رسالہ حسنات الحرمین حضرت خواجہ محمد معصوم کے ان مکاشفات، احوال اور فرمودات کا مجموعہ ہے جو آغاز سفر حرمین الشریفین، قیام حجاز اور ہندوستان کی طرف واپسی کے دوران بیان کیے۔ اصل رسالہ عربی میں تھا جسے حضرت خواجہ عبیداللہ مروج الشریعت نے عربی زبان میں دوران سفر حرمین الشریفین قلمبند کیا اور سرہند شریف پہنچ کر اس کی تکمیل کی۔ آپ ہی کے حکم پراس کا مشروح فارسی میں ترجمہ محمد شاکر بن ملا بدالدین سرہندی نے 1071ھ بمطابق761ء میں مکمل کیا اور اسے حسنات الحرمین کا نام دیا گیا۔ مترجم نے وضاحت کی ہے کہ اگرچہ اس مجموعہ میں زیادہ تر حضرت خواجہ عبیداللہ مروج الشریعت کے بیان کردہ مکاشفات ہیں لیکن چند ایک بیانات دیگر صاحبزادگان کے بھی اس میں شامل ہیں جن کے نام ان مواقع پر لکھ دیے گئے ہیں۔

حسنات الحرمین کی مقبولیت ترمیم

سالِ تالیف سے لے کر تا حال یہ مجموعہ بہت ہی مقبول اور اس نقشبندیہ مجددیہ کے حلقہ میں متداول رہا ہے۔ اس رسالہ کے جامع حضرت خواجہ عبیداللہ مروج الشریعت نے اپنے ایک مکتوب میں اس رسالہ کی مقبولیت اور حضرت مجدد الف ثانی نے عالم مکاشفہ میں اس میں بیان کردہ اسرار و معاملات کی صحت کے بارے میں جس مثبت رائے کا اظہار فرمایا تھا اس سے خود آگاہ فرمایا۔[1]

حسنات الحرمین کے اقتباسات 'نتائج الحرمین' میں ترمیم

اس رسالہ کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اس کی تبیض سے پہلے ہی اس کے اقتباسات لیے جانے لگے تھے۔ سلسلہ مجددیہ کے ایک عظیم محقق مولانا محمد امین بدخشی جو اس رسالہ کی ترتیب کے زمانہ 1068ھ بمطابق 1658ء میں حرمین الشریفین میں موجود تھے اور حضرت شیخ آدم بنوڑی کے حالات پر ایک ضخیم کتاب نتائج الحرمین کی تالیف میں مصروف تھے، جب حضرات سرہند کی حرمین الشریفین میں حاضری کا سنا تو کشاں کشاں ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کے پاس رہنے لگے۔ وہ ان دنوں نتائج الحرمین کی جلد سوم کی تدوین کر رہے تھے کہ اس کام کو روک کر انھوں نے عربی زبان میں حضرت خواجہ محمد معصوم اور دیگر حضرات سرہند کے حالات پر ایک مستقل کتاب لکھی اور نتائج الحرمین کی تکمیل کے بعد اس کا عربی سے فارسی میں ترجمہ بھی کیا۔

انھوں نے مزکورہ کتاب، اس کے فارسی ترجمہ اور نتائج الحرمین میں رسالہ حسنات الحرمین کے عربی متن سے بکثرت اقتباسات اپنی ان تینوں کتابوں میں شامل کیے گویا حسنات الحرمین سے اولین اقتباسات کا شرف مولانا محمد امین بدخشی کو حاصل ہوا۔[2]

حسنات الحرمین کے اقتباسات 'حسنات المقربیں' میں ترمیم

ان کے بعد سلسلہ مجددیہ کے ایک اور نامور سوانح نگار شیخ محمد مراد ٹنگ کشمیری متوفی 1124ھ بمطابق 1712ء جنھوں نے اس سلسلہ کی تاریخ پر قابل توجہ کتابیں تالیف کیں، اپنی کتاب حسنات المقربیں میں حسنات الحرمین کے نصف سے زیادہ حصے کو نقل کر لیا ہے۔[3]

حسنات الحرمین کے اقتباسات 'مقامات معصومیہ 'میں ترمیم

حضرت خواجہ محمد معصوم سرہندی پر سب سے زیادہ ضخیم اور اہم کتاب مقامات معصومیہ کے مولف خواجہ صفر احمد معصومی نواسئہ حضرت مجدد الف ثانی نے حسنات الحرمین میں سے سترہ یواقیت کو اپنی اس کتاب کی زینت بنایا۔[4]

حسنات الحرمین کے اقتباسات 'روضتہ القیومیہ 'میں ترمیم

روضتہ القیومیہ کے مولف کمال الدین محمد احسان نے حسنات الحرمین سے بے شمار اقتباسات اپنی اس کتاب میں شامل کیے اور کئی مقامات پر براہ راست اس کے عربی متن سے استفادہ کرنے کا دعوی بھی کیا ہی۔[5]

حسنات الحرمین سے استفادہ ترمیم

حضرت شاہ روف احمد رافت مجددی نے بھی اپنی بعض تالیفات میں اس سے استفادہ کیا ہی۔[2]

حسنات الحرمین کے خطی نسخے ترمیم

حسنات الحرمین کے فارسی ترجمے کے دستیاب خطی نسخوں کی تفصیل درج ذیل ہے:

یہ نسخہ دریافت شدہ تمام نسخوں میں کتابت کے اعتبار سے قدیم ترین ہے۔ اس کا سال کتابت 1072ھ ہے۔

اگرچہ اس میں سال کتابت درج نہیں ہے لیکن حدود 1200ھ کا معلوم ہوتا ہے۔

حضرت مولانا زید ابو الحسن فاروقی بن حضرت شاہ ابوالخیر مجددی دہلوی، سجادہ نشین درگاہ عالیہ حضرت میرزا مظہر جان جاناں و حضرت شاہ ابوالخیر مجددی دہلوی کے ذاتی کتب خانہ میں وہ نسخہ ہے جو ان کے والد نے مدینہ منورہ سے حاصل کیا تھا۔

اس نسخہ کا نام فہرست مخطوطات فارسی مدینہ منورہ میں درج ہے۔ نسخہ نمبر225۔[6]

  • کتب خانہ لینن گراڈ، روس۔

کتب خانہ لینن گراڈ، روس میں بھی اس کا ایک نسخہ پایا جاتا ہے۔[7]

  • اقتباسات حسنات الحرمین۔

رسالہ حسنات الحرمین کے طویل اقتباسات حسنات المقربین، مقا مات معصومیہ اور روضتہ القیومیہ میں پائے جاتے ہیں۔[2]

اردو ترجمہ ترمیم

حسنات الحرمین کے نام سے ہی محمد اقبال مجددی نے تحقیق و تعلیق کے بعد اردو زبان میں اس کا ترجمہ کیا اور مکتبہ سراجیہ خانقاہ احمدیہ سعیدیہ، موسی زئی، ڈیرہ اسماعیل خان، پاکستان نے اسے 1402ھ / 1981ء میں پہلی مرتبہ شائع کیا۔

حسنات الحرمین کی تاریخی اہمیت ترمیم

یہ کتاب جہاں تصوف و روحانیت میں دلچسپی رکھنے والے احباب کے لیے جہاں ارمغان روحانی ہے وہیں تاریخ و تحقیق پر کام کرنے والوں کے لیے علمی و تاریخی سوغات ہی۔ یہ نادر کتاب ایک ایسا آئینہ ہے جو مغلیہ دور حکومت کی تین مشہور شخصیتوں شاہجہاں، داراشکوہ اور اورنگزیب عالمگیر کے باہمی تعلقات و مناقشات، نت نئے ظہور پزیر ہونے والے تغیرات، دارا شکوہ کے سہارے صوفیائے خام کی پیدا کردہ ذہنی و مذہبی کشمکش اور اس میں خانوادہ مجددیہ کا کردار، ان کی تحریک احیائے دین کے اثرات اور برصغیر کے مسلمانوں کے حق میں رونما ہونے والے ثمرات و نتائج کی بھرپور رونمائی کرتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ کتاب اس حقیقت کا بھی انکشاف کرتی ہے کہ خانوادہ مجددیہ اور اس کے متعلقین کا تحریری سرمایہ کھنگالے بغیر اُس دور کی صحیح ترین اور مکمل ترین تاریخ مرتب نہیں کی جا سکتی۔[2]

حوالہ جات ترمیم