مازن الحمادہ

شامی کارکن

مازن حمادہ (عربی: مازن الحمادة؛ 3 جولائی 1977ء(1977ء-07-03)ت دسمبر 2024ء) دیر الزور سے تعلق رکھنے والے شامی کارکن تھے۔[1] مازن کو سنہ 2011ء میں عرب بہار میں حکومت مخالف مظاہروں میں حصہ لینے پر ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ تک قید کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ شام سے جلاوطنی کے بعد وہ نیدرلینڈز میں پناہ کے متلاشی بن گئے جہاں انھوں نے عوامی طور پر اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی گواہی دی۔ سنہ 2020ء میں مازن جبری گمشدگی کا نشانہ بنے، جب انھیں شام واپسی پر ہوائی اڈے پر شامی انٹیلی جنس نے گرفتار کر لیا۔ ان کی لاش دسمبر 2024 میں صیدنایا جیل سے ملی۔[7]

علاقائی ناممازن الحمادة
پیدائش3 جولائی 1977(1977-07-03)
دیر الزور، شام[1]
غائب22 فروری 2020 (عمر: 42 برس) [2]
وفاتت (عمر 47)[3]
صیدنایا جیل، صیدنایا، صوبہ ریف دمشق، شام[4]
قومیتشامی[1]
تعلیمادارۂ صنعتِ پیٹرولیم
پیشہسماجی کارکن برائے انسانی حقوق، تیل اور گیس ٹیکنیشین
رشتے دار
  • جود الحمادہ (بھانجی)[5]
  • اَمل الحمادہ (بہن)[6]

سوانح حیات

ترمیم

ماسن انسٹی ٹیوٹ آف دی پیٹرولیم انڈسٹری کے گریجویٹ تھے، اور فرانسیسی ملٹی نیشنل تیل اور گیس کمپنی شَلمْبَرگَر کے ٹیکْنِیشِیَن کے طور پر کام کیا۔[8]

انھوں نے مزید آزادی اور جمہوریت کا مطالبہ کرنے والے مظاہروں میں حصہ لیا، اور ان واقعات کو اپنے فون سے فلمانے کا فیصلہ کیا۔[8] مازن کو پہلی بار 24 اپریل 2011ء کو بشار حکومت کی انٹیلی جنس سروسز نے گرفتار کیا تھا۔[9] انھیں ایک ہفتے بعد رہا کر دیا گیا۔ 29 دسمبر 2011ء کو دوسری گرفتاری کے بعد اور اسی حوالات میں دو ہفتے کی نظر بندی کے بعد انھوں نے دمشق جانے کا ارادہ کیا۔[10]

گرفتاریاں، اسیری اور تشدد

ترمیم

مارچ 2012ء میں مازن نے شیر خوار بچوں کے خشک دودھ کے 55 پیکٹ دمشق کے مضافات میں اِسْمَگَل کرنے کی کوشش کی۔ اس کے فوراً بعد انھیں اور ان کے دو بھتیجوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ انھیں مزہ ملٹری ایئرپورٹ کی فضائیہ کی انٹیلی جنس سروس کی شاخ میں لایا گیا۔ بعد ازاں مازن کے دو بھتیجوں نے حراست میں ہی داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔[1][9] گرفتاری کے دو ہفتے بعد انھیں 170 دیگر قیدیوں کے ساتھ، "ایک چھوٹے سے طیران خانے میں جو چالیس فٹ لمبا اور بیس فٹ چوڑا تھا"[1] حراست میں لیا گیا۔[11]

تشدد کے دوران مازن کو دہشت گرد ہونے، ہتھیار رکھنے اور حکومتی فوجیوں کے قتل کے الزامات کا اعتراف کرنے پر مجبور کیا گیا۔ جب انھوں نے اعتراف کرنے سے انکار کیا تو گُماشتوں کو بلوا کر انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔ ان کے ہاتھ باندھے گئے اور انھیں مارا پیٹا گیا۔ مجبوراً اپنے مصائب کو کم کرنے کے لیے انھوں نے ایک اعتراف نامے پر دستخط کرنے پر رضامندی ظاہر کی، یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ ان کے پاس مظاہرین کی حفاظت کے لیے ایک ہتھیار تھا، لیکن انھوں نے کسی بھی دوسرے جرم کا اعتراف کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد انھیں دوسرے تفتیش کے کمرے میں منتقل کر دیا گیا، جہاں ان کو برہنہ کر کے جنسی استحصال کیا گیا۔ اس تشدد کے بعد انھوں نے تمام دستاویزات پر دستخط کیے۔[1][12]

سنہ 2013ء کے آغاز میں وہ علیل ہو گئے اور انھیں فوجی ہسپتال 601 لے جایا گیا، جسے دوسرے نظر بند افراد نے "مذبح خانہ" کا نام دیا۔ ہسپتال لے جاتے ہوئے مازن پر جسمانی تشدد کیا گیا۔ انھیں اپنا نام بھول جانے کو کہا گیا، اور انھیں "1858" نمبر دیا گیا۔ وہاں انھوں نے زیر حراست افراد کو تشدد کا نشانہ بنتے ہوئے، بیت الخلاء میں لاشوں کے ڈھیر لگتے ہوئے اور ہسپتال کے عملے کے ہاتھوں مریضوں کو جان سے مارتے ہوئے دیکھا۔ مازن نے ڈاکٹر سے دوبارہ حراست میں رکھنے کی التجا کی۔[1][11]

مزہ ہوائی اڈے پر واپس آنے کے بعد ایک ماہ تک زیر حراست ڈاکٹر نے ان کا علاج کیا، اس سے پہلے انھیں 1 جون 2013ء کو قابون ملٹری پولیس کے حوالے کیا گیا، اور پھر 5 جون 2013ء کو عدرا جیل منتقل کیا گیا جہاں وہ تقریباً دو ماہ تک رہے۔ مازن کو بالآخر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں لے جایا گیا،[1] جس نے 3 ستمبر 2013ء کو ان کی رہائی کا حکم دیا۔

ایک سال اور سات ماہ تک جاری رہنے والی قید کے دوران، مازن کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انھیں جسمانی، ذہنی اور جنسی استحصال کا سامنا کرنا پڑا، اور حکومت کی جیلوں میں قید ہونے سے انھیں مستقل جسمانی اور نفسیاتی چوٹیں آئیں، جن میں شرم گاہ کی چوٹیں بھی شامل تھیں جس کے بعد وہ بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوگئے۔[12][13]

جلا وطنی

ترمیم

ان کی رہائی کے بعد بھی انٹیلی جنس سروس کو مازن کی تلاش تھی۔ اس لیے انھوں نے شام چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور نیدرلینڈز میں پناہ کے لیے درخواست دی۔[13]

شام واپسی اور جبری گمشدگی

ترمیم

مازن ان شامی باشندوں کی مدد کرنا چاہتے بتھے جو ابھی تک زیر حراست ہیں، اور وہ ان کی حالت کو بہتر بنانے میں خوف کو بے اختیار محسوس کرتے تھے۔ شامی سفارت خانے کے لوگوں نے ان سے رابطہ کیا، جو بشار اسد حکومت کے قریبی تھے، اور انھیں قیدیوں کو رہا کرنے کے وعدوں کی لالچ دے کر شام واپس لایا گیا۔[12] مازن نے لکھا کہ وہ دوسروں کو بچانے کے لیے خود کو قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔

مازن برلن گئے جہاں انھوں نے سفارت خانے سے شامی پاسپورٹ اور ویزا حاصل کیا۔[12] 23 فروری 2020ء کو دمشق ہوائی اڈے پر پہنچنے پر، مازن کو حکومت کی سیکیورٹی سروسز نے گرفتار کر لیا۔[12][14][15]

مازن کی لاش 9 دسمبر 2024ء کو ملی، جب فری سیریئن آرمی کی مزاحمتی افواج نے دمشق کی فتح کے دوران میں صیدنایا جیل کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔[16] خیال کیا جاتا ہے کہ مازن کی لاش کی دریافت ہونے سے چند دن پہلے انھیں پھانسی دے دی گئی تھی، جس پر تشدد اور مار پیٹ کے واضح آثار موجود تھے۔[17][18][19]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ Ben Taub (2016-04-11)۔ "{{subst:PAGENAME}} Assad's War Crimes"۔ The New Yorker (بزبان انگریزی)۔ Condé Nast۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 دسمبر 2021 
  2. "{{subst:PAGENAME}} Al-Hamada"۔ Syrian Emergency Task Force (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2024 
  3. "{{subst:PAGENAME}}: Mazen al Hamada describes being tortured by Assad regime - he was later murdered"۔ Sky News (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 دسمبر 2024 
  4. "{{subst:PAGENAME}}: Mazen al Hamada describes being tortured by Assad regime - he was later murdered"۔ Sky News (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 دسمبر 2024 
  5. "Activist Who Told The World About Torture in Syria Is Laid to Rest"۔ New York Times (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2024 
  6. "Funeral for activist turns into call for justice for other missing Syrians"۔ AP News (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 دسمبر 2024 
  7. "Watch: Mazen al Hamada describes being tortured by Assad regime - he was later murdered"۔ Sky News (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 دسمبر 2024 
  8. ^ ا ب Stéphane Bussard (2021-03-05)۔ "Mazen al-Hamada, un tragique destin syrien"۔ Le Temps (بزبان فرانسیسی)۔ ISSN 1423-3967۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 دسمبر 2021 
  9. ^ ا ب Stéphane Bussard (2017-03-14)۔ "Le combat de Mazen, digne survivant de la dictature syrienne"۔ Le Temps (بزبان فرانسیسی)۔ ISSN 1423-3967۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 دسمبر 2021 
  10. "Center for Documentation of Violations in Syria - The Testimony of the Detainee: Mazen Besais Hamada On Air Force Branch-Mazzeh Military Airport"۔ www.vdc-sy.info۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 دسمبر 2021 
  11. ^ ا ب Thomas Cluzel (2017-03-17)۔ "La Syrie, une salle de torture"۔ France Culture (بزبان فرانسیسی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 دسمبر 2021 
  12. ^ ا ب پ ت ٹ Liz Sly (March 4, 2021)۔ "He told the world about his brutal torture in Syria. Then, mysteriously, he went back."۔ Washington Post (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 دسمبر 2021 
  13. ^ ا ب لوا خطا ماڈیول:Citation/CS1 میں 4492 سطر پر: attempt to index field 'url_skip' (a nil value)۔
  14. "Re-arrest of former detainee Mazen al-Hamada"۔ Syrian Human Rights Committee۔ 2020-02-24۔ 05 نومبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 دسمبر 2021 
  15. "What's Happened to Mazen Hamada?"۔ The Syrian Observer۔ 2020-02-25۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 دسمبر 2021 
  16. "Israel bombards Syria as opposition seeks to form a new government"۔ Al Jazeera (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 دسمبر 2024 
  17. "Syrian activist Mazen al-Hamada found dead in Saydnaya prison with signs of torture"۔ The New Arab۔ 10 December 2024۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 دسمبر 2024 
  18. "Syrian activist whose suffering became symbol of Assad brutality found dead in Sednaya prison"۔ The Guadian 
  19. "Mazen al-Hamada, symbol of Syrian regime's brutality, confirmed dead"۔ Washington Post