قسطنطنیہ کے محاصروں کی فہرست
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
بازنطینی سلطنت کی تاریخ میں قسطنطنیہ کے کم از کم 24 محاصرے ہوئے ہیں۔ ان محاصروں میں دو مرتبہ قسطنطنیہ بیرونی افواج کے ہاتھوں فتح ہوا۔ ایک مرتبہ 1204ء میں چوتھی صلیبی جنگ کے دوران یورپ کے مسیحیوں نے اس کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور دوسری مرتبہ 1453ء میں سلطان محمد فاتح کی زیر قیادت عثمانی افواج نے اسے فتح کیا۔
قدیم باز نطینی سلطنت کے تمام ایشیائی ممالک پر عثمانی قابض ہو گئے تھے، لہٰذا یورپ میں بھی صرف قسطنطنیہ اور اس کے مضافات اس میں شامل ہونا باقی تھے، سلطنت عثمانیہ، قسطنطنیہ کی فتح کے بغیر ادھوری تھی, ایک اُربان (Urban) نامی توپ خانے کا ماہر تھا بھاگ کر سلطنت عثمانیہ کے علاقوں میں چلا آیا، اس نے سلطان کو ایک بہترین توپ بنا کر دی، جس کے سنگی گولوں کا قطر ڈھائی فٹ تھا،[1] 26 ربیع الاول 857ھ بہ مطابق 6 اپریل 1453 ء کو زبردست محاصرہ کے آغاز کر دیا گیا مسلسل انتھک محنت اور جان فشانی کے بعد 29 مئی 1453 ء 20 جمادی الاول کو بلاخر قسطنطنیہ فتحیاب ہوا۔
قسطنطنیہ کی فتح محض ایک شہر پر ایک بادشاہ کے اقتدار کا خاتمہ اور دوسرے کے اقتدار کا آغاز نہیں تھا۔ اس واقعے کے ساتھ ہی دنیا کی تاریخ کا ایک باب ختم ہوا اور دوسرے کی ابتدا ہوئی تھی۔
ایک طرف 27 قبلِ مسیح میں قائم ہونے والی رومن امپائر 1480 برس تک کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہنے کے بعد اپنے انجام کو پہنچی، تو دوسری جانب عثمانی سلطنت نے اپنا نقطۂ عروج چھو لیا اور وہ اگلی چار صدیوں تک تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے حصوں پر بڑی شان سے حکومت کرتی رہی۔
1453 ہی وہ سال ہے جسے قرونِ وسطیٰ (مڈل ایجز) کا اختتام اور جدید دور کا آغاز بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ فتحِ قسطنطنیہ کو فوجی تاریخ کا سنگِ میل بھی قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ اس کے بعد ثابت ہو گیا کہ اب بارود کے استعمال اور بڑی توپوں کی گولہ باری کے بعد فصیلیں کسی شہر کے تحفظ کے لیے ناکافی ہیں۔
شہر پر ترکوں کے قبضے کے بعد یہاں سے ہزاروں کی تعداد میں یونانی بولنے والے شہری بھاگ کر یورپ اور خاص طور پر اٹلی کے مختلف شہروں میں جا بسے۔ اس وقت یورپ 'تاریک دور' سے گذر رہا تھا اور قدیم یونانی تہذیب سے کٹا ہوا تھا۔ لیکن اس تمام عرصے میں قسطنطنیہ میں یونانی زبان اور ثقافت بڑی حد تک برقرار رہی تھی۔ یہاں پہنچنے والے مہاجروں کے پاس ہیرے جواہرات سے بیش قیمت خزانہ تھا۔ ارسطو، افلاطون، بطلیموس، جالینوس اور دوسرے حکما و علما کے اصل یونانی زبان کے نسخے۔
ان سب نے یورپ میں قدیم یونانی علوم کے احیا میں زبردست کردار ادا کیا اور مورخین کے مطابق انھی کی وجہ سے یورپ میں نشاۃ الثانیہ کا آغاز ہوا جس نے آنے والی صدیوں میں یورپ کو باقی دنیا سے سبقت لینے میں مدد دی جو آج بھی برقرار ہے۔
تاہم نوجوان سلطان محمد کو، جسے آج دنیا سلطان محمد فاتح کے نام سے جانتی ہے، 29 مئی کی صبح جو شہر نظر آیا یہ وہ شہر نہیں تھا جس کی شان و شوکت کے افسانے اس نے بچپن سے سن رکھے تھے۔ طویل انحطاط کے بعد بازنطینی سلطنت آخری سانسیں لے رہی تھی اور قسطنطنیہ، جو صدیوں تک دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے مالدار شہر رہا تھا، اب اس کی آبادی سکڑ کر چند ہزار رہ گئی تھی اور شہر کے کئی حصے ویرانی کے سبب ایک دوسرے سے کٹ ہو کر الگ الگ دیہات میں تبدیل ہو گئے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ نوجوان سلطان نے شہر کی حالتِ زار دیکھ کر شیخ سعدی سے منسوب یہ شعر پڑھا:
بوم نوبت میزند بر طارم افراسیاب ۔۔۔ پرده داری میکند در قصر قیصر عنکبوت
(اُلو افراسیاب کے میناروں پر نوبت بجائے جاتا ہے ۔۔۔ قیصر کے محل پر مکڑی نے جالے بن لیے ہیں)
قسطنطنیہ کا قدیم نام بازنطین تھا۔ لیکن جب 330 عیسوی میں رومن شہنشاہ کونسٹینٹائن اول نے اپنا دار الحکومت روم سے یہاں منتقل کیا تو شہر کا نام بدل کر اپنے نام کی مناسبت سے کونسٹینٹینوپل کر دیا، (جو عربوں کے ہاں پہنچ 'قسطنطنیہ' بن گیا)۔ مغرب میں رومن امپائر کے خاتمے کے بعد یہ سلطنت قسطنطنیہ میں برقرار رہی اور چوتھی تا 13ویں صدی تک اس شہر نے ترقی کی وہ منازل طے کیں کہ اس دوران دنیا کا کوئی اور شہر اس کی برابری کا دعویٰ نہیں کر سکتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمان شروع ہی سے اس شہر کو فتح کرنے کے خواب دیکھتے آئے تھے۔
چنانچہ اس مقصد کے حصول کی خاطر چند ابتدائی کوششوں کی ناکامی کے بعد 674 میں ایک زبردست بحری بیڑا تیار کر کے قسطنطنیہ کی سمت روانہ کیا۔ اس بیڑے نے شہر کے باہر ڈیرے ڈال دیے اور اگلے چار سال تک متواتر فصیلیں عبور کرنے کی کوششیں کرتا رہا۔
آخر 678 میں بازنطینی بحری جہاز شہر سے باہر نکلے اور انھوں نے حملہ آور عربوں پر حملہ کر دیا۔ اس بار ان کے پاس ایک زبردست ہتھیار تھا، جسے ’آتشِ یونانی‘ یا گریک فائر کہا جاتا ہے۔ اس کا ٹھیک ٹھیک فارمولا آج تک معلوم نہیں ہو سکا، تاہم یہ ایک ایسا آتش گیر مادہ تھا جسے تیروں کی مدد سے پھینکا جاتا تھا اور یہ کشتیوں اور جہازوں سے چپک جاتا تھا۔ مزید یہ کہ پانی ڈالنے سے اس کی آگ مزید بھڑک جاتی تھی۔
عرب اس آفت کے مقابلے کے لیے تیار نہیں تھے۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے تمام بحری بیڑا آتش زار کا منظر پیش کرنے لگا۔ سپاہیوں نے پانی میں کود کر جان بچانے کی کوشش کی لیکن یہاں بھی پناہ نہیں ملی کیوں کہ آتشِ یونانی پانی کی سطح پر گر کر بھی جلتی رہتی تھی اور ایسا لگتا تھا جیسے پورے بحرِ مرمرہ نے آگ پکڑ لی ہے۔
عربوں کے پاس پسپائی کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔ واپسی میں ایک ہولناک سمندری طوفان نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور سینکڑوں کشتیوں میں سے ایک آدھ ہی بچ کر لوٹنے میں کامیاب ہو سکی۔
اسی محاصرے کے دوران مشہور صحابی ابو ایوب انصاری نے بھی اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ ان کا مقبرہ آج بھی شہر کی فصیل کے باہر ہے۔ سلطان محمد فاتح نے یہاں ایک مسجد بنا دی تھی جسے ترک مقدس مقام مانتے ہیں۔
اس کے بعد 717 میں بنو امیہ کے امیر سلیمان بن عبد الملک نے بہتر تیاری کے ساتھ ایک بار پھر قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا، لیکن اس کا بھی انجام اچھا نہیں ہوا اور دو ہزار کے قریب جنگی کشتیوں میں سے صرف پانچ بچ کر واپس آنے میں کامیاب ہو سکیں۔
شاید یہی وجہ تھی کہ اس کے بعد چھ صدیوں تک مسلمانوں نے دوبارہ قسطنطنیہ کا رخ نہیں کیا، حتیٰ کہ سلطان محمد فاتح نے بالآخر شہر پر اپنا جھنڈا لہرا کر سارے پرانے بدلے چکا دیے۔
شہر پر قبضہ جمانے کے بعد سلطان نے اپنا دار الحکومت ادرنہ سے قسطنطنیہ منتقل کر دیا اور خود اپنے لیے قیصرِ روم کا لقب منتخب کیا۔ آنے والے عشروں میں اس شہر نے وہ عروج دیکھا جس نے ایک بار پھر ماضی کی عظمت کی یادیں تازہ کر دیں۔
سلطان نے اپنی سلطنت میں حکم نامہ بھیجا: 'جو کوئی چاہے، وہ آ جائے، اسے شہر میں گھر اور باغ ملیں گے۔' صرف یہی نہیں، اس نے یورپ سے بھی لوگوں کو قسطنطنیہ آنے کی دعوت دی تاکہ شہر پھر سے آباد ہو جائے۔
اس کے علاوہ اس نے شہر کے تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی ازسرِ نو تعمیر کی، پرانی نہروں کی مرمت کی اور نکاسی کا نظام قائم کیا۔ اس نے بڑے پیمانے پر نئی تعمیرات کا سلسلہ بھی شروع کیا جس کی سب سے بڑی مثال توپ کاپی محل اور گرینڈ بازار ہے۔ جلد ہی طرح طرح کے دست کار، کاریگر، تاجر، خطاط، مصور، سنار اور دوسرے ہنرمند شہر کا رخ کرنے لگے۔
سلطان فاتح نے ہاجیہ صوفیہ کو چرچ سے مسجد بنا دیا، لیکن انھوں نے شہر کے دوسرے بڑے گرجا ’کلیسائے حواریان‘ کو یونانی آرتھوڈاکس فرقے کے پاس ہی رہنے دیا اور یہ فرقہ ایک ادارے کی صورت میں آج بھی قائم و دائم ہے۔ سلطان فاتح کے بیٹے سلیم کے دور میں عثمانی سلطنت نے خلافت کا درجہ اختیار کر لیا اور قسطنطنیہ اس کا دار الخلافہ اور تمام سنی مسلمانوں کا مرکزی شہر قرار پایا۔
سلطان فاتح کے پوتے سلیمان عالیشان کے دور میں قسطنطنیہ نے نئی بلندیوں کو چھو لیا۔ یہ وہی سلیمان ہیں جنھیں مشہور ترکی ڈرامے 'میرا سلطان' میں دکھایا گیا ہے۔ سلیمان عالیشان کی ملکہ خرم سلطان نے مشہور معمار سنان کی خدمات حاصل کیں جس نے ملکہ کے لیے ایک عظیم الشان محل تعمیر کیا۔ سنان کی دوسری مشہور تعمیرات میں سلیمانیہ مسجد، خرم سلطان حمام، خسرو پاشا مسجد، شہزادہ مسجد اور دوسری عمارتیں شامل ہیں۔
یورپ پر سقوطِ قسطنطنیہ کا بڑا گہرا اثر ہوا اور وہاں اس سلسلے میں کتابیں اور نظمیں لکھی گئیں اور متعدد پینٹنگز بنائی گئیں اور یہ واقعہ ان کے اجتماعی شعور کا حصہ بن گیا۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ کبھی اسے بھول نہیں سکا۔ نیٹو کا اہم حصہ ہونے کے باوجود یورپی یونین ترکی کو قبول کرنے لیت و لعل سے کام لیتی ہے جس کی وجوہات صدیوں پرانی ہیں۔ یونان میں آج بھی جمعرات کو منحوس دن سمجھا جاتا ہے۔ 29 مئی 1453 کو جمعرات کا دن تھا۔
مسلمانوں کے محاصرے
ترمیم- مسلمانوں نے اس شہر کا پہلا محاصرہ 674ء میں اموی خلیفہ حضرت معاویہ بن ابو سفیان (رضی اللہ عنہ) کے دور میں کیا۔
- دوسرا محاصرہ اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے دور میں 717ء میں کیا گیا جس کی قیادت خلیفہ کے بھائی مسلمہ بن عبدالملک نے کی۔ اس ناکام محاصرے کو مسیحی مشہور جنگ بلاط الشہداء کی طرح سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں ناکامی کے باعث اگلے 700 سال تک یورپ میں مسلمانوں کی پیش قدمی رکی رہی اور بنو امیہ کی فتوحات کو بھی زبردست دھچکا پہنچا۔ محاصرے کے دوران ہی سلیمان بن عبدالملک وفات پا گئے اور عمر بن عبدالعزیز نے تخت سنبھالا اور ان کے حکم پر شہر کا محاصرہ اٹھا لیا گیا۔ اس محاصرے میں مسلمانوں کا زبردست جانی نقصان ہوا۔
- عثمانیوں نے اس شہر کے تین محاصرے کیے جن میں پہلا محاصرہ 1396ء میں کیا گیا جو سلطان بایزید یلدرم کی قیادت میں ہوا تاہم تیموری حکمران امیر تیمور بیگ گورکانی، صاحب قرن کی سلطنت عثمانیہ کے مشرقی حصوں پر حملوں کے باعث بایزید کو یہ محاصرہ اٹھانا پڑا۔ تیمور اور بایزید کا ٹکراؤ انقرہ کے قریب ہوا جس میں بایزید کو شکست ہوئی۔
- دوسرا محاصرہ 1422ء میں عثمانی سلطان مراد ثانی نے کیا تاہم بازنطینی شہر کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے۔
- 1453ء میں شہر کا آخری محاصرہ سلطان محمد فاتح نے کیا جس میں مسلمانوں نے محیر العقل کارنامہ انجام دیتے ہوئے شہر کو فتح کر لیا۔
فہرست
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ ( بہ حوالہ ، سلطنت عثمانیہ جلد اول ص 99)
- ↑ Herodotos (2012)۔ Tarih۔ Müntekim Ökmen, çev. (8 ایڈیشن)۔ İstanbul: Türkiye İş Bankası Kültür Yayınları۔ ص 392۔ ISBN:978-975-458-721-0
- ↑ Miroslav Ivanov Vasilev (2015). The Policy of Darius and Xerxes towards Thrace and Macedonia (انگریزی میں). Lahey: Brill. p. 86. DOI:10.1163/9789004282155. ISBN:978-90-04-28214-8.
- ↑ Doğan Kuban (1993)۔ "Bizantion"۔ Dünden Bugüne İstanbul Ansiklopedisi۔ İstanbul: Tarih Vakfı Yayınları۔ ج 2۔ ص 258–260
- ↑ Yavuz 2014، صفحہ 169
- ↑ Arslan اور Kaçar 2017، صفحہ 1
- ↑ Arslan 2010، صفحہ 78
- ↑ Jonathan Harris (2017). Constantinople: Capital of Byzantium (انگریزی میں) (2 ed.). Londra: Bloomsbury Publishing. p. 26. DOI:10.1111/j.1540-6563.2009.00246_52.x. ISBN:978-1-4742-5465-6. S2CID:144417364.
- ↑ Hughes 2017، صفحہ 538
- ↑ Yavuz 2014، صفحہ 191
- ↑ Arslan اور Kaçar 2017، صفحہ 39
- ↑ Murat Arslan (2011)، "Alkibiades'in Khalkhedon ve Byzantion Kuşatması: Nedenleri ve Sonuçları"، در Hamdi Şahin؛ Erkan Konyar؛ Gürkan Engin (مدیران)، Özsait Armağanı: Mehmet ve Nesrin Özsait Onuruna Sunulan Makaleler، Antalya: Suna-İnan Kıraç Akdeniz Medeniyetleri Araştırma Enstitüsü، ص 9–22، ISBN:978-605-4018-09-3
- ↑ George Grote (2001). A History of Greece: From the Time of Solon to 403 B.C. (انگریزی میں). Londra: Routledge. p. 884. ISBN:0-415-22369-5.
- ↑ Hughes 2017، صفحہ 119
- ↑ Yavuz 2014، صفحہ 221
- ↑ Arslan 2010، صفحہ 197
- ↑ Veli Sevin (2016)۔ Anadolu'nun Tarihi Coğrafyası I (4 ایڈیشن)۔ Ankara: Türk Tarih Kurumu Yayınları۔ ص 24۔ ISBN:978-975-16-0984-7
- ↑ Hughes 2017، صفحہ 143
- ↑ Oğuz Tekin (2001)۔ Byzas'tan I. Constantinus'a Kadar Eskiçağ'da İstanbul (2 ایڈیشن)۔ İstanbul: Eskiçağ Bilimleri Enstitüsü Yayınları۔ ص 33۔ ISBN:978-975-7938-04-0
- ↑ Yavuz 2014، صفحہ 275
- ↑ Arslan اور Kaçar 2017، صفحہ 81
- ↑ Arslan 2010، صفحہ 233
- ↑ Arslan 2007، صفحہ 56
- ↑ Murat Arslan (جنوری–فروری 2014)۔ "Galatların Byzantion Kuşatması"۔ Aktüel Arkeoloji۔ İstanbul: Arkeoloji ve Sanat Yayınları شمارہ 37: 68–75۔ ISSN:1307-5756
- ↑ Arslan اور Kaçar 2017، صفحہ 92
- ↑ Arslan 2010، صفحہ 243
- ↑ Yavuz 2014، صفحہ 310
- ↑ Arslan اور Kaçar 2017، صفحہ 129
- ↑ Arslan 2010، صفحہ 343
- ↑ Arslan 2007، صفحہ 334
- ↑ Luca Grillo (2015). Cicero's De Provinciis Consularibus Oratio (انگریزی میں). Londra: Oxford University Press. p. 116. ISBN:978-0-19-022459-2.
- ↑ Yavuz 2014، صفحہ 344
- ↑ Arslan اور Kaçar 2017، صفحہ 133
- ↑ Arslan 2010، صفحہ 430
- ↑ Hughes 2017، صفحہ 166
- ↑ Freely 2011، صفحہ 109
- ↑ Yavuz 2014، صفحہ 365
- ↑ Sextus Aurelius Victor (1994). Aurelius Victor: De Caesaribus (انگریزی میں). H. W. Bird, çev. Liverpool: Liverpool University Press. p. 188. DOI:10.3828/978-0-85323-218-6. ISBN:978-0-85323-218-6.
- ↑ Edward Gibbon (1988)۔ Roma İmparatorluğu'nun Gerileyiş ve Çöküş Tarihi۔ Asım Baltacıgil, çev.۔ İstanbul: Bilim, Felsefe, Sanat Yayınları۔ ج I۔ ص 444
- ↑ Freely 2011، صفحہ 318
- ↑ "İstanbul"۔ Meydan Larousse۔ İstanbul: Sabah۔ ج 10۔ 1992۔ ص 77
- ↑ Yavuz 2014، صفحہ 387
- ↑ Arslan اور Kaçar 2017، صفحہ 153
- ↑ Norwich 2013a، صفحہ 45
- ↑ Hughes 2017، صفحہ 231
- ↑ Yavuz 2014، صفحہ 393
- ↑ Alexander Van Millingen (31 اکتوبر 2010)۔ Byzantine Constantinople: The Walls of the City and Adjoining Historical Sites۔ Cambridge University Press۔ ص 40–۔ ISBN:978-1-108-01456-4۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-08-19
- ↑ Stephen Turnbull (21 اگست 2012)۔ The Walls of Constantinople AD 324-1453۔ Osprey Publishing۔ ص 5–۔ ISBN:978-1-78200-224-6۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-08-19[مردہ ربط]
- ↑ Jane Penrose (2005)۔ Rome and Her Enemies: An Empire Created and Destroyed by War۔ Osprey Publishing۔ ص 269–۔ ISBN:978-1-84176-932-5۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-08-19[مردہ ربط]
- ↑ Ostrogorsky 2015، صفحہ 95
- ↑ Norwich 2013a، صفحہ 240
- ↑ Iman S. Reazaei (ستمبر 2016)۔ "V.-VII. Yüzyıllarda Bizans-Sâsânî İlişkileri"۔ İraniyat Dergisi۔ Ankara: İranoloji Derneği Yayınları شمارہ 1: 18–31
- ↑ Shaun O'Sullivan (1 جنوری 2004)۔ "Sebeos' account of an Arab attack on Constantinople in 654"۔ Byzantine and Modern Greek Studies۔ ج 28 شمارہ 1: 67–88۔ DOI:10.1179/byz.2004.28.1.67۔ ISSN:0307-0131۔ S2CID:161590308
- ↑ Robert G. Hoyland (1 جنوری 2014). In God's Path: The Arab Conquests and the Creation of an Islamic Empire (انگریزی میں). Oxford University Press. p. 107. ISBN:978-0-19-991636-8.
- ↑ Marek Jankowiak (2013), "The first Arab siege of Constantinople", In Constantin Zuckerman (ed.), Travaux et Mémoires Tome XVII - Constructing the Seventh Century (انگریزی میں), Paris: Association des Amis du Centre d’Histoire et Civilisation de Byzance, pp. 237–320, ISBN:978-2-916716-45-9
- ↑ Adem Apak (جولائی 2009)۔ "Emevîler Döneminde Anadolu'da Arap-Bizans Mücadelesi"۔ Uludağ Üniversitesi İlahiyat Fakültesi Dergisi۔ Bursa: Uludağ Üniversitesi İlahiyat Fakültesi۔ ج 18 شمارہ 2: 104۔ ISSN:1301-3394
- ↑ Fahri Unan (14 ستمبر 2009)۔ "Müslümanlar ve İstanbul"۔ hacettepe.edu.tr۔ 2017-08-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2017-08-26
- ↑ Şahin Uçar (1990)۔ Anadolu'da İslâm-Bizans Mücadelesi۔ İstanbul: İşaret Yayınları۔ ص 82
- ↑ Arslan اور Kaçar 2017، صفحہ 249
- ↑ Ostrogorsky 2015، صفحہ 115
- ↑ Norwich 2013a، صفحہ 263
- ↑ Philip K. Hitti (1989)۔ Siyâsî ve Kültürel İslam Tarihi۔ Salih Tuğ, çev.۔ İstanbul: Boğaziçi Yayınları۔ ج II۔ ص 320
- ↑ Ostrogorsky 2015، صفحہ 144
- ↑ Hughes 2017، صفحہ 1283
- ↑ Graham V. Sumner (1976). "Philippicus, Anastasius II and Theodosius III". Greek, Roman, and Byzantine Studies (انگریزی میں). Durham, North Carolina: Duke University Department of Classical Studies. 17 (3): 287–294. ISSN:2159-3159. OCLC:6415521.
- ↑ Arslan اور Kaçar 2017، صفحہ 253
- ↑ Ostrogorsky 2015، صفحہ 145
- ↑ Norwich 2013a، صفحہ 286
- ↑ Arslan اور Kaçar 2017، صفحہ 265
- ↑ Ostrogorsky 2015، صفحہ 188
- ↑ Vasiliev 2016، صفحہ 326
- ↑ Norwich 2013b، صفحہ 28
- ↑ Ostrogorsky 2015، صفحہ 192
- ↑ Vasiliev 2016، صفحہ 319
- ↑ Norwich 2013b، صفحہ 40
- ↑ Arslan اور Kaçar 2017، صفحہ 282
- ↑ Vasiliev 2016، صفحہ 322
- ↑ Norwich 2013b، صفحہ 66
- ↑ Arslan اور Kaçar 2017، صفحہ 287
- ↑ Ostrogorsky 2015، صفحہ 241
- ↑ Vasiliev 2016، صفحہ 369
- ↑ Рашев 2007، صفحہ 19
- ↑ Runciman 1930، صفحہ 164–165
- ↑ Theophanes Continatus 2012
- ↑ Arslan اور Kaçar 2017، صفحہ 289
- ↑ Vasiliev 2016، صفحہ 371
- ↑ Norwich 2013b، صفحہ 129
- ↑ Ostrogorsky 2015، صفحہ 308
- ↑ Norwich 2013b، صفحہ 248
- ↑ Hughes 2017، صفحہ 1289
- ↑ Arslan اور Kaçar 2017، صفحہ 341
- ↑ Vasiliev 2016، صفحہ 518
- ↑ Freely 2011، صفحہ 159
- ↑ Işın Demirkent (1997)۔ Haçlı Seferleri۔ İstanbul: Dünya Yayıncılık۔ ص 172۔ ISBN:975-7632-54-6
- ↑ Ostrogorsky 2015، صفحہ 386
- ↑ Vasiliev 2016، صفحہ 520
- ↑ Robert de Clari (1994)۔ İstanbul'un Zaptı (1204)۔ Beynun Akyavaş, çev.۔ Ankara: Türk Tarih Kurumu Yayınları۔ ص VI
- ↑ Yusuf Ayönü (جولائی 2015)۔ "IV. Haçlı Seferi'nin Ardından Batı Anadolu'da Mücadele Eden İki Rakip: İstanbul Latin Krallığı ve İznik İmparatorluğu"۔ Cihannüma: Tarih ve Coğrafya Araştırmaları Dergisi۔ İzmir: İzmir Katip Çelebi Üniversitesi Sosyal ve Beşeri Bilimler Fakültesi۔ ج 1 شمارہ 1: 13۔ DOI:10.30517/cihannuma.283488۔ ISSN:2149-0678
- ↑ Arslan اور Kaçar 2017، صفحہ 349
- ^ ا ب Ostrogorsky 2015، صفحہ 405
- ↑ Vasiliev 2016، صفحہ 592
- ↑ Georgios Akrapolites (2008)۔ Vekayinâme۔ Bilge Umar, çev.۔ İstanbul: Arkeoloji ve Sanat Yayınları۔ ص 162۔ ISBN:978-605-396-093-5
- ↑ Hughes 2017، صفحہ 1296
- ↑ Freely 2011، صفحہ 168
- ↑ Ostrogorsky 2015، صفحہ 499
- ↑ Hughes 2017، صفحہ 1298
- ↑ Baştav 1989، صفحہ 74
- ↑ Arslan اور Kaçar 2017، صفحہ 387
- ↑ Haldun Eroğlu (2004)۔ "Osmanlıların 1453 Öncesi İstanbul Kuşatmaları"۔ Tarih Araştırmaları Dergisi۔ Ankara: Ankara Üniversitesi Dil ve Tarih Coğrafya Fakültesi۔ ج 22 شمارہ 35: 89–101۔ DOI:10.1501/Tarar_0000000188۔ ISSN:1015-1826
- ↑ Işın Demirkent (2001)۔ "İstanbul"۔ İslâm Ansiklopedisi۔ İstanbul: Türkiye Diyanet Vakfı Yayınları۔ ج 23۔ ص 205–212
- ↑ Baştav 1989، صفحہ 83
- ↑ Arslan اور Kaçar 2017، صفحہ 390
- ↑
- ↑ Franz Taeschner (1990)۔ "1453 Yılına Kadar Osmanlı Türkleri"۔ Tarih İncelemeleri Dergisi۔ Necmi Ülker, çev.۔ İzmir: Ege Üniversitesi Edebiyat Fakültesi Tarih Bölümü۔ ج 5 شمارہ 1: 296۔ ISSN:0257-4152
- ↑ Baştav 1989، صفحہ 91
- ↑ Arslan اور Kaçar 2017، صفحہ 393
- ↑ Mustafa Cezar (2010)۔ Mufassal Osmanlı Tarihi۔ Ankara: Türk Tarih Kurumu Yayınları۔ ج I۔ ص 233۔ ISBN:978-975-16-2322-5
- ↑ Fahameddin Başar (2006)۔ "Mûsâ Çelebi"۔ İslâm Ansiklopedisi۔ İstanbul: Türkiye Diyanet Vakfı Yayınları۔ ج 31۔ ص 216–217۔ ISBN:975-389-427-9
- ↑ Şehabeddin Tekirdağ (1979)۔ "Mûsâ Çelebî"۔ İslâm Ansiklopedisi۔ İstanbul: Millî Eğitim Bakanlığı Devlet Kitapları Müdürlüğü۔ ج 8۔ ص 661–666
- ↑ Ostrogorsky 2015، صفحہ 515
- ↑ İnalcık 2014، صفحہ 105
- ↑ Halil İnalcık (1979)۔ "Murad II"۔ İslâm Ansiklopedisi۔ İstanbul: Millî Eğitim Bakanlığı Devlet Kitapları Müdürlüğü۔ ج 8۔ ص 600
- ↑ Vasiliev 2016، صفحہ 714
- ↑ Yeorgios Francis (1992)۔ Şehir Düştü۔ Kriton Dinçmen, çev.۔ İstanbul: İletişim Yayınları۔ ص 98۔ ISBN:975-470-283-7
- ↑ Nicolò Barbaro (2007)۔ Konstantiniye'den İstanbul'a۔ Muharrem Tan, çev.۔ İstanbul: Moralite Yayınları۔ ص 183۔ ISBN:978-975-6397-96-1
- ↑ Âşık Paşazâde (2003)۔ Osmanoğulları'nın Tarihi۔ Kemal Yavuz; M. A. Yekta Saraç, çev.۔ İstanbul: Koç Kültür Sanat Tanıtım۔ ص 222۔ ISBN:975296043X
- ↑ Mahmut Ak؛ Fahameddin Başar (2010)۔ İstanbul'un Fetih Günlüğü (2 ایڈیشن)۔ İstanbul: Çamlıca Basım Yayın۔ ص 47۔ ISBN:978-9944-905-96-1