صیدنایا جیل

دمشق کے قریب واقع فوجی جیل

صیدنایا جیل جو "انسانی مذبح خانہ" (المسلخ البشري)[ا] کے لقب سے مشہور ہے، شام کے شہر دمشق کے شمال میں ایک فوجی جیل اور موت کا کیمپ[1][2] تھا جسے سوری عرب جمہوریہ کی حکومت چلاتی تھی۔ اس جیل کو ہزاروں قیدیوں کے لیے استعمال کیا گیا، جن میں شہری قیدی اور حکومت مخالف باغی اور سیاسی قیدی بھی شامل ہیں۔[3][4] سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) نے جنوری 2021ء میں اندازہ لگایا کہ شام کی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے صیدنایا میں اسد حکومت کے ذریعہ تشدد بدسلوکی اور بڑے پیمانے پر پھانسی کے نتیجے میں 30،000 قیدی موت کے گھاٹ اتارے گئے،[5] جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فروری 2017ء میں اندازہ لگایا کہ "ستمبر 2011ء اور دسمبر 2015ء کے درمیان میں صیدنایا کے مقام پر 5،000 سے 13،000 افراد کو ماورائے عدالت پھانسی دی گئی۔"[6]

صیدنایا جیل
صیدنایا جیل is located in Syria
صیدنایا جیل
مقامصیدنایا، صوبہ ریف دمشق، شام
متناسقات33°39′54″N 36°19′43″E / 33.66500°N 36.32861°E / 33.66500; 36.32861
حیثیتکالعدم
آغاز1986ء (1981ء میں تعمیر کا آغاز ہوا)
بند8 دسمبر 2024ء

انسانی حقوق کی تنظیموں نے ملک بھر میں بشار الاسد کی حکومت کے زیر انتظام 27 سے زیادہ جیلوں اور حراستی مراکز کی نشان دہی کی جہاں قیدیوں کو معمول کے مطابق سخت تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور قتل کیا جاتا تھا۔[7] ایک جیل سے فرار ہونے والے شامی شخص (جنھیں فرضی نام "قیصر" سے جانا جاتا تھا) نے ان جیلوں کی ہزاروں تصاویر چھپکے سے کھینچی تھیں، جن میں ان لوگوں کی لاشیں دکھائی گئیں جنھیں سخت تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا تھا۔[8]

جیل کے ایک سابق قیدی جنھیں پُر امن اور عدم تشدد والے احتجاج میں حصہ لینے پر حراست میں لیا گیا تھا، نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا کہ صیدنایا میں قیدیوں کو مجبور کیا جاتا کہ وہ خود کو مرنے دیں یا اپنے کسی رشتہ دار یا دوست کا قتل کر دیں۔ سابق قیدی نے یہ بھی بتایا کہ وہ پہلی جیل میں تھے جس میں قیدیوں کو آدم خوری پر مجبور کیا جاتا تھا، لیکن وہ جیل پھر بھی صیدنایا جیل کے مقابلے میں "جنت" تھی۔ قیدی کے مطابق، دوسری جیل (برانچ 215) "تفتیش" اور تشدد کے لیے تھی، لیکن جب یہ مرحلہ مکمل ہو جاتا تو قیدیوں کو "مرنے کے لیے" صیدنایا منتقل کر دیا جاتا۔[9]

جیل میں مختلف قسم کے غیر انسانی اذیتیں دی جاتی تھیں جن میں دائمی مار پیٹ، جنسی حملوں، سر قلم کرنے، عصمت دری، جلانے، اور "اڑنے والے قالین" کے نام سے جانے والے قبضوں والے تختوں (hinged boards) کے استعمال شامل تھے۔[10][11] سنہ 2017ء میں امریکی محکمہ خارجہ نے الزام لگایا کہ بشار الاسد حکومت سزائے موت پانے والوں کی لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے جیل میں ایک شمشان گھاٹ کا استعمال کرتی رہی ہے۔

8 دسمبر 2024ء کو مزاحمتیوں نے دمشق میں پیش قدمی کرتے ہوئے جیل پر قبضہ کر لیا۔ جیل انتظامیہ نے قید خانہ کو مزاحمتی افواج کے حوالے کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی جس کے بدلے ان کو بحفاظت واپس جانے کی اجازت دی گئی۔ قبضے کے بعد صیدنایا جیل کے "سفید عمارت" کے حصے میں باقی قیدیوں بہ آسانی رہا کر دیا گیا اور مزاحمتی جیل کے گہری تر "سرخ عمارت" کے حصے سے قیدیوں کو رہا کرنے میں مصروفِ عمل رہے۔[12][13][14]

صیدنایا کو بشار الاسد حکومت کے جیلوں کے نیٹ ورک میں سب سے زیادہ بد نام سمجھا جاتا اور تشدد، جنسی حملوں اور کثرت سے سزائے موت دینے کی وجہ سے حکومت کے جبر کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ 2024 میں صیدنایا قید خانہ پر قبضہ کے بعد ہیئت تحریر الشام نے جیل سے فرار ہونے والے عملے کی ایک فہرست شائع کی، جو اسد خاندان کے بعد شام میں انتہائی مطلوب مفرور دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہیں۔[15][16]

حواشی

ترمیم
  1. مآخذ:
    • Human Slaughterhouse: Mass Hangings and Extermination at Sednaya Prison, Syria (PDF)۔ London: Amnesty International۔ 2017۔ صفحہ: 11۔ 05 دسمبر 2021 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ  (source of Arabic name, English version here)
    • Hosam al-Jablawi (13 July 2017)۔ "Horrifying Testimony on "Syria's Human Slaughterhouse," Saydnaya Prison"۔ Atlantic Council۔ 20 جولا‎ئی 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
    • "A 'human slaughterhouse' in Syria"۔ دی واشنگٹن پوسٹ۔ 11 February 2017۔ 14 فروری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
    • "The Human Slaughterhouse"۔ Annecy Festival۔ 25 مارچ 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ 

حوالہ جات

ترمیم
  1. Anaelle Jonah (9 December 2024)۔ "'Death camp': the haunting history of Syria's Sednaya prison"۔ France24 
  2. Zack Beauchamp (7 February 2017)۔ ""All you see is blood": life at a death camp where Assad has slaughtered thousands"۔ Vox 
  3. Matt Broomfield (5 May 2016)۔ "Prisoners riot over claims President Assad is about to start torturing and executing them"۔ The Independent (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 مئی 2017 
  4. "syria bodies"۔ Washington Post۔ December 2018 
  5. "Torture victims | Civilian from Daraa dies in Sednaya prison"۔ 9 January 2021۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2021 
  6. Editorial Board (11 February 2017)۔ "A 'human slaughterhouse' in Syria"۔ The Washington Post 
  7. "Thousands who protested peacefully languish in Syrian jails: HRW"۔ Reuters۔ 3 October 2013۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 دسمبر 2024 
  8. Greg Miller (28 July 2014)۔ "In D.C., Syrian defector displays photos of mutilated bodies"۔ The Washington Post۔ 06 اکتوبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 دسمبر 2024 
  9. "Former Detainee Describes Atrocities Inside Syrian Prison"۔ www.wbur.org۔ 9 February 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جولا‎ئی 2017 
  10. Ole Solvang (3 July 2012)۔ "Torture Archipelago"۔ Human Rights Watch (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 دسمبر 2024۔ ...the board is folded in half so that the victim’s face touches his legs both causing pain and further immobilizing the victim 
  11. "End the Horror in Syria's Prisons"۔ Amnesty International۔ 2016۔ 09 ستمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  12. Raja Abdulrahim (7 December 2024)۔ "Syrian rebels said their forces had entered Damascus and taken the Sednaya prison complex north of the city."۔ نیو یارک ٹائمز۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2024 
  13. "In Syria's former 'slaughterhouse,' a desperate hunt for the disappeared"۔ Washington Post 
  14. "Syria rebel leader vows to shut down notorious Assad prisons"۔ BBC news 
  15. "Searching for Loved Ones in a Newly Liberated Syrian Prison"۔ The New Yorker