سرحدیں سکڑتی چلی گئیں تنظيمات (اصلاحات) کے باوجود مرکزی حکومت کی ناکامی کے باعث انتظامی عدم استحکام پیدا ہوا۔
خلافت عثمانیہ کی تاریخ |
---|
عروج (1299ء – 1453ء) |
توسیع (1453ء – 1683ء) |
جمود (1683ء – 1827ء) |
زوال (1828ء – 1908ء) |
خاتمہ (1908ء – 1922ء) |
مزید دیکھئے: |
فتح قسطنطنیہ |
دور لالہ |
دور تنظیمات |
پہلا آئینی دور |
دوسرا آئینی دور |
یورپ میں جنگیں |
روس کے خلاف جنگیں |
مشرق وسطی میں جنگیں |
قوم پرستی کا عروج
ترمیم19 ویں صدی کے دوران سلطنت عثمانیہ سمیت کئی ممالک میں قوم پرستی کو عروج نصیب ہوا۔ نسلی قوم پرستی کی لعنت ان مغربی نظریات میں سب سے اہم تھی جو اس دوران سلطنت عثمانیہ میں وارد ہوئیں۔ اس دوران کئی انقلابی سیاسی جماعتیں بھی وجود میں آ گئیں۔ مملکت میں آئے دن بڑھتا ہوا بگاڑ کے جہاں دیگر کئی اسباب تھے وہیں زوال کی اہم ترین وجوہات میں قوم پرستی کا پھیلاؤ بھی شامل ہے۔ اس عرصے میں 1892ء میں یونان نے آزادی حاصل کی اور اصلاحات بھی ڈینیوب کی امارتوں میں قوم پرستی کو نہ روک سکیں اور 6 عشروں سے نیم خود مختار ان علاقوں سربیا، مونٹی نیگرو، بوسنیا، ولاچیا اور مالڈووا نے بھی 1875ء میں سلطنت سے آزادی کا اعلان کر دیا اور 1877ء کی روس ترک جنگ کے بعد سربیا، رومانیا اور مونٹی نیگرو کو باقاعدہ آزادی مل گئیں اور بلغاریہ کو خود مختاری عطا کر دی گئی البتہ بلقان کی دیگر ریاستیں بدستور عثمانی قبضے میں رہیں۔ زوال کے اسی دور میں سربیا کے ایک یہودی یہودا سولمن الکلائی نے صیہون کی طرف واپسی اور اسرائیل کی آزادی کا نظریہ پیش کیا۔
تنظیمات
ترمیمدور تنظیمات (1839ء تا 1876ء) میں آئینی اصلاحات کا ایک سلسلہ متعارف کرایا گیا جس کے نتیجے میں ایک نسبتاً جدید فوج، بنکاری نظام کی اصلاحات نافذ ہوئیں اور جدید کارخانے قائم ہوئے۔ 1856ء میں خط ہمایوں کے ذریعے نسل و مذہب سے بالاتر ہو کر تمام عثمانی شہریوں کو برابری کا درجہ دینے کا اعلان کیا گیا۔ مسیحی اقلیتوں کو بھی خصوصی حقوق عطا کیے گئے جیسے 1863ء میں آرمینیائی دانشوروں کی مرتب کردہ 150 شقوں کے ضابطہ قانون کے تحت منظورہ شدہ دیوان نظام نامۂ ملت آرمینیان (Armenian National Constitution)۔ اصلاحات کے اس دور کی سب سے اہم بات وہ دستور تھا جو قانون اساسی کہلاتا تھا جسے نوجوانان عثمان نے تحریر کیا اور 23 نومبر 1876ء کو نافذ کیا گیا۔ اس کے ذریعے تمام شہریوں کے لیے اظہار رائے کی آزادی اور قانون کی نظر میں برابری عطا کی گئیں۔
پہلا آئینی دور
ترمیمسلطنت کا پہلا آئینی دور (عثمانی ترک زبان: برنجی مشروطیت دوری) مختصر رہا لیکن اس کے نتیجے میں جو نظریہ فروغ پایا وہ مغربی جامعات میں تعلیم پانے والے نوجوانان عثمان نامی اصلاح پسند گروہ کے مطابق یہ تھا کہ ایک آئینی بادشاہت مملکت کے بڑھتے ہوئے مسائل کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ 1876ء میں فوجی تاخت کے ذریعے سلطان عبدالعزیز (1861ء تا 1876ء) مراد پنجم کے حق میں دستبردار ہو گئے۔ مراد پنجم ذہنی معذور تھا اور چند ماہ میں ہی عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ ان کے ممکنہ جانشیں عبد الحمید ثانی (1876ء تا 1909ء) کو اس شرط پر بادشاہت سنبھالنے کی دعوت دی گئی کہ وہ آئینی بادشاہت کو تسلیم کریں گے جس پر انھوں نے 23 نومبر 1876ء کو عمل بھی کیا۔ لیکن پارلیمان صرف دو سال قائم رہی اور سلطان نے اسے معطل کر دیا اور بعد ازاں پارلیمان کو طلب کرنے کے لیے ان پر دباؤ ڈالا گیا۔ تاہم قانون اساسی کے اثرات کافی حد تک کم ہو گئے۔ اس عرصے میں سلطنت کو بیرونی جارحیت اور قبضہ گیری کے خلاف اپنے دفاع کے حوالے سے شدید خطرات کا سامنا رہا۔ 1798ء میں فرانس نے مصر پر قبضہ کر لیا۔ 1877ء کی روس ترک جنگ میں شکست کے بعد برلن کانگریس میں حمایت کے صلے میں 1878ء میں قبرص پٹے پر برطانیہ کے حوالے کرنا پڑا۔ سلطنت اپنے مسائل کو خود حل کرنے کے قابل نہ رہی اور مختلف یورپی ممالک کی مداخلت و اتحاد کے ذریعے اس کے مسائل حل ہونے پڑے مثال کے طور پر جنگ کریمیا جس میں عثمانیوں نے روس کے خلاف برطانیہ اور فرانس سے اتحاد کیا۔ حالانکہ اس عرصے میں اسے "یورپ کا مرد بیمار" کہا گیا لیکن معاشی طور پر سلطنت کی بد حالی کا سبب اس کی ترقی پزیر معیشت میں نہیں تھا بلکہ وہ ثقافتی خلا تھا جو اسے یورپی قوتوں سے الگ کیے دیتا تھا۔ اقتصادی مسائل دراصل بیرونی سامراجیت اور ابھرتی ہوئی داخلی قوم پرستی جیسے مسائل سے نہ نمٹ پانے کی وجہ سے تھے۔