مجمع الاولیاء
ملا بدر الدین سرہندی کی تالیف جس میں ایک ہزار پانچ سو اولیاء کرام کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ 1044ھ میں مکمل ہوئی لیکن بعد میں اس میں بعض لوگوں نے تحریف کر کے اسے پایہ اعتبار سے گرا دیا۔[1]
مصنف نے یہ کتاب علی اکبر اردستانی کروڑی سرہندی کی استدعا پر تالیف کی۔ مصنف کے بیان کے مطابق اس کروڑی نے ان سے یہ کتاب مستعار لی اور اس میں تحریف کرکے اپنے نام سے شہرت دی۔ وہ علمی اعتبار سے عامی تھا اس لیے اس نے یہ کام دوسروں کی مدد سے کیا۔[2]
مجمع الاولیاء کا محرف خطی نسخہ کتب خانہ انڈیا آفس لندن میں موجود ہے۔[3] فہرست نگار نے اس کے مولف کا نام علی اکبر حسینی اردستانی لکھا ہے۔ یہ نسخہ مولف کا خود نوشتہ ہے۔ اس میں جابجا کاٹ چھانٹ اور رد و بدل کیا گیا ہے گویا یہ وہی محرف نسخہ ہے جس میں علی اکبر نے اپنی خواہش کے مطابق تبدیلیاں کروائی تھیں اور اس پر اپنا نام علی اکبر اردستانی بحثیت مولف لکھ دیا تھا۔ اس کتاب میں حضرت مجدد الف ثانی اور آپ کے صاحبزادوں حضرت خواجہ محمد سعید اور حضرت خواجہ محمد معصوم کا ذکر جس محبت و خلوص سے درج ہوا ہے وہ بھی اس کی غمازی کرتا ہے کہ یہ ملا بدر الدین سرہندی ہی کی تالیف ہے۔[4]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ حضرات القدس، مقدمہ از محبوب الہی، بدر الدین سرہندی
- ↑ سنوات الاتقیاء، ملا بدر الدین سرہندی
- ↑ مجمع الاولیاء، ملا بدر الدین سرہندی، خطی نسخہ، کتب خانہ انڈیا آفس لندن، فہرست ایتھے 645, 646
- ↑ حسنات الحرمین، اردو ترجمہ محمد اقبال مجددی