محاصرہ قسطنطنیہ 674ء تا 678ء
عرب بازنطینی جنگیں ساتویں صدی میں ایک نئے اور سنگین موڑ پر آ کھڑی ہوئیں۔ مسلمانوں نے پہلی مرتبہ بازنطینی سلطنت کی دار الحکومت قسطنطنیہ کا محاصرہ 674ء تا 678ء کیا، البتہ مسلمان، شہر کی مضبوط فصیلوں، سخت سرد موسم، کھانے کے سامان کی قلت اور جدید رومی ہتھیار یونانی آگ کے باعث شہر کو فتح کرنے میں ناکام رہے۔ یہ جنگ خلافت امویہ اور بازنطینی روم کے مابین تھی۔
محاصرہ قسطنطنیہ 674ء تا 678ء | |||
---|---|---|---|
|
پس منظر
ترمیممسلمانوں کی پہلی خانہ جنگی کے بعد اور خلیفہ حضرت علی بن ابی طالب (کرم اللہ وجہہ) کی شہادت کے بعد جب جزیرہ نما عرب میں حضرت معاویہ بن ابو سفیان () کے سوا کوئی اور بڑا حکمران نہ رہا تو بنی امیہ کی سرپرستی کے ساتھ ساتھ، حضرت معاویہ بن ابو سفیان () نے تقریباً پورے مسلم خطے کی قیادت کو سنبھالا اور ایک نئی خلافت قائم کی جس کا نام خلافت امویہ ہوا۔ اس سے قبل، بطور صوبہ دار دمشق قلمرو، حضرت معاویہ بن ابو سفیان () خلافت راشدہ کے لیے کئی اہم بری و بحری جھڑپوں کی جنگی منصوبہ بندی کر چکے تھے اور کافی کامیابیاں بھی حاصل کیں۔ قسطنطین چہارم کے والد کنستانس دوم نے بازنطینی روم پر حضرت معاویہ بن ابو سفیان () کے کیے حملوں کا وار کا ناکام سامنا کیا اور آخر کار امن کی طلب کرتے ہوئے کچھ عرصے کے لیے جنگ بندی کا سہارا لیا۔ بعد ازاں پھر جھڑپیں شروع ہوئیں۔ بازنطینی روم کی خوش قسمتی سے مسلمانوں میں اسی دوران میں خانہ جنگی چھڑ گئی اور جب حضرت معاویہ بن ابو سفیان () دوبارہ مغربی سرحدوں کی طرف متوجہ ہوئے تو بازنطینی روم میں اب قیصر، قسطنطین چہارم تھا۔ جب کنستانس دوم جنوب اٹلی میں تھا تو قسطنطنیہ میں قسطنطین چہارم کو انتظامیہ سنبھالنے کی ذمہ داری سونپ آیا۔ باپ کی غیر موجودگی میں قسطنطین نے سلطنت کے مشرقی علاقوں کی احسن نگرانی کی۔ لیکن جنوب اٹلی کے فریقوں نے کنستانس دوم کو قتل کر دیا اور پھر قسطنطین چہارم ہی قیصر بازنطینی روم 668ء میں بنا۔
جنگی تیاریاں اور حملہ
ترمیمویسے تو قسطنطنیہ پر حملے کی منصوبہ بندی کا حکم خلیفہ حضرت عثمان ابن عفان () نے دیا تھا اور تجویز حضرت معاویہ بن ابو سفیان () کی تھی، مگر خلافت راشدہ کے سیاسی حالات نے کسی ایسے بڑے پیمانے پر کیے جانے والے حملے کا موقع نہ دیا۔ لیکن اب چونکہ ایک نئی خلافت قائم ہوئی تھی اور وہ اس وقت کسی بڑے مسلے میں گری ہوئی نہ تھی تو اموی خلیفہ حضرت معاویہ بن ابو سفیان () نے حضرت ابو بکر صدیق () کے بیٹے حضرت عبدالرحمان ابن ابی بکر () کو (اور بعض سنی مورخوں کے مطابق اپنے بیٹے یزید بن معاویہ کو یا شاید دونوں کو) شام کے ایک بھاری فوجی دستے کا سپہ سالار مقرر کیا اور قسطنطنیہ کی جانب روانہ کیا۔ یہ فوج بذریعہ بحیرہ روم کے پہلے سميرنا سردیوں کے دنوں میں رکی اور بعد میں کلیکیا کی جانب روانہ ہوئی۔ یہاں سے اور فوجی دستے لے کر در دانیال اپریل 674ء میں پہنچے۔ بحیرہ مرمرہ کے دو اہم زاویہ نما ابھار کے بیچ میں اموی بیڑے انتظار میں پوشیدہ رہے جو قسطنطنیہ کے قلع کے "سنہرے دروازے" کے قریب تھے۔ اور مہینوں بھر، بازنطینی بیڑے جو بندرگاہ کا دفاع کرتے یا وہاں سے گزرتے پر صبح سے شام حملوں کا سلسلہ جاری رکھتے۔
قسطنطین چہارم نے قبل از جنگ دو اہم اقدامات اٹھائے۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کی اس پیش رفت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے پہلے سے ہی ایک لمبے محاصرے کے لیے دفاعی انتظامات کیں تھیں جن میں نہ صرف قلع کی دیواروں اور برجوں کو مضبوط کرنا اور کھانے پینے کا سامان اکٹھا کرنا تھا بلکہ ایسے بحری بیڑے تیار کیے جو نالی یا خم دار نلکی کے ذریعے آگ پھینکتے تھے، جسے یونانی آگ کا نام دیا گیا۔ بعلبک (موجودہ لبنان) کے کالینیکوس نامی مسیحی پناہ گزین نے بازنطینی سلطنت کے لیے اسے ایجاد کیا تھا۔ اس کا تاریخ میں پہلی بار استعمال، اسی جنگ میں ہوا اور اموی بیڑوں کو بہت بھاری نقصان پہنچایا۔
محاصرہ
ترمیمجب حملوں کا سلسلہ جاری ہوا تو مسلمان زیادہ آگے نہ بڑھے۔ جب ستمبر تک بھی معاملات نتائج خیز نہ رہے اور سردیاں بھی قریب تھیں تو حضرت عبدالرحمان ابن ابی بکر () نے وہاں سے کوچ کیا اور سائیزیکس کو اپنا سردیوں کا قیام مرکز بنایا۔ دریں اثنا، عرب افواج کو موسم سرما میں بھوک کا بھی شدید مسلہ تھا۔ اور اگلے پانچ سال ہر موسم بہار میں قسطنطنیہ پر حملے کیے اور قسطنطنیہ کے محاصرے کو جاری رکھا۔ مگر قلع کی دیواریں بہت اونچی اور مضبوط تھیں اور ہر سال بازنطینی بحری بیڑے یونانی آگ کے ذریعے مسلمانوں کو نقصان پہنچاتے جس کی وجہ سے وہ پھر بغیر حتمی نتیجے کے لوٹ جاتے۔ بالآخر 678ء میں، عربوں کو محاصرے کو ختم کرنے کے لیے مجبور کر دیا گیا اور وہ واپس چلے گئے۔ راستے میں بازنطینی رومیوں نے پھر لیکیہ میں عربوں کو شکست دی۔ اس طرح قسطنطنیہ بچ گیا۔
عواقب و نتائج
ترمیماس غیر متوقع ہار نے اموی خلیفہ حضرت معاویہ بن ابو سفیان () کو قیصر بازنطینی روم، قسطنطین چہارم سے جنگ بندی کی درخواست کرنی پڑی۔ جنگ بندی کی شرائط کے مطابق مسلمانوں کو بحیرہ روم تا بحیرہ ایجیئن کے درمیان میں کے جزائر کو واپس کرنا تھا اور بازنطینی روم کو پچاس غلاموں اور پچاس گھوڑوں اور سونے کے 3،000 صولدی پر مشتمل سالانہ خراج عقیدت پیش کرنا تھا۔
بلا تعطل اسلامی توسیع کے 50 سال بعد یہ پہلی مرتبہ مسلمانوں کو شکست ہوئی۔ اس کے نتیجے میں اگلے تیس سال تک بازنطینی روم پر اموی حملے نہ ہوئے۔ اس سے تھیسالونیکی کو اسلاو حملوں سے بچانے کا موقع قسطنطین چہارم کو ملا۔