معاہدہ کوچک کناری (انگریزی: Treaty of Kuchuk Kainarji، ترکی: Küçük Kaynarca Antlasmasi) روس اور سلطنت عثمانیہ کے مابین 21 جولائی 1774ء کو طے پانے والا ایک معاہدہ جو بلغاریہ میں کوچک کناری کے مقام پر طے پایا۔

معاہدۂ کوچک کناری
قسمکاروباری معاہدہ, امن معاہدہ
دستخط21 جولائی 1774
مقامکوچک کنارہ, دبروجہ
مذاکرات کار
دستخط کنندگان
فریق
زبانیںاطالوی, روسی, عثمانی ترکی
معاہدے پر دستخط کا مقام

پس منظر

ترمیم

معاہدہ بلغراد کے بعد کئی سال تک تو عثمانی سلطنت کی مخالفت قوتیں آپس کے جھگڑوں میں الجھی رہیں۔ اس لیے عثمانی اور ہمسایہ سلطنتوں کے درمیان کوئی جنگ نہ ہوئی لیکن پھر بھی روس نے سلطنت کے خلاف اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ مصطفٰی ثالث کے دور میں روس کی کارروائیاں ایسی تھیں کہ معاہدہ بلغراد کی خلاف ورزی پر اراکین سلطنت کے مشورے کے بعد مجبوراً عثمانی سلطان مصطفٰی ثالث کو روس کے خلاف 1768ء میں اعلان جنگ کرنا پڑا۔ جنگوں کا سلسلہ جاری رہا۔ اس سلسلے میں ابتدا میں ترکوں کو فتح ہوئی لیکن پھر شکست سے دوچار ہوئے اور روس عثمانی مقبوضات میں موجود کئی قلعوں پر قابض ہو گیا۔ مصطفٰی ثالث کے آخری دور میں 1773ء میں بھی روس اور عثمانی افواج کے درمیان کئی معرکے ہوئے جن میں کبھی ایک فریق کو اور کبھی دوسرے فریق کو کامیابی ہوتی رہی۔ سلسلۂ جنگ ابھی جاری تھا کہ مصطفٰی کا انتقال ہو گیا۔ ترک اب جنگ کے اس سلسلے کا خاتمہ چاہتے تھے جبکہ نئے سلطان عبد الحمید اول اور فوجی افسران کی خواہش بھی یہی تھی لیکن علما کی ایک جماعت اس کے حق میں نہ تھی کہ جنگ ختم کر کے سلطان تاتاریوں کو اپنی سیادت سے محروم کرتے ہوئے کریمیا کے قلعے روس کو دے دے کیونکہ یہ بخارسٹ کانفرنس کی شرائط تھیں جس میں روس نے کہا تھا کہ اگر شرائط قبول نہ کرو گے تو جنگ جاری رہے گی۔ عبد الحمید جب تخت نشین ہوا تو روس پوری قوت سے جنگ میں مشغول تھا۔ 1774ء میں روسی افواج اپنے نئے جنرل کی قیادت میں ہرسوا کے مقام پر عثمانیوں سے جنگ کے لیے تیار تھیں۔ ترک صدر اعظم کے پہنچنے سے قبل ہی اس نے پیش قدمی کی اور راستے ہی میں صدر اعظم کی فوج پر حملہ کر دیا جس میں ترکوں کو شکست ہوئی اور روسی فوج نے مزید فتوحات کے لیے اپنے قدم بڑھائے۔ اسی وقت ینی چری کی بغاوت بھی ہو گئی اور حالات ایسے ہو گئے کہ ترکوں کو روس سے التوائے جنگ کی بات کرنا پڑی لیکن روس نے التوائے جنگ کی بجائے صلح کی گفتگو کی پیشکش کی۔ صدر اعظم نے سلطان سے اجازت حاصل کرنے کے بعد صلح کی گفتگو کی پیشکش قبول کرتے ہوئے سلطنت کو وکلا کو بھیجا۔ روسیوں نے صلح کے لیے بلغاریہ کے ایک قصبہ کوچک کناری کے مقام اور 21 جولائی کی تاریخ کو تجویز کیا۔ روس نے 21 جولائی کی تاریخ اس لیے مقرر کی کیونکہ معاہدہ پرتھ بھی اسی تاریخ کو ہوا تھا جس میں روس کو سخت ذلت اٹھانی پڑی تھی اور وہ اسی روز دوسرا معاہدہ کر کے ذلت کے اس داغ کو دھونا چاہتے تھے جبکہ مقام کا انتخاب بھی اس لیے کیا گیا کیونکہ ایک سال قبل روسی فوج کا ایک اہم جرنیل ترکوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا اور وہ اس مقام پر اس کی یاد میں ایک یادگار معاہدہ کرنا چاہتے تھے۔

دفعات

ترمیم
 
احمد رسمی آفندی، معاہدے کے دوران مذاکراتی افسرِ اعلیٰ

معاہدے کی دفعات درج ذیل تھیں:

  1. جنگ کے دوران روس کی افواج کے قبضے میں آنے والے تمام علاقوں سے روس دستبردار ہو جائے گا۔
  2. معاہدے کی رو سے کریمیا عثمانیوں کو واپس نہیں کیا جائے گا۔
  3. پولینڈ کی سرحد تک ایک مستقل تاتاری حکومت قائم کر دی گئی اور اس حکومت کے خان کے انتخاب کا حق تاتاریوں کو دے دیا گیا۔ اس معاملے میں روسی اور عثمانی مداخلت نہیں کریں گے اور دونوں قومِ تاتار کو سیاسی اور ملکی حیثیت سے ان طاقتوں کے ہم پلہ تسلیم کریں گے۔
  4. کرچ، ینی قلعہ، ازوف اور کلپرن کے قلعوں اور ان سے ملحقہ اضلاع پر روس کا قبضہ رہا حالانکہ بیشتر علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔
  5. افلاق اور مالدووا کو اس شرط پر عثمانیوں کو دیا گیا کہ دوران جنگ وہاں کے باشندوں کے جرائم معاف کر دیے جائيں گے۔
  6. مسیحی رعایا کو مذہبی آزادی کے علاوہ ان کے ساتھ زیادہ نرم پالیسی بھی اختیار کی جائے گی۔
  7. آئندہ ایک روسی سفیر قسطنطنیہ میں مقیم رہے گا۔
  8. قسطنطنیہ میں مقیم روسی سفیر کو یہ حق حاصل رہے گا کہ نئے کلیسا کے کارکن پادریوں کی حمایت میں جب چاہے سلطنت کے پاس سفارش کرے اور وہ بوقت ضرورت ان صوبوں کے معاملات سلطنت میں پیش کرے اور پوری توجہ کے ساتھ ان کی سماعت ہو۔
  9. روسی رعایا کو یروشلم کی زیارت کا حق حاصل ہوگا اور ان سے کوئی محصول بھی نہیں لیا جائے گا اور ان کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری عثمانی حکومت پر ہوگی۔
  10. روس اور عثمانیوں کے تجارتی جہازوں کو دونوں سلطنتوں کے کنارے واقع تمام سمندروں میں آمدورفت کی پوری آزادی حاصل ہوگی۔
  11. روس عثمانی سلطنت کی حدود کے ہر حصے میں اپنے قونصل بھیجنے کا حق رکھے گا جبکہ عثمانیوں کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا۔
  12. سلطنت عثمانیہ کی رعایا روس سے تجارت کے لیے آزاد ہوگی اور روسی حکومت نے عثمانی تاجروں کو بھی مراعات دینے کا وعدہ کیا۔
  13. زار روس بادشاہ کے لقب سے پکارا جائے گا۔
  14. معاہدہ کناری سے قبل دونوں سلطنتوں کے درمیان جتنے معاہدے ہوئے وہ کالعدم قرار دیے جائیں گے۔ البتہ 1700ء میں ہونے والے معاہدے میں ازوف اور کیوبان کی حدود کے تعین کی پابندی کو برقرار رکھا گیا۔

خفیہ دفعات

ترمیم

اس صلح نامے میں چند خفیہ دفعات بھی شامل تھیں جن میں یہ دو قابل ذکر ہیں:

  1. سلطنت عثمانیہ تین سال میں چار ملین روبل روس کی حکومت کو ادا کرے گی۔
  2. روس کی ملکہ روسی بیڑا بحیرۂ ایجیئن سے فوری واپس بلا لے گی۔

نتائج و اہمیت

ترمیم

فوکشانی اور بخارسٹ کی صلح کانفرنسوں کی مدت اور نتائج کے مقابلے میں کوچک کناری کی یہ صلح حیرت انگیز ہے کیونکہ چند گھنٹوں کی گفت و شنید کے بعد فریقین نے شرائط طے کر لیں۔ اس معاہدے سے واضح ہو گیا کہ سلطنت عثمانیہ اب اپنے علاقوں کا تحفظ بھی نہیں کر سکتی۔ کریمیا اور دیگر تاتاری علاقے اب ان کی حدود سے نکل گئے تھے۔ اس معاہدے کی رو سے ان کی خود مختاری بھی تسلیم کر لی گئی اس سے اب ان کے زوال پزیر ہو جانے میں کوئی کسر نہ رہی۔ سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ تھا کریمیا ایک خالص اسلامی صوبہ تھا اس کا ترکوں کے ہاتھ سے نکل جانا ہنگری کی دست برداری سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا کیونکہ ہنگری کی رعایا مسیحی تھی۔ یہی نہیں بلکہ دونوں فریقین نے اس صلح میں کریمیا کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہ کرنے کا عہد بھی کیا تھا۔ یہ روسی ملکہ کیتھرائن کی ہوشیاری تھی کیونکہ اس طرح وہ اس پر آسانی سے قبضہ کرنے کی امید رکھتی تھی۔ کریمیا سے متعلق صلح نامہ میں ملکہ نے جو چالاکی کی وہ بہت جلد سامنے آگئی کیونکہ پہلے تو اپنے ہی نمائندوں کے ذریعے اندرونی انتشار پیدا کیا پھر اس خود ساختہ فتنہ کو دبانے کے لیے اپنی ہی فوجیں بھیج دیں اور کریمیا پر قبضہ کر لیا۔ باضابطہ قبضہ تو 1873ء میں ہوا لیکن اس کے لیے کوششیں معاہدہ کوچک کناری سے ہی شروع ہو گئی تھیں۔ یہ معاہدہ روس کے لیے کس قدر مفید اور اہم تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ معاہدے کے بعد ملکہ کے ایک پوتے کا نام قسطنطین رکھا گیا اور ماسکو کے ایک دروازے کو باب قسطنطنیہ کے نام سے موسوم کیا گیا جس سے روس کے آئندہ کے خوش کن تصورات کا اظہار مقصود تھا۔ اس معاہدے کی رو سے روس کو سلطنت عثمانیہ کی مسیحی رعایا خصوصاً کلیسائے یونان سے وابستہ رہنے والی رعایا کی حمایت کا حق بھی دے دیا گیا تھا۔ اس کے نتائج عثمانی سلطنت کے لیے انتہائی مضر ثابت ہوئے کیونکہ اس سے ہمیشہ کے لیے عثمانیوں کے لیے خطرہ پیدا ہو گیا اور دراصل یہ شرط سلطنت عثمانیہ کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف تھی۔ یہ معاہدہ ایسا تھا جس نے سلطنت عثمانیہ کو روس کی مرضی اور رحم و کرم پر چھوڑ دیا بلکہ ترک اخلاقی طور پر بھی روس کی طاقت سے مرعوب نظر آنے لگے۔ اس صلح نامے کے بعد جب بھی ترکوں اور یورپ کی کسی حکومت میں جنگ ہوتی تو اس کا سبب مسیحیوں کے حقوق قرار دیے جاتے۔ واضح الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ معاہدہ روس کی ایک واضح کامیابی اور سلطنت عثمانیہ کے زوال کی جانب اہم قدم تھا۔ اس کی تمام دفعات عثمانی سلطنت کے لیے نقصان کا باعث تھیں۔